عالمی افسانہ میلہ 2020
افسانہ نمبر 8
زچگی
پروفیسر ڈاکٹر مرحب قاسمی
ابو ظہبی(یو۔اے۔ای)
کالے لیدر کے دبیز صوفے پر ارینہ کے پہلو میں ’سموکی‘ نرم کشن پر سر رکھے نڈھال سی لیٹی ہوئی تھی۔ارینہ نے اس کی یہ کیفیت دیکھتے ہوئے اے۔سی کی کولنگ بڑھا دی اور اس کے سفید فر جیسے گھنے بالوں میں آہستہ آہستہ انگلیاں پھیر رہی تھی۔اُس نے ڈاکٹر کو بھی فون کرکے اسکی طبیعت کے بارے میں بتلایا تھا،جس نے اُسے معمول کی بات کہہ کر کسی دن وزٹ کرنے کا کہا تھا۔لیکن اسپر بھی اس کی تشفی نہ ہوئی وہ جانتی تھی کہ’سموکی‘دوسری بلیوں کی نسبت زیادہ ’سنسیٹیو اور ڈیلیکیٹ‘ہے۔جس پر سموکی اپنی بالوں سے بھری موٹی لمبی دم اس کے بازو پر پھیر تے ہوئے اظہار ِتشکر کرتی یا اس کا ہاتھ چاٹنا شروع کر دیتی۔ اسکا ساتھی خوبصورت پرشین بلاّ ’میکس‘ جس کے گولڈن لمبے اور گھنے بالوں کی ہرکوئی تعریف کرتا تھا،وہ بھی نیچے کارپیٹ پر رکھے اورنج کشن پر بیٹھا تھا۔وہ سموکی سے بھی زیادہ موٹا اور خوبصورت تھا۔وہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد اُٹھ کر ’سموکی‘کو سونگھتا اور ارینہ کے لٹکے ہوئے پیر پہ اپنی دم رگڑ کراپنی موجود گی کا احساس دلاتا۔
ارینہ کو ہمیشہ سے بلیاں پالنے کا بہت شوق رہا ہے۔اس نے پچھلے کئی سالو ں میں مختلف اقسام اور رنگ کی بلیاں رکھی تھیں لیکن سب فارن کی،ان میں لوکل ایک بھی نہیں تھی۔ بلکہ اس نے نوکروں کو سختی سے تاکید کی ہوئی تھی کہ گھر میں کوئی جنگلی بلی نہ آنے پائے۔ وہ اپنی بلیو ں کی نسل خراب کرنا نہیں چاہتی تھی،دوسرے اس کا خیال تھا کہ جنگلی بلیوں کو سدھانا بہت ہی مشکل ہے۔جبکہ بدیسی پالتو بلیوں کو ٹرینڈ کرنا آسان ہوتا ہے۔یہ سب بلیاں اس نے کراچی کی مشہور’کیٹ مارکیٹ‘ سے خریدی تھیں۔جب بھی کوئی اچھی نسل کی بلی آتی تو ایجنٹ اسے فوراً فون کردیتا اور وہ دیکھنے چلی جاتی۔
ان امپورٹڈ بلیوں کے ناز نخرے بھی بہت اُٹھانے پڑتے تھے۔بڑے اسٹور پہ دستیاب خاص ’پیٹ فوڈ‘ کے ٹن، بسکٹ اور خالص دودھ منگوایا جاتا۔ ویکسین کروانا بھی لازمی ہوتا۔انکی نازک مزاجی کے پیشِ نظر ایک صاف ستھرا،آلودگی سے پاک ماحول پرووائیڈ کرنا بھی مالک کی ذمہ داری تھی۔لہذا ایک لڑکا اور نوکرانی مجیدہ روز ان کے بستر اور برتنوں کی صفائی کرتے۔ وہ دونوں پورے گھر میں مٹر گشت کرتے پھرتے۔ میکس انتہائی پُر وقار ر انداز میں نہج نہج کے یوں چلتا جیسے جنگل میں ببر شیر۔ پھر اچھل کر صوفے پر نیم دراز ہو جاتے اور ٹی وی دیکھتے رہتے۔یامالکوں کے لاڈ پیار کے مزے ا ُٹھاتے۔ یوں تو ان بلیوں کی اتنی اچھی ٹریننگ ہوئی تھی۔ کہ وہ ’پشی اور پوٹی‘ کیلئے
مختص کردہ جگہ پر ہی جاتی تھیں۔لیکن آخر جانور تو جانور ہی ہوتاہے۔وہ اِدہر اُدہرکونوں میں، صوفے کے نیچے یاکبھی کارپیٹ پر بیٹھے بیٹھے بھی گندگی کر دیتے جو بیچارے نوکروں کو صاف کرنی پڑتی،کمرے میں با قاعدہ ’روم اسپرے‘کرنا پڑتا۔کیونکہ جہاں تک بدبو کا تعلق تھا تو اس میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔جنگلی اور امپورٹڈ بلیوں کی بدبو ایک ہی جیسی ہوتی ہیں۔
