Skip to content

سَیفرَان Saffron

عالمی افسانہ میلہ 2019
افسانہ نمبر 117

محمود انصاری
سَیفرَان Saffron

مِیٹ مائے ہسبینڈ، ڈاکٹر احمد

پَری نے مجھے اُس شخص سے مِلوایا جو کچھ وقت پہلے ہماری گفتگو کو ایک نئے موڑ پر لے آیا تھا۔ میڈیکل کالج کے پُرانے دوستوں نے شہر کی مشہور ہوٹل ‘سہارا’ میں ملاقات کا پروگرام بنایا۔ کہتے ہیں زندگی کی بھاگ دوڑ اور ذِمّہ داریوں کی تکمیل میں زمانے کی گردش بدن کو تھکا دیتی ہے تو گُزرے دِنوں کی خوشگوار یَادیں تھکے وجود میں تازگی کے احساس جگا جاتی ہے۔ کالج کے کیمپس میں گُزارے دِنوں کی یادوں سے بہتر شاید ہی کوئی متبادل ہو جنہیں ہر کوئی دوبارہ جینے کی آرزو نہ کرے۔ ذہن کے نِہاں خَانوں میں دَبی یادوں کی راکھ میں جب یاروں سے مِلنے کی چِنگاری پیدا ہوئی تو بارہ برسوں بعد سوشل میڈیا کے توسط سے دوستوں کے رابطے ہوئے اور یہ دِن ملاقات کا طئے پایا۔ یوں تو میں نے پَری کے ساتھ ہی میڈیکل کی پڑھائی کی ہے لیکن میرا حلقہء یاراں بہت مختصر رہا۔ جب پَری کالج کے کینٹین میں دوستوں کے ہَمراہ ہوتی تھی تب میں کلاس روم یا لائبریری میں ہوتا۔ خود سے وابستہ اپنوں کی امیّدوں کو حقیقی رنگ میں ڈھالنے کا خیال جہاں پڑھائی سے باندھے رکھتا تھا وہیں ناکامی کا خوف کالج کی رنگینوں سے دُور تنہائی کے اندھیروں میں پہنچا دیتا۔ کچھ پَل ایسے گزر جاتے ہیں کہ ہم اپنی تمنّاؤں کے قاتل بن کر مصلحت کی راہوں پر سر جُھکائے چل پَڑتے ہیں۔ اُن لمحوں کی سزا کبھی ساری زندگی مکمل نہیں ہوتی یا کبھی حیات اُن ہی راہوں سے خوشی مسرت اور شادمانی تک پہنچاتی ہے۔
وقت کی لہروں نے اَبّا کی چاہتوں کا سَفینہ غَرق کردیا تھا۔ کپڑوں کا خاندانی کاروبار اُن کی زندگی کَھا گیا۔ نامساعد حالات میں اَبّا نے خود سے سمجھوتہ کرلیا تھا۔ اُن کی امیّدیں مجھ سے وابستہ تھیں۔ وہ کہتے تھے
“جو میں نہ بن سکا وہ میرا بیٹا بنے گا”
جذباتی لمحوں میں ناتواں کاندھوں نے ڈاکٹر بننے کا بیڑہ اُٹھایا تھا۔ جیسے تیسے پہلا سال مکمل ہوا اور والدین کی خوشی دیکھ کر خود اعتمادی نے حوصلوں کو جِلا بخشی۔ پریکٹیکل ایگزام میں پَری سے دوستی ہوئی تب یہ گمان بھی نہیں گُزرا تھا کہ یہ پَل میری پریکٹیکل زندگی کا سنگ میل بن جائے گا۔ پَری کی دوستی میں وقت پَر لگا کر اُڑ گیا اور گُزرے چار برسوں نے ہاتھوں میں سرٹیفیکٹ تَھمائے ہمیں ذِمّہ داریوں کے دَہانے پر لا کھڑا کیا. ‘بھولنا نہیں’ کا وعدہ لیے دوست اپنی راہوں پر چل پڑے۔ جُدائی نے ہماری راہیں دشوار کردیں۔ دِل میں بسے اپنائیت کے جذبات کو، فاصلوں نے شعور بخشا اور سماج و معاشرے کی بندشوں کو توڑ کر، ہمسفر ہوجانے کی تَگ و دَو شروع ہوئی۔ زُور و جَبر اور مِنّتوں سے ہوتے ہوئے بات آمادگی تک پہنچی تھی۔
