عالمی افسا نہ میلہ2018
افسانہ نمبر 143
ساز استھان
سلیم ہارون۔دوبئی۔ یو اے ای
اس کا یقین پختہ ہوتا چلا جا رہا تھا کہ یہ سانپ اس کے نانا کے پسندیدہ مالکونس کی طرح کالا بھی بہت ہے اور قدیرے راجپوت کی طرح نامرد بھی….. دونوں پھوں پھاں کرکے غائب ہوجاتے ہیں اور مہینوں نظر نہیں آتے.
راگیشری جہاں ان بن بلائے مہمانوں سے خوف زدہ ہوجایا کرتی وہیں ان کی ایک جھلک دیکھنے کو بے قرار بھی رہتی.
ڈرتے ڈرتے اس نے اپنا ایک پیر چارپائی سے نیچے لٹکا دیا کہ یہ نگوڑا سانپ جو پھٹے ہوئے پُڑوں والے طبلے کے گرد دائرہ بنائے بیٹھا تھا, رینگتا ہوا آئے اور اسے کاٹ کھائے…… مگر اچانک اس کے تنے ہوئے بدن میں خوف کی ایک لہر سی دوڑ گئی۔۔۔ ہوا کے ایک تیز جھونکے نے طاق پہ رکھی لالٹین پہ ہلہ بول دیا تھا اور کچھہ دیر کے لیے روشنی کا پھیلاؤ سمٹ کر شیشے کے گھروندے میں محض ایک چنگاری تک محدود ہوگیا تھا. بس یہی وہ لمحہ تھا جب اس نے بجلی کی سی تیزی سے اپنا پیر اوپر کرکے کھڈی پہ بنے سوتی کھیس کو اپنے گرد لپیٹ لیا گویا کوئی اپنے آپ کو دشمن کے حملے کے پیش نظر قلعہ بند کر لے. اس وقوعے کا دورانیہ نہایت مختصر تھا کیوں کہ باقی رہ جانے والی چنگاری نے لالٹین کو پھر سے نہال کر دیا تھا. راگیشری کا بایاں بازو تکیے کا کام دے رہا تھا اور دائیں بازو کی مدد سے اس نے کھیس کو تھوڑا سا اوپر اٹھا کر ایک روزن، شاطر دشمن کی نقل و حرکت پہ نظر رکھنے کے لیے مختص کر لیا تھا. سانپ طبلے کے پاس سے غائب ہو چکا تھا اور راگیشری کا شدید دھڑکتا دل چارپائی کی رسیوں میں جکڑا جا رہا تھا. شاید وہ اُسے تباہ حال طبلے کے گرد ہی بیٹھے رہنا دیکھنا چاہتی تھی… اور یہ نظارہ اس کے لیے ہیبت ناک لذت سے بھرپور تھا۔ حیران کن بھی کہ ایسے خطرناک جاندار پھٹے پرانے سازوں میں ہی کیوں جا گھسے ہیں…. کچھہ دن پہلے بھی بچھوؤں کا ایک جوڑا کلارنٹ کی ٹوٹی سے برآمد ہوا تھا جسے اس نے اپنی رہائش گاہ سے باہر جھاڑ دیا تھا. بینڈ ماسٹر کے ساز اس کی ضرورت بھی رہے تھے اور شوق بھی. جہاں وہ دنیا بھر کے ساز بجاتا اور سکھاتا رہا تھا وہیں بین سیکھنے والے بھی آدھمکتے تھے۔ اور، یہی وہ ساز تھا جسے اس نے کبھی گھر میں رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔ اردگرد کے دیہات میں گنتی کے چند لوگوں کے علاوہ یہ بین بجانے والے ہی چلتی پھرتی دنیا میں اس کے آخری رابطے تھے جو ریل کی پٹڑیوں کے کنارے اور چوکوں میں بیٹھہ کر بے ضرر سانپوں کا تماشا دکھاتے اور خوب صورت دُھنوں کے ذریعے لوگوں کی جیبوں سے پیسہ نکلواتے… بینڈ ماسٹر کو اپنے سپیرے شاگردوں کا انتظار رہتا جو آٹا دانہ اور پیسہ دھیلا نذر کر جاتے اور ٹِبے سے ایک آدھہ سانپ بھی پکڑ لے جاتے کہ شاید سانپوں کا بھی یہ آخری ٹھکانا اور افزائش کا استھان تھا. راگیشری کئی مرتبہ نانا کے شاگردوں کے لیے کوئی پیغام لے کر ٹبے سے اترا کرتی۔ ارد گرد کے دیہات میں حلوائیوں کی دکانوں یا تندور والوں کو پیغام دے آتی کہ کوئی سپادا یہاں سے گزرے تو اسے بتا دینا کہ بینڈ ماسٹر بلاتا ہے. یہ پیغام دے چکنے کے بعد وہ جوڑا, چوڑا, مٹماں اور چوراں والی کے لوگوں سے ناجانے کیوں آنکھہ بچاتی, پتلی پگڈنڈیوں پہ لمبے بل کھاتی ٹبے پہ آچڑھتی گویا انسانوں کے جنگل سے جان بچاتی اپنے گھر آپہنچتی. اور، کبھی کبھار آٹا مانگنے، صرف ان گھروں اور بستیوں میں جاتی جہاں بینڈ ماسٹر کہتا اور وہ اچھے لوگ بھی، بِلا تامل، اس کی حاجت روا کرتے اور بینڈ ماسٹر کو سلام بھی بھیجتے۔ اس نے شہر نہیں دیکھا تھا مگر نانا سے قریبی اور بعیدی شہروں کے قصے سنے تھے جہاں لوگ طرح طرح کے پکوان کھاتے, رنگ برنگے کپڑے پہنتے, سینما ہال میں فلم دیکھنے جاتے اور رات کو گھر واپس آتے ہوئے بسوں اور ٹرکوں کے بھاری پہیوں تلے آکر مارے جاتے.
وہ کبھی وزیرآباد اور ڈسکہ بھی نہیں گئی تھی… اسے اتنا معلوم تھا کہ لاہور جانے کے لیے بینڈ ماسٹر گوجرانوالہ کے لاری اڈے سے بس پکڑا کرتا تھا یا پھر وزیرآباد کے ریلوے سٹیشن سے ریل گاڑی پہ سوار ہوتا اور لاہور جااترتا….
ٹِبے کے شمال میں ایک میل کے فاصلے پر چھوٹی ششماہی نہر بہتی تھی جس سے اردگرد کی زمینوں کو سیراب کیا جاتا تھا. راگیشری اپنے بہت بچپن میں نانا کے ساتھہ یہاں آیا کرتی اور دونوں یعنی نانا اور دوتی نہر کے لگے ٹھنڈے ادھوانے کھاتے. اسے میتراں والی کا میلہ بھی یاد تھا جہاں جانے کے لیے وہ جوڑا سیان والا سوا پار کرتے اور امرودوں اور مالٹے کے باغات سے ہوتے ہوئے میلے والی جگہ جاپہنچتے. اسے یہ بھی یاد تھا کہ جوڑے والی نہر بمباں والی کے ہیڈ سے نکلتی اور مغرب کی جانب بہتی ہوئی, ٹرنک روڈ پہ بنے پل اوجلہ کے نیچے سے گزرتی اور آگے جاکر چھوٹے سوئے اور پھر کھالے میں تبدیل ہوکر اپنا وجود کھو دیتی. اس کے نانا کے زیادہ تر شاگرد بہتے پانی کی اسی پٹی کے کنارے پہ آباد تھے اور ڈیڑھہ دھائی سے کہیں غائب ہو گئے تھے. اب کوئی سپیرا ہی بین لیے ادھر کو آنکلتا یا پھر کوئی چرواہا۔۔
رات کو کبھی کبھار اسے میتراں والی یا دوسرے دیہاتوں میں ٹمٹماتے قمقمے دیکھنے کا شوق ہوتا تو وہ ٹبے کے ایک ایسے ٹیلے پہ جا کھڑی ہوتی جو شاید کسی جاگیردار کا گھر تھا یا پھر کسی طوائف کا چوبارہ کہ اس جگہ کی اونچائی زیادہ تھی۔ ایک مرتبہ جب لائل پور سے، وقت کا سب سے بڑا قوال میتراں والی کے میلے پہ اپنے فن کا مظاہرہ کرنے آیا تھا تو، بینڈ ماسٹر راگیشری کو لے کر ساری رات اس ٹیلے پہ بیٹھا رہا تھا۔ بھاری لاؤڈ سپیکر پہ بڑے قوال کی آواز اپنے پہلو سے آتی معلوم پڑتی تھی۔ ’’می رقصم می رقصم‘‘ کے بول پہ رو رو کر بینڈ ماسٹر کی آنکھیں آبلہ ہو گئی تھیں۔ وہ راگیشری کو بتاتا کہ اب خدائےِ موسیقی کا بھائی فرخ فتح علی خان ہارمونیم پہ گھمک کے بَل کا پیچھا کرتا ہے اور جو چھوٹا بچہ میرکھنڈ کی پچیدہ سرگم کو ٹانٹی آواز میں تان کی شکل دے کر بڑے موسیقار کا پیچھا کرتا ہے وہ اس کا بھتیجا ہے، طبلے پہ یہ ہاتھ اور کسی کا نہیں بلکہ پِدو خان کا ہے جو اسے کسی بزرگ کے مزار سے ملا تھا۔۔ بڑا قوال گاتا تھا اور جہاں پورا میلہ سنتا تھا وہیں ٹِبے پہ بینڈ ماسٹر، راگیشری اور سارے سانپ اور بچھو بھی ہمہ تن گوش اُس بڑے فن کار کو سننے کے لیے اپنے اپنے استھان پہ بیٹھ رہے کہ ساری رات گھاس اور جھاڑیوں میں بیٹھے رہنے کے باوجود بھی بینڈ ماسٹر اور راگیشری محفوظ رہےتھے۔
راگیشری نے پہلے بھی بہت سانپ دیکھے تھے, کبھی اجاڑ پگڈنڈی پہ پھن پھیلائے راستہ روکے ہوئے, کبھی پانی والے مٹکے کے قریب اپنی دُم کے جھنجھنے سے جھنکار دیتے, کبھی ڈھارے میں رکھے ڈھول تمبور کی رسیوں کا حصہ بنے اور کبھی کُڑھ نما گھر کی کچی دیواروں کے درجنوں سوراخوں میں سرسراتے. ایک جھلک دکھا کر غائب ہوجاتے. یہ بھی ممکن ہے کہ وہ کسی خوف کی ٹرانس میں رہتے ہوئے دُم دبا کر بھاگ جاتے یا دو انسانوں کے وجود کو ان کی دنیا میں قبول کر لیا گیا تھا…. یا پھر یہ کوئی قدیمی رشتہ تھا.
جس کالے ناگ کو راگیشری جی بھر کر دیکھنا چاہتی تھی وہ پہلی بار یوں کھل کر سامنے آیا تھا. بہت سال پہل جب بینڈ ماسٹر ایک رات، راگ مالکونس کی وضاحت بجا رہا تھا تو ایسا ہی ایک کالا سانپ دیوار میں سے آدھا نیچے جھول گیا تھا جسے دیکھہ کر راگیشری نانا کے کندھوں پہ جا چڑھی تھی اور سانپ واپس دیوار میں گھس گیا تھا. تب سے ہر کالا سانپ اسے راگ مالکونس کی طرح لگتا یا مالکونس سن کر کالے ناگ اس کے ذہن میں آجاتے.
کافی تگ و دو کے بعد اس نے سانپ کو دیکھہ ہی لیا تھا. اس کی کالی اور چمکیلی رنگت ایک ہولناک منظر پیش کر رہی تھی اور اس کا بل کھاتا جثہ اسے اپنے روم روم میں لوٹنیاں لیتا محسوس ہونے لگا….
“نانا! نانا!
دیکھہ تو…….
تو پھر کہے گا کہ سانپ اصول کی خلاف ورزی نہیں کرتے. انہوں نے عہد کیا ہے کہ وہ انسان کی چارپائی پہ نہیں چڑھیں گے مگر یہ تو میری چارپائی کے پائے سے لپٹا جا رہا ہے۔ وعدہ ٹوٹ رہا ہے نانا۔۔ میں تو سوچتی تھی کہ یہ کسی اصلی راجپوت کی طرح پہلے تجھ پہ حملہ کرے گا اور پھر میری طرف آئے گا مگر یہ تو بزدل نکلا……”
بینڈ ماسٹر پیری کی کمزور نیند کا پلڑا چھوڑ کر اپنے تئیں, ایک دم, چاک و چوبند محافظ کے منصب پہ جا فائز ہوا.
