Skip to content

ساگر کتھا

ساگر کتھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خرم بقا

یہ سمندر کی جو لہریں ہیں نا، یہ بہت ساری کہانیاں سناتی ہیں۔ ان سنی، ان کہی۔ ہر لہر کے پاس کوئی نہ کوئی کہانی ہوتی ہے جو زمانوں سے، قرنوں سے ان کے پاس ہیں۔ جب میں سمندر میں پیر ڈال کر بیٹھتا ہوں تو لہریں یہ کہانیاں چپکے سے میرے اندر اتار دیتی ہیں۔
انسانیت کے روز اول کی کہانیاں، پہلی محبت کی، پہلے قتل کی کہانیاں۔ مجبوریوں کی تجارت کی کہانیاں۔

“قابیل ۔ ۔ ۔ تاریخ انسانی کا پہلا قاتل۔ کہتے ہیں کہ لفظ قاتل اسی سے نکلا۔ تمام مذاہب میں ملعون و معطون”۔ ایک لہر نے کہانی شروع کرتے ہوئے کہا، “لیکن اس کا دکھ کوئی نہیں سمجھ سکا، اس کی تکلیف کو کوئی نہیں پہنچ سکا۔ اس سے تو اس کا خدا چھن گیا تھا۔ اسے لگا کہ بھری پری کائنات میں جو اس کا سچ تھا وہ نہیں رہا۔ اس نے اپنے نقصان کے طیش میں آکر اپنا بھائی مار دیا۔ جب خدا اس کا نہیں رہا تو بھائی کا کیا کرتا؟”

ایک لہر الجھی، الجھی سی، بے چین سی نظر آئی۔ میں خود اس کی طرف متوجہ ہوا،وہ ضعیف سی آواز میں اپنی کہانی بیان کرنے لگی “میں سدھودنا ہوں، سدھارتھ کا پتا۔ وہ سدھارتھ جسے دنیا گوتم بدھ کے نام سے جانتی ہے۔”
“آہا، چلیں آپ کو تو گھر میں ہی جنت مل گئی۔” میں نے خوشی ظاہر کی۔
“شادی کے بیس ورش بعد میرے گھر میں‌ سدھارتھ نے جنم لیا” لہر میری بات سنی ان سنی کر کے بولی، “بھگوان کی کرپا سے اس وقت پیدا ہوا جب میں نراش ہو چکا تھا۔ سدھارتھ کی پیدائش کے سات دن بعد ہی مایا، اس کی ماں‌ کا دیہانت ہو گیا۔ میں ٹوٹ گیا لیکن سدھارتھ کے لیے خود کو سنبھالا، اسے اپنے جگر کا ٹکڑا بنا کر رکھا، سنسار کی ہوا بھی نہیں لگنے دی۔ سولہویں‌ ورش میں‌ پڑا تو اس کی شادی کر دی۔” لہر لمحے بھر کو رکی جیسے یادوں کو ترتیب دے رہی ہو پھر کہنے لگی، “یشودھرا نے جیسے راج محل کو ایک نئی زندگی دے دی۔ چوڑیوں کی جھنکار، پائل کی چھنک میں اس کی کھنکھتی ہنسی سنائی دیتی تو دیواروں میں‌ جیسے جان پڑ جاتی تھی۔ شادی کے تیرہ ورش بعد سدھارتھ پتا بنا۔ میں ابھی پوتے کی خوشی بھی نہیں منا پایا تھا کہ سدھارتھ محل سے غائب ہو گیا۔ اکلوتا بیٹا، جس کو کبھی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونے دیا، جس کی ہر خواہش ہر خوشی پوری کی، ایکدم سے سب پیار، مروت بھلا کر چلا گیا، میرے لیے تو دنیا ختم ہو گئی۔ مگر میں مرد تھا، راجہ تھا۔ مایا کی موت پر سدھارتھ کے لیے خود کو سنبھالا اور سدھارتھ کے غائب ہونے پر پوتے راہول کے لیے پرنتو یشودھرا ٹوٹ گئی، بھلا وہ دنیا کو کیا جواب دیتی کہ شادی کے تیرہ ورش بعد بچہ ہونے پر مرد گھر کیوں چھوڑ گیا ؟ اس نے گہنے اتار دیے، گیروے رنگ کا لباس پہن لیا، ایک وقت کا بھوجن کرتی اور ہنسی ۔ ۔ ۔ ۔ ہنسی تو جیسے اس سے روٹھ گئی تھی۔ زمانے کی ہر خوشی کا دوار خود پر بند کر لیا۔ سونی سیاہ راتوں کی کہانی وہ کس کو سناتی؟ بھگوان جانے جب بچہ اکیلے میں، توتلی زبان میں باپ کے بارے پوچھتا ہو گا تو کیسے بہلاتی ہو گی؟ ”
مجھے ایسا لگا کہ لہر کی آواز رندھ گئی ہے۔ “میں یشودھرا کو دیکھتا تو من میں‌ایک بھالا سا اتر جاتا، اس کی خاموش نظریں جیسے مجھے دوشی کہتیں۔ پھر ایک دن سدھارتھ کا پتہ مل گیا، پتہ چلا کہ وہ اب مہاتما ہو گیا ہے بدھا ہو گیا ہے، اسے نروان مل گیا، روشنی مل گئی ہے۔ پرنتو کسی نے سوچا کہ نروان کی اس روشنی میں میری آنکھوں کی جوت بجھ گئی، میری بہو کی مانگ کی کہکشاں سونی پڑ‌ گئی، میرے پوتے کا بچپن اندھیر ہو گیا۔” اس دفعہ لہر رو پڑی۔
ایکدم سے سکوت ہو گیا، سمندر کا سکوت تو ویسے بھی بہت ہیبتناک ہوتا ہے۔ کچھ لہریں آہستگی سے آئیں اور اس لہر کو لے کر چلی گئیں۔

