عالمی افسانہ میلہ 2021
پہلی نشست کا آخری افسانہ
افسانہ نمبر 20
افسانہ ست پُتری
افسانہ نگار سارہ قیوم
لاہور پاکستان
نام تو اسکا ماں باپ نے یقیناً کچھ اور رکھا تھا۔ شاید صغراں یا فتح بی بی یا پھر غلام فاطمہ، لیکن عمریں گزریں اسے اسکے اصل نام سے کسی نے نہ بلایا تھا۔ سارے گاؤں کے لئے وہ ست پتری تھی۔ آپا ست پتری، بھابھی ست پتری، اماں ست پتری۔
پندرہ سال کی عمر میں جب اسکا بیاہ احسان اللہ سے ہوا تھا تو اسکی دادی ساس نے بڑا واویلا کیا تھا۔ دادی کو واویلا کرنے کی عادت تھی۔ تندور وقت پہ نہ جلانے پر شور، بہو کے میکے چلے جانے پر جھگڑا، بھینس بول جانے پر طعنے۔ لیکن سب سے زیادہ واویلا وہ اسوقت کرتی جب کسی بے چارے کمبخت کے ہاں دوسری تیسری لڑکی پیدا ہو جاتی۔ کسی میں اسکو یاد دلانے کی ہمت نہ تھی کہ اس کی اپنی گیارہ بیٹیاں تھیں۔ دادی کے نزدیک اسکا یہ جرم قابل معافی تھا۔ گیارہ پیدا کی تھیں تو کیا ہوا، ہمت تو نہ ہاری تھی۔ جب تک جائیداد کا وارث نہ پیدا کر لیا تھا خم ٹھونک کر کھڑی رہی تھی زچگی کے میدان میں۔ اس جائیداد کے وارث کی شادی کا وقت آیا تھا تو چن کر وہ لڑکی لائی تھی جسکے گھر کی عورتیں بیٹے پیدا کرنے میں مشہور تھیں۔
نکاح سے لے کر پہلی زچگی تک اس نے بہو کو ایک ہی دعا دی تھی، ” سر دا سائیں جیوے، ست پتری ہوویں۔ ” (سہاگ سلامت رہے، سات بیٹوں کی ماں بنو)
لیکن شاید دادی کے نصیب میں ابھی قبولیت کی گھڑی نہ آئی تھی۔ بہو سات بیٹے تو کیا پیدا کرتی، گن کر سات بیٹیاں دادی کے سینے پر مونگ دلنے کو لا دھریں۔ ہر لڑکی کے بعد دادی کا واویلا شروع ہوتا اور نئی زچگی تک جاری رہتا۔ ساتویں بیٹی کے بعد دادی بپھری ہوئی شیرنی کی طرح اٹھ کھڑی ہوئی۔ اب وہ بہو کو مزید موقع دینے کے موڈ میں نہیں تھی۔ اس نے پنچائت بلائی اور بیٹے کی دوسری شادی کا اعلان کر دیا۔
پنچائت میں اس نے سینہ پیٹ کر اور رو رو کر خوب واویلا کیا۔ ” اس چنڈال کے گھر بیٹیاں ہی پیدا ہوں گی دیکھ لینا۔ لڑکیوں سے صحن بھر جائے گا۔ کیسے بیاہتا پھرے گا میرا بیٹا؟ کون بنے گا اسکا بازو؟ کون باندھے گا اسکی پگڑی؟ کون ہو گا جدی پشتی جائیداد کا وارث؟ ”
جدی پشتی جائیداد کے وارث کے لئے بیٹے نے خوشی خوشی دوسری شادی کرا لی۔ پہلی بہو کیوں چپ رہتی؟ واویلا اس نے دادی سے ہی تو سیکھا تھا۔ پٹ سیاپے میں دوسری باتوں کے ساتھ اس نے بڑھیا کو یہ بھی جتا دیا کہ خود اس نے گیارہ بیٹیاں پیدا کی تھیں۔ ” تیرے خاندان کو کسی کی بد دعا ہے۔ ” اس نے چیخ چیخ کر کہا ” ادھرلڑکیاں ہی پیدا ہوں گی۔ تیری گیارہ تھیں، تیرے بیٹے کی بھی گیارہ ہوں گی دیکھ لینا۔”