عام ڈگر سے ہَٹ کر نئی راہ پر چَلنا سَہل نہیں ہوا کرتا. مصلحت کا لَبادہ اُوڑھے ہم لمحوں کو حال سے ماضی میں ڈھلتا دیکھتے رہے۔ موسم کی پانچ بہاریں گزرنے کے بعد ‘خوشی’ ہماری زندگی میں شامل ہوئی حالانکہ میں نے مریم نام تجویز کیا تھا لیکن نہ جانے وہ اتفاق تھا یا پَری کی دوراندیشی۔
پروگرام ختم ہوتے ہی ہم ہوٹل سے نکل گئے. بارش تیز ہوچکی تھی۔ بوندیں کار کی وِنڈاسکرین پر کچھ پَل کے لیے ٹھہر کر نیچے پِھسلتیں اور باریک لکیر بن کر بہنے لگتیں۔ اُن بہتی لکیروں کو وائِپَر رَگڑتا ہوا اپنی جگہ پر لوٹ جاتا۔ وائِپَر کی حرکت سے ہلکی سی آواز ہوتی اور کچھ سَاعتوں کے لیے شیشے کے باہر کا منظر صاف دکھائی دیتا تھا۔ میرے دِل کے شیشے پر یادوں کی بوندیں بَرسنے لگیں۔
“سَر! ایک ارجنٹ کیس رجسٹرڈ کیا ہے۔ دِنیش سَر نے آپ کو ڈیل کرنے کہا ہے۔”
میں جونیئر ڈاکٹر سعد کی جانب متوجہ ہوا اور جیب میں پَڑے موبائل فون نے کال آنے کا اعلان کیا.
موبائل اسکرین پر ‘دِنیش سینئر’ اُبھرا۔
“احمد، آئی نِیڈ ٹو لِیو نَاؤ، سو پلیزز ہینڈل تِھس کیس”
“اوکے! یس سر” کے ساتھ ہی کال ختم ہوئی۔
چیک اپ روم میں پولس اہلکاروں کے درمیان اسٹریچر پر خون میں لَت پَت ایک جوان لڑکا بُری طرح زخمی حالت میں بے سُدھ پَڑا تھا۔
اہلکاروں میں سے ایک جو شاید ان کا انچارج تھا آگے آیا، مجھے اپڈیٹ دیتے رہنے کی ہدایت دی اور ساتھیوں کو لیے باہر نکل گیا۔ تمام تر کوششوں کے بعد بھی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ جوان ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگیا۔ اگلے دن کے اخبارات کی سُرخیوں میں اُس کا نام گونج رہا تھا۔
“ہجومی تشدد کے شِکار نوجوان اختر شیخ کی موت۔ پِٹائی کے دوران جَئے شِری رام کے نعرے لگوائے گئے تھے۔ معاملے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل”
چند مہینوں قبل ٹرین حادثہ کے زخمیوں کو اسپتال لایا گیا تھا تب کئی سیاسی جماعتوں کے رہنما اپنے ذاتی فوٹوگرافر اور ورکروں کے ساتھ عَیادت کو پہنچے تھے۔ برسرِ اقتدار پارٹی کے عہدے دار نے اسپتال میں ہی اخباری نمائندوں کے سامنے زخمیوں کو معاوضہ دیے جانے کا اعلان کیا تھا۔ میں حیران تھا کہ ہجومی تشدد کے شکار نوجوان کی عیادت کے لیے کسی جماعت کا کوئی فرد نہیں پہنچا حتّی کہ اہلِ خانہ کو بھی پولس نے ملاقات کی اجازت نہیں دی تھی۔