یکدم ایک لہر اچھل کر آئی۔ مجھے لگا کہ یہ بنو اسرائیل کی لہر ہے، بہکی بہکی ، من موجی سی۔ وہی تھی۔ اس کے پاس اس بندے کی کہانی تھی جس نے سب سے پہلے من و سلویٰ کھانے سے انکار کیا۔ دس سال کا تھا جب ہجرت کی، چالیس سال کی صحرا نوردی۔ بچپن کے ذائقے زبان پر آتے تھے، چاہتا تھا کہ مرنے سے پہلے پیاز و ککڑی چکھ لے۔ ویسے بھی خدائے لم یزل نے ہی تو ناشکرا پن انسان کے اندر ڈالا ہے، تو چالیس سال ایک ہی طرح کا خوان کھا، کھا کر طبیعت اوب نہ جاتی؟ اتنی بندگی و تابعداری کسی اور قوم نے کب دکھائی؟
لہر اسی انداز میں واپس ہو گئی۔

“میں بروٹس ہوں۔” ایک لہر نے تحکمانہ انداز میں کہا، “جولیس سیزر کو منہ بولا بیٹا۔”
“میں جانتا ہوں، تاریخ میں احسان فراموشی اور دھوکہ دہی کے لیے تمھارا نام ایک ضرب المثل ہے۔”
“حقیقت کیا ہے یہ تو نہیں جانتے؟” لہر بولی
“حقیقت کیا ؟ تم ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے سیزر کا قتل کیا، اس سے انکار ہے تمھیں؟”
“نہیں، سیزر یونان کا مطلق العنان بادشاہ بننا چاہتا تھا، تمام اختیارات اپنی ذات میں جمع کر رہا تھا جو یونان کے لیے تباہ کن ہوتا۔ میں نے تو اپنا ملک، اپنا معاشرہ بچانا چاہا۔ آمریت کو تو تم لوگ بھی برا کہتے ہو۔ اور یہ بات بھی یاد رکھو کہ میں پہلا وار کرنے والوں میں نہیں بلکہ آخری وار کرنے والا آدمی تھا۔ جب میں نے دیکھا کہ سیزر زخموں سے تڑپ رہا ہے تو مجھ سے اس کی تکلیف برداشت نہیں ہوئی۔ میں نے آخری وار کر کے اس کی جسم و جاں کا رشتہ منقطع کر دیا۔ یہ تو میرا احسان تھا اس پر جس کو تم احسان فراموشی کا نام دے رہے ہو۔”
نہ جانے پانی میں‌ کیا تھا کہ لہر جاتے، جاتے میرا پیر بھی چھیل گئی۔