تقدیر لکھنے والا فرشتہ شاید وہیں کہیں قلم لئے گھوم رہا تھا۔ ادھر بہو کے منہ سے بات نکلی ادھر لکھی گئی۔ ہونٹوں نکلی آسمانوں چڑھی۔ پہلے ہی ماہ نئی بہو کا پیر بھاری ہوا اور نوویں مہینے اس نے لڑکی اس آنگن میں لا دھری جہاں پہلے ہی ٹوکرا بھر لڑکیاں دھری تھیں۔
دادی اٹواٹی کھٹواٹی لئے کونے میں جا پڑی۔ پورے تین دن اس نے زچہ و بچہ کا منہ نہ دیکھا۔ آخر تین بعد کہیں سے تعویز لائی اور نئی بہو کے بازو پر باندھ دیا۔ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ اب کی دفعہ جو ہوا سو ہوا، اب وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں۔ اٹھ باندھ کمر اور لڑکا جمنے کی تیاری کر۔ اگلے چار سالوں میں بہو نے تین اور لڑکیاں پیدا کر دیں، اور پھر ناکارہ ہو کر بیٹھ گئی۔ پہلی بہو کی بات پوری ہوئی اور دادی جس نے خود گیارہ بیٹیاں پیدا کی تھیں، اب گیارہ پوتیوں میں یوں گھر گئی جیسے ہاری ہوئی راجدھانی کا بادشاہ غنیم کی فوجوں میں گھر جائے۔
ابھی گیارھویں لڑکی کا صدمہ تازہ تھا کہ معلوم ہوا کہ بڑی بہو کی سوکھی شاخ پھر سے بارآور ہونے کو ہے۔ یعنی وہ جنم جلی بارہ کا سکور پورا کرنے کو تیار ہے۔ دادی اپنا مشہور زمانہ واویلا لے کر بہو کے سر پر جا سوار ہوئی۔ بہو نے بھی اب کی بار چو مکھی لڑائی لڑی۔ دادی نے اسے کالی زبان اور بے فیض کوکھ کے طعنے دیے اور بہو نے جواب میں گیارہ گیارہ کہہ کر خوب ٹھٹھہ اڑایا۔
اسی جنگ کا نتیجہ تھا کہ بہو کو نو مہینے نہ تو کوئی تعویز باندھے گیے نہ کوئی خاص الخاص غذائیں کھلائی گئیں اور نہ مولوی بلوا کر سورہ یوسف کے ختم کرائے گئے۔ نتیجہ اس ساری بے اعتنائی کا یہ نکلا کہ احسان اللہ پیدا ہو گیا۔ جس وقت دائی زچہ خانے سے بھاگتی ہوئی باہر نکلی اور خوشی سے کانپتی ہوئی آواز میں یہ جاں بخش مردہ سنایا ” بیٹا ہوا ہے۔ ” تو دادی تو دادی، بچے کے باپ کو بھی یقین نہ آیا۔ بہت دیر دونوں منہ کھولے ہکا بکا کھڑے رہے۔ پھر دادی دوڑ کر اندر گھسی اور اپنی آنکھوں سے پوتا ملاحظہ کیا۔ جس بہو سے جینا مرنا ختم کر چکی تھی اب اسی کا منہ چومنے لگی اور واری صدقے جانے لگی۔
کہتے ہیں گاؤں میں اس سے بڑا جشن کبھی کسی نے نہ دیکھا تھا۔ سات گاؤں ادھر اور سات گاؤں ادھر مٹھائیاں بانٹی گئیں۔ چالیس دن تک لنگر بند نہ ہوا؛ اور بڑی عاجزی اور احسان مندی سے بچے کا نام احسان اللہ رکھا گیا۔
