Skip to content

ریزہ ریزہ زندگی

برائے افسانہ میلہ 2018

افسانہ نمبر : 33

عنوان —–ریزہ ریزہ زندگی
تحریر —- معین ا لا سلام صوفی بستوی
خلیل آباد ——-انڈیا

شگفتہ کی خوبصورتی کے چرچے عام تھے -شہر میں اس کی عمر کی لڑکیوں میں اگر کوئی خوبصورت تھا تو وہ صرف شگفتہ تھی -گلابی گالوں پر اٹھی ہوئی ناک ‘ لمبے سنہرے بال ‘سرخ ہونٹ ‘ صراحی دار گرد ن ‘ سڈول خوبصورت جسم ‘ چہرے پر ہرنوں جیسی آنکھیں ‘ کیا نہیں تھا جو ایک حسین لڑکی کی خوبصورتی میں چار چاند لگانے کے لئے ضروری ہوتا ہے –
اسکول کے لڑکے اس کا دیدار کرنے کے لئے سکول کے وقت کسی نہ کسی بہانے اس کے راستے پر پڑنے والی دکانوں پر کھڑے ہو کر اس کے گزر نے کا انتظار کرتے تھے -جب شگفتہ اپنے چاہنے والوں سے بے خبر اپنی سہیلیوں کے ساتھ اسکول پہنچ جاتی تب لڑکے اپنے اپنے اسکولوں کی طرف روانہ ہوتے -اسکول پہنچنے پر وہ زیادہ تر غیر حاضر ہو جاتے جس کی ڈانٹ بھی انہیں سننی پڑتی تھی -لیکن وہ بھی کیا کریں بغیر شگفتہ کا دیدار کئے ان کا وقت اسکول میں ٹھیک ڈھنگ سے گزرتا بھی تو نہیں تھا –
شگفتہ کے والد ریلوے میں ملازم تھے دیر رات گھر پر آ تے تھے -ان کا روز کا یہی معمول تھا -اس لئے انہیں اپنی بچی کے بارے میں سوچنے کی زیادہ فرصت نہیں ملتی تھی -بچوں کی جتنی فکر والدین کو کرنی چاہئے وہ سب اس کی والدہ کے حصے میں لکھ دی گئیں تھیں –
شگفتہ کی والدہ کو شگفتہ سے بیحد پیار تھا -شگفتہ انکی اکلوتی اولاد تھی -اس لئے وہ اکثر سوچتیں شگفتہ کا کوئی بھائی ہوتا تو گھر کی رونق اور بڑھ جاتی ‘پھر بھی شگفتہ ہی سے گھر کی رونق ہے یہ سوچ کر وہ خوش ہو جاتیں تھیں-
جب شگفتہ نے انٹر کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کر لیا تو ا س کی والدہ نے اس کا نام علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں لکھوا دیا –
شگفتہ ہاسٹل میں تھی کہ اس کے گھر سے فون آیا کہ شگفتہ کے والد کی طبیعت بے حد خراب ہے -شگفتہ کو گھر آنے کی اجازت دے دی جائے -وارڈن نے جب یہ خبر شگفتہ کو دی تو اس کے جیسے ہوش ہی ا ڑ گئے -اس کی سمجھ ہی میں نہیں آیا کہ وہ کیا کرے – لوگ ہمدردی جتانے اور غم غلط کرنے کے لئے اس کے پاس اکٹھا ہو نے لگے -طے یہ ہوا کہ شگفتہ کو اکیلے گھر بھیجنا ٹھیک نہیں -کسی کو اسکے ساتھ جانا چاہئے -نسیم شگفتہ کے ہی شہر کا رہنے والا تھا اور وہ اکثر شگفتہ کی خیریت لینے اس کے ہاسٹل آیا کرتا تھا -سب نے نسیم سے درخوا ست کی کہ وہ شگفتہ کے ساتھ اس کے گھر تک چلا جائے -نسیم اس کے لئے تیار ہو گیا –
شگفتہ اور نسیم اپنے شہر کے لئے روانہ ہو گئے -راستے بھر نسیم نے شگفتہ سے خوب باتیں کیں -سفر کی ایک لمبی مسافت کب ختم ہو گئی ‘انہیں پتہ ہی نہیں چلا -اس سفر نے دونوں کو بہت قریب لا دیا -چونکہ دونوں کا ایک ساتھ یہ پہلا سفر تھا -اس لئے دونوں نے ایک دوسرے سے کھل کر باتیں کیں -دونوں کے دل میں محبت کا جذبہ پروا ن چڑھنے لگا-شگفتہ کے والد کو ریلوے اسپتال میں بھرتی کر دیا گیا -انہیں دل کا شدید دورہ پڑا تھا -ابھی وہ ICU میں تھے -ڈاکٹر ان کی خیریت کے بارے میں کچھ کہنے سے کترا رہے تھے -ڈاکٹروں نے کہا ٤٨ گھنٹے آپ لوگ انتظار کریں ‘تبھی کچھ کہا جا سکتا ہے -جب ٤٨ گھنٹے گزر گئے تب ڈاکٹروں نے دلاسہ دیا کہ اب شگفتہ کے والد خطرے سے باہر ہیں –