“خلافت، ملوکیت، اسلام، سیاست ۔ ۔ ۔ یہ ان پچاس سالوں کی داستان ہے جب فرزندان توحید کی تلواریں فرزندان توحید ہی کے گلے کاٹ رہی تھیں۔” ایک لہر نے بڑی بے باکی سے قصہ شروع کیا “بنو امیہ سیاست کا سہارا لے کر اپنا کھیل کھیل رہے تھے جبکہ بنو قریش اسلام کا نام لے کر۔ کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آیا ماسوائے سربریدہ لاشوں کے یا ادھڑی ہوئی قبروں کے۔”
میں اس لہر سے پہلو تہی کرتے ہوئے دوسری کی طرف متوجہ ہوا کہ جان تو مجھے بھی عزیز ہے۔

ایک لہر نے مجھے اپنی جگہ سے ہٹانے کی پوری کوشش کی، بار بار پلٹ کر پوری شدت سے آتی۔ میں نے پوچھ ہی لیا، “کون ہو؟”
“حجاج بن یوسف۔ مسلمانوں کا محسن جس کی وجہ سے مسلمان خانہ جنگی سے نکل کر دوبارہ ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسرے میں قرآن پکڑ کر دنیا کی فتح کو نکل گئے۔ وہ حجاج بن یوسف جس نے ایک مسلمان لڑکی کی پکار پر لبیک کہا اور جس کی وجہ سے سندھ میں اسلام پھیلا۔”
میں مسکرا کر بولا، “حجاج رہو، حجازی بن کر کہانیاں کیوں‌ بنا رہے ہو؟ اتنی دور کی پکار سن لی اور جو ہزارہا بندے تم نے بلاوجہ قتل کیے ان کی بیوی، بیٹیوں کی پکار کیوں نہیں سنائی دی؟ صاف، صاف کہو کہ ان لڑکیوں‌ کی آہیں اس لیے تم تک نہیں پہنچی کیونکہ وہ کسی تجارتی راستے پر نہیں بہیٹھی تھیں۔ اگر وہ بھی کسی ایسے تجارتی راہداری پر بیٹھی ہوتیں جو دشمنوں کے حملے کی زد میں ہوتا تو لازمآ تم ان کی بھی مدد کرتے۔ حجاج، خود حجاج کو ظلم سے روکتا۔”
لہر نے جاتے ہوئے ایک اور کوشش کی مگر مجھے ہٹا نہ سکی۔

“میری کہانی سنو” ایک جبروت سے بھرپور لہر نے مجھے کہا “میرے پاس سلطان محمود غزنوی کی کہانی ہے، مجاہد اسلام کی کہانی، جس نے سرزمین ہندوستان پر سترہ حملے کیے اور ۔ ۔ ”
“کیا یہ حملے اسلام کی محبت میں تھے یا کشور کشی کے لیے؟” میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا “جن دنوں ہندوستان پر نظر کرم نہیں ہوتی تھی تو پڑوس کی مسلم ریاستوں پر سلطان کی فوجیں حملہ آور ہوتی تھیں۔ اسلام سے زیادہ تو مال و زر کی محبت نظر آ رہی ہے اس میں۔ تبھی تو سلطان معظم مرگ سے تین دن پہلے اپنے خزانے کے بیچ بیٹھے روتے نظر آئے یہ کہتے ہوئے کہ میں یہ خزانہ دنیا میں ہی چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔ ہاں، اگر تم مجاہد اسلام کے بجائے صرف بادشاہ کہو تو اعتراض نہیں۔”
“لیکن سلطان اپنے ساتھ علماء کرام لے کر آئے جنہوں نے تبلیغ سے اسلام پھیلایا” لہر کی جبروتیت قائم تھی۔
“ہممممم ” میں سوچتا ہوا بولا، “حضرت عثمان علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش۔ تمھارے فوجی غریب دیہاتیوں کے ڈھور ڈنگر ہانک کر لے جاتے تھے اور ان کو واپس اسی وقت ملتے تھے جب وہ داتا صاحب سے قبول اسلام کا رقعہ لے کر آتے۔ کسی حکمران نے سنجیدگی اور ایمانداری سے ترویج اسلام کی کوشش نہیں کی ورنہ یہ ممکن ہی نہ تھا کہ ہزار سال کے بعد بھی یہاں غیر مسلموں کی اکثریت ہوتی۔”
لہر جاتے ہوئے بھی اپنی ہیبت ناکی دکھانا نہ بھولی اور مجھے جگہ سے ہلا دیا۔