“لا میرا سرل ٹوٹا لا, راگو”
چارپائی پہ لیٹے لیٹے اس نے کسی پھنئیر کی طرح اپنا سر اوپر اٹھا لیا تھا اور اس کی بوڑھی آنکھیں پرانی لالٹین کے بطن میں اگی باریک سی روشنی کی کونپل کے سہارے, چالاک اور موذی حملہ آور کو تلاش کرنے میں برسرِپیکار پائی گئیں. کبھی وہ راگیشری کی چارپائی کی طرف دیکھتا تو کبھی سیلن زدہ دیواروں کے درجنوں سوراخوں میں…. وہ اس گھر کی دیواروں کی پنہائیوں میں دُور تک اور آرپار دیکھنے کا ہُنر جانتا تھا اور بلاشبہ اس کی نظر کی تابناکی سے سارے زہر بھرے تلملا اٹھتے ہوں گے کہ یہی اس کا ہتھیار تھا اور یہی ڈھال….. عین ممکن تھا کہ اسی خوف کی وجہ سے قدیرا راجپوت اور کالا ناگ چھپ کر وار کرنے پہ یقین رکھتے تھے….
“نانا! مت دیکھہ ایسے…. مجھے لگتا ہے کسی دن تو بھی ان دیواروں کا حصہ بن جائے گا۔۔۔۔۔ اور، کوئی چپکے سے میرے اندر اتنا زہر بھر دے گا کہ میں بھی ٹِبا بن جاؤں گی۔‘‘
راگیشری نے آہستگی سے نانے کی چارپائی پہ منتقل ہوتے ہوئے کہا..
سانپ تو جیسے مر ہی گیا تھا.. بس لڑکی کی چارپائی کے پائے سے بدمست لپٹ رہا.
“جس ڈنڈے سے میں اس سانپ کا ستیاناس کروں گی اسی ڈنڈے سے قدیرے کی کھوپڑی بھی کچل ڈالوں گی”
اسے اپنی آواز کا کھوکھلا پن صاف سنائی دے رہا تھا بلکہ قدیرے کے خیال نے اسے ٹبے پر سے اٹھا کر ایسے باغات کی بھول بھلیاں میں بھٹکا دیا تھا جہاں کے پھل بہت میٹھےتھے اور اتنے اونچے بھی کہ آسانی سے ان تک پہنچا نہ جاسکے.
راگیشری نے خواب کی سی کیفیت میں اپنا ایک پیر زمین پر رکھا اور ایلومینم کی کھٹارا سی پیٹی پر سے شہنائی کے بجائے تین چابیوں والا پیتل کا ٹرمپٹ اٹھا کر بینڈ ماسٹر کے ہاتھہ میں تھما دیا. “نانا! سرل ٹوٹے سے کام نہیں چلے گا, پیتل کا باجا بجا”
اس نے نانے کو تھوڑا سا اوپر اٹھا کر پرانے کپڑوں کا بورا اس کی کمر کے پیچھے ٹکا دیا. اس سارے عمل میں ایک مرتبہ بھی اس نے سانپ کو نظر سے اوجھل نہیں ہونے دیا تھا.
“ذرا دیکھہ تو اس شیطان کو…
کیسا پرسکون نظر آرہا ہے…
ویسے نانا, تجھے تو دن میں بھی کم نظر آتا ہے, تو رات میں کیا دیکھے گا”
راگیشری کو نانے کی کمزور نظر پہ بل کل یقین نہیں تھا.
بینڈ ماسٹر پیر استاد کو یاد کرنے کے دوران بڑی تیزی سے اپنی زبان یوں باہر نکال رہا تھا جیسے وہ خود سانپ بن گیا ہو….. بینڈ ماسٹر کا چہرہ دیکھہ کر راگیشری کو لگا کہ وہ نانے کے نہیں بلکہ شیش ناگ کے پہلو میں بیٹھی ہے. مقابلہ جوڑ کا تھا……
“تیری بہن کی……
تیری ماں کی…..
تیرے شیش ناگ کی……
اے راگو میری ٹانگ کو سہارا دے…..”
راگیشری نے کھیس کھینچ کر گھٹنے سے ذرا اوپر سے ٹوٹی ہوئی ٹانگ پہ تہہ دار رکھا اور دونوں ہاتھوں سے تھام لیا.
“دیساں دا راجہ….
میرے بابل دا پیارا…..