دوچار روز بعد شگفتہ انہیں گھر لے آئی -ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق انہیں گھر پر ہی آرام کرنے کی صلاح دی گئی -جب طبیعت کافی ٹھیک ہو گئی شگفتہ علیگڑھ کے لئے روانہ ہو گئی -نسیم چونکہ شگفتہ کو پہنچا کر جا چکا تھا اس لئے واپسی میں اسے تنہا سفر کرنا پڑا -راستے بھر اسے نسیم کی یاد خوب آتی رہی -اس کی جب بھی آنکھ لگتی نسیم اس کے خوا بوں میں آکر باتیں کرنے لگتا -اس طرح علیگڑھ تک کا سفر اس نے نسیم کی یادوں کے سہارے طے کر لیا -وہ جیسے ہی ڈبے سے باہر آئی نسیم اس کا استقبال کرنے کے لئے حاضر تھا -اس نے سوچا بھی نہیں تھا کہ نسیم اسے سٹیشن پر لینے آئے گا -اس طرح نسیم کی عزت اس کی نظروں میں اور بھی بڑھ گئی –
نسیم کا یہ آخری سال تھا -اس نے گریجویشن کرنے کے بعد نوکری کے لئے جد و جہد شروع کردی -جب اسے اس پاس کہیں نوکری نہیں ملی تو اسے ممبئی جانے کی سوجھی ممبئی میں اس کے شہر کے بہت سارے لوگ کا م کرتے تھے -اس کے چچا جن کا خاندان بھی وہیں تھا -جب اسنے اپنی خواہش ظاہر کی تو چچازاد بھائیوں نے اسے فورا= آجانے کے لئے کہا –
نسیم کو علیگڑھ چھوڑتے ہوئے بیحد تکلیف ہوئی -اسے شگفتہ کی جدائی کا غم بیحد تکلیفدہ معلوم ہوا -لیکن گھر کی ذمہ داری نےاسے علیگڑھ میں مزید رکنے کی اجازت نہیں دی –
ادھر شگفتہ بھی نسیم کو علیگڑھ میں نہ پا کر غمگین رہنے لگی لیکن وقت اور حالات سے سمجھوتا کرنا ہی اس نے زیادہ بہتر سمجھا-
شگفتہ کا یہ دوسرا سال تھا -اس نے پڑھائی کے لئے زیادہ وقت دینا شروع کر دیا تاکہ وہ اچّھے نمبروں سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کر سکے -اس طرح اس نے سکنڈ یر اچّھے نمبروں سے پاس کر لیا -سبھی نے اچّھے نمبر آنے پر اسے ڈھیرساری مبارکبادیں پیش کیں –
علیگڑھ کا ماحول اسے بیحد پسند آرہا تھا -شمشاد مارکٹ اور دودھ پور کے سڑکوں کی رونقیں علیگڑھ کے شوخ اور چنچل لڑکوں کی شیروانیوں میں چھپی شرارتیں -طنز و مزاح کے جملے شعر و شا عری کے حسن سے آراستہ اشعا ر کی بارشیں – کلچے نہاریؤں اور چائے کافی کی خوشبوئیں -مہذب الفاظ کی لطافتیں -قمقموں سے سجی دکانوں کی رونقیں دیکھ کر بد ذوق سے بد ذوق انسان بھی اس کا ایسا گرویدہ ہو جاتا ہے کہ اس کا یہاں سے جانے کا دل نہیں چاہتا – اس نے سوچ لیا کہ والدین اسے جب تک اور جہاں تک پڑھانا چاہیں گے وہ علیگڑھ میں رہ کر ہی پڑھے گی –