”لو بھئی ہمارا گھر نہ ہوا، خیر سے زچہ خانہ ہوگیا۔ایک یہ تمہاری موئی سانڈ سی بلی۔۔۔اور دوسری مجیداں،ہڈیوں کا ڈھانچہ،جو ہر دوسرے سال اپنا مٹکا جیسا پیٹ اُٹھائے پھرتی ہے۔لگتا ہے اس کے میاں کو کوئی اور کام ہی نہیں ہے۔پہلے کیا کم فوج ہے،چار موئے تو
۲
گاؤں کے مدرسے میں ڈالے ہوئے ہیں۔نجانے مولوی بنیں گے یا دہشت گرد،اور دو اِدھر رُلتے پِلتے ہیں۔میں تو کہتی ہوں کوئی اورنوکرانی ڈھونڈ لو ۔تم بھی کوئی عقل کروبھلا نوکری کا بہانہ کرکے کب تک بچے پیدا نہیں کرو گی۔تمہاری شادی کو بھی تین سال ہونے کو آئے،میرا دل بھی اپنے پوتا پوتی کھلانے کو چاہتا ہے۔اللہ نہ کرے جب کوئی خرابی نہیں،نا روپے پیسے کی کمی ہے تو پھر یہ ضد کیوں۔اولاد پیدا کرنے سے عورت کی آزادی سلب نہیں ہوتی بیٹا،نہ ہی فگر خراب ہوتا ہے۔نجانے آج کل کی نسل کو کیا ہو گیا ہے،بچے تو عورت کا غرور ہوتے ہیں۔“
ارینہ کی ساس جو کراچی ہی میں علیحدہ گھر میں رہتی تھیں۔جب بھی آتیں اُسے یہی مشورہ دیتیں۔وہ اپنی بات تو ہنس کر ٹال جاتی کیونکہ شروع میں ہی دونوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ کم از کم کچھ سال تو وہ اپنی لائف انجوائے کریں گے،خوب گھومے پھرے گیں۔بچوں کی پیدائش کے بعد تو انسان صرف ذمہ داریوں میں پھنس جاتا ہے اور اس کی اپنی کوئی لائف ہی نہیں رہتی۔اور واقعتاً اُسے ابھی تک بچوں کی کمی بھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔وہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں بہت اچھے عہدے پر فائز تھی۔جوب سے آنے کے بعد اُس کی ایک لمبی چوڑی سوشل لائف تھی،گھر تھا۔البتہ اُسے اپنی ساس کی خواہش کا خیال ضرور آتا تھا لیکن اُس کے لئے تو ابھی بہت عمر پڑی تھی،بھلا اتنی جلدی کاہے کی۔ہمیشہ کی طرح اِس وقت بھی اُس نے اپنی ساس کی گردن میں باہیں ڈالیں،گال پر پیار کیا اور پکا وعدہ کیا کہ وہ اس دفعہ ضرور فرقان کو منا لے گی۔لیکن مجیدہ کی بجائے کسی اور نوکرانی کی بات ماننے والی نہیں تھی۔
”ہائے۔۔نو ممی،شی از ٹوگڈ۔کراچی میں ایماندار نوکر کہاں ملتے ہیں۔اینڈ یو نو،شی از سو ٹرسٹ وردی۔آپ کو پتا ہے ناں بیچاری مجبوراًً نوکری کررہی ہے ورنہ ’سید زادیاں‘ کہاں نوکری کرتی ہیں۔میرا تو پورا گھر اُسی کے حوالے ہوتا ہے۔مجھے تو کچھ بھی لاک کرنے کی عادت ہی نہیں۔“
ارینہ ہمیشہ اپنی ملازمہ مجیداں کی سائیڈلیتی اور اس میں کوئی شک بھی نہ تھا کہ وہ بیحد شریف، ایماندار اورذمہ دار تھی۔یہ تو اسکی مجبوری تھی جو اُسے اپنے گوٹھ سے اتنی دور کراچی میں نوکری کرنی پڑ رہی تھی۔اسکا گاؤں مٹیاری سے دس کوس کے فاصلے پہ تھا،جہاں اس کا میاں
فقیر محمدشاہ کسی شوگر مل میں مزدور تھا۔بڑی لمبی چوڑی فیملی تھی۔بوڑھے ماں باپ،تین غیر شادی شدہ اڈھیر عمربہنیں،ایک بھائی،چاربچے جو مدرسے جاتے تھے۔دو مجیداں کے پاس تھے۔ ایسے میں سب کا پیٹ پالنا بہت مشکل تھا۔ مجبو راً اُسے گوٹھ میں ر شتے داروں کو بنا بتائے کرا چی آنا پڑا۔ اندرونِ سندھ تو شایداُسے کوئی نوکری پہ نہ رکھتا۔وہ بھلے غریب سہی لیکن تھی تو سید زادی۔کون یہ گناہ اپنے سر لیتا۔ البتہ کراچی میں لوگ اپنی ضروریات کی خاطر اتنی گہرائی میں جاتے ہی نہیں تھے۔وہاں ایماندار نوکروں کا کال تھا۔لہذاجب وہ کسی کی معرفت ارینہ کے گھر پہنچی۔ تو چند دن توارینہ نے اُس پر نظر رکھی اپنے گھر،پسند کے کھانے اور شہر کے طور طریقے سکھائے۔اپنا پرانا موبائل بھی دے دیا،جس میں چند ضروری نمبرز بھی ڈال دیئے تاکہ بوقتِ ضرورت کو ئی مشکل نہ ہو۔مجیدہ موبائل سے بہت بدکتی تھی۔ ایک دن سیکھتی دوسرے دن بھول جاتی۔اس کی ساس اور مما نے بار ہا کہا۔’’کس جاہل دیہاتی کوسکھا رہی ہو۔اُس بیچاری کو بھی مشکل
