عالمی افسانہ میلہ 2021
دوسری نشست
افسانہ نمبر 36
: “زنیم”
مصنف: جی۔حسین
شیخوپورہ, پاکستان
پو پھٹنے والی تھی۔ ترتیب سے اگائے گئے جنگل کے کہیں درمیان میں تعمیر شدہ آفیسرز ریسٹ ہاوس کی عمارت نیم روشنیوں میں, اردگرد تاحد نگاہ پھیلے تاریک جنگل میں عجیب سا تاثر دی رہی تھی۔ اس ریسٹ کے برآمدے سے ایک عورت باہر آئی ,سبک خرامی سے اپنی گاڑی میں آ بیٹھی تھی۔ ۔ ۔ جب کہ اسی ریسٹ کی ایک خوابگاہ میں ایک جواں مرد, نیم برہنہ سا, سر جھکائے بیٹھا تھا۔
وہ دونوں شادی شدہ تھے۔ عورت دو بچوں کی ماں تھی اور اس کا خاوند کسی خلیجی ملک میں اچھے عہدے پر ملازم تھا۔
اس زمانے کے لحاظ سے۔ ۔ ۔ علاقے کی سب سے زیادہ پڑھی لکھی, ذہنی طور پر خود مختار رہنے والی اور بدنی طور پر قیامت ڈھانے والی لڑکی کو دل دے بیٹھا, شادی کی اور اسے باغ لذت کے پھلوں سے آشنا کرکے, چند ماہ بعد ہی باہر نوکری کرنے سدھار گیا۔
اس عورت نے اپنے خاوند کو باہر جانے سے بہت روکا تھا۔ اس کے پاس ایک ہی بڑی دلیل تھی۔ “شاہد عزیز صاحب! مجھے اس وقت سے بھی زیادہ غور سے دیکھو, جس وقت شادی سے قبل تم میری راہ میں کھڑے مجھے دیکھا کرتے تھے۔ ۔ ۔ وہ ہر رات اس کے سامنے, بستر سے اتر کر, بالکل برہنہ کھڑی ہو جاتی۔ ۔ ۔ وہ کہتی دیکھو کیا تمھیں ایسے نسوانی اعضاء علاقہ بھر کیا پورے شہر بھر میں کہیں بھی کسی بھی عورت میں دکھائی دیتے ہیں؟ تم نے منتیں مان کر مجھ سے نسبت بنائی تھی, جس پر مجھے فخر ہے۔ اب مجھے تنہا مت چھوڑ کے جاو! یہ بدن اپنا حق مانگے گا۔ ہر صبح کی تازگی, ہر دوپہر کی گرمی, پھولوں کی مہکار میں, جاڑے کی راتوں میں, برستی بارشوں کے شور میں یہ بدن اپنا حق مانگے گا۔ دیکھو! میری طرف دیکھو!” لیکن شوہر نامدار کو مدت سے باہر جانے کی دھن سوار تھی, سو زنیرہ کی موثر ترین دلیلیں بھی دھری کی دھری رہ گئیں اور وہ باہر ملازمت کرنے چلے گیا۔
شاہد عزیز کے جانے کے بعد خلوت گاہ کی تنہائی اسے کاٹنے کو آتی۔ وہ اکثر برہنہ ہو کر, بتیاں گل کرکے اپنے بدن سے پیار کرتی پر جلدہی اس پر اکتاہٹ ۔ ۔ ۔ شدید اکتاہٹ طاری ہو جاتی۔ اسے جیتا جاگتا, جلا دینے والی حدت خارج کرتا مردانہ وجود چاہیے ہوتا۔
کنوار پن کے دن تو اس نے درس گاہوں کے معلمین کے اخلاقی دروس اور حد سے بڑھی خود پسندی کے تحت اتھری اور خود پسند گھوڑی کی طرح گزار لئے اور اپنی ذات سے محبت میں منہمک رہی۔ ۔ ۔ لیکن, اب اس پراسرار اور پر مسرت پھل کی طلب، نشہ کا روپ دھار گئی تھی۔ اب, اس کے شوہر کے چلے جانے کے بعد, علاقے کے کئی گرگ_ باراں ۔ ۔ ۔ شیکسپئر کے دئیے گئے سنہری اصول:
All the men are enticers and women to be enticed
کے مصداق کئی طرح کے سنہری جال بچھا کر اس کی راہوں میں بیٹھنے لگ گئے تھے۔
خاوند کے جانے کے بعد, اس نے جلد ہی فیصلہ کر لیا کہ وہ خلع لے کر کسی باہر کے ملک نہ جانے کے شوقین سے عقد_ ثانی کر لے گی۔ وہ اسی تصور کو پختہ کر ہی رہی تھی , کہ خاوند کی طرف سے دوسرے ماہ ہی اس کے بینک اکاونٹ میں اتنے پیسے آئے کہ وہ دنگ رہ گئی۔ والدین کے گھر اس نے آسودگی دیکھی تھی لیکن یہ پیسے تو صرف اس کے اپنے تھے۔ اس نے اگلی بار خاوند سے فون پر بات کرتے ہوئے پوچھا تو اس نے بتایا ہر ماہ لگ بھگ اتنے ہی پیسے بھیجتا رہے گا۔ خاوند نے اسے کہا کہ وہ اپنا گزارہ کرکے باقی ماندہ رقم پس انداز کرتی رہے تاکہ نئے ٹاون میں پلاٹ خرید کر عمدہ سا گھر تعمیر کرے۔ ۔ ۔ باقی جو اللہ کو منظور۔ سنہ نوے کی دہائی کے اوئل میں پینتیس ہزار روپیہ مہینہ ایک تکڑی رقم مانی جاتی تھی۔ اس نے خلع لینے کا خیال ذہن سے خارج کر دیا۔
اس دن کے بعد زندگی کے لیے آسائشات کا سامان بڑھتا گیا اور کالج کی کچھ سابقہ سہیلیوں سے رابطے اس کی وقت گزاری میں ممد و معاون ثابت ہونے لگے۔ آئے دن سہیلیوں کو اپنے گھر دعوت پر بلانا عادت سی بننے لگی۔ اس سب کے باوجود رات کی تنہائی, پھٹ پڑنے کو بے تاب بدن یا سناٹا طاری کر دینے والی گرمی کی دوپہروں میں جنسی فعل کی لذت میں گم ہو کر پسینے کا غسل لینے کا خیال اس کے لیے سوہان_ روح بن جاتے۔
انھیں جذبات کی دھوپ چھاوں میں وقت گزرتا رہا۔ ایک دن کسی عزیزہ کی شادی کی تقریب میں اسے ایک عورت ملی ۔ ۔ ۔ سب اسے ثمن کے نام سے بلا رہے تھے۔ زنیرہ اور ثمن کو لگا وہ ایک دوسرے کی soul mates تھیں۔ دلچسپ حقیقت یہ تھی کہ اس ثمن کا خاوند بھی کسی یوروپئین ملک میں سیٹل تھا اور اسے نیم خواندہ قرار دے کر اور دوسرا اس کے خیال میں اس ملک کا آزاد ماحول ہونے کی وجہ سے وہ اسے ساتھ نہیں لے کر گیا تھا۔ اس کے خیال میں اپنے ملک اور اپنے رشتے داروں میں عورت کی عزت محفوظ رہتی ہے۔ بس وہ اسے پیسے بھیجتا اور جب کبھی چھٹی آتا اسے اکثر نئے حمل کا تحفہ دے جاتا۔
دوسری تیسری ملاقات تک زنیرہ اس کی گہری راز داں بن چکی تھی۔ بقول اس ثمن کے اس کے عیش ہی عیش تھے۔ وہ مرضی سے کسی جواں مرد کا چناو کرتی تھی۔ ۔ ۔ مرضی کی محفوظ جگہ پر ملتی تھی اور صرف رات کو ملتی, اللہ اللہ خیر سلہ!