گیارہ بہنوں کا لاڈلا، دادی کی آنکھ کا تارا، ماں کا دلارا احسان اللہ بچپنے کے بعد کم کم ہی ان عورتوں کو نصیب ہوا۔ اسکے باپ نے شروع سے اسے اپنے ساتھ رکھا۔ جانتا تھا کہ ان عورتوں کے ہتھے چڑھا رہا تو مرد بننے سے رہ جائے گا۔ اس نے بیٹے کی تربیت اپنی مرضی سے کی۔ سختی بھی برتی، زمیندارہ بھی سکھایا۔ لیکن جب اسکی شادی کی باری آئی تو عورتوں میں ایک بار پھر جنگ چھڑ گئی۔
دادی بوڑھی ہو چکی تھی لیکن اس کے ارمان اب بھی جوان تھے۔ وہ بڑے حق اور مان سے ہر آئے گئے سے کہتی، ” سات گاؤں پھروں گی۔ چن کے دلہن لاؤں گی اپنے احسان اللہ کے لئے۔ سرداروں کی بیٹی۔ ”
لیکن اب احسان اللہ کی ماں کا پلہ بھاری تھا۔ کیوں نہ ہوتا، جائیداد کے اکلوتے وارث کی ماں تھی وہ۔ اس نے خم ٹھونک کر اعلان کیا کہ اپنے بیٹے کی شادی وہ خود کرے گی۔ اس معاملے میں وہ کیا ساس تو کیا شوہر، کسی کی ماننے کو تیار نہ تھی۔ گھر میں پیسے جائیداد کی کمی نہ تھی۔ اس نے سرداروں کی بیٹی کا کیا کرنا تھا؟ اسے تو بس خوبصورت بہو درکار تھی جس سے گھر آنگن سج جاتا اور برادری میں واہ واہ ہو جاتی۔
سات چھوڑ اس نے اردگرد کے دس گاؤں چھان مارے اور آخر گوہر مراد ڈھونڈ نکالا۔ لڑکی کم حیثیت گھرانے کی تھی لیکن اسقدر خوبصورت کہ اندھیرے میں بیٹھے تو روشنی ہوجائے۔ احسان اللہ کی ماں نے دیکھتے ہی رشتہ ڈال دیا۔
دادی نے بڑا واویلا کیا۔ اسے اعتراض لڑکی کے غریب ہونے پر نہیں تھا، بلکہ اس بات پر تھا کہ لڑکی کی بہنیں ہی بہنیں تھیں بھائی ایک بھی نہیں تھا۔ اپنا گھر تو پہلے ہی لڑکیوں سے بھرا پڑا تھا، لڑکیاں پیدا کرنے والی ایک اور آ گئی تو کیا ہو گا ؟
مگر اب دادی کے واویلا میں دم خم نہ رہا تھا اسلئے کسی نے اسکی پرواہ نہ کی اور احسان اللہ کی ماں اپنی مرضی کرنے میں کامیاب ہو گئی۔
دلہن کو حویلی کے آنگن میں لا کر بٹھایا گیا تو احسان اللہ کی ماں نے اسکے سر پہ سے پورے ایک سو ایک روپے وارے اور اسے عین مین وہی دعا دی جو کبھی دادی نے اسے اسکے بیاہ پر دی تھی، ” سر دا سائیں جیوے، شالا ست پتری ہوویں۔ ”
شادی کے اگلے ہی مہینے خوشخبری کے آثار ظاہر ہوئے۔ دادی تو حسب معمول اپنی منتوں مرادوں میں لگی ہی لگی، احسان اللہ کی ماں نے بھی مصلا پکڑ لیا۔ وہ اٹھتے بیٹھتے بہو کو اپنے دکھوں کی داستان سناتی؛ کیسے اسے بیٹیاں پیدا کرنے کے طعنے دیے جاتے تھے، کیسے اسکے سر پر سوکن لا بٹھائی گئی اور کیسے بیٹے کی ماں ہونے کے باوجود اسکے باپ نے کبھی کلیجہ ٹھنڈا نہ ہونے دیا۔ اب اسکی دعا تھی کہ جیسے اللہ نے اسکی بے چارگی پر رحم کرتے ہوئے اسے احسان اللہ دیا تھا، ویسے اب اس کے ارمان پورے کرتے ہوئے احسان اللہ کو سات بیٹے دے تاکہ ماں کے کلیجے میں ٹھنڈ پڑے اور وہ بڑھیا کو جتا سکے کہ جس کوکھ کو وہ بے فیض کہتی تھی، جائیداد کے وارثوں کی لڑی اسی سے چلی ہے۔