مذہبی منافرت اور عداوت کی وَبا اِس تیزی سے پھیلی کہ چند مہینوں میں یہ نیا معاملہ، معمول بن گیا تھا۔ بے روزگار نوجوانوں میں تشدد کے جراثیم سُرعت سے سَرایت کرگئے۔ کار میں بغل کی سیٹ پر بیٹھی پَری، ریڈیو چینل پر نثر ہورہے فلمی گانے کے بول دُہرارہی تھی
تو ہندو بنے گا ، نہ مسلمان بنے گا
انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا
بارش کی بوندیں تیزی سے شیشے پر گِر رہی تھیں میں نے وائِپَر کی رفتار بَڑھادی۔
مخصوص طبقہ کی پُشت پناہی اور امتیازی برتاؤ نے سیاسی منظر نامہ کو بدل دیا تھا. ناگوار حادثات نے زندگیاں دشوار کردیں۔ رفتہ رفتہ واقعات عام محفلوں میں مباحثے کے موضوع بننے لگے۔ یاروں کی شامِ ملاقات بھی اِس کے بغیر تمام نہ ہوئی۔
سوٹ بوٹ میں ملبوس اٹھارہ سے بیس افراد مَحوگفتگو تھے۔ ہم میں شاید چند ہی لوگ ایکدوسرے کو جانتے تھے۔ میں صرف دو تین دوستوں سے واقف تھا جو پَری کے اور میرے کَامَن فرینڈس تھے۔ حالاتِ شب و روز کے تبادلے ہورہے تھے۔ وہ ہم ڈاکٹروں سے تھوڑا الگ تھا۔ ہم سارے کلین شیو تھے اُس نے مونچھ داڑھی بڑھا رکھی تھی۔ ہم کوٹ پینٹ پہنے ٹائی باندھے وہ کُرتا پَاجامہ پہنے، ماتھے پہ قشقہ لگائے، ہاتھوں میں کَڑا، اُنگلیوں میں انگوٹھیاں۔
“سُنیے!”
پَری کی آواز کے تعاقب میں میرے ساتھ وہ بھی مُڑا۔
“اوہ مائے گاڈ! کیا حال بنا رکھا ہے اَمِت؟ “
اُسے دیکھتے ہی پَری نے حیران ہوکر پوچھا تھا۔
جواب میں اُس کی مُسکراہٹ تھی۔
“یہ اَمِت ہے۔ وہی اَمِت جس نے مجھے فرسٹ اِیئر میں پروپوز کیا تھا اور میں نے انکار کردیا تھا۔”
مُسکراہٹوں کے بیچ پَری نے بات بَڑھائی۔
“پروفیسر شَرما کا فیورٹ اسٹوڈنٹ رہا ہے اَمِت”
“پروفیسر شَرما۔۔۔ وہ والے! “
“ہاں! وہی جو بار بار یَاد کرواتے تھے
“سَروِس آف ہیومَانِٹی ہی ڈاکٹر کی زندگی ہے۔ ڈاکٹرس انسانیت کے مسیحا ہوتے ہیں۔”
پَری، اَمِت اور پاس کھڑے دوستوں کے قہقہے مجھے بہت دُور سے آتی ہَلکی آوازوں سے محسوس ہوئے۔
میرے کانوں میں وہ جملے شور کررہے تھے جو پَری کے آنے سے قبل ڈاکٹر اَمِت نے کہے تھے۔
“میں صرف اپنے پیشنٹ اَٹینڈ کرتا ہوں۔ میرے ڈاکٹرس فرینڈس کا گروپ ہے سبھی نے مُسلم پیشنٹ کرنا بند کردیا ہے۔ آپ لوگ بھی ایسا کچھ کرو”