ایک ماہ سے بھی کم عرصہ میں اس نے زنیرہ کو مروں کے سماجی رتبوں و مراتب کی شناخت, ہر الگ الگ سماجی رتبہ رکھنے والے سے تعلق بنانے کے فوائد اور نقصانات سے آگاہ کر دیا تھا۔ ثمن بلکل ویسی ہی گرگ باراں بن چکی تھی جیسے گرگ باراں مرد زنیرہ کو اپنی راہ گزر پر جال لئے بیٹھے نظر آتے تھے۔
اس نے زنیرہ کو محکمہ مال کے ایک بڑے افسر سے ملوایا۔ ۔ ۔ جوان تھا، طاقتور تھا۔ زنیرہ کی تنہایوں کا مداوا ہو گیا۔
سال سے بھی کم عرصہ میں زنیرہ شاہد ایک نئے بننے والے ٹاون میں ایک کنال پلاٹ کی مالک بن گئی۔
ڈیڑھ برس بعد جب اس کا خاوند چھٹی کاٹنے گھر آ رہا تھا تو وہ آخری بار اس افسر سے ملی۔ ویسے بھی اس افسر کے تبادلہ کی خبر گرم تھی۔ اس دن زنیرہ نے اپنی تمام مانع حمل حفاظتی تدابیر ختم کر دی تھیں۔ اس ملاقات پر وہ اسے جان توڑ کر ملی۔ اس کے جسم کے کھربوں باڈی سیلز نے اپنی پوری قوت سے اس کا ساتھ دیا تھا۔
خاوند بھی دو ماہ چھٹی گزار کر چلا گیا۔ خاوند کے جانے کے ٹھیک نو ماہ بعد اس نے ایک بیٹے کو جنم دیا ۔ بعد از زچگی, تین ماہ تک اس نے اپنے بدن کی خوب حفاظت کی۔ کوئی مان ہی نہیں سکتا تھا کہ اس کے جسم میں کوئی فرق آیا تھا۔
پھر اس کا تعلق ایک جوان مجسٹریٹ سے ہو گیا۔ وہ صاحب پہاڑی علاقوں میں گھومنے کا شوقین تھا۔ اس نے سال بھر کی مدت میں ملک کے اہم پہاڑی مقامات کی سیر کر لی تھی۔ جسمانی جمال قائم رکھنا, صفائی ستھرائی کا مکمل شعور اور موقع محل کے مطابق باذوق گفتگو اب اسے ایک آرٹ کی طرح لگتے تھے۔ ملنےوالے بھی اس کے معترف اور شوہر بھی ہر ٹیلی فونک گپ شپ کے بعد بیوی کی پارسائی پر اللہ کا شکر بجا لاتا۔
افسر شاہی طبقہ اسے محفوظ ترین علاقہ لگتا تھا۔ ثمن نے اسے بتا دیا تھا کہ سیاستدانوں کے قریب نہ پھٹکنا۔ فوجی افسران تک اس کی رسائی نہ تھی۔ بڑے بزنس مین اپنے اپنے دفاتر میں اپنے اپنے مزاج کے مطابق ماحول بنا کر رکھتے ہیں۔ ۔ ۔اور اگر ذلیل و خوار ہونا ہے تو پولیس والوں یا سماج کے زیریں طبقات یا مذہبی حلقوں میں چلی جانا۔
(بھٹو صاحب نے خلیجی ممالک میں لاکھوں پاکستانیوں کے لیے ملازمتوں کے مواقع بنوا کر پیٹرو ڈالروں میں سے زرمبادلہ تو کشید کرنا شروع کیا لیکن ادھر ملک میں ان گنت شادی شدہ عورتوں کو سماج کے مردوں کے لیے مال غنیمت کے طور پر عیاں کر دیا۔ مال غنیمت لوٹنے میں صرف غیر مرد ہی آزاد نہ تھے بلکہ قریبی رشتے دار اس کو اپنا اولین حق سمجھ کر کھلے دل سے شکار میں جت گئے۔ سنہ 77 کے مارشل لاء کے بعد ملک ایسی نفسا نفسی اور بے سمتی کی راہ پر لگ گیا کہ ہر سرکاری ملازم سے لے کر ہر بااثر شخص مالی حرام خوری کا دلدادہ بنتا چلا گیا۔ قومی خدمت کا جذبہ, عوام کی خدمت اور اقوام عالم میں ایک فخریہ مقام کا حصول ایک خواب_ ناتمام بنتا چلا گیا۔ ۔ ۔ اور سماج میں ایک عجیب افراتفری خود رو, لمبے کانٹوں والی جھاڑیوں کے جنگل میں تبدیل ہوتی چلی گئی۔)