قدرت کے کام بھی نرالے ہیں۔ پہلا بیٹا ہوا اور اسکے بعد لائن لگ گئی۔ کہاں آنگن لڑکیوں سے بھرا رہتا تھا اور کہاں بیٹوں پر بیٹے آنے لگے۔ احسان کی ماں کی مراد بر آئی۔ ہر بیٹے کی دفعہ وہ ساس سے کہتی، ” دیکھا؟ اب بول۔ میں لائی ہوں یہ بہو۔ تیرے تو خاندان کو بد دعا تھی۔ یہ تو میرے کرم کہ میرے احسان اللہ سے کتنے بیٹے ہوئے۔ دیکھنا ست پتری ہو گی میری بہو۔ ”
ماں کی زبان واقعی کالی تھی۔ اسکی بہو ست پتری ہوئی۔ جس دن احسان اللہ کے گھر ساتواں بیٹا پیدا ہوا، اس دن دادی کا خوشی کے مارے دم نکل گیا۔
آہستہ آہستہ لوگ اسکا نام بھول گئے۔ وہ جگت ست پتری بن گئی۔ اسکی حیثیت کسی مہارانی کی سی تھی۔ ہر شادی بیاہ میں اسے مہمان خصوصی کے طور پر بلایا جاتا۔ نکاح پر اسکی موجودگی نیک شگون مانی جاتی۔ تیل مہندی پر دلہن کے ہاتھ پر سب سے پہلے وہی مہندی رکھتی۔ سسرال آنے کے بعد دلہن کے سر پر خاص طور پر اس سے ہاتھ پھروایا جاتا۔ وہ وہی دعا دیتی جو اس نے ہمیشہ سنی تھی، ” سر دا سائیں جیوے ، ست پتری ہوویں۔ ”
بڑھاپے میں جب اس نے بیاہ شادیوں پر جانا بہت کم کر دیا تھا تو نئی دلہنوں کو خاص طور پر دعا کے لئے اسکے پاس لایا جاتا۔ ہر عورت ست پتری کی خوش بختی کا کوئی ایک آدھ چھیننا خود پر پڑنے کی منتظر رہتی تھی۔
احسان اللہ نے بیٹوں کو بالکل ویسے پالا جیسے اسے اسکے باپ نے پالا تھا۔ فرق صرف یہ تھا کہ سختی کی تو زمیندارہ سکھانے کے لیے نہیں، پڑھانے لکھانے کے لیے۔ گاؤں کا سکول آٹھویں تک تھا۔ بڑے دونوں بیٹوں کو اس نے شہر کے سکول ڈالا تو تانگے پر آتے جاتے لڑکوں کا پورا دن سڑک پر گزرنے لگا۔ تب احسان اللہ نے موٹر گاڑی خرید لی۔ گاؤں تو گاؤں تب تو شہر میں گاڑیاں خال خال نظر آتی تھیں۔ گاؤں والوں نے دانتوں میں انگلیاں داب لیں۔ ہاں بھئ سات بیٹوں کا باپ ہے، فخر سے سینہ تان کر گاڑی کیوں نہ چلائے؟
بڑا بیٹا فوج میں چلا گیا۔ خاندان کے سر پر ایک اور طرہ نصب ہو گیا۔ گاؤں بھر کی عورتیں اپنے بچوں کو ست پتری کے پاس دعا کے لئے لانے لگیں۔
پڑھ لکھ کر سات میں سے پانچ بیٹے فوج میں گئے۔ چار افسر کی حیثیت میں اور ایک ڈاکٹر کی حیثیت میں۔ ایک اور بیٹا بھی ڈاکٹر بنا۔ اسے شہر کے بڑے ہسپتال میں نوکری ملی۔ ایک بیٹا مقابلے کا امتحان پاس کر کے افسر بن گیا اور ساتویں نے کاروبار شروع کر دیا۔
ست پتری کے بھاگ ایسے نیک تھے کہ اسکے بیٹوں نے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی۔ احسان اللہ فوت ہوا تو لوگوں نے اس سے تعزیت تو کی، ساتھ ہی یہ بھی جتا دیا کہ ست پتری کو کیا فکر؟ جس عورت کے سات گھبرو جوان بیٹے ہوں، وہ اکیلی تھوڑی ہے ؟
