عالمی افسانہ میلہ 2019
افسانہ نمبر 108
سفید کبوتر
ھارون اختر مالیگاؤں مہاراشٹر انڈیا
باریش بزرگ کے خواب میں ہر روز ایک سفید کبوتر آتا اپنے پروں کے ساتھ ہی دُم کو بھی پھیلاتا اور انتہائی مستی کے عالم میں غٹرغوں غٹرغوں کرتا۔
بزرگ دانے کے ڈبے سے ایک مٹھی دانہ نکالتے آؤں اوں اوں کی آواز بلند کرتے اور پھر دانہ کبوتروں کے آگے اچھال دیتے کوئی کبوتر جیسے ہی دانہ اپنی چونچ میں لیتا باریش بزرگ اسی دانے کے ساتھ اپنے ماضی کے سمندر کی اتہاگہرائی میں اترتے چلے جاتے اور پھر ندامت و شرمندگی اور پشیمانی کے آنسو آنکھوں سے ٹپ ٹپ موتی کی شکل میں گرنے لگتے
غٹرغوں غٹرغوں کی آواز اور
اور پازیب کی جھنکار سے برسوں کا گرد آلود کیلنڈر ایسا پھڑ پھڑایا جیسے کبوتر کے بازو کاوا کاٹتے ہوئے پھڑ پھڑاتے ہیں
ایک خوبصورت نوجوان…..
ہرخوبصورت چیز جس کی کمزوری تھی حسن کا شیدائی… جس نے اپنی زندگی کےحسین لمحات گناہ اور بدکاریوں میں گزار ے تھے.
مامون اپنے وقت کا سب سے بڑا کبوتر باز اور سب سے بڑا پاپی بھی….
کوئی ایسا گناہ نہیں رہا ہوگا جو اس نے نہیں کیا ہو…
اگر یہ کہا جاےتو درست ہوگا کہ بدی کی ہر بازی وہ کھیل چکا تھا.
گناہ کا ہر سکہ اچھال چکا تھا، سینکڑوں خوبصورت کبوتر تھے اس کے پاس دانے کے ڈبے سے وہ ایک مٹھی دانہ نکالتا اور پھر آؤں آؤں آؤ کی آواز بلند کرتا اور دانہ زمین پر اچھال دیتا اس کی مٹھی میں اتنے رنگین دانے نہیں آتے ہوں گے جتنے رنگین گناہ اس نے اپنی زندگی میں کئے تھے.
ایک شب اس نے انتہائی بھیانک خواب دیکھا……….
خوف کے مارے کانپ کانپ گیا اس کا پورا دن اداسی اور خوف میں گزرا اسے کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا دوسری شب پھر وہی بھیانک خواب……
خواب سے خوف اس کی آنکھوں میں اتر آیا تھا اب وہ اس بھیانک خواب کو لے کر بے چین سا ہوگیا بار بار اپنے جسم کو ٹٹولتا اور خواب کی تعبیر پر غور کرتا بے چینی اور مایوسی کے سوا اسکے ہاتھ کچھ نہ آتا خواب سے خوفزدہ ہوکر وہ معبر کی تلاش میں نکلا.
وہ اپنی زندگی میں اتنا پریشان کبھی نہیں ہوا تھا وہ اپنے وقت کا سب سے بڑا کبوتر باز تھا
صبح جیسے ہی کبوتر کا ڈربہ کھولتا سفید کبوتر کابک کے اندر سے ہی پٹ پٹ پٹ کرتاہوا اُڑتا چلا جاتا…. اُڑتے ہوے ایک کاوا مار کر واپس آتا اور پھر پروں کو پھلا تا دم کو پھیلاتا اور پھر اپنی مادہ کو گھیرتا اور غٹرغوں غڑغوں کی آواز بلند کرتا اس کی پازیب کی جھنکار پائل کی جھنکار میں بدل جاتی پائل کی جھنکار اسے اپنے ہر گناہ تک لے جاتی کتنی زندگیاں اس نے بر باد کی تھیں کتنے ہنستے کھیلتے گھروں کو اجاڑ دیا تھا شاندار زندگی کے لئیے اپنی راتیں رنگین کرنے کیلئے کتنے آشیانوں کو بے رونق کردیا تھا پائل کی جھنکار کیلے….. اپنے عیش کیلے…… تھرکتے جسموں پر نوٹوں کی بارش کی تھی.
