عالمی افسانہ میلہ 2019
افسانہ نمبر 138
” سسکیاں ”
شزا حسین ۔ حیدرآباد سندھ , پاکستان
وہ ڈھلتے سورج کو دیکھتی ، خیالوں میں کہیں دور جا نکلی تھی….سورج کی مدھم روشنی اس کے چہرے کو روشن کیے ہوئے تھی….کس قدر مکمل حُسن تھا……سادہ اور پُرسوز….جھیل سی آنکھوں میں کبھی دیے جل اُٹھتے تو کبھی نمی تیرتی محسوس ہوتی….گھنی لمبی پلکیں خوبصورت آنکھوں پہ سایہ فگن تھیں جُھکتیں تو لگتا گھٹا چھا گئی….اُٹھتیں تو مانو روشنی ہی اُن آنکھوں کے دم سے ہے……ہونٹ تو گلاب کی پتیوں کو بھی مات دے رہے تھے ، روشن کشادہ پیشانی پہ دوپٹے سے باہر بالوں کی ایک لٹ جھول رہی تھی……
وہ مبہوت سا اُس کے حُسن کو دیکھتا رہا….
پچھلے چند ہفتوں سے پارک کے اُس بینچ پر وہ روز ہی اُسے بیٹھی ہوئی ملتی ۔ آج دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر وہ ایک درخت کی اوٹ سے اُسے دوربین کی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا…..شاید وہ اُسے قریب سے دیکھنے کا خواہاں تھا اور ابھی تو اس کے سحر زدہ حُسن میں ڈوبا ہوا تھا کہ حسبِ معمول وہ مقررہ وقت پہ اُٹھی اور سڑک پہ کھڑی اپنی لمبی سی گاڑی میں بیٹھ کے چل دی ۔ وہ جب تک پارک میں رہتی اس کا ڈرائیور گاڑی کے پاس کھڑا منتظر رہتا…
حمزہ کے دل میں تجسس اور دلچسپی کا سمندر ٹھاٹیں مارتا ۔ وہ ایک متوسط گھرانے کا اکلوتا چشم و چراغ تھا گریجویشن کر رہا تھا اور کبھی کبھی تازہ دم ہونے کیلیے اِس پارک میں آیا کرتا ، لیکن اب روزانہ عصر سے مغرب کا وقت پارک میں گزارنا اس کا معمول بن چکا تھا جیسے کہ اس نازنین کا دیدار ہی زندگی کا حاصل ہو ۔
وہ ہاتھ میں ایک ڈائری اور قلم لاتی تھی کبھی بے تاثر سے چہرے کے ساتھ جانے اس پہ کیا لکھتی رہتی…کبھی ڈوبتے سورج کو تکتی جاتی اور کبھی چہرہ کوئی کتاب لگنے لگتا….حمزہ اُس کی ہر ادا پہ غور کرتا….جانے کون تھی کیا کرب تھا اس کے اندر اور یہاں کیوں آتی تھی….بہت سے سوال حمزہ کو بے چین رکھتے ۔
……… ………. ……….. ………. ………
ایک شام ہلکی ہلکی گھٹا چھائی ہوئی تھی ۔ نم، معطر ہوا کے جھونکے اور انتظار کی شدت حمزہ کو پاگل کیے دے رہی تھی وہ دو گھنٹوں سے اس کا انتظار کر رہا تھا ۔ وہ کافی دیر سے آئی اور اُسی بینچ پہ بیٹھ گئی……حمزہ ہمیشہ فاصلے پہ رہ کے اسے دیکھتا کہ اسے پتہ نہ چل سکے…
اُس لڑکی نے ڈائری کھولی اور لکھنے لگی….حمزہ بغور دیکھتا رہا….وہ ڈائری سے الگ کچھ صفحات تھے جن پہ قلم چلاتی اور رُک جاتی……. سر اُٹھا کے آسمان کی طرف دیکھتی اور پھر لکھنے لگ جاتی….اسی اثنا میں تیز ہوا چلنے لگی وہ بوکھلا گئی جلدی جلدی اڑتے کاغذ سمیٹنے لگی چہرے پہ عجیب پریشانی تھی ایک کاغذ اُڑ کے ایک طرف چلا گیا اسے پتہ نہ چلا اور وہ گاڑی میں بیٹھ کے چلی گئی….حمزہ نے بھاگ کے وہ کاغذ اُٹھایا….
“کوئی نہیں جانتا اِن بادلوں کی کہانی کیا ہے جیسے اندر کی گھٹن بھاپ بن کے اُڑتی ہے تو یہ بادل بنتے ہیں….اور جب سسکیاں اندر ہی اندر دم توڑتی ہیں…بیقرار دل ڈوبتا ہے تو یہ بادل برستے ہیں…..ارے….وہ آسمان کے بادل نہیں…..میری ذات کی گھٹن پہ چھائے یہ مبہم سے بادل”….
حمزہ کو یہ الفاظ تو سمجھ نہ آئے لیکن اسے محسوس ہوا کہ کوئی دکھ ہے جو اسے اندر ہی اندر کھا رہا ہے.