ایک لہر ایسے میری طرف بڑھی جیسے کوئی ٹڈی دل لشکر ہو۔ اس کے پاس چنگیز کی کہانی تھی، چنگیز خان کی کہانی۔
میں نے خوشدلی سے کہا، “آؤ میرے گدڑیے بادشاہ۔ تم غالبآ پہلے بادشاہ تھے جو ون ورلڈ آرڈر بنانے نکلا تھا۔ اس چکر میں تم ظلم و بربریت کی علامت بھی بن گئے”
“کون؟ میں؟ ظلم و بربریت کی علامت!” لہر نے حیرانی سے پوچھا۔
“ہاں تو اور کون؟”
“میں نے صرف ان لوگوں پر ظلم کیا جنہوں نے میری اطاعت سے انکار کیا۔ میرے مقابلے پر آئے اور یہ کام میں نے ببانگ دہل کیا۔ انسانیت، امن یا بھائی چارے کا لبادہ اوڑھ کر نہیں، ایسے ظلم نہیں‌کیے کہ ایک بندے کو مارنے کے لیے سینکڑوں بے گناہ بچوں کو معذور کر دوں۔ یہ کام تو صرف مہذب درندے ہی کر سکتے ہیں۔”
میں‌ نے لاجواب ہو کر کہا، “تم نے کتب خانے بھی تو جلوائے تھے، کتنا علم ضائع ہوا تمھاری وجہ سے ؟”
“جو کتابیں، جو علم، عزت کی موت کا راستہ نہیں سکھا سکتا اسے میں اپنی قوم کو کیسے پڑھنے دیتا؟ ایسے علم کو جس سے تفریق ہو، نفرتیں پھیلیں، فرقہ بندی ہو دریا برد ہی ہونا چاہیے نہ کہ لوگوں کے دماغ میں بسیرا کرے۔”
لہریں جیسے آئی تھیں ویسے ہی واپس بھی ہو گئیں۔

ایک لہر بڑی خاموشی سے جا رہی تھی۔ خود ہی اسے پکارا کہ کیا تمھارے پاس کوئی کہانی نہیں سنانے کے لیے ؟
“میرے پاس، سوہنی کی بھابی کی کہانی ہے۔ ” لہر نے دھیمے سے کہا
“وہ ظالم عورت جس نے سوہنی کا گھڑا تبدیل کر دیا تھا؟” میرے لہجے میں غم سے زیادہ غصہ تھا۔
“نہیں” لہر نے میرے لہجے کی پرواہ کیے بغیر کہا، “وہ بہو جس کو اپنے سسرال کی عزت بہت عزیز تھی۔ جو نہیں چاہتی تھی کہ اس کے گھرانے کی ایک عورت رات کی تاریکی میں کسی غیر مرد سے ملنے جائے۔ تمھیں نہیں پتہ کہ رات کی تاریکی میں کیا کیا گناہ پلتے ہیں؟ میں نے تو صرف اپنے خاندان کی عزت بچانی چاہی تھی۔ دنیا کچھ بھی کہے مجھے اس کی پرواہ نہیں۔

