Skip to content

سر طور ہو،سر حشر ہو

عالمی افسانہ میلہ 2021″

تیسری نشست”

افسانہ نمبر”64″

“سر طور ہو،سر حشر ہو”

افسانہ نگار . محمد عمر فیضان علوی(لاہور،پاکستان)

اس کا چہرہ دیکھ کر محسوس ہوتا تھا جیسے اس کی تہہ میں رنگ کا سمندر تلاطم سے گزر رہا ہو۔ آنکھیں کھوئی کھوئی سی تھیں لیکن ان کی پتلیاں کسی نا معلوم چمک سے دمک رہی تھیں۔ ایسی آنکھیں جو پایاب نظر آتی تھیں لیکن ان کی تہہ نا معلوم تھی۔ اس کے گرد کار ہائے حیات میں ڈوبے ہوئے انسانوں کا سمندر بے طرح ڈول رہا تھا۔ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ ان کے درمیان کوئی خاموشی سے اتر آیا ہے۔ ہاں کسی کی سرسری نظر جب اس کے چہرے پہ پڑتی تو ایک غیر محسوس ہیبت سی دل میں اتر آتی تھی۔

وہ خاموشی سے سر اٹھائے نظریں جھکا کر اس سمندر سے راستہ بناتا چل رہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مشروب کی تلخی نے اس کے حلق میں انگارے بھر دیے جنھیں اس نے لا شعوری غصے کے باعث دانت پیستے ہوئے معدے کی راہ دکھائی اور سر جھٹک کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ ایک لمحے کو اس کے قدم لڑکھڑائے لیکن اس نے خود کو سنبھالتے ہوئے پیچھے مڑ کر اس بے حواس ہجوم کو دیکھا جو تیز میوزک پہ تھرک رہا تھا۔ اس کی آنکھیں کچھ سوچنے لگیں اور پھر وہ دوبارہ رخ پھیر کر سٹول پہ بیٹھ گئی۔ گلاس نے شیشے کی سلیب کو کھرچا تو بار ٹینڈر اس کی طرف متوجہ ہوا۔

“ڈرٹی مارٹینی”

اس نے گلاس کو ہاتھ میں گھماتے ہوئے بغیر نظر اٹھائے آرڈر دیا۔ بار ٹینڈر نے پیشہ ورانہ انداز میں سر ہلایا اور جام تیار کرتے ہوئے اس لڑکی کو دیکھا جو ہلاکت آفریں حسن کے ساتھ ساتھ نہایت بولڈ لباس پہنے ہوئے تھی۔ کلائی پہ ڈائمنڈ بریسلیٹ اور گلے میں ایک شاندار نیکلس اس کے ہائی کلاس ہونے کی چغلی کھا رہا تھا۔ لیکن اس میں کچھ تھا جو اسے کسی نا معلوم انداز سے اس ماحول سے الگ کررہا تھا۔ وہ کیا تھا، بار ٹینڈر اندازہ نہیں کر سکا اور اس کا جام تیار کر کے اس کے آگے رکھ دیا، پھر اسے غور سے دیکھنے لگا۔

اس نے پلکیں اٹھائیں اور چبھتی ہوئی نظروں نے گویا بار ٹینڈر کی چوری پکڑ لی۔ وہ بوکھلا کر خالی گلاس اٹھائے واپس مڑ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دور کہیں مخلتف کہکشائیں گلے مل رہی تھیں۔ اس نے آنکھیں سکیڑ کر جوئے شِیر کہکشاں کو دیکھنے کی کوشش کی جو ان ستارہ ساز کارخانوں کے سمندر میں نظر نہیں آ رہی تھی۔ وہ مزید کوشش کرتا لیکن سماعت ایک آواز کے کے سامنے سر بسجود ہوگئی:

“گھر ڈھونڈ رہے ہو؟؟؟”

وہ اس کے کندھے پہ ہاتھ پھیرتی اس کے ساتھ بیٹھ گئی۔

سوال سن کر اس کے چہرے پہ خجالت کے رنگ اترے:

“میرا گھر تو تم سے عبارت ہے”

وہ کے ماتھے پہ آئی لٹ کو آہستگی سے پیچھے کرتے ہوئے بولا۔

لڑکی نے سمجھ جانے والے انداز میں شوخی سے سر ہلایا اور اس کا ہاتھ تھام کر اس کی نظروں کا تعاقب کیا۔ یہ کائنات کی بالائی جہت تھی جہاں زمان و مکاں ایک دوسرے سے بغل گیر تھے۔

