عالمی افسانہ میلہ 2018
افسانہ نمبر 137
ستر
معراج رسول رانا – کینیڈا
دوپہر کا وقت تھا، ایک کے بعد دوسرا جہاز اُتر رہا تھا، لہذا ائیر پورٹ کے بین الاقوامی آمد والے بڑے ہال میں مسافروں کی آمد مسلسل جاری تھی۔ جدھر مسافر چلے آرہے تھے اُس راستے کے اطراف لوہے کے دو جنگلے نصب تھے جن کے اُس پار استقبال میں آئے لوگ اُسی راستے پر نظریں جمائے اپنے پیاروں کی آمد کے منتظر تھے۔ اُن ہی میں ایک شخص ڈرائیور شوکا بھی تھا۔
ضیاء الدین اپنے بیٹے عادل کیساتھ بارہ سال بعد برطانیہ سے آیا تھا۔ پچھلی مرتبہ جب وہ پاکستان آیا تھا تو عادل کی عمر کوئی پانچ برس ہوگی۔ نومبر کے ابتدائی دن تھے، لیکن عادل کیلئے برطانیہ کی نسبت یہاں کا موسم نسبتاً گرم تھا، لہذا اُس نے ایک ٹی شرٹ اور شارٹس پہن رکھے تھے۔ جہاز سے باہر نکلتے ہی ضیاء الدین نے آنکھیں بند کرکے ایک لمبا سانس کھینچا، جیسے یہاں کی ہَوا کو اپنے وجود میں جذب کر رہا ہو۔ دوُری بھی کیا احساس ہے! جس ہَوا میں بچپن گزرا ہو، وہی ہَوا پردیس سے واپسی پر ائیر کنڈشنر کی ہَوا سے زیادہ تازہ اور ٹھنڈی محسوس ہوتی ہے۔ اُس کے اجزائے بدن پچھلے بارہ سال سے اس ہَوا کے حظ سے محروم تھے۔ وہ الگ بات ہے کہ اب تو برطانیہ کے شہروں میں بھی دیسی لوگوں کی تعداد اتنی بڑھ چکی ہے کہ وہاں رہتے ہوئے اب پردیس میں رہنے کا احساس کم ہی ہوتا ہے۔
“ٹوپی والے صاحب” شوکے نے دُور سے دیکھ کر آواز دی۔ ضیاء الدین اپنے سامان کی ٹرالی چلاتا ہوا شوکے سے ملا۔
“ہاہاہا، کیا شوکے، اب تو ضیاء صاحب کہہ لو۔ وہ تو جوانی کی بات تھی جب میں انگریزی ہیٹ پہنتا تھا اور تم سمیت سبھی ملازم مجھے ٹوپی والے صاحب کہہ کے بلاتے تھے۔”
شوکے نے ضیاء الدین کے ہاتھوں سے سامان کی ٹرالی لی اور آگے چل پڑا۔ عادل اپنی ٹرالی خود ہی چلا رہا تھا۔ ہوائی اڈے سے باہر آکر سب پارکنگ میں کھڑی گاڑی تک پہنچے۔ گاڑی کا دروازہ کھلا اور سفید لباس پہنے ایک بزرگ خاتون باہر آئیں۔
“تائی جان، آداب عرض کرتا ہوں” ضیاء الدین نے جھک کر سلام کیا۔ تائی جی نے پیار دیا۔
“جیتے رہو۔۔۔ سلامت رہو۔۔۔ ارے، دلہن ساتھ نہیں آئیں؟”
ضیاء الدین ہنسنے لگا، “تائی جی آپ آج بھی جیسے پرانے دہلی میں ہی زندہ ہیں۔ اب تو میری شادی کو بیس برس گزر گئے، اب کہاں میری بیوی دلہن رہی۔”
تائی جی بھی مسکرا دیں،
“ویسے وہ ایک ہفتے بعد آئے گی۔ آپ تو جانتی ہیں کہ وہ وہاں برطانیہ میں سماجی کام کرتی ہے۔ کوئی ورکشاپ وغیرہ تھی اس لئے اُسے رکنا پڑا۔” ایسے میں عادل نمودار ہوا۔