شگفتہ اپنے انہیں سب خوابوں میں مگن تھی کہ وارڈن نے شگفتہ کو اس کے کمرے سے بلوایا کہ اس کا فون ہے -فون اسکی والدہ کا تھا -والدہ نے اس کی خیریت پوچھی اور اپنی پڑھائی جاری رکھنے اور اچّھے نمبروں سے پاس ہونے کی ڈھیر ساری ہدایتیں اور د عآئیں دیں -ماں کی باتوں سے اسے تسلی ہوئی -اس نے والد کا حال پوچھا تو والدہ نے کہا ”ٹھیک ہیں کبھی کبھی بیچینی کا اظہار کرتے ہیں -دوائیں وقت پر لے رہے ہیں -ڈاکٹری معا ئینہ بھی برابر ہوتا رہتا ہے -بیٹا تم خوب دل لگا کر پڑھنا -تم ہم لوگوں کی واحد اولاد ہو -ہماری خواہش ہے تم ا علی تعلیم حاصل کر و اور ہم تمہاری شادی تعلیم یافتہ نیک سیرت لڑکے سے کر دیں -اگر اللہ نے چاہا تو ہم اپنے فرائض سے فارغ ہو کر تمہاری خوشیوں کے سہارے باقی زندگی جی لیں گے -”
شگفتہ کا اس دفعہ فائنل سال ہے -امتحان قریب ہے ‘ہر طرف سالانہ امتحان کی تیاریاں ہو رہی ہیں -لڑکے اور لڑکیاں روزانہ کی شرارتیں بھول کر صرف پڑھائی کی گفتگو کرتے دکھائی دے رہے ہیں-شگفتہ والدین کی خواہشوں کے مطابق اپنے آپ کو ایک کامیاب زندگی کی طرف لے جانے کے لئے تیار کر رہی ہے – اسے تعلیم کی باتیں کرنے والے لڑکے اور لڑکیاں ہی پسند آنے لگے ہیں -لہذا اس نے ایسے لڑکوں اور لڑکیوں سے تعلقات بڑھانا شروع بھی کر دیا ہے -شگفتہ امتحان کی تیاریوں کا جائزہ لیکر خود کو مطمئن کر رہی تھی کہ فون کی گھنٹی بجی -وارڈن نے فون اٹھایا -فون شگفتہ کے گھر کا تھا اور کسی پڑوسی نے کیا تھا-
وارڈن نے شبانہ سے کہا ”تمہارے والد کو پھر دل کا دورہ پڑا ہے -انہیں لوگ اسپتال لے گئے ہیں ”یہ سنتے ہی شگفتہ کے پیروں کے نیچے سے جیسے زمین کھسک گئی -اس نے وارڈن سے گھر جانے کی اجازت مانگی-وارڈن نے کہا امتحان سر پر ہے -اس وقت تمہارا گھر جانا مناسب نہیں – وہاں دیکھ بھال کرنے والے لوگ موجود تو ہو نگے ہی ‘بھائی وغیرہ کو فون کر کہہ دو کہ تم امتحان ختم ہونے پر آ و گی -شگفتہ نے وارڈن کو بتایا کہ :
” وہ اپنے والدین کی اکیلی اولاد ہے ‘اس کا کوئی بھائی نہیں اور نہ ہی اس کے علاوہ اس کے والدین کی دیکھ بھال کرنے والا ہی کوئی ہے -اس کے والدین ہی اس کی کائنات ہیں -وہ کسی بھی حالت میں رک نہیں سکتی ”
اگر اس نے ایسے وقت میں والد کی خدمت نہیں کی تو وہ اپنے آپ کو زندگی بھر معاف نہیں کر پائے گی -”وارڈن نے تو صرف اسے امتحان تک رکنے کے لئے کہا تھا -لیکن والدین کی خدمت کا یہ جذبہ دیکھ کر وہ بھی اپنے آپ کو روک نہیں پائے اور انہوں نے اسے گھر جانے کی اجازت دیدی –
اس بار وہ سفر میں تنہا تھی-سفر کرتے کرتے وہ اس کی عادی ہو گئی تھی -پھر بھی سفر میں وہ جب تنہا ہوتی نسیم کی یاد اسے ضرور آتی -پورے وقت وہ نسیم کے بارے میں سوچتی رہی -نسیم کہاں ہوگا ‘کیسا ہوگا’ کیا اچّھا ہوتا اگر وہ اس وقت اپنے شہر میں ہی ہو اور وہ اسکا ساتھ پا کر اپنے غموں کو ہلکا کر سکے -شگفتہ یہ سب با تیں سوچ ہی رہی تھی کہ اس کی منزل آگئی –
وہ ٹرین سے جیسے ہی باہر آئی تو اسے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ نسیم اسے لینے کے لئے پلیٹ فارم پر موجود ہے –
اللہ کبھی کبھی دل کی مراد اتنی جلدی پورا کر دیتا ہے کہ بندہ اس کی عظمت کے آگے سر خم کر دیتا ہے -کاش رب العزت اس کی ہر مراد کو اسی طرح پورا کر دیتا -اس وقت اسے والد کی طبیعت کے آگے کچھ بھی نہیں نظر آ رہا تھا -را ستے بھر وہ صرف والد کے صحتیابی کی د عا ئیں مانگتی رہی –