زنیرہ نے بھی اس اثناء میں پانچ سال کے وقفہ کے بعد اپنے خاوند کے چھٹی آنے سے قبل ایک اسسٹنٹ کمشنر صاحب۔ ۔ ۔ جو اسے دھڑ سے نیچے بہت پسند تھا ۔ ۔ ۔ سے آخری اور گہری ملاقات کی۔ اور بعد ازاں خاوند کے چھٹی جانے کے نو ماہ بعد دوسرے بیٹے کو جنم دیا۔ وہ اپنی ذات میں ایک مکمل ہوشیار , بلکہ بذات خود گرگ باراں کے روپ میں ڈھل چکی تھی۔ پلاٹ پر بن چکے نئے گھر میں بہترین آسودہ حال زندگی بسر کر رہی تھی۔ ڈرائیونگ سیکھ کر جب اس نے اپنی گاڑی خریدی تو اس کو اپنی ذات میں ایک طرح کی تقویت کا گہرا احساس ہوا۔ افسروں کی محافل میں اس کی پر مغز باتوں کو توجہ سے سنا جاتا تھا یعنی ذہنی حرامزادوں کی محفل میں وہ ایک خاص مقام رکھتی تھی۔
اسے اب راتوں کی تنہایاں نہیں ڈستی تھیں۔ وہ اکثر چشم تصور میں دیکھتی تو مسکرا پڑتی ۔ گروپ سیکس یا threesome وغیرہ کو اس نے ہمیشہ حیوانیت جانا ایسے کئی مواقع آئے جب وہ جنسیت کے اس ماحول کا حصہ بن سکتی تھی ۔۔۔ لیکن وہ ہمیشہ سلیقے سے اس وقت کو ٹال جاتی۔ البتہ وہ مردوں عورتوں کا جنسی میدانوں میں موازنہ کرتی۔ وہ اپنے چنیدہ نر پر اکتفا کرتی۔ اگر کبھی وہ اسے تھری سم وغیرہ مجبور کرتا تو ہنستے ہوئے اسے کہہ دیتی “بھئی! اپنے یہ سوق تب پورے کر لینا جب جنت میں تمھیں ستر مردوں کے برابر قوت مل گے۔ فی الحال اس دنیا میں مجھ پر ہی مہربانیاں کر سکتے ہو تو ٹھیک ہے ورنہ۔۔۔۔”
اب پندرہ برس بعد اس کا خاوند مستقل طور پر وطن واپس آ رہا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ باہر کی ملازمت کے تجربہ کی بنیاد پر یہاں وطن عزیز میں اپنا کاروبار شروع کر سکتا تھا۔
ادھر, بہترین کاوشوں کے باوجود زنیرہ کا اپناجسم بھی کچھ ڈھیلا پڑنے لگ گیا تھا۔ سنا ہے کائنات_ بسیط میں کروڑوں اربوں دمکتے سورج بھی ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔ وہ بے چاری تو پھر آخر کار اس کرہ ارض پر مختصر سی عمر لکھوا کر آئی ایک عام سی مخلوق ہی تھی ناں!
اس دن وہ اپنی پندرہ سالہ مہماتی زندگی کی آخری ملاقات پر تھی۔اس نے کبھی بھی کسی سے کوئی مطالبہ نہ کیا تھا۔ حالانکہ اس کے حسن اور جمالیاتی پیمانوں کوتوڑتے بدن کے حیوانی ہالے کا حصار اس کے زیر تصرف مردوں کو ہر شئے نچھاور کرنے پر مجبور کر سکتا تھا۔ لیکن وہ مادی اشیاء کے حرص کے بغیر صرف اپنی نفسیاتی و بدنی ضروریات کے بھرپور انداز میں پورے ہونے پر مطمئن تھی, خوش تھی۔ ہاں! وہ جھولی میں گرنے والے کسی بھی تحفے سے انکار بھی نہیں کرتی تھی۔
وہ ضلع کے بااثر محکمے کا جوان آفیسر تھا۔ خوبرو, طاقت ور اور اس کے پسندیدہ بدنی اعضاء کا مالک بھرپور مرد۔ اس نے پہلی بار اپنا اصول توڑتے ہوئے اسے کہا ۔ ” سنو! مجھے تم سے آج ایسے ملنا ہے کہ تم ہمیشہ میرے اندر رہو۔”
وہ تھوڑا تذبذب میں بولا۔
“وہ کیسے ؟ جان من”
“مجھے تم سے بچہ چاہیے”
وہ چونکا اور تن کر بیٹھ گیا۔
“وہ تو حرامی ہو گا۔ کہ نہیں؟”
“ہممممم! میرا نہیں خیال اور میری یہ شدید خواہش بھی ہے۔ تم مجھے انکار نہیں کر سکتے۔ میں تمھیں نہ بتاتی تو تم کبھی جان ہی نہ پاتے اور میری خواہش بھی پوری ہو جاتی۔”
“ٹھیک ہے! لیکن جانتے بوجھتے یہ کیسے ممکن ہے؟ پھر اگر وہ لڑکی ہوئی تو مجھے کبھی سکون نہ ملے گا۔”
“دیکھو! مجھے تم سے حقیقی مسرت ملتی ہے۔ ۔ ۔ اطمینان ملتا ہے۔ تم میرے شوہر کی نسبت بہت بارعب اور نفیس انسان ہو۔ ۔ ۔ مجھے پسند ہو۔”