“ایک نحیف سی لہر گویا پاؤں میں لپٹ سی گئی اور بین کرتی ہوئی بولی، “دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں”
“بادشاہ ظفر” میں نے سوالیہ لہجے میں پوچھا۔
“شہنشاہ الہند ابوالمظفر سراج الدین محمد بہادر شاه غازی” نحیف سی لہر کی آواز بہت گونجدار تھی۔
القاب سن کر میں ہنستا ہوا بولا، “بدقسمتی سے آپ کی حکمرانی اتنے علاقے پر بھی نہیں تھی جو ان القاب کا بوجھ اٹھا سکتا۔ علاقہ تو خیر بہت دور کی بات آپ کی حکمرانی تو اپنے حرم میں بھی نہیں تھی۔”
“یہی بات اگر تم دربار میں کرتے تو تمھاری زبان کاٹ دی جاتی۔” لہجے کی فرعونیت ابھی بھی قائم تھی۔
“آپ کی فرمانروائی میں درباری شاعر غالب کو چھ ماہ قید ہوئی تھی، آپ تو اسے بھی شاہی فرمان سے رہا نہ کروا سکے، مجھے کیسے سزا دیتے شہنشاہ عالی مرتبت؟” میرے لہجے میں تمسخر تھا۔
“صحیح کہہ رہے ہو” لہر اپنی بات سے پلٹتی ہوئی بولی، گویا آج بھی کردار کی پختگی شخصیت کا حصہ نہ تھی۔ “جنت مکانی اورنگ زیب عالمگیر کے بعد سلطنت مغلیہ کا زوال بہت تیزی سے ہوا۔ ہم تک تو بچا کچا اقتدار آیا۔”
“یہ مغل القاب کے معاملے میں اتنے فراغ دل کیوں تھے؟” میرے قہقہہ استہزایہ تھا “اورنگ زیب نے اپنا دور اقتدار صرف بغاوتوں کو فرو کرنے میں گزار دیا اور عالمگیر ایسے کہا جاتا ہے جیسا انہوں نے پوری دنیا فتح کر لی تھی۔”
لہر کچھ کہے بغیر پلٹنے لگی تو میں نے کہا، “میجر ہڈسن نے جب ایک قطعہ لکھ کر بھیجا تھا یاد ہے؟”
“ہاں، اور اس کا جواب بھی یاد ہونا چاہیے، کیسا منہ توڑ جواب دیا تھا۔ہڈسن نے لکھ بھیجا تھا،
دم دمے میں ہم نہیں اب خیر مانگو جان کی
اے ظفر! ٹھنڈی ہوئی اب تیغ ہندوستان کی
اور ہم نے جوابآ کہلوایا
غازیوں میں بو رہے گی جب تلک ایمان کی
تخت لندن تک چلے گی تیغ ہندو ستان کی”
لہر کا لہجہ فخریہ تھا۔
“جان بن آنے پر غازی نے بابر کی تلوار میجر ہڈسن کو پیش کر کے سرینڈر کر دیا۔” میں نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا، ” جتنی محنت آپ نے اپنی شاعری کی نوک پلک درست کرنے میں کی، اس سے آدھی محنت بھی اگر اپنی فوج کی درستگی میں لگا دیتے تو شاید عمر کے آخری ایام رنگون میں نہ گزارنے پڑتے۔ کاش یہ منہ توڑ جواب میدان جنگ میں دیتے تو آج تک دو گز کا بین نہ کر رہے ہوتے اور نہ ہی اپنے شہزادوں کا سر طشتری پر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔”
لہر میری بات مکمل ہونے سے پہلے ہی چلی گئی۔