نسیم اس سے راستے بھر باتیں کرتا رہا لیکن اس نے اسکی کسی بھی بات کا جواب نہیں دیا -اس نے یہ بھی نہیں پوچھا کہ نسیم تم کیسے ہو اتنے دن کہاں تھے اور کیا کر رہے تھے-اسے تو اسپتال پہنچ کر ہی ہوش آیا جب اس نے اپنے والد کا دیدار کر لیا –
اسپتال میں بتایا گیا کہ اس کے والد کو بہت شدید دورہ پڑا ہے -ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس دفعہ جلد افاقہ مشکل ہے -انکو سخت آرام کی ضرورت ہے -شگفتہ نے طے کر لیا کہ وہ والد کو مکمل آرام کے لئے اب یہیں رہے گی-والدین کی خوشی سے بڑھ کر اس کے لئے دوسری کوئی خوشی نہیں –
شگفتہ کے والد کو اسپتال سے چھٹی مل گئی وہ گھر پر آ گئے شگفتہ نے انہیں مکمل آرام کے لئے کہا اور صلاح دی کہ اب آپ کا م پر نہیں جائیں گے -گھر ہی پر رہیں -اگر زیادہ دنوں کی چھٹی مل جاتی ہے تو ٹھیک ورنہ آپ نوکری چھوڑ دیجئے -اس کے والد نے اس کی صلاح نہیں مانی -اور کہا ”بیٹا ! ابھی تم کو پڑھنا ہے ‘ہم لوگوں کی زندگی اسی طرح گزر جائے گی -ہماری فکر کر تم اپنی پڑھائی کا نقصان نہ کرو ”
لیکن شگفتہ نے تو مصمم ارادہ کر لیا تھا کہ اب وہ علیگڑھ نہیں جائے گی -اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے وہ رونے لگی -اس کی والدہ نے تسلی دی ”بیٹا سب ٹھیک ہو جائے گا اللہ ہماری پریشانیوں کو دور کر دیگا -تو علیگڑھ چلی جا اور اپنی پڑھائی مکمل کر ہی گھر واپس آ -ہم لوگوں کی یہی خواہش ہے -”
شگفتہ پر ان کی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوا -اس نے تو ضد پکڑ لی تھی کہ وہ اب یہیں رہے گی اور والدین کی خدمت ہی میں اپنا وقت گزار دیگی -والدین نے بھی زیادہ دباؤ ڈالنا مناسب نہیں سمجھا –
شگفتہ گھر ہی پر رہنے لگی نسیم اس کے گھر خیریت لینے برابر آتا -والدین کو یہ لڑکا پسند آنے لگا -اس کے ہمدردی بھرے جملے گھر کے افراد کو سکوں پہنچانے لگے –
شگفتہ کو نسیم پسند تھا -وہ اس سے کافی گھل مل گئی تھی ‘یہ سب دیکھ کر اس کے والدین نے سوچا کہ جب ان کی لڑکی علیگڑھ نہیں جارہی ہے تو کیوں نہ اس کی شادی کر دی جائے -اور وہ اپنی بیٹی کو وہ سا ری خوشیاں دے سکیں جس کی وہ حقدار ہے –
نسیم کے والد کا انتقال ہو چکا تھا گھر میں صرف والدہ تھیں -نسیم نے دبی زبان سے کئی مرتبہ کسی نہ کسی بہانے سے شگفتہ کا ذکر کیا -اس کی والدہ کو اندازہ ہو گیا تھا کہ نسیم شگفتہ سے پیار کرنے لگا ہے -اسی لئے جب شگفتہ کی والدہ نسیم کا رشتہ لے کر آئیں تو انہیں ذرا بھی حیرت نہیں ہوئی -انہوں نے اسے فورا قبول کر لیا –
شگفتہ کی والدہ نے جلد شادی کرنے کی خواہش ظاہر کی جسے نسیم کی والدہ نے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ ابھی نسیم کی کوئی نوکری نہیں ہے -ایک دو روز میں اسے ممبئی میں کسی شپںگ کمپنی میں جانا ہے -کل ہی فون آیا ہے کہ اسے شپنگ کمپنی میں نوکری مل گئی ہے وہ آکر جوائن کر لے –