میں ڈال رہی ہو۔‘‘ لیکن ارینہ نے اُسے تھوڑا بہت سکھا کر ہی چھوڑا۔ پھر سب کچھ اس کے حوالے کرکے سکھ کا سانس لیا۔
ارینہ کے شوہرفرقان نے شادی کے دوسال کے بعد ہی ڈیفنس ۵ میں اپنا بنگلہ بنا لیا تھا۔وہ خود دوبئی میں ملازمت کرتا تھا۔ روزانہ ہی ویڈیو چیٹنگ ہو جاتی لہذا دوری کا احساس بھی کم ہوتا اور روز مرہ کے مسائل کے حل بھی۔یوں بھی ہر تہوار پر آنے کے علاوہ سال میں ایک مہینے کی چھٹی پر پاکستان آتا تو ہفتہ دوہفتے کے لئے باہر گھومنے نکل جاتے۔کبھی پاکستان کے ناردن ایریاز تو کبھی بیرون ِممالک کے دورے۔ گھومنا پھرنا،ہوٹلنگ،موویز دیکھنا،پارٹیز کرنا۔دونوں کے دوستوں کا اک وسیع حلقہ تھا ،وقت کا پتا ہی نہ چلتاوہ اپنی لائف خوب انجوائے کرتے۔
فرقان اور ارینہ کے والدین کراچی ہی میں رہتے تھے اور فون پر گپ شپ کے علاوہ اکثر آنا جانا بھی لگا رہتا۔لہذا فرقان کو زیادہ پریشانی نہ ہوتی پھر سرونٹ کوارٹرز میں ہمیشہ ہی ملازم رہتے۔یوں تو ان کا ڈرائیور بھی بھروسے والا تھا لیکن خاص طور پر مجیدہ کا بڑا ہی آسرا تھا۔وہ سارا وقت کام میں جتی رہتی۔ اس کا چھ سالہ بیٹا عبدل بھی بھاگ بھاگ کر چھوٹے موٹے کام کر دیتا۔اِس سے چھوٹا
علی رضا تو بالکل اللہ میاں کی گائے تھا۔خود اُس کی وفاداری کا تو یہ عالم تھا کہ اولاد کی پیدا ئش پر بھی لمبی’میٹرنیٹی لیو‘ نہ لیتی۔آخری دن تک اپنا مٹکے جیسا پیٹ سنبھالے اِدھر سے اُدھر کام میں مصرو ف رہتی۔ ہانپنے لگتی تو لمحہ بھر سانسیں استوار کرنے کو کچن میں جا کر اسٹول پر بیٹھ جاتی۔پھر ہمت کرتی،پیٹ کے نچلے حصے کو دونوں ہاتھوں سے سنبھالے’یا مولا مدد‘کا ورد کرتی دوبارہ جت جاتی۔کبھی منہ میں دوپٹہ ٹھونسے ہانڈی بھون رہی ہے تو دوسرے چولھے پر چاول چڑھائے ہوئے ہیں۔مشین سے جوس نکال کر فرج میں رکھا ہے۔ تو اُسی حالت میں تیزی تیزی سے روٹیاں بیل کرتوے پر ڈال رہی ہے۔
ارینہ کئی بار آ کر اُسے منع کرتی اور آرام کا مشورہ بھی دیتی۔وہ اس کے کھانے پینے کا بھی بہت خیال کرتی،جوس کا گلاس بھر کر پکڑا دیتی،کبھی فروٹ اور کبھی کچھ او ر۔حالانکہ سارا باورچی خانہ اُسی کے حوالے تھا، لیکن اُسے پتا تھا کہ اُس کی اجازت کے باوجود وہ کبھی بھی خود سے نہیں لے گی۔ اُس نے پچھلی ڈلیوری پر اُسے بہت کہا تھا۔
”تم اپنے گھر چلی جاؤ۔وہاں تمہاری دیکھ بھال کے لئے بہت لوگ ہیں۔تم اچھی طرح آرام کر پاؤ گی۔یہاں تو میرے منع کرنے کے باوجود کام میں لگی رہتی ہو۔“ مگر اُس نے سختی سے جانے سے انکار کردیا تھا۔
(۔”توھاں کھے خبر نا آھی باجی، ہُتھے ڈاڈی گرمی آھی۔پکھا بھی لگل نہ آھن۔مائی بھلے پیٹ ساں چھو نہ ھُجے،پر سبھ کم کرنا پونداآھن۔گھر میں بوڑ مانی، تھاؤں ملنڈ، بوھارو،باہر جاکم،بنی جو کم اور وری پانٹی وٹھی اچن۔کھوہ الاہی پرے آھی۔کاٹھی تے ایترے مانٹھو جی مانی پچائنڈ سولو نہ آھی۔توھان کے چھا بدھایاں ھک ھک مانٹھو کیتری مانی کھائندو آھی۔“)