اب وہ اس کا پرانا گھر ڈھونڈ رہی تھی لیکن زوار کے ہاتھ نے بدن کے روئیں روئیں میں ہیجان برپا کر دیا۔ زوار کے چہرے پہ جذبات کے رنگ بارات کی صورت اترنے لگے۔ اس نے بے اختیار صبا کے کندھے کے گرد بازو پھیلایا۔ صبا نے کچھ چونک کر اسے دیکھا اور اس کا چہرہ دیکھتے ہی وہ سمٹ سی گئی۔

“تمہیں دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے مجھ سا خوش نصیب کوئی بھی نہیں”

وہ اس کے کان کی لو چوم رہا تھا۔صبا کو لگا کہ اس کا دم نکل جائے گا۔ دل قفس توڑ کر سینے سے باہر اچھلنے کی کوشش میں تھا لیکن سانسیں نا معلوم خواہشوں کے بار سے رہ رہ کر آ رہی تھیں۔ بدن کسی کمان کے جیسے ہو رہا تھا۔ زوار نے اس کا چہرہ دیکھا تو اس کی آنکھوں سے گویا رنگ پھوٹنے لگے۔

وہ دونوں محبتوں کی بارش میں بے طرح بھیگ رہے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کلب میں لائٹس جھلملا رہی تھیں۔ رش تقریباً ختم ہو چکا تھا۔ اس کا سر کاؤنٹر پہ ٹِکا ہوا تھا اور سیاہ بال آبشار کی طرح بکھر رہے تھے، پشت عریاں ہو رہی تھی۔

اس کا ایک ہاتھ اس نشے میں بھی کاؤنٹر پہ انگلیاں تھرکا رہا تھا جیسے وہ کسی تال سے سُر ملا رہی ہو۔

بار ٹینڈر بڑی محویت سے اسے دیکھ رہا تھا کہ اس کی نظروں نے ایک باؤنسر کو ادھر آتے ہوئے دیکھا۔ بار ٹینڈر نے جلدی سے آگے بڑھ کر اس کا بازو ہلایا۔

لمس پاتے ہی وہ بری طرح چونک کر اٹھی:

“ہاؤ ڈیر یو باسٹرڈ؟”

بار ٹینڈر ہکا بکا رہ گیا۔ تبھی صبا کے کندھے پہ اس باؤنسر نے ہاتھ رکھا اور سختی سے اسے اپنی طرف گھمایا:

“میم، کلب از اوور، لیو ناؤ۔”

اس نے ایک نظر اپنے کندھے پہ جمے اس کے ہاتھ کو دیکھا اور اگلے ہی لمحے جیسے برق کوندی ہو۔ وہ اپنی جگہ کھڑی تھی لیکن فائٹر اپنا گلا پکڑے زمین چاٹ رہا تھا۔ اور پھر اس کے ہاتھ پاؤں سیدھے ہوتے گئے۔ شاید بے ہوش ہو گیا تھا۔

اس نے مڑ کر بار ٹینڈر کو گھورا اور انگلی اٹھائی جیسے کہہ رہی ہو آئندہ ہاتھ مت لگانا اور کلب سے باہر چل دی۔ قدم لڑکھڑا رہے تھے مگر آنکھیں جیسے خون سے بھری ہوئی تھیں۔

اس نے سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا۔ کوئی مسکرا رہا تھا۔ سر جھٹک کر وہ سامنے آنے والی بس میں سوار ہوگئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

راستہ سنسان اور ویران تھا۔ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا تھا۔ وہ بے جگر ضرور تھا، مگر بے وقوف نہیں۔

بڑی ہوشیاری سے وہ راہ میں آنیوالی کانٹے دار جھاڑیوں سے دامن بچا کر چل رہا تھا۔ اچانک ایک گہری سانس کی آواز ابھری اور سائے نے زقند لگا کر اس پہ چھا جانا چاہا۔ اس نے پھرتی سے اس کی گردن ناپی اور گھما کر ایک درخت پہ دے مارا۔

ایک دھماکہ ہوا اور اور وہ چونک کر اٹھ بیٹھا۔ ایش ٹرے دیوار سے ٹکرا کر کرچیوں میں بدل گئی تھی۔ اس نے ایک نظر اپنے کمرے کے نیم روشن ادھڑے ہوئے در و دیوار پہ ڈالی اور زیرِ لب خود کو کوستے ہوئے کروٹ بدل لی۔

Published inافسانچہعالمی افسانہ فورممحمد عمر فیضان علوی
0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x