نسیم کی والدہ نے ایک سال کا موقع ما نگا اسے شگفتہ کی والدہ نے قبول کر لیا اور کہا ہم چاہتے ہیں کہ نسیم کے ممبئی جانے سے قبل منگنی کی رسم ادا ہو جائے -نسیم کی والدہ اس پر راضی ہو گئیں ‘اس طرح نسیم اور شگفتہ کی منگنی ایک سادہ سی تقریب میں ایک دوسرے کو انگوٹھی پہنا کر ہو گئی –
نسیم کا ممبئی جانے کا وقت قریب آگیا -شگفتہ کا نسیم سے پردہ کرا دیا گیا -لیکن شگفتہ اپنے آپ کو روک نہیں پائی اور نسیم کو اسٹیشن چھوڑنے چلی گئی –
ٹرین پلیٹ فارم پر آگئی ‘سامان ڈبے میں رکھ دیا گیا اور نسیم بھی اپنی جگہ جاکر بیٹھ گئے -شگفتہ کی آنکھیں نسیم کی جدائی برداشت نہ کر سکیں اور اشکبار ہوگئیں -نسیم نے اسکی آنکھوں کی طرف دیکھا -”ارے یہ کیا تم تو رورہی ہو -اس نے اپنا رومال شگفتہ کو دے دیا -لو آنکھیں پوچھ لو -میری جب بھی یاد آئے فون کر لینا -چند دنوں کی بات ہے شادی ہونے کے بعد ہم لوگ ایک ساتھ رہنے لگے گیں -”
نسیم کو ممبئی گئے تقریبا چھ ماہ ہو گئے -اس درمیان اسکی شگفتہ سے اکثر باتیں ہوتی رہتی تھیں -دونوں کو شادی کی تاریخ کا شدت سے انتظار تھا -دھیرے دھیرے ایک سال کا وقت بھی قریب آگیا –
شپنگ کمپنی میں سب کچھ ٹھیک تھا تنخواہ ٹھیک تھی -کھانے اور رہنے کا بھی اچّھا انتظام تھا -بس خرابی یہ تھی کہ غیر مہذب افراد اس کمپنی میں زیادہ تھے -سبھی ا علی تعلیم یافتہ تھے لیکن انہیں شراب اور شباب کی خواہشات نے غیر مہذب بنا دیا تھا -کام کے بعد ان لوگوں کا روز کا معمول تھا کہ وہ شراب ضرور پیتے تھے اور نائٹ کلبوں میں تجارتی عورتوں کا ڈانس دیکھنے ضرور جاتے -جنسی تعلقات انکے لئے کوئی معنی نہیں رکھتے تھے -ان لوگوں کے پراگندہ خیالات سے نسیم کو کافی الجھن ہونے لگی -وہ یہاں سے ہٹ جانے کی سوچنے لگا -اس کا اظہار جب دوستوں سے کیا تو دوستوں نے اسے سمجھایا ”دیکھو یہ اکیسویں صدی ہے -اس دور میں وہی کامیاب ہے جو اپنے آپ کو ماحول کے مطابق ڈھا لنے کا ہنر جانتا ہے جو لوگ یہ ہنر نہیں جانتے وہ یا تو اپنی زندگی ختم کر لیتے ہیں یا تنہائی میں گھٹ گھٹ کر مر جاتے ہیں -”
ان کی باتوں نے نسیم پر جادوئی اثر دکھایا -نسیم نے بھی اپنے آپ کو اسی ماحول میں ڈھال لیا –
نسیم کو ممبئی میں رہتے ہوئے تقریبا ایک سال ہو گیا -وعدے کے مطابق اسکی شادی ہو جانی چاہیے -اس لئے شگفتہ کے والدین نے نسیم کی والدہ سے مل کر شادی کی تاریخ طے کی اور اس کی اطلاع نسیم کو دیدی گئی -اس کے لئے نسیم نے چھٹی کی درخوا ست بھی دی جسے کمپنی نے منظور کر لیا -اس کی روانگی کا ٹکٹ بھی آگیا کہ اچانک نسیم کی طبیعت بگڑ گئی -اسے چکر سا آنے لگا ‘تیز بخار اور بدن درد کے ساتھ حالت کافی بگڑنے لگی -یہ سب دیکھ کر کمپنی کے ساتھیوں نے اسے ایک پرائویٹ اسپتال میں بھرتی کرا دیا -وہاں اسکا اچّھی طرح معا ئینہ ہوا تو پتہ چلا کہ اس کے خون میں (+HIV)ایڈز کا وائرس موجود ہے -اس کے ساتھیوں کے ہوش ا ڑ گئے –