“تائی امی! رائٹ؟” عادل نے مسرت سے تمتماتے ہوئے چہرے کیساتھ اپنے والد سے سوال کیا، ضیاء الدین نے اثبات میں سر ہلایا،
“السلام علیکم تائی امی”
تائی جی نے ایک نظر بھر کر عادل کو دیکھا اور بانہیں پھیلا کر استقبال کیا،
“وعلیکم السلام، تائی امی نہیں رے، تیری تو میں دادی لگی۔ جیتا رہ، خُوب پھل پُھول۔”
شوکا اور عادل گاڑی میں سامان رکھنے لگے اور ضیاء الدین اور تائی جی گاڑی میں بیٹھ گئے۔ عادل ایک خاندانی اقدار کو اہمیت دینے والے گھر سے تعلق رکھنے والے ضیاء الدین کا بیٹا تھا۔ اُس کیلئے اِس ملک میں ہوش سنبھالنے کے بعد پہلی بار آنا بہت معنی رکھتا تھا، جو کہ سامان رکھتے ہوئے اُس کے چہرے پر موجود رونق سے صاف ظاہر تھا۔
“ضیاء الدین، تم تو کہا کرتے تھے کہ تم نے اپنے لڑکے کو ولایت میں رہتے ہوئے بھی ہماری تہذیب سکھائی ہے؟” تائی جی نے گاڑی میں بیٹھتے ہی سوال داغ دیا،
“کیوں؟ کوئی گستاخی ہوئی اُس سے؟” ضیاء الدین کیلئے تائی جی کی بات حیران کُن تھی۔
تائی جی نے تھوڑے توقف کے بعد جواب دیا، “نہیں، وہ تو بہت احترام سے ملا”
“جی، تو سکھائی ہے ناں، وہ اردو بولتا ہے، پڑھ سکتا ہے بلکہ تھوڑی بہت لکھ بھی سکتا ہے۔ میں نے اُسے پورے چھ سال وہاں اسلامک اسکول میں ایک پاکستانی معلّم کے پاس بھیجا جہاں اُس نے قرآن بھی پڑھا اور اردو بھی سیکھی، اور پاکستان کا ہر کرکٹ میچ تو وہ پورے شوق سے دیکھتا ہی ہے، آپ کو سلام بھی کیا اُس نے، اور۔”
“میں اُس کے کپڑوں کی بات کر رہی ہوں ضیاء الدین۔” تائی جی نے بات کاٹی، “یہ کیسے کپڑے پہن رکھے ہیں اُس نے؟ گھٹنوں سے اوپر نیکر ہے اور قمیص بھی ایسی ہے کہ جُھکے تو پیٹ اور کمر نظر آنے لگے۔ ستر ڈھانپنا سکھایا ہے یا نہیں؟”
تائی جی نے بیزاری سے نظریں پھیر لیں۔
“آپ بھی ناں تائی جی، وہ ابھی بچہ ہے۔”
“بچہ ہے؟ آواز بھاری ہوگئی ہے اُس کی۔ تم سے دو انگشت اونچا قد ہے۔ بچہ نہیں ہے وہ۔”
“اچھا تائی جی، اب گھر چلیں؟”
عادل اور شوکا اتنی دیر تک گاڑی کی پچھلی طرف سامان رکھ چکے تھے۔ دونوں گاڑی کی اگلی نشستوں پر بیٹھ گئے۔
“چلو شوکے”