مگر ظاہری چوٹ سے اٹھنے والا درد اسے تڑپا گیا.
“ہائے میں مر گیا….
ہائے میری ٹانگ….
راگو زور سے پکڑ میرا پتر..”
یہ لاوا نہ جانے کب سے پھوٹ نکلنے کو بے قرار تھا. ایک استھائی کی پہلی کھیپ نے جہاں در و دیوار میں تھرتھراہٹ پیدا کر دی تھی وہیں بارش کے بعد کی چاندنی رات میں جیسے صور پھونک دیا تھا. ٹِبے کی شمالی ڈھلوان پہ واقع بکروالوں کے واڑھے میں ممیا ممیا کر بکریوں کے اِجڑ نے آسمان سر پہ اٹھا لیا تھا…. چوراں والی, جوڑا سیان, مٹماں, چَوڑا سنگھ اور متراں والی کے پہرے دار کتے جو پرانی پرالی, توڑی کی دھڑوں اور کونوں کھدروں میں دبکے بیٹھے تھے, اسوج کی بارش اور سردی کی لہر کو یکسر بھلا کر بے ساختہ بھونک اٹھے تھے. عمر رسیدہ صادق بکروال نے، جس کی پنڈلیاں دائیں اور بائیں اطراف میں ایسے باہر مُڑی ہوئی تھیں کہ گھٹنوں کے نیچے دو قوسیں بنتی تھیں، ہڑبڑاہٹ میں کاؤ کی ڈانگ سے اپنے کاٹھ کے صندوق کو پیٹ ڈالا تھا….
سانپ شاید سیلن زدہ دیواروں کی پنہائیوں میں کہیں کھو گیا تھا یا پھر بوسیدہ اور ٹوٹے پھوٹے سازوں میں گھس بیٹھا تھا….
ایک مرتبہ پھر سارے میں خاموشی کا قبضہ ہونے لگا…. ہیروشیما اور ناگاساکی میں بھی شاید ایسا ہی ہوا ہو گا… ایک بہت بڑا دھماکہ اور پھر ابدی نیند… سسکیاں بھی جل گئی ہوں گی۔۔۔ بادلوں کے ٹکڑے حیرانی کی سیاہ کیچڑ میں لتھڑ گئے ہوں گے اور کالی بارش برسی ہوگی۔۔ ساز بھی سارے جل گئے ہوں گے۔۔۔ دو بہت بڑے ٹِبے بنے ہوں مگر شاید وہاں کے چوراں والی، میتراں والی اور چوڑا کے باسی سارے ساز کھوج نکال لائے ہوں۔ ممکن ہے وہاں کے سیالکوٹ اور گوجرانوالہ کے لوگ ان ڈبوں پہ آ‘ آباد ہوئے ہوں اور وہاں کا سازاستھان خوشحالستان میں بدل گیا ہو، وہاں کے ٹِبے آباد ہوگئے ہوں۔ راگیشری کا کلیجہ کٹ گیا تھا…. وہ اپنے تیز ہوتے سانسوں پہ قابو نہیں رکھہ پا رہی تھی۔ دیسوں کا راجہ اس کا بھائی اس کے سامنے آن کھڑا ہوا تھا۔۔۔۔۔ ذاولقرنین علی نے اپنے پرنے کی گرہ کھولی اور لُس لُس کرتے پانچ سات امرود راگشیری کو تھما دیے…
“اب ہم کبھی نہیں لڑیں گے اور تم بھی وعدہ کرو تم نشئیوں کی دنیا سے ہمیشہ کے لیے واپس لوٹ آؤ گے… تم تو نانا کی طرح بہت سارے ساز بجاتے ہو۔۔ تم اس کے سب سے لائق شاگرد ہو اور دوتے بھی۔۔ تم پھر سے نال بجانا اور ہم گائیں گے. نانا پیٹی بجائے گا اور ہم بہت سارے پیسے جمع کرکے ایک پیارا سا گھر بنائیں گے۔ نانے کا علاج سیالکوٹ کے ولائتی ہسپتال سے کروائیں گے اور نانا پھر سے بستی بستی گاؤں گاؤں شگن بجائے گا، خوشیاں بانٹے گا۔ اس کے شاگرد اس کی بلائیں لیں گے اور لاہور والے اسے ملنے ٹبے پر بھی آجائیں گے۔ وہ اُٹھ کر بھائی کے گلے لگنا چاہتی تھی لیکن بوڑھے بینڈ ماسٹر کی ہائے نے اسے ہوش مند انسانوں کی دنیا میں لا کھڑا کیا تھا۔۔۔۔