یہ بات ساتھیوں نے نسیم کو نہیں بتائی -نسیم نے گھر پر فون کیا کہ شادی کی تاریخ آگے بڑھا دی جائے -وہ کسی ضروری کام کی وجہ سے ابھی نہیں آسکتا -یہاں لوگوں نے سمجھا کہ کمپنی کی ذمہ داریوں نے نسیم کو وقت سے پہلے بڑا کر دیا ہے -اسے اپنی ذمہ داریوں کا بے حد احساس ہے -لہذا دونوں کے والدین نے طے تاریخ کی جگہ ایک ماہ بعد دوسری تاریخ طے کی -ایک ماہ بعد نسیم گھر آگیا -یہاں شادی کی تیاریاں تو پہلے سے مکمل تھیں -اس لئے دونوں کی دھوم دھا م سے شادی ہو گئی –
نسیم شگفتہ کو پاکر خوش و خرم رہنے لگا -ابھی بیماری اس پر پوری طرح حاوی نہیں ہو پائی تھی -علاج کا اتنا اثر تھا کہ نسیم دو چار ماہ با لکل نارمل زندگی گزار سکتا تھا –
وہ اپنی بیماری سے بے خبر اپنی دنیا میں مگن تھا کہ اس کے ممبئی جانے کا وقت قریب آگیا -وہ ایک ماہ شگفتہ کے ساتھ رہنے کے بعد پھر ممبئی چلا گیا –
نسیم اور شگفتہ کی تقریبا روز ہی باتیں ہوا کرتی تھیں -نسیم نے فون پر شگفتہ کو ہمیشہ سمجھایا کہ وہ ایک اچّھے مکان کی تلاش میں ہے جسے ہی مکان مل جائے گا وہ اسے بلا لے گا -لیکن شگفتہ کو ممبئی جانے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی -وہ اپنے ہی شہر میں زیادہ خوش تھی -اس کی وجہ شائد یہ بھی تھی کہ والدین نظروں کے سامنے تھے -پھر بھی شادی کے بعد اس پر حق نسیم کا زیادہ ہے -اس بات کو بھی وہ بخوبی جانتی تھی اس لئے اس نے کبھی انکار بھی نہیں کیا-
ایک دن شگفتہ کے والد کی طبیعت پھر خراب ہو گئی -انہیں پھر دل کا دورہ پڑا تھا -پاس کے اسپتال لایا گیا -ڈاکٹروں نے جانچ کے بعد گھر والوں کو صاف بتا دیا کہ اس بار اس کے والد کا بچنا مشکل ہے -بہتر ہے انہیں گھر پر ہی رکھیں اور خدمت کریں -کیوں کہ اب دوا سے زیادہ د عا کی ضرورت ہے -دو تین دن بیمار رہنے کے بعد شگفتہ اپنے والد کے سائے سے محروم ہو گئی –
نسیم کو جب معلوم ہوا -اس نے شگفتہ کو خوب سمجھایا تم گھبراؤ نہیں چھٹی ملتے ہی میں تمہارے پاس آونگا –
نوکری میں انسان کتنا مجبور رہتا ہے -دوسروں کے رحم و کرم پر زندگی گزارنی پڑتی ہے -بڑے سے بڑے حادثے کے وقت بھی وہ کبھی کبھی اپنوں کے پاسس نہیں رہ پا تا ہے -بہر حال وہ کرتا بھی تو کیا کرتا بمشکل ایک ہفتے کی چھٹی ملی -تین دن تو آنے اور جانے ہی میں لگ گئے -پھر بھی اپنوں کے بیچ رہ کر کچھ سکون ملا –
تین ماہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد نسیم کی طبیعت پھر خراب ہو گئی -وہ چکر کھاکر گر پڑا -اسپتال میں اسے بھرتی کیا گیا -پھر جانچ ہوئی تو پہلے ہی کی طرح +HIV ایڈس کے وائرس موجود پائے گئے –
ڈاکٹروں نے نسیم سے دریافت کیا کیا اسے اپنی بیماری کے بارے میں کچھ معلوم ہے -نسیم نے نفی میں جواب دیا –