وہ سندھی اردو مکس کرکے ارینہ کے سامنے بڑبڑاتی رہی تھی، اُسے اتنا ہی سمجھ آیاکہ”باجی، آپکو بتا نہیں ہے کہ وہاں کتنی گرمی ہے اور پنکھے بھی نہیں ہیں۔عورت بھلے پیٹ سے ہی کیوں نہ ہو لیکن اُسے سارے کام کرنے پڑتے ہیں۔گھر میں روٹی سالن،برتن،جھاڑوپوچا صفائی،باہر کے سب کام، کھیت پہ کام اور پھر پانی بھر کے لانا،کنواں بھی بہت دور ہے۔لکڑی کے چولھے پر اتنے لوگوں کے لئے روٹیاں پکانا آسان نہیں ہے۔اب آپ کو کیا بتاؤں ایک ایک آدمی کتنی روٹی کھاتا ہے۔“
مجیدہ کے دکھڑے سن کر وہ خاموش ہو گئی۔ اُس نے سوچا کہ وہ اپنی مما سے پوچھ کر کسی ہوسپٹل میں اس کی بکنگ کروا دے گی۔اُسے خود تو کوئی تجربہ نہ تھا اور نہ ہی مجیدہ سے پوچھنے کا کبھی خیال آیا۔اُس کی ساس جب مجیدہ سے زچگی کی تاریخ کا پوچھ رہی تھیں تب بھی اُس نے کوئی دھیان نہ دیا تھا۔البتہ اُن کی بڑبڑاہٹ پر مسکرا کر ان کی طرف دیکھا تھاجو مجیدہ کے شرمانے پرمنہ بنا کر کہہ رہی تھیں۔
”کمبخت شرما تو ایسے رہی ہے جیسے پلوٹھی کی اولاد جننے جا رہی ہے۔“
ارینہ کوتوبس اپنی’سموکی‘ کی فکر تھی۔وہ جتنی دیر آفیس میں رہتی۔بار بار گھر فون کرکے اُس کی خیریت دریافت کرتی رہتی۔اس کے کھانے پینے کے ٹائمنگ سے لیکرسونے جاگنے تک کا پوچھا جاتا اور پھر’پِیٹ ڈاکٹر‘ کو مکمل رپورٹ دیتی۔اور وہاں سے تسلی بخش جواب پا کر ہی اس کی تسلی ہوتی۔فرقان باہر تھا،بچے تھے نہیں لہذا اس کی توجہ کا مرکز صرف لاڈلی سموکی ہی تھی۔ جسے فارغ اوقات میں وہ گود میں اُٹھائے اُٹھائے پھرتی۔ناز نخرے،لاڈ پٹار سب اسی پہ ختم تھے۔دن میں نجانے کتنی بار’او مائی چائلڈ‘کا ورد ہوتا۔اب جب سے ڈاکٹر نے بتلایا تھا کہ وہ کسی وقت بھی بچے دے سکتی ہے،تو اس کی بے چینی دیدنی تھی۔اس نے ورانڈے کی بڑی الماری کا نچلا خانہ خالی کروا کر وہاں پتلا سا بستر بچھوا دیا تھا۔سائیڈ میں پرانی چادر لگا دی تھی۔دوچار بار بلی کو بھی اسکا معائنہ کروایا گیاتاکہ وہ ’یوز ٹو‘ ہوجائے۔مجیدہ کو بھی ڈھیروں ہدایات دی ہوئی تھیں۔
آج بھی آفیس کے لئے نکلتے ہوئے اُس نے کچن میں مصروف مجیدہ کو تلقین کی تھی، ”اگر ’سموکی‘کو ذرا بھی پریشان دیکھو تو مجھے فون کرنا۔یا ڈاکٹر کو بتلا دینا،بھولنا نہیں۔“ اُس کی بہت مدہم ’جی‘ پر ارینہ نے مڑ کر اس کا چہرہ دیکھا۔جو پسینے میں شرابور تھااوربہت ذرد لگ رہا تھا۔
”تمہاری طبیعت صحیح نہیں لگ رہی۔یہ کام چھوڑواور پنکھے کے نیچے جا کر لیٹ جاؤ۔اور پہلے یہ جوس پی لو۔“اس نے جوس میں گلوکوز ملا کرگلاس اُسے تھما تے ہوئے کہا۔”اور ہاں مجھے اپنی ڈلیوری کی تاریخ بتاؤ تاکہ میں کسی ڈاکٹرنی سے ٹائم لوں۔تمہیں تاریخ تو پتا ہے ناں؟“
”نہیں۔۔مولا جانے،دائی نے مہینہ بتلایا تھا ،پر یاد نہیں ہے۔درد ہو گاتو خود بخود پتا چلے گا۔“اُس نے منمناتی سی آواز نکالی۔
”مجیدہ یہ کیا حماقت ہے اب تم شہر میں ہو۔تمہیں اپنے آپ کو کسی ہوسپٹل میں اِن رول کروانا چاہیے۔ایسی حالت میں تو تمہارے شوہر کو تمہارے پاس ہونا چاہیے۔اُسے فون کر و وہ کچھ دنوں کے لئے آ جائے۔“
”ناں ناں باجی،میرے مرس کا مالک بہت سخت ہے۔اسکی پگار کاٹ لے گا۔گھر میں مشکل ہوجائیگی،پہلے ہی بہت تنگی ہے۔“