ٍ’’نانا اب بس مت کرنا! بس ایک بار ’’جیوے بلڑا‘‘ بجا دے۔۔ اب میری پکڑ ڈھیلی نہیں پڑے گی۔ یہ لے سرل ٹوٹا۔ ٹرمپٹ کہیں تیری جان ہی نہ لےلے‘‘
شہنائی پہ بول اُٹھایا گیا؛
’’جیوے بلڑا عمراں ساریاں‘‘
بینڈ ماسٹر نے پوری قوت لگا کر اپنے سانس کو سُروں کی آبشار میں ڈھال دیا تھا۔ یہ باج اس کی زندگی کا نچوڑ تھا۔ کہیں کہیں سانس ٹوٹتا مگر جوانی کی مزدورانہ ریاضت اور میدانی باج سانس کے ٹوٹنے کی خامی کو عرصے کی لَے اور بولوں کو ٹکڑیوں میں بانٹ دیتے مگر تال وہی رہتا اور کھرج بھی۔ ایک سال کے عرصے میں اس کی ٹانگ جڑ تو گئی تھی لیکن درد ختم نہیں ہوا تھا۔ ایک دو شاگرد جو جراح کو لاتے تھے، کہیں کھو گئے تھے۔ درد کی وجہ سے کہیں کہیں ظاہری سُر کا سلسلہ منقطع ہو جاتا۔ اس کے باوجود پھر بول اٹھایا جاتا اور آگے بڑھا جاتا۔
’’یہ بھی سن لے‘‘
اور شہنائی نے ایک اور پنجابی گیت کے روپ میں ٹھاٹھ ایمن کو چلتا پھرتا کیا۔
’’آوندیاں نصیباں نال ایہہ گھڑیاں
تیرے سر نوں سجایا لا کے پھل کلیاں‘‘
راگیشری زیادہ دیر خود پہ قابو نہ رکھہ سکی۔ اب ٹِبے پہ ایک نئے راگ کا اضافہ ہو گیا تھا۔ بینڈ ماسٹر اپنے غصے پہ قابو نہ رکھہ سکا؛
’’نالائق کہیں کا، بے وفا، بے فیض۔۔
مجھے معلوم ہے تُو یہ دُھنیں کیوں سنتی ہے۔ مر گیا ہے وہ، لوگ کہتے ہیں کسی نے اس کا مقبرہ بھی بنا دیا ہے۔ یقیناً اس کے عملی یار دوستوں نے۔۔۔۔ لوگ وہاں خیرات کرتے ہیں اور اس کے یار ان پیسوں سے نشہ خرید کر پیتے ہیں۔ خنیف سپیرا یہی بتاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ وہ دنیا کا ہر نشہ کرتا تھا۔۔ اگر ہمارا ہوتا تو یہ سب نہ کرتا۔ وہ زندہ رہتا‘‘
’’نانا! ایسا مت بول میرے ماں جائے کے بارے میں۔۔۔ وہ تجھ سے ڈرتا نہیں آتا۔۔ صادق بکروال کہتا ہے کہ اس نے ہیڈ بمبانوالہ کے قریب بڑی نہر پہ بکریاں چراتے ہوئے، دُور سے ایک بدحال سپیرے کو بِین بجاتے دیکھا تھا جو بل کل ذوالقرنین علی کی طرح لگتا تھا۔ اس کے باج پہ سُننے والے جُھوم جُھوم جاتے تھے۔۔۔‘‘
’’میں نہیں مانتا اِن جُھوٹی افواہوں کو‘‘
بینڈ ماسٹر کا زندہ ڈھانچا یوں کانپ رہا تھا کہ کڑکڑا رہا تھا۔
’’ہم کسی دن بھوک سے مر جائیں گے۔ تُو بھی بھیک مانگنے سے خائف ہے اور میں بھی بھیک پہ زیادہ دیر زندہ نہیں رہنا چاہتا‘‘
سارا علاقہ راجپوتوں کی چوہدراؤں سے بھرا پڑا تھا اور وہ دونوں نانا دوتی ان سے خائف تھے۔ بینڈ ماسٹر کے خیال میں ہندوستان کی تقسیم سے پہلے کے حالات اچھے تھے۔ اُسے، بیاس کے اُس پار کے راجپوت اور اِس طرف کے راجپوتوں میں میں بہت فرق محسوس ہوتا۔