ڈاکٹروں نے نسیم کو بتایا ”ایڈز ایک لا علاج بیماری ہے – اس بیماری پر ابھی تک قابو نہیں پایا جا سکا ہے -یہ بیماری تجارتی عورتوں سے جنسی تعلقات یا ایسے خون چڑ ھوانے سے جن میں ایڈز کے وائرس ہوں ‘ہو جاتی ہے -اس بیماری میں انسان اپنی قوت مدافعت کھو بیٹھتا ہے -شروع شروع میں مریض کو کوئی خاص پریشانی نہیں ہوتی دوا علاج سے بیماری کنٹرول میں رہتی ہے -لیکن اس کے وائرس مرتے نہیں -یہ اندر ہی اندر انسان کو کھو کھلا کر دیتے ہیں -اس کی مثال اس درخت سے دی جا سکتی ہے -جس پر دیمکوں کا حملہ ہو -درخت دیکھنے میں او پر سے ہرا بھرا لگتا ہے لیکن اندر سے کھو کھلہ ہو تا جاتا ہے اور ایک دن سوکھ کر مر جاتا ہے -”
آپ کا مرض بھی اسی طرح کا ہے -عام بیماریوں میں مریض کو اس کے مرض کو بتانے میں ہم لوگ پرہیز کرتے ہیں لیکن اس میں چونکہ مریض کے پاس کم وقت رہتا ہے -اس لئے اس کے انجام سے مریض کا واقف ہونا ضروری ہے تاکہ بچے ہوئے وقت میں وہ اپنے ضروری کا م انجام دے سکے –
ایسے مریض کو شادی نہیں کرنی چاہیے -کسی کو بھی خون کا عطیہ نہیں دینا چاہیے -چھینک اور کھانسی کے وقت منہ پر رومال رکھنا چاہیے -باقی زندگی اپنے عقیدے کے مطابق گزارتے ہوئے برے سے برے وقت کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنا چا ہیے -وغیرہ وغیرہ ”
ان سب باتوں کو سن کر نسیم کے ہوش ا ڑ گئے -اسے ایسا لگا موت اس کے بہت قریب کھڑی ہے -ملک الموت اس سے کہہ رہا ہو ”چلومیں تمہیں لینے آیا ہوں -تم جیسے لوگ میرا کا م آسان کر دیتے ہو -مجھے تمہاری روحوں کو قبض کرنے میں زیا دہ دقت نہیں ہو تی ہے ”
نسیم نے گھر آنے کا ارادہ کر لیا شپنگ کمپنی کی نوکری چھوڑ دی – شگفتہ یہ جانکر کہ نسیم اب مستقل طور پر اس شہر میں اس کے پاس رہنے کے لئے آگیا ہے -اس کے خوشی کی انتہا نہیں رہی -اس نے اچانک یوں نوکری چھوڑ کر آجانے کی وجہ جاننے کی بھی کوشش نہیں کی –
کچھ دنوں بعد شگفتہ کی والدہ کا بھی انتقال ہو گیا -شگفتہ اس طرح والدین کے سائے سے محروم ہو گئی -اب اس کے پاس وقت ہی وقت تھا -وہ زیادہ سے زیادہ وقت نسیم کے ساتھ گزارنے لگی –
نسیم اپنی بیماری کو لیکر اندر ہی اندر کافی پریشان رہنے لگا -نسیم کے اخلاق میں بھی کافی فرق آگیا تھا -شگفتہ یہ سب دیکھ کر حیران اور پریشان تھی -شگفتہ جب بھی اس کے قریب آنا چاہتی نسیم اس سے دور رہنے کی کوشش کرتا -شگفتہ کو نسیم کا یہ رخ دیکھ کر کافی غصہ آیا -اس نے کہا ”میں نے تو آپ کو یہاں آنے کے لئے نہیں کہا تھا -یہ فیصلہ تو صرف آپ کا تھا -پھر آپ میں یہ تبدیلیاں کیسی ؟اگر آپ ممبئی جانا چاہتے ہیں تو چلئے میں بھی آپ کے ساتھ چلتی ہوں -”
نسیم نے شگفتہ کی کسی بات کا کوئی جواب نہیں دیا -وقت یوں ہی گزرتا گیا -ایک دن شگفتہ کو تیز بخار آگیا -وہ نیم بے ہوش ہو گئی -اسے فورا ڈاکٹر کے پاس لا یا گیا -ڈاکٹر نے ڈ ھیڑ سا ری دواؤں کے ساتھ کچھ جانچ کی صلاح دی -شگفتہ کا بخار اتر نے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا -نسیم انجانے خوف سے لرز گیا – اسکی سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کرے -وہ پھر ڈاکٹر کے پاس گیا ڈاکٹر صاحب شگفتہ کا بخار نہیں اتر رہا ہے -ڈاکٹر نے کچھ دوائیں بدل دیں اور چار روز بعد پھر آنے کے لئے کہا –