……… ……… ………. ……….. …………
یہ شاید چھٹے ہفتے کا چھٹا دن تھا…آج اس نے سیاہ رنگ کی چادر اوڑھی ہوئی تھی اور ایسی لگ رہی تھی جیسے چودھویں کا چاند ہو…….غم اور سنجیدگی کے بادلوں میں گھرا ہوا اس کا حُسن آج قیامت خیز تھا….
وہ اپنے اردگرد سے کتنی انجان تھی ۔
حسبِ معمول ڈائری لکھی اور مقررہ وقت پہ چل دی آج حمزہ نے دانستہ طور پر کچھ فاصلے پہ رہتے ہوئے اپنی موٹر سائیکل سے اس کا پیچھا کیا….ایک شاندار سے بنگلے میں اس کی گاڑی داخل ہوئی اور ایک دوسری بڑی سی گاڑی بنگلے سے باہر آئی جس میں کوئی ساٹھ پینسٹھ سال کا آدمی بڑے رعب سے تن کر بیٹھا ہوا تھا جبکہ گاڑی ڈرائیور چلا رہا تھا ۔
حمزہ واپس آگیا ۔ جانے تجسس اور دلچسپی تھی , ہمدردی یا محبت جو حمزہ دن رات اسے ہی سوچتا رہتا اور اب اس سے بات کرنے کا پکا ارادہ کرچکا تھا مگر ہمت نہیں تھی اسی لیے ایک کاغذ پہ کچھ لکھا اور تہہ کر کے جیب میں رکھ لیا اگلے دن وہ وقت سے بہت پہلے پارک پہنچ گیا آج انتظار اسے بے چینیء دل کی انتہاؤں پر لے جا رہا تھا ۔
اس نے تیز دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ اسے آتا دیکھا اس کے تن بدن میں سنسنی کی ایک لہر دوڑ گئی , ابھی اسے بیٹھے کچھ وقت ہی ہوا تھا کہ اس نے ہمت کی اور پہلی بار اس کے پاس سے گزرتے ہوئے لکھا ہوا خط اس کے قدموں میں پھینک کر آگے بڑھ گیا ۔ وہ جو چونک کر حیرانی سے اسے اپنی سمت آتا دیکھ رہی تھی پریشان ہو گئی آگے پیچھے دیکھتے ہوئے اس نے جھک کر خط اٹھا لیا ۔
حمزہ کی نظر ڈرائیور پر پڑی وہ اسے مشکوک انداز میں دیکھ کر سر ہلا رہا تھا ….
اس رات وہ سو نہیں پایا….خوش بھی تھا اور ڈر بھی رہا تھا کہ جانے کیا جواب ملے گا…
اگلے دن پارک میں شدت سے انتظار کرنے لگا مگر وہ اس شام کیا اگلی پانچ شامیں گزر جانے پہ بھی نہ آئی….اور یہاں حمزہ کا روم روم سوالی بنا ہوا تھا….
…….. …….. ……… ……….. ………..
وہ شام کتنی ابر آلود تھی….موسم کی خرابی کے باعث پارک میں خال خال ہی کوئی نظر آرہا تھا….محسوس ہورہا تھا جیسے کوئی شدید طوفان قید سے آزادی کا منتظر ہے…..
تیز چلتی ہوائیں اور بادلوں کی گرجدار آوازیں بھی حمزہ کے انتظار میں خلل نہ ڈال سکیں وہ جب پارک پہنچا تو اُسی بینچ پر ایک ادھیڑ عمر عورت بیٹھی تھی، اسے دیکھتے ہی اٹھی اور کہنے لگی ” صاحب آپ بی بی جی کو دیکھ رہے ہیں ” ؟
” تم کون ہو ؟ “
” میں ان کی ملازمہ ہوں جی , بتائیں نا آپ وہی ہیں ؟ “
” ہاں میں وہی بدبخت ہوں جس کے نصیب میں انتظار کی سولی لکھ دی گئی ہے “…………
اس نے خاموشی سے اسے ایک ڈائری پکڑائی اور تیز تیز قدموں سے پارک سے باہر جانے والے راستے پر چل دی…. یہ وہی ڈائری تھی جو اس لڑکی کے ہاتھ میں دیکھا کرتا تھا….
پہلے تو عقیدت سے ڈائری کو آنکھوں سے لگایا اور دل تھامے سانسیں روکے بے چینی سے کھولا…..
انتہائی خوبصورت ڈائری….جس کے پہلے صفحے پہ ” سسکیاں ” لکھا تھا……. لیکن اندر سے عجیب اور خستہ حال…. کئی صفحات پھٹے ہوئے کچھ صفحوں پہ کالی سیاہی سے آڑی ترچھی لکیریں تھیں….. ایک دو جگہ اک نام لکھا تھا…..” بختاور “…
یقیناً اُسی کا نام تھا….اور پھر اک تحریر پہ نظریں جم گئیں…
“میں جانتی تھی کہ تم مجھے دیکھتے ہو…مگر انجان بنی رہی کیونکہ میں زندگی سے اپنا یہ آخری رشتہ نہیں توڑنا چاہتی تھی…نہیں چاہتی تھی کہ مجھ پہ اِس پارک میں آنے پر بھی پہرے لگ جائیں…جانتے ہو زندہ رہنے کے لیے یہ سورج یہ ہوا…یہ سبزہ اور میری یہ ڈائری کتنی اہم تھی…نہیں جانتے تم….کچھ بھی نہیں جانتے “…..