’’اچھا تم یہ کھانا پکانا چھوڑو۔میں شام کو تمہیں کسی ڈاکٹرنی کے پاس لے چلوں گی۔“یہ کہتی ہوئی وہ آفیس نکل گئی۔ مگرمجیدہ نے اپنا کام نہ چھوڑا۔کبھی پیٹ سنبھالتی تو کبھی کمر درد کی جگہ پکڑتی کام میں جتی رہی۔دیر سویر کام تواُسی کو کرنا تھا ناں۔پھر اسکا بیٹا عبدل بھی اس کی کچھ نہ کچھ مدد کر رہا تھا۔وہ ماں کے کہنے پر ’سموکی‘ا ور ’ میکس‘کی چوکسی پہ بھی لگا تھا۔جو اندر اے۔سی میں صوفے پر لیٹے ہوئے تھے۔کھانے سے فارغ ہو کر اُس نے جھاڑو پوچے کیلئے آئے ہوئے’فضلو‘سے بیڈ رومز اور ڈرائنگ روم کی صفائی کروائی۔جو وہ ہمیشہ اپنی نگرانی میں کرواتی تھی،باقی گھر اور لان میں وہ خود ہی لگا رہتا تھا۔کام ختم کرکے باہر نلکے سے منہ ہاتھ دھوتا اور سیدھا کچن میں
آکر چائے کی فرمائش کرتا۔جب تک مجیدہ چائے کارڑھتی وہ مسلسل ادھر اُدھر کی خبریں سناتا رہتا۔ ا پنے مسائل،محلہ پڑوس،سیاست،
کرکٹ اور خصوصاًاُن چار گھروں کی کہانیاں جہاں وہ روزانہ کام کرنے جاتا تھا۔ہر جگہ وہ منہ بند رکھتا لیکن مجیدہ میں نجانے اُسے کیا نظر آیا تھا جووہ اپنا دل کھول کے رکھ دیتا۔کھبی کھبار وہ اُ سے ماؤں کی طرح سمجھاتی۔
”کسی کی چغلی نہ کرا کر۔کسی دوسرے کا بھید لینا بھی گناہ ہے اور اُسے دوسرے پر کھولنا بھی گناہ۔مولا سائیں سب پہ رحم کرے،تو نیک لڑکا ہے بس اپنے کام سے کام رکھ۔ہم سب روٹی کے پیچھے ہیں۔تَو بس جو تیرا روزی روٹی کا در ہے اُن کی کھوج کیوں کرتا ہے چَریاَ۔“
وہ ہمیشہ سندھی میں سوچتی اور پھر ملی جلی اردو میں بیان کرتی۔اپنائیت اور سچ میں گھلا یہ لہجہ کانوں کو بہت بھلا لگتا ۔ فضلو اُس وقت تومان جاتا لیکن پھر بھول جاتا،دوسرے دن وہی خبر نامہ اسٹارٹ۔فضلو نے ہی اُسے مائی فتاں سے ملوایا تھاجو رحمت اللہ قریشی صاحب کے بنگلے پہ کام کرتی تھی اور وہیں اپنی بیوہ بیٹی کے ساتھ سرونٹ کوارٹر میں رہتی تھی۔یہاں آنے سے پہلے وہ دائی کا کام کرتی تھی۔اُس نے مجیدہ کو کہہ رکھا تھا کہ جب بھی ضرورت پڑے عبدل کو بھیج کر مجھے بلوا لینا۔ بلکہ فضلو نے تو مائی فتاں کا نمبر بھی اس کے موبائل میں ڈال دیا تھا۔اور عبدل کو پکا کروا دیا تھا کہ جب بھی کوئی پریشانی ہو وہ بلا جھجھک فون کر لے،بھلے رات ہی کیوں نہ ہو۔
مجیدہ سارے کام نمٹا کر اتنا تھک چکی تھی۔کہ اس سے ایک قدم اُٹھا نا بھی دوبھر ہو رہا تھا۔نا بیٹھنے میں چین آ رہا تھا ناں لیٹنے میں۔وہ تھوڑی دیر کیلئے اپنے کوارٹر میں آرام کرنے بھی گئی تھی لیکن عجب سی بے چینی تھی۔تھوڑا تھوڑا درد تھا۔بار بار یہی خیال آتا کہ کہیں رات میں زچگی والادرد نہ اُٹھ جائے۔حالانکہ وہ درد اُس کے لئے نیا نہیں تھاوہ چھ بار اس درد کا سامنا کر چکی تھی۔اور ہر دفعہ بیٹا جننے پراپنے
مرس (شوہر)اور مائٹوں (رشتہ داروں)کی’شاباس‘ بھی وصول کر چکی تھی۔لیکن جب بھی وہ لمحہ آتا تھاتوپہلے سے ہی ڈرو خوف کی سوئیاں اس کے پورے بدن میں جبھنے لگتی تھیں۔ہر دفعہ اُسے لگتا کہ بس وہ اس بار نہیں بچ پائے گی وہ درد سے مر جائے گی۔پچھلی دفعہ ُاس کی صحت دیکھتے ہوئے خالہ کی بیٹی نے اُسے بچے بند کروانے کا مشورہ بھی دیا تھا۔جس پر اس نے یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اس کا مرس نہیں مانے گا۔جس پر وہ چڑ کر بولی تھی۔
