Skip to content

زعفران کے کھیت میں کیکٹس

عالمی افسانہ میلہ “2021”

دوسری نشست”

افسانہ نمبر “34”

“زعفران کے کھیت میں کیکٹس”

افسانہ نگار. ڈاکٹر ریاض توحیدی( کشمیر،انڈیا)

ملک قبرستان میں جشنِ آزادی کی تیاریاں شدومد سے جاری تھیں۔اس برس کی جشنِ آزادی کی ایک اہم بات یہ تھی کہ تخت ِگاؤ شالہ سے حقوق حیوان کا غم خوار جوگی وادی پریشان کے محکوم انسانوں کی پریشانی کو دور کرنے کے لئے ’من کی بات‘ کامنتر پھونکنے والا تھا۔ جس کا مقصد وادی پریشان سے بھوت پریتوں کا خاتمہ کردینا تھا۔ اس تاریخی اعلان کو جوگی کے بھونپو دار بڑاچڑھاکرپیش کررہے تھے۔اس تعلق سے جوگی بادشاہ کی ابہامی باتوں کو مکھن لگا کر بندروں کو ہواؤں کے رخ پر نچانے کی گیم بھونپو دار کھیلتے رہے اور وہ بندر بغیر کسی معلومات کے ناچنا شروع کردیتے کہ اب جمہوریت کی خوشگوار فضاؤں میں زعفران کا پودا شجرسایہ دارر بنے گا اور انسانیت کے پھولوں سے زعفران پرست کی پریشانی دور ہوجائے گئی۔وادی کے پہاڑجمہوریت کی برفیلی دستار سے چمک اٹھیں گے۔وادی کے آبشا ر اور چنار زعفران کے گن گائیں گے۔وہاں کے چمنستان انسانیت کے پھولوں سے مہک اٹھیں گے۔وادی کو فرش سے عرش تک پہنچایاجائے گا۔ جہاں دیدہ کشمیری بابا یہ خوبصورت باتیں سن سن کر سوچتا رہتا کہ اتنے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود کوئی بھونپو جوگی بادشاہ کے تاریخی اعلان کے بارے میں کیوں نہیں گلا پھاڑتا ہے۔یہ کونسی پہیلی ہے کہ کوئی بھی سمجھے بغیر اس سرخ وادی کے گن گانا شروع کردیتا ہے اورنیوز چینل زعفرانی ا یشو پر خوش فہمیوں کے گولے ہی داغتے رہتے ہیں۔

وادی کے ریشم مزاج لوگ ویسے بھی پچھلی کئی دہائیوں سے گھٹن کی فضا میں سانسیں لے رہے تھے۔ان کے سروں پر ہمیشہ کالے دیوؤں کا خوف منڈلاتا رہتا۔باہر کے لوگ آکر یہاں کے چمنستانوں کے گلابوں کی خوشبو سے دل ودماغ کو معطر کرتے رہتے لیکن کسی کی نظر بھی ان گلابوں کی سرخی پر نہیں جاتی کہ یہ گلابوں کی سرخی ہے کہ خون کی ۔ کالے دیوؤں کا سایہ جگہ جگہ پھیل گیا۔ پرنٹ اورسوشل میڈیا کی آوازیں گونگی کردی گئیں۔ظلم وجبر کا سیاسی و فوجی لاک ڈاون شروع ہوگیا۔باہر کی آزاد خیال دنیا مصلحت کی دانشوری کو انجوائے کرتی رہی اور وادی کے گلستانوں میں سیاہ طوفان نے اندھیرا پھیلا دیا۔

جشن آزادی کا دن آہی گیا۔ سبھی لوگ تاریخی اعلان سننے کے لئے بے تاب ہورہے تھے۔آخر کار تختِ گاؤشالہ کے جوگی بادشاہ نے بڑے کروفر کے ساتھ ’من کی بات‘ زبان پرلاتے ہوئے کہا کہ ریاست زعفران کا حل جمہوریت‘ زعفرانیت ا ور انسانیت میں پوشیدہ ہے۔یہ سنتے ہی خوشی کے ماحول میں فخریہ ترانے کی دھن ایک بار پھر بج اٹھی۔”سارے جہاں سے اچھا…..؟۔“ابھی دھن چل ہی رہی تھی کہ جوگی بادشاہ کی ڈیجٹل زبان سے ریاضی کے منترکا سیاہ اعلان ہوا۔جسے سنتے ہی فخریہ ترانے کی دھن جیسے ماتم میں بدل گئی۔ اس جابرانہ فیصلے کے خلاف صحافت کی لاج رکھتے ہوئے ایک چینل نے بطور احتجاج اسکرین کو بلیک آوٹ کردیا کیونکہ تاریخ کے سیاہ فیصلے میں کتاب ریاست کے خصوصی 370اوراق مسخ کرکے صفحہ 70 کو ہٹا کر صرف 3رکھا گیا تھا اور اس 3 کے بھی بے رحمانہ ٹکڑے کرکے جمہوریت‘زعفرانیت اور انسانیت کی مٹی پلید کردی گئی تھی۔ کشمیری باباچینل کی کالی اسکرین پر آنکھیں جمائے مجذوب کی طرح بڑبڑا رہاتھا…کیکٹس……. کیکٹس…..کیکٹس…..؟

Published inافسانچہڈاکٹڑ ریاض توحیدیعالمی افسانہ فورم

Comments are closed.