وہ پڑھتا گیا… اس کی آنکھیں دھندلانے لگیں اس نے زور سے رگڑ کر اپنے آنسو پونچھے اور پھر پڑھنے لگا…. اس دن پارک کی روش روش نے اسے بے چینی سے ٹہلتے ہوئے دیکھا وہ چلتے چلتے بار بار اپنے آنسو پونچھ رہا تھا , اسی کیفیت میں وہ پارک سے نکل گیا ۔
اسے شدید بخار ہو گیا , وہ بخار کی شدت میں ہذیان بکتا رہتا…. کبھی کسی زمیندار کو برا بھلا کہتا جس نے اپنی پھول سی بیٹی کو قاتل بیٹے کی جان بچانے کے لیے اپنے ہاتھوں اندھے کنویں میں دھکیل دیا….. کبھی وہ کسی ہوس پرست بوڑھے سیٹھ پر چیخنے لگتا جو اپنے بیٹے کا خون بیچ کر بہاریں خرید لایا تھا ۔
کئی دن بعد بخار کا زور ٹوٹا , وہ دو قدم بھی نہیں چل سکتا تھا لیکن بہت ہمت کر کے اٹھ گیا وہ چند دنوں میں سوکھ کر کانٹا ہو گیا تھا ۔ نقاہت کے باعث گھر سے باہر آتے اس کا سانس پھول گیا شدید سردی کے باوجود ماتھے پر پسینے کے قطرے ابھر آئے۔ آسمان آج بھی گویا اس کے ساتھ رونے کو تیار بیٹھا تھا درختوں کی شاخیں تیز ہوا کے ساتھ جھول رہی تھیں لیکن یہ تیز ہوا گھنے بادلوں کو اڑانے میں ناکام نظر آتی تھی……. اس نے پاس سے گزرتے ایک خالی رکشے کو ہاتھ دیا اور اسے بختاور کی گلی کا پتہ بتا کر رکشے کی پشت سے سر ٹکا کر آنکھیں بند کر لیں ۔
اس نے رکشے والے کی آواز پر آنکھیں کھولیں اور گلی کے کونے پر اتر گیا۔ ایک ایک قدم اسے بھاری لگ رہا تھا , آج اس گلی کا رنگ عجیب تھا…… وہ حسرت سے ایک ایک در ایک ایک دیوار کو دیکھ رہا تھا گھروں کے باہر لگے پودوں کو دیکھ رہا تھا….. یہ سب اس کی بختاور کو روز گزرتے دیکھتے ہوں گے ان پر اس کی بھی نظریں پڑتی ہوں گی…….وہ بچپن سے ہی بہت حساس تو تھا ہی مگر نہیں جانتا تھا کہ وہ اس طرح سے ایک اجنبی لڑکی کے عشق میں سب کچھ بھول جائے گا……وہ رک رک کر آہستہ آہستہ چلتا ہوا بختاور کے بنگلے تک پہنچا, اس کے در و دیوار کو دیکھ کر اس کا ضبط ٹوٹ گیا , وہ ہچکیوں کے ساتھ رونے لگا…… اتنے میں گیٹ کھلا, گھر سے ایک سیاہ رنگ کی گاڑی نکلی جس کی پچھلی سیٹ پر اس کی بختاور اسی بوڑھے کے ساتھ بیٹھی تھی گاڑی مڑی اور اس کے سامنے دوسری سمت روانہ ہو گئی…….در و دیوار ، پودوں اور راستے کی طرح وہ بھی اسے دیکھتا رہ گیا…… یہاں جنبش ممنوع تھی , اس کی بختاور کی عزت کا سوال تھا ۔ وہ بختاور جو دنیا والوں کی نگاہ میں اس کی عزت نہیں تھی اس بوڑھے کی عزت تھی جو اس کا باپ نہیں تھا ۔
اس کے سینے میں درد اٹھا , وہ برداشت نہ کر پایا اور وہیں گر گیا بجلی زور سے کڑکی اور موسلا دھار طوفانی بارش شروع ہوگئی , دل کا درد اس کے سارے بدن میں پھیلتا ہوا محسوس ہو رہا تھا اس کی آنکھیں دھندلا رہی تھیں شدید متلی کا احساس سوہانِ روح تھا ۔ وہ جا رہا تھا اور اس کے جانے پر آسمان رو رہا تھا…….. درخت بین کر رہے تھے ۔ طوفان میں اسے بختاور کی سسکیاں سنائی دے رہی تھیں…… بارش کی بوندیں اس کے بدن سے ہوتی ہوئی اس مٹی میں جذب ہو رہی تھیں جس نے جانے کتنی بار بختاور کے پاؤں کو چوما تھا۔۔۔۔۔۔۔
Be First to Comment