راگیشری نانے کے غصے سے ہمیشہ خوف زدہ ہو جایا کرتی۔ وہ چاہتی تھی کہ موضوع بدل جائے اور نانا پھر سے باجا بجانے لگے۔۔۔۔
’’نانا! نور جہاں تجھہ سے ملنے جوڑا سیان والے گھر میں آئی تھی یا ادھر ٹِبے پہ؟‘‘
سوال شاید غلط طریقے سے پوچھا گیا تھا یا غلط وقت پہ۔
’’سؤر کی بچی۔۔۔ بھلا میڈم ٹِبے پہ کیوں آئے گی؟
لُچے سب توں اُچے۔
یہ ہم ہیں جو اس اونچی جگہ پہ رہتے ہیں۔ یہ مرگھٹ ہے گزشتہ نسلوں کا۔۔۔ لوگ نفرت کرتے ہیں اس جگہ سے۔۔۔۔ میڈم یہاں نہیں آئی تھی۔۔۔۔ یہ تب کی بات ہے جب میں بِھڑی شریف حاضری بجانے گیا تھا اور لاہور کے بیسوں فن کاروں نے میری کاریگری سنی تھی۔ شاید میڈم بھی روپ بدل کر پنڈال میں بیٹھی تھی اور کچھہ دنوں بعد پانچ سات لوگوں کے ہمراہ، جن میں دو موسیقار بھی تھے، ہمارے گاؤں والے گھر میں آئی تھی۔ وہ پھلوں اور مٹھائیوں کی ٹوکریاں لائی تھی۔ سارے علاقے میں ایسی دھوم مچی تھی کہ لوگوں نے مجھے ہی میڈم سمجھنا شروع کر دیا تھا۔ میری مانگ اور بھی بڑھ گئی تھی اور میری پارٹی میں ساز بجانے والے سینہ چوڑا کرکے چلتے تھے۔ ایسی خوش حالی تھی کہ مت پُوچھ۔ بس وقت گزرتا گیا اور ہمارے کام کا مندا پڑتا گیا۔ ہمیں بتایا گیا کہ روشنی کا دور آگیا ہے۔ اس روشنی کے دور کے آغاز کے ساتھ ہی ہمیں اُٹھا کر اندھیرے میں پھینک دیا گیا۔ ایک نئی موسیقی آن موجود ہوئی۔۔۔۔ میرے شاگرد ہی مجھ پر ترس کھانے لگے۔۔۔ جو میری طرح سوچتے تھے وہ شہروں میں مزدوری ڈھونڈنے نکل کھڑے ہوئے۔ استاد اور شاگرد کا رشتہ فن کی خدمت سے زیادہ پیٹ کے معاملات کا پچیدہ سا تعلق معلوم پڑنے لگا۔ سارے شاگرد شہروں کی طرف نکل گئے اور ہم بھوکوں مرنے لگے۔ تیری ماں لاہور کی نرتکیوں سے بھی دو ہاتھ آگے نکلی۔ اس میں تیری درویش نانی کی ایک بھی خوبی نہیں تھی۔ اس نے کسی راجپوت کو ناراض نہیں کیا۔۔۔۔ یا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یا شاید وہ ہمیں زندہ رکھنا چاہتی تھی۔ وہ بھوک سے خائف تھی۔ میں نہیں جانتا تیرا اور جُلو کا باپ کون ہے مگر اتنا جانتا ہوں تم زینب کے بچے ہو‘‘
اس بے عزتی کی راگیشری کو کوئی پرواہ نہیں تھی وہ تو بس بینڈ ماسٹر کو شانت کرنا چاہتی تھی۔
’’نانا! نانی ہندو تھی، اس کے نام پہ تو نے میرا نام رکھا، وہ اپنے بھگوان کی پوجا کرتی تھی۔ تیرے صندوق میں اس کے خدا کا مجسمہ بھی رکھا ہے۔ میری ماں حسینی تھی، میں بھی ہوں۔۔۔ تیرے سارے رشتہ دار اور شاگرد بھی حسینی تھے پر، یہ بتا، تو کون ہے؟‘‘
ایک اور غلط سوال پوچھ لیا گیا تھا۔۔