اور اب وہی سفید کبوتر غٹرغوں غٹرغوں غٹرغوں کرتا ہوا اسے اپنے حصار میں لے رہا ہے پازیب کی جھنکار سے گزشتہ رات کا بھیانک خواب دانے کی شکل میں پھیلتا جارہاہے خوف سے پتھرائی اس کی آنکھیں اپنے ہی جسم پر پھسلتی چلی گیں
اس نے دانے کا ڈبہ اٹھایا
آؤں آؤں آؤ کی آواز بلند کی اور مٹھی بھر دانہ زمین پر اچھال دیا….
کبوتر خوفزدہ نظروں سے آسمان کی طرف دیکھنے لگے کبوتروں نے ایک بھی دانہ چونچ میں نہیں لیا… اسی سفید کبوتر نے جس کے پیروں میں اس نے پازیب پہنا رکھی تھی آسمان کی طرف دیکھا اور تیزی سے اُڑا ایک ایک کر کے سارے کبوتر اسکی ہمراہی میں اڑتے چلے گئے اور کچھ ہی دیر میں نظروں سے اوجھل ہوگئے
وہ بےحد پریشان ہوا چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں
غٹرغوں غٹرغوں کی آواز اسے مضطرب کرنے لگی اپنے اس خواب کی خاطر وہ کس کس کے پاس گیا لیکن۔
لیکن کوئی بھی اسے خواب کی تعبیر نہیں بتا سکا
وہ ایک معبّر کی تلاش میں شہر شہر گاؤں گاؤں بھٹکتا رہا آخر کار اس کی تڑپ رنگ لائی کسی نے شہرِ سفید اور وہاں خوابوں کی تعبیر بتانے والے ایک بزرگ کا پتہ دیا نوجوان اس بستی میں پہنچا اور بزرگ سے ملاقات کی اس سے پہلے کہ نوجوان اپنا خواب بتاتا بزرگ نے کہا
“جاؤ کل آنا…..”
بزرگ کے اطراف عقیدتمندوں کا ہجوم تھا
نوجوان مایوس ہوکر لوٹ آیا اور ایک خانقاہ میں رات گزاردی
دوسرے دن وہ پھر بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوا دیکھتے ہی وہ بولے
“جاؤ کل آنا”
وہ پھر مایوس ہوکر لوٹ آیا اور رات ایک سرائے میں گزاردی تیسرے دن پھر گیا اس سے پہلے کہ نوجوان اپنا خواب بتاتا بزرگ نے اس کا خواب اور خواب کی تعبیر دونوں بتا دی نوجوان بہت حیران ہوا بزرگ نے شفقت سے کہا
“اے نوجوان سن…. “صرف ایک نیکی تمہاری مدد کر رہی ہے ورنہ تم ہلاک ہوگئے ہوتے
“لیکن بابا۔ کبوتر میرا جسم کیوں نوچ رہا تھا….؟وہ تو کوئی گوشت خور پرندہ نہیں ہے۔؟”
“جاؤ زیادہ سوال نہیں کرتے میری تصور کی آنکھ صدیوں بعد معیز اسلمی کو دیکھ رہی ہیں….. وہی کبوتر جو تمھارا جسم نوچ رہا تھا تمہاری نجات کا سبب بن سکتا ہے شکر ادا کرو جسم نوچنے والا کبوتر سفید تھا تم نے جو کچھ خواب میں دیکھا ہے وہی سب کچھ اپنی زندگی میں جیتے جی دیکھو گے ….. “
گزشتہ رات کی طرح پھر ایک بار اس نے وہی خواب دیکھا
سفید کبوتر اس کے جسم کا ایک حصہ نوچ کر اڑجاتا اور یہی عمل باربار کرتا یہاں تک کے اس کے جسم سے گوشت کا آخری حصہ بھی لے اڑتا…..