”ان ُمرسوں‘کا کیا ہے۔انہیں بس اپنا مزا اور نام چاہیے۔مرتی تو بیچاری عورت ہے ناں۔ایک دفعہ بچہ جَن کر دکھائے تو پتا چلے کہ کتنا ’مرس مانٹھو‘ ہے۔“ اس بار اسنے فقیر محمد شاہ سے اپنے خوف کا اظہار کیا بھی تھا۔جس پربجائے تسلی دینے کے وہ باقاعدہ غصہ ہو گیا تھا۔
”متھّو (دماغ) خرا ب ہو گیا ہے تیرا۔اللہ کی دین ہے،مولا سائین کا ’لکھ لکھ تھورا‘جو ہمیں چھ چھ’ پُٹ‘(بیٹے)دیئے ہیں۔میں برادری میں سینہ چوڑا کر کے چلتا ہوں۔ہر بار سائیں شہباز قلندرؒ کی حاضری بھری ہے۔متھا ٹیک کے ایک اور ’پُٹ‘ کی منت مانگی ہے اور تو بند کرنے کی بات کرتی ہے چری عورت۔ تُو کیا اور عورتوں سے نرالی ہے جو بچہ پیدا نہیں کرے گی۔یہ کفر کی بات تیرے مغز میں کس نے بھری۔جس نے پیدا کیا ہے وہ انہیں کھانے کو بھی دیگا،یہ تو ہمارا سہارا ہیں۔“ اور وہ اس کے غصے سے ڈر کر چپ ہوگئی تھی۔
”امّاں ابھی تک باجی نہیں آئی؟ امّاں مجھے بھوک لگی ہے’بوڑ مانی‘ دو ناں“
عبدل نے آہستہ سے کہا۔ وہ کافی دیر سے ارینہ کا انتظار کر رہی تھی۔وہ تین چار بجے کے درمیان گھر لوٹ آتی تھی۔کبھی کبھاررش ہوتا یا ٹریفک میں پھنس جاتی تودیر ہوجاتی لیکن ایسی صورت میں وہ فون ضرور کر دیتی لیکن اب پانچ بھی بج گئے تھے،مجیدہ پریشانی ہونے لگی۔اس نے عبدل اور علی رضاکو کھانا نکال کر دیا اور خود ارینہ کو فون کرنے لگی۔کئی بار کوشش کے بعد مو بائل لگا۔ارینہ کی آوازبہت پریشان تھی۔اُس نے بتلایا کہ اسکے چھوٹے بھائی کا کراچی موٹر وے پر ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔جس میں وہ اور اس کے دوست زخمی ہوگئے ہیں اورانہیں حیدرآباد ہوسپٹل لے جایا گیا ہے۔ہم لوگ بھی وہاں جا رہے ہیں۔بس تم دعا کرنا سب ٹھیک ہو،گھر آنے کا وقت نہیں تھا۔نا ہی اس پریشانی میں فون کرنے کا خیال آیا۔تم سموکی اور گھر کا خیال کرنا۔ہمارا کچھ پتا نہیں کب واپس آئیں۔اللہ سب خیر کرے۔
مجیدہ کو یکدم تنہائی اور خوف نے آ دبوچا۔وہ سوچ میں ڈوبی ٹی وی لاؤنچ میں آکر فرش پر بیٹھ گئی اور سوچوں میں ڈوب گئی۔اس کی نگاہیں بے چینی سے ٹہلتی ’سموکی‘ پر تھیں۔جو اُسے دیکھ کر اس کے پاس آئی،اپنا منہ اسکے پیر پر رگڑا اور میاؤں میاؤں کرنے لگی۔وہ ایکدم چونک پڑی اور زور سے عبدل کو آواز لگائی۔
”عبدل جا اسکے لئے دودھ اور بسکٹ لے آ۔“ و ہ کچن گیا اور ان کے پیالے اور پلیٹ میں دونوں چیزیں لے آیا۔لیکن سموکی نے انہیں صرف سونگھا اور پیچھے ہٹ گئی اور ہلکی ہلکی آوازنکالتے ہوئے دوبارہ ٹہلنے لگی۔
مجیدہ خود اُٹھی اور الماری سے نئے ٹن سے ان کا کھانا نکال کر سامنے رکھا مگر سموکی نے وہ بھی نہ چکھا۔اس کی پریشانی دیکھ کر عبدل نے کہا۔
”امّاں اُسے دوکان سے بسکٹ لا دوں شاید وہ کھالے۔“
مجیدہ پہلے ڈری کہ کہیں باہر کی چیز سے سموکی کو کچھ نہ ہو جائے۔لیکن پھر سوچا اگر کچھ کھلایا نہیں اور بھوک سے کچھ ہوگیا تو کیا ہو گا۔انہی سوچوں میں غلطاں اس نے دوپٹے کے پلّو سے دس روپے کا نوٹ کھول کر عبدل کو پکڑا دیا۔جو بھاگابھاگا گیا اور مین روڈ کراس کرکے تعمیر ہوتے ’مال‘اور فلیٹس کی پچھلی طرف ’مانڈلی‘سے بسکٹ کا چھوٹا پیک لے آیا۔یہ مانڈلی ان مزدوروں کے لئے ہی کھولی گئی تھی جو یہاں کام کرتے تھے۔ورنہ یہاں دور دور تک دوکانیں ناپید تھیں۔