گاڑی چل پڑی۔ شہر کی گنجانی سے گزر کر جی ٹی روڈ کی طرف سفر جاری تھا۔ ضیاء الدین اور تائی جی پچھلی نشستوں پر بیٹھے اپنی باتوں میں مشغول تھے جبکہ عادل اگلی سیٹ پر بیٹھا باہر کے نظاروں میں محو تھا۔ اُس کے پاس ایک ڈیجیٹل کیمرہ بھی موجود تھا۔ ہر گزرتے منظر پر وہ اُن باتوں کی تصدیق کرنے کی کوشش کرتا جو اُس نے اپنے ماں باپ سے اس ملک کے متعلق سنی تھیں۔ اُس نے چند ایک مرتبہ گردن گھما کر اپنے ڈیڈی اور تائی جان سے پوچھتا رہا۔
“ڈیڈی، یہ نلی نہاری کیا ہوتی ہے؟”، “تائی امی، کچہری کورٹ کو کہتے ہیں ناں؟”،
اس دوران شہر اور جی ٹی روڈ سے گزرتے ہوئے مکانات، دکانیں، عمارتیں دیکھتے ہوئے ان سب کی دیواروں پر لکھے گئے اشتہارات نے اُس کی توجہ حاصل کی۔ اگر کہیں وہ کسی دیوار پر لکھا اشتہار ٹھیک طرح پڑھ پاتا تو منہ ہی منہ میں اُسے دہرانے کی کوشش کرتا۔ یہ اشتہارات اُس کیلئے انوکھی بات تھی۔ باقی نظارے وہ بس دیکھ رہا تھا کیونکہ یہ سب وہ اپنے والدین کی زبانی سن چکا تھا کہ اُن کے ملک میں کھیت کیسے ہیں، لوگ کیسے ہیں، بھکاری کیسے ہیں، اور تو اور گدھا گاڑیاں کیسی ہیں، لیکن یہ اشتہارات جیسے اُس کیلئے ایک انکشاف تھا۔ کئی اشتہاروں کی اُس نے تصاویر بھی لینے کی کوشش کی جب کبھی گاڑی کی رفتار سست ہوتی۔
“ڈیڈی”
عادل نے گردن پیچھے گھما کر پوچھا،
“حکیم کا کیا میننگ ہے؟”
ضیاء الدین نے قدرے حیرت سے پوچھا،
“حکیم؟۔۔۔۔۔۔ کیوں کہاں پڑھ لیا تم نے؟”
تائی جی نے عادل کی مشکل حل کی،
“بیٹے، حکیم علاج کرنے والے کو کہتے ہیں۔ دیسی ڈاکٹر کہہ لو۔”
عادل کو جواب سے اطمینان نہ ہوا، گویا اُس کی کوئی گتھی نہ سلجھی ہو۔ اُس کیلئے مشاہدات کی ایک دنیا کھل گئی تھی۔ دیواروں پر لکھے گئے یہ اشتہارات تو جیسے اُسے ہر دوسری دیوار پر نظر آرہے تھے اور ان میں سے زیادہ تر اشتہارات کا متن ایک جیسا ہی تھا، “مردانہ کمزوری” “شادی سے مایوس نہ ہوں””طب یونانی کے ماہر حکیم صاحب کے پاس تشریف لائیے”
اسی طرح سفر جاری تھا کہ ایک گیس اسٹیشن پر شوکے نے گاڑی روکی اور گاڑی میں ایندھن بھرنے کیلئے باہر نکلا۔ ایسے میں تائی جی کا موبائل فون بجنے لگا۔
“ہیلو۔۔ ارے دلہن کیسی ہو؟ لمبی عمر پاؤ گی، ابھی تمہارا ہی ذکرِ خاص ہورہا تھا۔۔۔۔ ہاں دونوں پہنچ گئے ہیں۔۔۔تم کب آؤ گی؟۔۔۔ اچھا باقی بات گھر پہنچ کر ہوگی، یہ لو عادل میاں سے بات کرلو۔” تائی جی نے موبائل فون عادل کی طرف بڑھایا،
“ماما، ۔۔۔ جی، ہم ٹھیک پہنچے، ۔۔۔ سفر بھی اچھا تھا، فوڈ واز اوکے۔۔۔۔۔ بس ہم تھوڑی دُور ہیں، وی آر آلموسٹ دئیر، یس ماما،۔۔۔ ہاں ماما، اٹس ونڈرفُل سو فار، سب کچھ ویسا ہی ہے۔ وہی شوکا انکل کیوٹ سے۔ وہی پیار کرنے والی تائی جی، وہی ایریاز، لائف اسٹائل، جیسا آپ نے اور ڈیڈی نے بتایا تھا۔”