اَمِت کا انکشاف مجھے ڈاکٹر دِنیش کی اُس فون کال تک لے گیا جب اختر شیخ جَئے شِری رام کے نعرے لگانے کے باوجود زندگی کی جنگ ہَار رہا تھا۔ پَاس ہی کہیں پروفیسر شَرما کی نَم آنکھیں اپنی ناکامی کی معترف تھیں۔
اگلہ لمحہ محفل پر خاموشی کی چادر تَان گیا جب پَری نے میرا تعارف کروایا۔
“میٹ مائے ہسبینڈ، ڈاکٹر احمد”
میں نے خود کو استہفامیہ نگاہوں کی زَد میں پَایا۔ باتوں کا رُخ موڑنے کی کوشش کامیاب رہی تھی۔
تیز بارش اور خیالوں کے دُھندَلکے میں کار کی رفتار دھیمی رہی تھی۔
“چلو! ہوگئی گھر واپسی ہماری۔۔۔”
“ہممم، آپ کی یہ ایڈجسٹمنٹ والی عادت مجھے شروع سے پسند ہے۔ ضرورت کے مطابق چیزوں کو اور خود کو ڈھالنا کمال ہے۔”
اچانک خود کی تعریفوں کے پُل بندھتے دیکھ میں نے اپنے کاندھے اُچکائے۔
“موسم کی مناسبت سے آپ نے سیف ڈرائِیو کی۔ بیس منٹ دیری ہوئی لیکن ہم ٹھیک سے گھر پہنچ گئے”
ذہن میں اندیشوں کی گردش جاری تھی میں نے ٹی وی آن کیا۔ انگوٹھا ریموٹ پر حرکت کرنے لگا. نیوز چائینلس پر وہی تشدد اور فرقہ واریت کی خبریں جاری تھیں۔
نیوز چینل کا اینکر اپنے انداز میں خبریں پڑھ رہا تھا
“ابھی ابھی پریاگ راج سے بڑی خبر آرہی ہے کہ۔۔۔۔”
پَریاگ راج سُنتے ہی مجھے یَاد آیا کچھ دنوں پہلے یہ الہٰ آباد ہوا کرتا تھا لیکن نہ جانے کِن جذبات کی بُنیاد پر مخصوص شَناخت والی جَگہوں کے نام بدل دیے گئے۔
میرے لیے بہتر یہی تھا کہ ٹی وی بند کردیا جائے۔
“خوشی! ہوم ورک اپنے پاپا سے چیک کروالو” کہتے ہوئے پَری کچن کی جانب بڑھی اور خوشی اپنا اسکولی بیگ تھامے میرے پاس آبیٹھی۔
“کیا ہوم ورک مِلا ہے ہماری گُڑیا کو”
میں نے پیار سے خوشی کے گالوں کو دباتے ہوئے پوچھا۔
“پاپا! فیمیلی ٹِری بنانے کہا ہے ٹیچر نے، یہ دیکھو”
َخوشی نے اپنے ننھے ہاتھوں میں ناموں کا وہ چارٹ اُٹھا رکھا تھا جس میں لکشمن اور پُوجا نانی نانا کے کالم میں افضل اور عائشہ دادا دادی کے کالم میں لکھے تھے۔ پَرینیتَا سے ہوئی پَری کے سامنے لکھے احمد کے حروف میری نظروں کے سامنے ناچنے لگے۔ احمد کی جگہ اَبھئے, اَرنَو اور کبھی اَجئے دکھائی دیتا۔
اگلی صبح اسپتال کے احاطے میں داخل ہوتے ہوئے، اسپتال کے سائِن بورڈ پر میری نظر پَڑی اور میں ٹِھٹھک گیا۔
بورڈ پر ‘ریڈ کَراس’ سیفرَان saffron نظر آرہا تھا۔
میرا ہاتھ کار کے ریوَرس گیئر پر تھا. سَائِن بورڈ اور کار کے درمیان فاصلہ بڑھنے لگا.

Published inعالمی افسانہ فورممحمود انصاری
0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x