“ہممممم! پھر بھی یہ صریحا غیر شرعی اور گناہ_ کبیرہ ہو گا۔”
وہ بستر سے اٹھ کر اس کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔ کہتے ہیں کہ ڈھلتی دوپہر کا اپنا ہی ایک الگ رنگ اور اثر ہوتا ہے۔ وہ بھلے تھوڑا ڈھل چکی تھی مگر منہ اٹھا کر, آنکھیں بند کر کے زور زور سے قہقہہ بار ہوتے ہوئے اس کے ننگے بدن پر ایک روشن طلاطم بپا ہو گیا۔ اس کی آنکھوں میں بے بسی کی نمی سی تیر رہی تھی۔ اسے یاد پڑ رہا تھا ۔ ۔ ۔ پندرہ برس قبل بھی اس نے ایک مرد سے کچھ مانگا تھا جو نہ ملا اور آج پھر اسے ایک مرد نے بے مراد کر دیا تھا۔
“اچھا تو میرے صاحب! مجھ سے حرام و حلال پر بحث کا ارادہ ہے؟”
“نہیں نہیں! مجھے بحث نہیں کرنی۔ میں اپنے سکون قلب کے لیے تم سے ملتا ہوں۔ تمھاری شخصیت کی سحر انگیزی میری کمزوری بن چکی ہے۔ بس کوئی بحث نہیں۔ لیکن میں تمھیں اپنا بچہ نہیں دوں گا۔ thats it”
” اوکے! میرے صاحب! تم مجھ سے ملاقاتوں میں بتا چکے ہو کہ تم ایک غریب خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ اور تمھارے خاندان کی مالی آسودگی سنہ 75 میں, تمھارے والد کے سعودی عرب جانے کے بعد ہوئی تھی۔”
وہ بات کرتے کرتے ساتھ ہی ساتھ اپنے کپڑے بھی پہنے جا رہی تھی۔
” کیا میں تمھیں بتاوں کہ اس سماج میں ہر طاقتور نے کمزور طبقات کی خواتین کو موقع ملتے ہی کب کب پامال نہیں کیا? کیا میں سمجھاوں کہ سینتالیس کے اجاڑوں میں کتنی دوشیزائیں کس کس کے ہاتھوں گابھن ہوئی تھیں? کیامجھے صراحت سے سمجھانا ہو گا کہ تم اس خطہ ارض سے جنمے ہو جہاں ڈھائی ہزار برسوں سے حملہ آوروں نے تخم ریزی کی رسم جاری رکھی ہوئی تھی? اور تم مجھے سمجھاو گے کہ حرامزادہ کون ہوتا ہے؟ ہرگز نہیں ! تو پھر غور سے سنو! روح معصوم عن الخطا آتی ہے۔ کسی مذہب نے نطفہ حرام کو قتل کا حکم نہیں دیا۔ البتہ مال و دولت کی ہوس میں مبتلا انسانوں کو, خاندانی تکبر پر اترانے والوں کو اور انسانیت کو اذیتوں میں میں مبتلا رکھنے والوں کو ضرور ذہنی حرامی ہونے کا لقب دیا ہے۔ “
وہ ساکت و گنگ بیٹھا اسے سنے اور دیکھے گیا۔ اس نے اپنے خشک پڑتے ہونٹوں کو زبان پھیر کر تر کیا۔ اس کے کانوں میں بچپن میں رشتہ دار خواتین کی سرگوشیوں میں ہوتی گفتگو شہد کی ان گنت مکھیوں کی بھنبھناہٹ بن کر گونجنے لگ گئی۔ “ارے یہ اپنے باپ کا نہیں بلکہ اپنے چاچے کا نطفہ ہے۔ اس کا باپ بے حد شریف اور کم گو آدمی تھا۔ اس کے باہر جانے کے گیارہ ماہ بعد اس کی پیدائش ہوئی تھی۔ بھئی اس کا چچا بہت منہ زور اور بد تمیز تھا ۔ کسی کی جرات نہ تھی کہ کوئی اعتراض یا احتجاج کرتا۔”
وہ تیار ہو کر کھڑی تھی۔ ” میں اس کنفیوزڈ معاشرے میں بے آسرا اور مجبور عورتوں کی نمائندہ ہوں۔ میرے بھولے صاحب! تم حرامزادے ہو کہ نہیں۔ ۔ ۔میں نہیں جانتی نہ ہی مجھے کوئی فرق پڑتا ہے, لیکن اس سماج میں کسی بھی شکل میں ظلم اور استحصال روا رکھنے والے مرد ‘زنیم’ ضرور ہیں”
وہ اپنے قدموں پر مڑی اور چلی گئی۔
وماعلینا الالبلاغ المبین
Urdu short stories and writers
Comments are closed.