عالمی افسانہ میلہ 2018
افسانہ نمبر 151
سازش
ساحل احمد لون پلوامہ کشمیر
موہن ٹھاکر نے پانچواں کاسۂ مے حلق سے نیچے انڈیل دیا تو اُس کا نوکر مخلصانہ انداز میں ملتجی ہوا،’’سر ہماری پارٹی کئی اہم علاقوں میں الیکشن ہار گئی تو کیا ہوا۔ابھی بھی ہمارے پاس بھرپور موقعہ ہے۔قدح نوشی سے آپ کی صحت پر مضر اثرات پڑ سکتے ہیں۔آپ پارٹی کے سربراہ ہے،بھگوان نہ کرے ،اگر آپ ہی ٹھیک نہ رہیں تو پھر پارٹی کا بیڑا ہی غرق ہوجائے گا۔آپ چِنتا نا کریں سر ،جو لوگ آپ کو ہرانے کے درپے ہیں اُن کی بہو بیٹیوں کو ہم اپنی خواصیں بنا کر رکھیں گے‘‘۔
موہن ٹھاکر نوکر کے چہرے کو گھورنے لگا۔کئی منٹوں تک وہ اُسے مسلسل گھورتا رہا،ایک بے جان موُرتی کی طرح،جیسے کسی گہری سوچ میں گم ہو۔
’’تم ٹھیک کہتے ہو وِنود‘‘۔ کئی منٹوں بعد موہن ٹھاکر نے نوکر کو جواب دیا۔
موہن ٹھاکر ریاست کی سب سے بڑی پارٹی کا سربراہ تھا۔وہ الفاظ کا جادوگر تھا۔وہ بخوبی جانتا تھا کہ الفاظ میں کیا طاقت ہے۔وہ جانتا تھا کہ الفاظ تیر و نشتر کی طرح گھائل بھی کردیتے ہیں، تازیانے کی طرح برستے بھی ہیں اور یدِ عیسیؑ کی طرح قلوبِ فگار کامداوا بھی کرتے ہیں۔اُس کی باتوں میں ایسی تاثیر تھی کہ جو ایک بار اُسے سُنتا،اُس کا متوالا ہوجاتا۔وہ ہمیشہ مذہب کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا تھا۔وہ ریاست کے اکثریتی طبقے کو اقلیتوں کے خلاف بھڑکاتا ۔ریاست کی اکثریت اُسے اپنا مسیحا مانتی تھی اور انتخابات میں دل کھول کے اُس کے حق میں ووٹ دیتی تھی۔گزشتہ پندرہ سالوں میں اُس کی پارٹی مسلسل الیکشن جیت چکی تھی۔اُس کی پارٹی نے رشوت ستانی اور اقربا ء پروری کے تمام ریکارڈ توڈ دئے تھے مگر اس کے باوجود ریاست کا اکثریتی طبقہ اُس کے شانہ بہ شانہ کھڑا تھا کیونکہ وہ اُن کے دھرم کا محافظ تھا۔
وہ دو جوان بیٹوں کا باپ تھا۔اُس کا بڑا بیٹا اشوک لندن میں کاروبار کرتا تھا اور چھوٹا بیٹا وِکی ریاست کی سب سے بڑی یونیورسٹی میں ایم ۔بی۔اے کررہا تھا۔اُس کی شریکِ حیات کافی عرصہ پہلے انتقال کرچکی تھی مگر اُسے کبھی بیوی کی کمی محسوس نہیں ہوئی کیونکہ ہر روز ریاست کی نامور حسینائیں اُس کا بستر گرم کرتی تھی۔۔۔۔۔۔
اُس نے کبھی ایسی توقع نہیں کی تھی۔آج پہلی بار اُسے اتنا بڑا دھچکا لگا ۔۔۔۔اُس کی پارٹی ریاست کی کئی اہم علاقوں میں انتخابات ہار گئی۔اُس کی راتوں کی نیند اُڑ گئی۔پارٹی کے کئی اہم عہدیداروں کو بُلا کر اُس نے الیکن جیتنے کے لئے ایک خطرناک منصوبہ بنایا،ایک خطرناک سازش رچی۔اُسے پتا تھا کہ اگر یہ منصوبہ کام کرجائے تو اقتدار کی گدی ایک مرتبہ پھر مجھے ہی ملے گی۔۔۔۔۔۔۔
’’راجو! تم نے کہاں تک تیاری مکمل کی؟‘‘موہن ٹھاکر اپنے خاص آدمی سے فون پر پلان کے بارے میں استفسار کررہا تھا۔
’’ ٹھاکر صاحب! تیاری تو مکمل ہے ۔پلان کے مطابق میں نے داڑھی بڑھا دی۔اب میں پکا مسلمان لگ رہا ہوں‘‘۔
’’شاباش میرے شیر۔بھگوان کی دَیا سے کل ہی تمہیں سارا کام تمام کرنا ہے۔کل صبح تم پوُجا کے وقت دُرگا مندر میں گھس کر اُسے بارود سے اُڑا دو گے!۔کم از کم دس پندرہ لوگوں کی لاشیں گرنی چاہیے‘‘۔اُس نے راجو کو مکمل ہدایت دی۔
اگلے دن دوپہر کے وقت راجو نے موہن ٹھاکر کو فون پر خوشخبری سُنائی۔
’’ٹھاکر صاحب! مبارک ہو کام ہوگیا۔آٹھ لوگ موقعے پر ہی سورگ واسی ہوئے،جو لوگ زندہ بچ گئے اُن کی نظر میں ایک با ریش مسلمان نے حملہ کیا۔اب ریاست میں خوب دنگے ہوں گے۔اب آپ کو جیتنے سے کوئی نہیں روک سکتا‘‘۔
یہ خوشخبری سُن کر موہن ٹھاکر خوشی سے جھوم اُٹھا۔اُس نے راجو کو اس بہادری اور ذہانت کے لئے خوب داد دی۔
راجو کو خوشخبری سُنائے ابھی کچھ ہی عرصہ ہی بیت چکا تھا کہ ٹھاکر کا نوکر بین کرتا ہو ا اُس کے کمرے میں داخل ہوا،’’ٹھاکر صاحب یہ کیا ہوگیا۔۔۔بھگوان! یہ کونسی آفت تم نے نازل کردی ہمارے ٹھاکر صاحب پر‘‘۔
’’کیا ہوا وِنود؟‘‘ اُس نے حواس باختہ ہوکر اپنے نوکر سے سوال کیا۔
’’سر میں اب کیا کہوں۔۔۔۔کہنے کی ہمت ہی نہیں ہو رہی۔۔۔۔آپ خود ہی دیکھ لیجئے‘‘۔
وِنود نے روتے ہوئے ٹی وی سیٹ آن کیا۔موہن ٹھاکر نے اسکرین کی طرف دیکھا تو وہ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا۔ٹی وی اسکرین پر اُس کے بیٹے وِکی کی تصویر چمک رہی تھی جس کے نیچے لکھا تھا،’’دُرگا مندر کے اندر خونین دھماکہ،آٹھ لوگ ہلاک۔۔۔مرنے والوں میں معروف سیاستدان موہن ٹھاکر کا بیٹا وِکی بھی شامل!!!‘