نازک مزاج’سمو کی‘ نے انہیں بھی سونگھا اور ناپسند کرکے پھر بے چینی سے پرے ہوگئی۔’میکس‘ نے بھی سونگھنے کے بعد انہیں ’ریجیکٹ‘ کر دیا۔ اور اپنی دم سے اُسے بہلانے کی کوشش کی لیکن سموکی نے غصہ میں اک تیزچڑ چڑی آواز نکالی اور زور سے اُسے پنجہ مارا۔جس پر میکس دُم دبا کر پرے بیٹھ گیا۔
”اماّں،شاید یہ بسکٹ نقلی ہے،بلی نہیں کھاتی میں کھا لوں؟“ اُس کے کچھ بولنے سے پہلے ہی اس نے ’سموکی‘ کی پلیٹ سے بسکٹ اُٹھا کرخود کھا لیئے اور منہ َچلاتے ہوئے یوں مسکرایا جیسے برسوں بعد من پسند کھاجا ملا ہو۔
کوئی اور وقت ہوتا تو وہ اپنی ما ں سے تھپڑ نہیں تو ڈانٹ ضرور کھاتا۔یوں بھی وہ دن میں کئی بار ما ں کے ’موچڑے‘ کھانے کا
عادی تھا۔لیکن اس وقت وہ اتنی پریشان اور غائب دماغ تھی کہ اُسے کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا۔پھرعبدل نے ہی صلاح دی۔’ ”امّاں باجی نے ڈاگڈر کو فون کرنے کا کہا تھا،اُسے پوچھیں۔“ یہ بات اس کے دل کو لگی۔بڑی مشکل سے فون لگا، ساری بات سننے اور مجیدہ کی حالتِ زار کا اندازہ لگانے کے بعدڈاکٹر نے اپنا اسسٹنٹ بھجوا دیا۔جس نے’سموکی‘کی کیفیت اور ارینہ کی غیر موجودگی کی وجہ سے اُسے اپنے کلینک لیجانا مناسب سمجھا،وہیں سے اُس نے ارینہ سے بھی بات کی۔اورپھر ’سموکی‘ کی ڈلیوری کیلئے اُسے کلینک لے گیا۔میکس چند منٹ پریشان ہوا پھر خاموشی سے جا کر کارپیٹ پر لیٹ گیا۔مجیدہ نے بھی سکھ کا سانس لیااوراُٹھ کر کچن میں آ گئی۔ جہاں عبدل پلیٹ میں روٹی سالن لئے کھڑا تھا،رات ہونے کو آئی تھی لیکن ابھی تک اس کی امّاں نے کھانا نہیں کھایا تھا۔
وہ گرتی پڑتی اپنے کوارٹرمیں پہنچی،دکھتے سر کو کس کر باندھااور چارپائی پر لیٹ کر ہائے ہائے کرنے لگی۔عبدل کو کچھ اور سمجھ نہ آیا تو وہ ماں کی پائینتی بیٹھ کر اس کے پیر دبانے لگا۔اُس کی دیکھا دیکھی علی رضا بھی اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے شروع ہوگیا۔ جس سے اُسے کچھ آرام ملا اور اس کی آنکھ لگ گئی۔اُسے پتا ہی نہ چلا کہ کب عبدل نے’میکس‘ کو کھانے کو دیا۔کب خود کھایا۔اُسے تو اس ظالم درد نے اُٹھایا۔وہ پیٹ پکڑے اپنی چیخیں روکنے کی کوشش میں منہ تکیہ پر پٹخ رہی تھی۔آنکھوں سے مسلسل آنسوں بہہ رہے تھے۔اُس نے بڑی مشکل سے عبدل کو کہا کہ ماسی فتاں کو بلا لائے۔وہ ماں کی حالت پرپہلے ہی روہانسا ہورہا تھا۔بھاگا بھاگا گیااور اُسے بلا لایا۔وہ اپنی بیٹی کو بھی ساتھ لے آئی۔بنگلہ سے عبدل کو جاتے اور پھر دو عورتوں کو اندر گھستے دیکھ کر رات کا چوکیدار اپنا ڈنڈا کھٹکھٹاتا ہواآیا اور کڑک دار آواز میں زور سے پوچھا
”کون ہے اِدھر؟ کیا ہورہاہے۔؟“
جواباًگیٹ سے اندرگھستی فتاں نے جلدی جلدی اُسے صورتِحال سے آگاہ کیا۔ ساتھ ہی خان لالہ کو درخت سے نیم کے پتے بھی توڑ کر دینے کو کہا۔وہ سب ایک دوسرے کو جانتے تھے اوراپنے حالات بھی۔
ماسی فتاں نے جاتے ہی پہلے مجیدہ کے پیٹ کو ٹٹولا پھر خوب ڈانٹا کہ مجھے پہلے نہیں بلا سکتی تھی۔ عبدل کو بالٹی میں گرم پانی لانے کو کہا۔اپنے ساتھ لائی تھیلی ایک طرف رکھی اوراُسی کی ہدایت پر ایک کونے میں جمع پرانی چادر اور کپڑ ے نکالے ۔ عبدل اور علی رضاکو باہر کر کے دروازہ اندر سے بند کر لیا اوردونوں ماں بیٹی اللہ کا نام لیکر جت گئیں۔باہر جب عبدل نے بچے کے رونے کی آواز سنی۔توگھبرا کر چیخا