’’سؤر کی بچی، میں وہ سب ہوں، جو سب ہیں۔‘‘
راگیشری نیند کے عالم میں بینڈ ماسٹر کی کڑوی کسیلی باتیں نگلتی جا رہی تھی۔۔ اس نے اپنا جسم ڈھیلا چھوڑ دیا تھا۔ اسے اب کوئی سوال نہیں پوچھنا تھا۔
رات کے آخری پہر میں شگاف پڑنا شروع ہوگیا تھا اور یوں لگتا تھا جیسے راگیشری گہری نیند سونا چاہتی ہے۔ وہ نانے کے اوپر جھکی جارہی تھی۔ بینڈ ماسٹر نے اسے اپنی چارپائی پہ جانے کے لیے کہا مگر وہ ایک ہاتھ سے اپنی ٹانگ کھجاتی اور دوسرے ہاتھ سے اپنا سینہ سہلاتی وہیں پہ جُھکی جارہی تھی۔ نہ کوئی سوال اٹھ رہا تھا نہ جواب آرہا تھا۔ وہ نانے کی دُکھ والی ٹانگ پہ آن پڑی تھی۔ وہ تکلیف کی شدت سے تڑپ اٹھا۔ بد قِسمتی سے اس میں اتنا زور نہیں تھا کہ وہ راگیشری کو اپنے اوپر سے اٹھا کر پرے کر دیتا یا خود کو اس کے وزن سے آزاد کرا لیتا۔ درد کی شدت کے باوجود اس نے پورے طور پر ہوش نہیں کھویا تھا۔ وہ راگیشری کی موت کی وجہ جان چکا تھا اور خود کچھ کر سکنے یا نہ کر سکنے کے دکھ کے ساتھ درد کی دو دھاری تلوار سے کٹ رہا تھا۔ ہر قریبی دیہہ کے سپیکر سے آذان بلند ہو رہی تھی اور یہ سلسلہ رکتے ہی بِین کی آواز اس کے کان میں پڑنے لگی۔ کافی دیر تک وہ سمت کا تعین کرتا رہا مگر تیز ہوا اس کے اندازے غلط کیے جا رہی تھی۔ وہ پسینے میں شرابور ہو چکا تھا اور اس کا سانس انتہائی تیز چلنے لگا تھا۔ ایک لمحے کے لیے اس نے خود کو نااہل محسوس کیا۔ شاید وہ شرمندہ تھا۔ اس کی آنکھوں میں اندھیرا چھانے لگا تھا اور دل ڈوبنے لگا تھا۔ اسے لگا بین کی آواز قریب سے گُزر گئی ہے۔ بجانے والا نشے میں معلوم پڑتا تھا جو اپنا سفر جاری رکھے ہوئے، من کی کسی موج کے تابع صبحِ تازہ کی ’’گُن کلی‘‘ بجا رہا تھا مگر اپنی منزل تک نہیں پہنچ پا رہا تھا، اس بات سے بے خبر کہ ٹِبے کے باسیوں پہ کیا گزری ہے۔
بینڈ ماسٹر چونک سا گیا کہ اُس کے علاوہ گُن کلی کی یہ وضاحت صرف ایک بندہ بجا سکتا تھا۔۔۔
حالتِ مرگ کے باوجود وہ پیغام دینا چاہتا تھا یا ٹِبے کو آباد رکھنے کی ذمہ داری کسی اور کے ہاتھ میں سونپنا چاہتا تھا۔ ڈُوب جانے والے جہاز کا مسافر اسی جہاز کے کسی شکستہ تختے پہ بیٹھ کر بچاؤ کے لیے آنے والوں کو سیٹی بجا کر اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ سو، اسی طریقۂ بچاؤ کے مصداق، اِدھر بینڈ ماسٹر نے شہنائی میں بے وقت، ماروے کا زوال بھر کر پھونک ماری اور اُدھر کسی کے چونک کر، بے تحاشہ کھٹکھٹانے کے سبب، گزشتہ رات کے پہلے پہر میں ہونے والی بارش کی وجہ سے بوسیدگی کی آخری حد کو چُھوتا دروازہ قصّہ تمام کرنے کے واسطے، درد سے تڑپتے بینڈ ماسٹر کے عین سر کے اُوپر آن گرا۔۔۔۔۔