Skip to content

زخمی خواب

عالمی افسانہ میلہ 2019
افسانہ نمبر 96
زخمی خواب
فوزیہ فوزی ، لاہور پاکستان

چھوٹے سے کلینک میں وہ ایک طرف کونے والی کرسی پر دونوں ہاتھ سامنے کی طرف پھیلا کر بیٹھا تھا میں اسے بغور دیکھ رہی تھی ، پتہ نہیں مجھے کیوں لگا کہ وہ موسم خزاں کا ایسا درخت ہے، جس کے کافی پتے چھڑ چکے ہوں،۔ہمدردانہ جذبات نے اکسایاتو میں اٌٹھ کر اس کے قریب گئی اور سلام کیا وہ تقریباًاٹھارہ سال کا ہو گا،اس نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا اور سلام کا ہلکا سا جواب دیا،اس کے ہونٹ ریگستان کی طرح خشک تھے,میں نے کہا بیٹا میں آپ کے پاس بیٹھ سکتی ہوں،اس نے سر سے پاؤں تک مجھے دیکھا اور سمیٹ کر ذرا ایک طرف ہو کر جی بولا ،میں بیٹھ گئی اور اس کے ہاتھوں کی طرف دیکھا جو سامنے کی طرف پھیلےہوئے تھے اس کے ہاتھوں پہ بہت سے چھالے چھوٹی چھوثی پہاڑیوں کی مانندابھرے ہوئے تھے، چہرہ نوجوانی کی رعنائی سے عاری تھا ۔وہ سانولے رنگ کا دبلا پتلا لڑکا اپنے اردگرد سے بےنیاز بالکل خاموش بیٹھا تھا،میں نے ذرا گلا صاف کیا۔اور اس کے ہاتھوں کی طرف اشارہ کر کے پوچھا، بیٹا! تمھارا نام کیا ہے؟ ہاشم،، ہممم کیا میں جان سکتی ہوں یہ سب کیسے ہوا ؟اس نے ہلکا سا سراوپر کیا اپنے ہاتھوں کو بغور دیکھا اور دھیرے سے سپاٹ لہجے میں بولا،” گرم گرم کلاشنکوف پکڑنے سے”
میری حیرت سے آنکھوں کی پتلیاں پھیل گئیں میں اسے سر سے پاؤں تک دیکھ کر سوچنے لگی اتنا کمزور سا لڑکا اور اس عمر میں کلاشنکوف،،میں نے اپنی کرسی کو اس کے ذرا اور قریب کر لیا ،! کیا مجھے کچھ تفصیل بتاو گے،دراصل میں کسی کام سے دوسرے شہر سے آئی ہوں، تم پسند کرو تو کچھ تفصیل سے واقعہ مجھے بتاؤ۔ کیا تم کلاشنکوف رکھتے ہو؟ دیکھو اگر غلط کاموں میں پڑ چکے ہو تو توبہ کے دروازے کھلے ہیں ،اور، ، ،اس نے نفی میں سر ہلایا۔ میں ایک دم چپ ہو گئی،
وہ دروازہ توڑ کے گھر میں داخل ہو گئے،ہاشم نے ہونٹوں کو ہلکی سی جنبش دیتے ہوئے کہا ،، میں،میرے دو بھائی،ایک بہن اماں ابا اور بھائی کے دو دوست ہم چائے ہی رہے تھے،اور آزادی کے خواب کی تعبیر پانے کے راستوں کا تعین کر رہے تھے،وہ دو وردی میں نوجوان تھے،انھوں نے آتے ہی ہم لڑکوں کے منہ پہ زور دار تھپڑ رسید کیئے۔میں کھڑا تھامگر ایک تھپڑ نے مجھے کرسی پہ گرا دیا، بھائی اور اسکے دوستوں کو اپنے بھاری بوٹوں سے ٹھڈے مارے،وہ تکلیف سے زمین پہ بیٹھ گئے،
یہ کہہ کر ہاشیم نے سر ایک طرف نیچے کو جھکا لیا،مجھے لگا وہ بھاری بوٹوں کے ٹھڈے برداشت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ میری آنکھوں کے سامنے چرچ پہ لگی حضرت عیسیٰ علیہ سلام کی شبیہ آ گئی، میں نے پیار سے سر پہ ہاتھ پھیرا،میرے ہاتھ میں ہمدردی اور محبت کی شائد ایسی تپش تھی کہ وہ میرے کہے بنا اپنے درد کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے بولا، پھر انھوں نے ابا کے پیٹ میں کلاشنکوف کا بٹ مارا،ابا درد کی شدت سے دوہرے ہو گئے، یوں لگ رہا تھا ان کے منہ میں گندی گالیوں کی فیکٹری لگی ہوئی ہے،جس کے شور میں اماں،اور بہن کی چیخیں،فریاد اور ہمارے درد میں لپٹے سوال سب دب گئے، ہاشم کی آواز کسی گہرے اندھے کنویں میں سے آتی محسوس ہو رہی تھی،پھر انھوں نے اماں اور بہن کا دوپٹہ کھینچ کر ماں بہن کی گندی گالی بکی،ہماری بینائی ہمیں کوسنے لگی،
یہ بتاتے ہوئے ہاشیم نے آنکھیں بندکر لیں،میں نے جلدی سے ٹیشو نکالا اور اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا،اس نے میری طرف چہرہ کیا،میری نم آنکھوں نے اس کی آنکھ میں ایک آنسو نہ دیکھا مگر وہ انگارے کی طرح لال تھیں،میں نے ٹیشو سے اپنے انسو پونچھے اور پوچھا،پھر! ابا آگے بڑھے ہم سے بات کرو ہمارا قصور بتاؤ، بس اتنا کہنا تھا، انھوں نے کلاشنکوف کا منہ کھول دیا ابا آہ بھی نہ کر سکے اور اماں کے قدموں میں گر گئے ،بھائی اور ان کے دوست ان کی طرف لپکے ،ایک بھائی اور وہ دونوں دوست گولیوں کا نشانہ بن گئے، دوسرے بھائی نے ایک کی ٹانگوں کو زور سے لپٹ کر گرا لیا دوسرے وردی والےکی کمر میری طرف تھی،اس نے بھائی کو بھون ڈالا۔ ہمارا صحن خون سے رنگین ہو چکا تھا۔ وہ ساری سرخی میرے بدن کی رگوں میں پھیل گئی اور میرے ناتواں جسم میں اتنی طاقت آگئی کہ میں نے دوسرے آدمی پہ چھلانگ لگا دی،وہ اس اچانک حملے کے لئے تیار نہ تھا نیچے گرا تو میں نے دونوں ہاتھوں سے اس کی کلاشنکوف کو پکڑ کے کھینچا اور ان دونوں پہ ساری خالی کر دی،
اماں بیہوش پڑی تھیں،بہن خوف سے کسی کونے میں چھپ گئی۔ اور میں اپنوں کی لاشوں اور گرم خون کے درمیان آزادی کے خواب کی تعبیر کے سارے راستے لہو لہان دیکھ رہا تھا،،،
وہ چپ ہوااور مجھے اس کے ہاتھوں پہ چھالوں کی پہاڑیوں سے خون بہتا دیکھائی دینے لگا،وہ ،مجھے لاشوں اور گرم خون کے درمیان چھوڑ کے جا چکا تھا

Published inافسانچہعالمی افسانہ فورمفوزیہ فوزی
0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x