پر ست پتری اتنی بڑی بھنڈار حویلی میں اکیلی ہی تھی۔ فوجی اور افسر بیٹوں کی پوسٹنگ جگہ جگہ ہوتی رہتی۔ ڈاکٹر بیٹا امریکہ چلا گیا اور کاروباری بیٹا یورپ۔ ویسے تو اسکے ساتوں بیٹے فرمانبردار تھے لیکن انکی بھی مجبوری تھی۔ وہ گاؤں میں نہ رہ سکتے تھے۔ ادھر ست پتری کا حال الٹ تھا۔ وہ ساری زندگی گاؤں میں رہی تھی۔ شہر میں رہنا اسکے لئے ایک عذاب سے کم نہ تھا۔ بیٹے اصرار کر کے لے بھی جاتے تو وہ دو دن میں ہی گھبرا جاتی۔ نہ تو اس سے شہری گھروں میں رہا جاتا تھا نہ شہری خوراک کھائی جاتی تھی۔ وہ گاؤں میں ہی خوش تھی۔ پندرہ سال کی تھی جب حویلی آئی تھی اور اب نوے سال کی ہو چلی تھی۔ اس حویلی میں اس نے چار نسلیں دیکھی تھیں۔ یہیں اسکی بچے پیدا ہوئے تھے اور یہیں دادی، ساس سسر اور احسان اللہ کی قبریں تھیں۔ شہر میں تو وہ کوئی نہ تھی، گاؤں میں ست پتری تھی۔
دن میں تو کوئی نہ کوئی اس سے ملنے آیا رہتا، پر رات اسے اکیلے ہی کاٹنی پڑتی۔ باہر کے لیے ایک چوکیدار تھا اور اندر ایک ملازمہ سوتی تھی۔ ایک دن تقدیر نے نقب لگائی اور ملازمہ بیمار ہو کر اپنے گھر چلی گئی۔ اسی رات چوکیدار پڑ کر سو رہا اور حویلی میں چور گھس آئے۔ کیا بڑھاپا اور کیا اسکی نیند۔ ہلکے سے کھٹکے پر ست پتری کی آنکھ کھل گئی۔ گھبرا کر اس نے شور مچایا تو چور اس سے زیادہ گھبرا گئے۔ چاروں نے مل کر ست پتری کو خاموش کرایا۔ ایک نے ٹانگیں پکڑیں، دو نے بازو اور چوتھے نے منہ پر تکیہ رکھ کر دبا دیا۔
سانس اکھڑنے لگی تو لمحوں میں ست پتری کی آنکھوں کے سامنے اسکی پوری زندگی گھوم گئی۔ ماں باپ، سسرال، دادی کے واویلے، ساس کی دعائیں، احسان اللہ کا ساتھ، گاؤں والوں کی عزت اور بیٹوں کا بچپن۔ اسے وہ وقت یاد آیا جب اسکا آنگن سات بیٹوں کی آوازوں سے گونجا کرتا تھا۔ آج ان میں سے تین بیٹے ملک سے باہر تھے، پانچ ملک کے بڑے چند شہروں میں بکھرے تھے۔ کوئی جرنیل تھا، کوئی بریگیڈیئر، کوئی سرجن تو کوئی بڑا بزنس مین۔ اپنے ساتوں بیٹوں کے چہرے ایک ایک کر کے اسکے ذہن کے پردے پر بنے اور تحلیل ہو گئے۔
عالم ارواح کی سیڑھیاں چڑھ کر جب وہ جنت کے دروازے پر پہنچی تو رضوان نے حاضری کا رجسٹر کھولا اور قلم اس پر رکھ کر پکارا ” نام؟ ”
اس نے بال کھول ڈالے۔ چیخ کر بولی ” ست پتری “، اور یوں ماتم کرنے لگی گویا اسکے ساتوں بیٹوں کے جنازے اسکے سامنے رکھے ہوں
ست پُتری
Published inسارہ قیوم
Comments are closed.