ایک اونچی سی لہر نے مجھے پورا بھگو دیا۔ زچ ہو کر پوچھا کیا تم لہروں کی ہٹلر ہو؟
“ہاں! میں وہی ہٹلر ہوں جسے تم ظالم کے نام سے جانتے ہو۔”
میں احتیاطآ کنارے کی طرف بڑھا کہ ہولو کوسٹ کی ہولناکی پوری شدت سے میرے سامنے تھی۔
“میں تمھیں ظالم کے نام سے نہیں بلکہ بزدل کے نام سے جانتا ہوں۔ خودکشی تو بزدل ہی کرتے ہیں۔” میں نے ذرا نخوت سے کہا۔
لہر کی ہنسی کی آواز آئی پھر بولی، “ذرا دس قدم چل کر تم بھی یہ بزدلی کر لو۔” پھر ایک بھرپور قہقہہ گونجا، “اپنی جان لینا اتنا آسان نہیں۔ میں نے دنیا کو بتایا کہ اگر جان لے سکتا ہوں تو دے بھی سکتا ہوں۔”
میں نے کنارے کی طرف بڑھتے قدم روک کر کہا “لیکن تم نے ظلم تو کیا۔”
ایک طنزیہ سی آواز میں اس نے کہا “کیوں، کیا ہیروشیما اور ناگاساکی پر بم میں نے گرائے تھے؟ میں نے اتنے یہودی نہیں مارے جتنے ان دو ایٹم بموں نے معصوم شہری مار دیے، اور ظالم بھی میں ہی ہوں؟ واہ رے انسان تیرا انصاف۔میرا مرثیہ یہ ہے کہ میں تاریخ کے دھارے کی غلط طرف کھڑا ہوں۔ اگر میں فاتح ہوتا تو تم آج مجھے نجات دہندہ اور اتحادیوں کو ظالم اور انسان دشمن قرار دیتے”۔ اتنا کہہ کر لہر اتنی تیزی سے پلٹی کے مجھے اپنے نیچے سے ریت نکلتی محسوس ہوئی میں ڈگمگا کر سنبھلا۔ مجھے گھبراہٹ ہونے لگی، مجھے لگا کہ میرا ایمان متزلزل ہو رہا ہے۔ ایسا لگا کہ جو کچھ پڑھا وہ جھوٹ تھا، جو سمجھا وہ سراب۔

ایک دم مجھے بہت ساری لہروں نے گھیر لیا،ہر کوئی اپنی کہانی سنانا چاہ رہی تھی، ایک شور سا مچ گیا۔
انقلاب زندہ باد۔ لے کے رہیں گے پاکستان، بٹ کے رہے گا ہندوستان۔
تقسیم کے ہنگامے کے ذمہ دار ہندو ہیں، نہیں‌مسلمان ہیں۔
اسرائیلی غاصب ہیں، نہ اسرائیلیوں نے اپنے پرکھوں کی زمین حاصل کی۔
سرد جنگ، ویت نام میں امریکی شکست۔
ہماری مسلح افواج بہادری سے ملکی سرحدوں کا دفاع کر رہی ہیں۔ جنرل نیازی نے ہتھیار ڈال دیے۔
افغانستان میں روس کا قبضہ، جہاد زندہ باد۔ مجاہدین امریکہ کے دوست ہیں۔
سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا۔ طالبان کا افغانستان پر قبضہ۔ مجاہدین دہشت گرد ہیں۔
لہروں کا شور بڑھتا گیا۔
9/11 مسلمانوں نے کیا ہے، 9/11 مسلمانوں کے خلاف سازش ہے۔
اسامہ دہشت گرد ہے، اسامہ مجاہد ہے۔ کل کے گوریلے ، آج کے بلا تخصیص دہشت گرد۔
مسلمان آتنک وادی ہیں، مسلمان امن پسند ہیں۔
بدھسٹ کسی کو مارنا پاپ سمجھتے ہیں، یہ مسلمانوں کی آبادی ہے آگ لگادو۔
یہ شیعہ ہے، یہ سنی ہے، دیوبندی، احمدی، ہندو، عیسائی، مار دو، کاٹ دو، جلا دو۔
تقسیم در تقسیم، ظلم در ظلم۔
گولیاں،بم، آگ، لاشے ۔ ۔ ۔ نسل آدم ظالم بھی مظلوم بھی۔
یکدم میرے پیروں کی ہمت جواب دے گئی میں گر پڑا، لہریں مجھے کشاں، کشاں گہرے سمندر میں دھکیل لے گئیں۔آنے والے کل میں، میں کسی لہر کی صورت اپنی کہانی سناؤں گا، جو سچ ہو گی، کسی پراپیگنڈا یا ازم کی نہیں صرف انسان کی کہانی۔
انسان، جو ظالم بھی ہے مظلوم بھی۔ انسان، جو میں بھی ہوں، تم بھی۔

Published inخرم بقاعالمی افسانہ فورم

Be First to Comment

Leave a Reply