”ماسی کیا ہوا؟ “
”بہن ہوئی ہے تیری‘‘ اندر سے جواب آیا۔فتاں نے بچی کی آنول نال کاٹ کر چِندی میں لپیٹ کر ایک پاسے رکھ دی اور بچی کو صاف کرکے ایک چادر میں لپیٹ دیا۔مجیدہ کا خون بہت بہہ گیا تھا۔وہ پہلے ہی ہڈیوں کا ڈھانچہ تھی۔اسوقت وہ نیم بیہوشی میں پڑی تھی۔فتاں نے دودھ گرم کرکے بڑی مشکل سے اُسے پلایا۔نومولودہ کو شہد کی انگلی چٹائی اور صبح ہونے تک اس کے سرہانے بیٹھی رہی۔
تیسرے دن شام کو جب ارینہ واپس لوٹی تو قدرے مطمئن تھی کیونکہ اسکے بھائی کو معمولی زخم آئے تھے۔اور اسکی فیملی والے اُسے واپس کراچی لے آئے تھے۔
کمرے میں گھستے ہی ’سموکی‘نے انتہائی فاتحانہ نگاہوں سے اسکا استقبال کیا۔اور پیروں میں لوٹنے لگی۔
”او مائی چائلڈ“ کہتے ہوئے اس نے اُسے گود میں اُٹھالیا۔ لیکن دوسرے لمحے ہی اس کی نظر بڑی سی ’کین باسکٹ‘پر پڑی جس میں جھالر والا غلاف بچھا ہوا تھا اور کناروں پرپنک رنگ کی ربن سے ’بوَ‘باندھ کر ڈیکوریٹ کیا گیاتھا۔ یہ اُس
’انٹر نیشنل کلینک‘کا ’کومپلیمنٹری تحفہ‘ اور اس اسٹائلش باسکٹ میں تین نرم خوبصورت’اون کے گولے‘رکھے ہوئے تھے۔
” واؤوو۔۔ او مائی گاڈ!! سو بیوٹی فل،سو لولی“ اس نے سموکی کو اتار کر ان تینوں کو اُٹھا لیا۔اور ان کے نرم گرم فر جیسے بالوں کو آہستگی سے چھونے لگی۔ان کی نرماہٹ اس کے دل میں اتر رہی تھی۔وہ صوفے پر بیٹھ کرنہایت انہماک اور پیار سے انہیں سہلاتی رہی۔کہ عبدل نے آکر سلام کیا،اس نے اسکی خیریت پوچھی اور کہا۔
”مجیدہ کوارٹر میں ہے؟ اُسے بلا لاؤ۔“
”میری بہن ہوئی ہے، امّاں سوئی ہوئی ہے“ اس نے سر جھکا کر ہولے سے کہا۔
”کیا مطلب ،بہن ہوئی ہے اور وہ اسپتال کی بجائے کوارٹر میں ہے۔“ وہ تیزی سے اُٹھی اور کچن سے گزر کر پیچھے بنے کوارٹر میں داخل ہوئی۔اک شدیدناگوار سی بدبو نے اس کا استقبال کیا،اُسنے غیر ارادی طور پرہاتھ میں پکڑا ٹشو ناک پہ رکھ لیا۔سامنے پلنگ پر مجیدہ چادر اوڑھے لیٹی تھی۔اس کا رنگ ہلدی کی طرح زرد تھا اور آنکھیں مزید اندر کو دھنسی ہوئی لگ رہی تھیں۔اس کے پہلو میں ایک بیحد کمزور بچی سو رہی تھی۔جسے پرانی سی سفیدچادر میں تقریباً جکڑا ہوا تھا۔دور سے وہ بالکل مردہ اور مصری ’ممی‘کی طرح ہنوط زدہ لگ رہی تھی۔کمرے میں دروازہ،کھڑکی اورپنکھا بند ہونے کے باعث شدید گھٹن تھی۔ اُسے اس ماحول میں بہت گھبراہٹ ہو رہی تھی،اُس نے بچی کو اُٹھا کر دیکھنے کا خیال بھی ترک کر دیااورکھڑے کھڑے جلدی میں مجیدہ سے اسکی خیریت معلوم کی۔ساری تفصیل اس نے لیٹے لیٹے ہی بتلا ئی۔شوہر کے آنے کا پوچھا تو وہ بولی۔
”وہ نہیں آئے گا اس نے کہا ہے، ’دھی دیکھ کر کیا کروں گا خوامخواہ دیہاڑی کھوٹی ہوگی پُٹ (لڑکا)ہوتا تو آجاتا۔“
اُس کو مجیدہ کے جاھل بیوقوف شوہر کی ذہنیت پر بہت غصہ آیا لیکن وہ اُسے مبارکباد دیتی ہوئی باہر نکل آئی۔اور جھاڑو لگاتے فضلو کو کہا۔ ” فوراًمجیدہ کا کوارٹر اچھی طرح فینائل سے صاف کرو ۔“
ارینہ نے ’روم فریشنر‘ کی خوشبو میں بسے، ائر کنڈیشنڈکمرے میں نرم دبیز صوفے پر بیٹھ کردوبارہ اون کے اُن نرم گرم گولوں کو اپنی گود میں بٹھایا اورپیار سے اُن کے مخملیں بالوں کوسہلانے لگی۔
Comments are closed.