آنکھ کھلتے ہی خواب ریزہ ریزہ ہوکر بکھر جاتےاور وہ اپنے خوابوں کو سمیٹنے کے لے اپنے جسم پر ہاتھ پھیر تا جسم تو صحیح سلامت رہتا لیکن چونچ مارنے کی چبھن وہ اپنے بدن پر محسوس کرتا۔ نوجوان نے اپنے گناہ سے پکی سچی توبہ کرلی ایسی عظیم الشان توبہ…. اگر اس توبہ کو پوری بستی والوں پر تقسیم کردی جاے تو پوری بستی والوں کی مغفرت ہوجائے.
پائل کی جھنکار سے اب اسے کوئی مطلب نہیں رہا راتوں کی سلگتی تنہائی میں جب پائل کی جھنکار اس کی سماعت پہ دستک دیتی…. وہ اپنے گناہ پر نادم ہوتا دور بہت دور سے بے ہنگم آواز ضرب لگاتی….
ڈھم ڈھم ڈھم سٹاک ڈھم ڈھم ڈھم سٹاک .. اورتب وہ چابک کی ضرب اپنے برہنہ جسم پر محسوس کرتا ہرضرب کے ساتھ وہ مسکراتا
کل تک اس کی زندگی میں چاندنی ہی چاندنی تھی مگر اب وہ سوچ رہا تھا کوئی چاند چمکے نہ چمکے کوئی اپسرا آئے نہ آئے…. کوئی چراغ راہ جلے نہ جلے….. کوئی خواب آئے نہ آئے….
حق اور صداقت کی روشنی اس نے دیکھ لی پازیب کی جھنکار اور غٹرغوں غٹرغوں کی آواز اس کی سماعت سے ٹکراتی رہی
جب اس نے گناہ سے توبہ کرلی تب ایک ایک کرکے سارے ساتھی دور ہوتے گے کیونکہ وہ سارے ساتھی مطلبی اور خود غرض تھے لیکن۔ نوجوان خوش تھا وہ اکثر دوست نما دشمنوں سے حفاظت کی دعا ئیں مانگا کرتا تھا تھرکتے جسموں پر نوٹوں کی بارش کرنے کی بجائے اب وہ اپنا روپیہ غریبوں میں تقسیم کر رہا تھا یہاں تک کہ عیش وآرام کے تمام سامان ختم ہوگئے.
کہتے ہیں نا….
رب عظیم جب گناہ معاف کرتا ہے تب عظمت اور بزرگی کا تاج پہنا دیتا ہے باریش بزرگ دانے کے ڈبے سے ایک مٹھی دانہ نکالتے اور پھر اوں اوں اوں کی آواز بلند کرتے اور دانہ زمین پر اچھال دیتے وقت گزرتا رہا قدم نیکی کی طرف بڑھتے رہے پھر ایک وقت ایسا بھی آیا بزرگ نے ڈبہ اٹھایا صرف آدھی مٹھی دانہ تھا بزرگ نے آسمان کی طرف دیکھا اور آواز لگائی
اوں اوں اوں سفید کبوتر ڈربے کے اوپر کاوا لگاتے ہوے نیچے آیا بزرگ نے دانہ اچھالا سفید کبوتر تیزی سے کھانے لگا دانہ ختم ہوا کبوتر اڑا بزرگ نے کبوتر کو پکڑنے کے لے ہاتھ بڑھایا لیکن وہ ہاتھ نہیں آیا اور بزرگ لڑکھڑا کر زمین پر آگرے شاید ان کی زندگی کا دانہ بھی ختم ہوچکا تھا…
بزرگ کی روح نکلتے ہی بے شمار کبوتروں نے ان کو اپنے حصار میں لے لیا اور پھر غٹرغوں غٹرغوں کی آواز فضا میں گونجی. اب کی بار آواز میں کرب تھا کبوتروں نے اپنے پر نوچ نوچ کر بزرگ کی لاش کو ڈھک دیا اور آسمان کی سمت پرواز کرگے۔
Be First to Comment