اور عادل اپنی ماں کو سفر کی تفصیل بتانے لگا جو کچھ اُس نے دیکھا،
“لیکن میں نے ایک چیز نوٹس کی،”
“ماما، یہاں کے سارے آدمی لوگ وِیک ہیں۔ شاید بیمار ہیں۔۔ شاید اُن کی ڈائٹ ٹھیک نہیں، اسیلئے وِیک ہیں۔”
“ہاں ناں، ہر وال پر مردانہ کمزوری کا ایڈورٹائزمنٹ لکھا ہوا ہے، یہی میننگ ہوا ناں اس کا؟”
ضیاء الدین ایک دم چونک گیا۔ اُس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ عادل کے مشاہدے میں یہ بات آئے گی۔
“ماما، اینڈ دا سٹرینج تھنگ اِز، یہ لوگ میرج نہیں کرنا چاہتے، لکھا ہوا تھا کہ شادی سے مایوس نہ ہوں۔ آئی کُڈ ناٹ انڈرسٹینڈ”
ضیاء الدین کی بے چینی بڑھ رہی تھی۔ اُس نے ایک نظر تائی جی کی طرف ڈالی جو دوسری طرف منہ گھمائے ہوئے تھیں، شاید اس صورتِ حال سے اتنی ہی بے چین تھیں۔
“اور ہاں، کوئی سُپر میڈیسن ہے، کیا ڈیفیکلٹ سا نام ہے۔ یاد کرنا مشکل ہے۔”
“اوہ ہاں، یہ سامنے ایک اور دیوار پر بھی لکھا ہے، ط۔۔ طی۔۔۔۔ طب، یو۔۔۔۔ نا۔۔۔۔۔ نی۔۔۔۔”
“ہاں یہی ہے، طب یونانی، کیا بتاؤں ماما، یہ کوئی سپر وٹامنزلگتے ہیں۔ سب ایڈورٹائزمنٹس میں یہ میڈیسن کامن تھی۔ اور”۔
“گو آؤٹ آف دا کار اینڈ ٹاک آؤٹ سائیڈ” ضیاء الدین اس سارے سفر کے دوران پہلی مرتبہ عادل سے سختی سے بولا، اُس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ عادل کے ہاتھ سے موبائل فون لیکر زمین پر پٹخ دے۔
“اوکے، اوکے ڈیڈ، کُول، کُول،۔۔۔ ایزی۔۔۔”
عادل نے گاڑی کا دروازہ کھولا “سوری ماما، پتہ نہیں ڈیڈی کو اچانک کیا ہوا، ہی گاٹ کیریڈ اوے” اور کانوں سے فون لگائے باہر چلا گیا۔ ضیاء الدین کچھ دیر خاموش رہا لیکن ایک طوفان اُس کے اندر مچ گیا تھا۔ آخر اس نے خاموشی توڑی،
“آپ نے میرے لڑکے کے ستر ظاہر ہونے پر تو اعتراض کیا تائی، لیکن کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ان دیواروں کا کیا ستر ہے؟ ان دیواروں کا سیاہی سے یوں ستر کس نے ظاہر کیا ہے؟ اس معاشرے کا کیا ستر ہے جہاں ایسی سوچ پائی جاتی ہے؟ میں اپنے لڑکے کو کیا سمجھاؤں کہ یہ اشتہار کیا ہیں؟ کیا سمجھاؤں کہ یہ سب فراڈ ہے اور۔۔۔۔” ضیاء الدین شرم کے مارے مذید بات نہ کرسکا۔ تائی اماں اپنے سفید دوپٹے میں منہ چھپائے ہوئے تھیں، لہذا اندازہ لگانا مشکل تھا کہ اُن کے چہرے کی کیا کیفیت تھی۔
Be First to Comment