نسیم نے ڈاکٹر سے کہا ”ڈاکٹر صاحب اگر کوئی اور جانچ ہو تو وہ بھی کروا لیجئے تاکہ اطمینان ہو جائے -ڈاکٹر ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ نسیم نے کہا کہ اگر ایڈز کی جانچ بھی ہو جائے تو کیسا رہیگا ؟ڈاکٹر چونک پڑا ‘اس نے کچھ دیر سوچا پھر پرچے پر ایڈز کی جانچ لکھ دی -جب رپورٹ آئی تو ڈاکٹر یہ دیکھ کر حیرت میں پڑ گیا کہ جس مریضہ کا وہ علاج کر رہا تھا وہ دراصل ایڈز کی شکار ہے -ڈاکٹر نے نسیم کو سوالیہ نظروں سے دیکھا اور پوچھا اس سے قبل آپ کہاں اور کیا کرتے تھے -ڈاکٹر کو جب ساری کہانی کی جانکاری ہوئی تو اس نے نسیم کو ڈانٹنے والے انداز میں کہا آپ نے خود کے ساتھ اپنی بیوی کو بھی جہنم کی آگ میں ڈال دیا ہے -آپ اس کے قاتل ہیں -شہر میں چونکہ یہ پہلا کیس تھا اس لئے ڈاکٹر نے اپنا فرض نبھاتے ہوئے ان دونوں کو ایڈز اسپتال میں علاج کے لئے بھیج دیا تاکہ اور کوئی اس مرض کا شکا ر نہ ہو جائے – یہاں ڈاکٹروں نے کچھ دوائیں دیکر انہیں گھر بھیج دیا -کچھ دنوں بعد نسیم کی طبیعت کافی خراب ہو گئی اسے پھر اسپتال میں بھرتی کرایا گیا -جہاں رات بھر جاگنے اور موت کا ڈر ذہن پر طاری رہنے کی وجہ سے اس کے دل نے کا م کرنا بند کر دیا –
شگفتہ تو اس دن کے لئے پہلے سے تیار تھی -اس کے آنکھوں کے آنسو خشک ہو چکے تھے-اسے نسیم کے جانے کا رنج تو ضرور تھا لیکن اسے اس بات کا بھی ملال تھا کہ اس کی وجہ سے اس کی خود کی زندگی بھی جہنم بن گئی –
شگفتہ کو مرد ذات سے ہی نفرت ہو گئی -اسے سارے مرد ایک جیسے لگنے لگے -اس کے سامنے مرد ذات کی ایک عجیب وحشیانہ تصویر ابھر کر آگئی -اس کی نظروں میں مرد صرف جنسی خواہشات کا بھوکا نظر آیا -نفرت کی آگ نے اس کے دل میں انتقام کا جذبہ پیدا کر دیا -اس نے اپنے شہر کو چھوڑ کر کسی اجنبی جگہ رہنے کا ارادہ کر لیا جہاں اسے کوئی جاننے والا نہ ہو –
وہ جدھر بھی جاتی لوگ اسے لالچ بھری نظروں سے دیکھتے وہ کسی کی پرواہ کیے بغیر چلتی گئی -ایک مقام پر پہنچ کر ٹہر گئی کیوں کہ یہاں جوانوں کے ساتھ ہی ساتھ بوڑھے بھی اس پر فقرے کستے ہوئے نظر ائے -اس نے ایک بڑے میاں کو اپنی طرف بلایا -وہ ہنستا ہوا آیا جیسے بغیر مانگے اسکی کوئی مراد پوری ہو رہی ہو -شگفتہ نے اس سے ایک چھوٹے سے مکان کی فرمائش کی جس میں وہ رہکرزندگی کے شب و روز گزار سکے -بڑے میاں نے فورا اپنا مکان پیش کر دیا -اسے اپنے گھر لے گیا ایک کشادہ کمرہ جس میں ضروریات کی ساری چیزیں موجود تھیں دکھایا -یہ کمرہ شگفتہ کو پسند آگیا اس نے بڑے میاں کو کرائے کا کچھ ایڈوانس دیا جسے بڑے میاں نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کردیا کہ جب ضرورت ہو گی لے لیگا -شگفتہ کے پاس روپے پیسے کی تنگی نہیں تھی والدین نے اتنا اس کے لئے چھوڑ رکھا تھا کہ وہ سا ری زندگی آرام سے زندگی بسر کر سکتی تھی –
شگفتہ نے بڑے میاں سے اجازت لیکر کمرہ بند کر لیا اور غسل کر اپنی تھکن مٹائی کپڑے بدل کر وہ تھوڑی دیر کے لئے پلنگ پر لیٹ گئی اسے جلد ہی نیند آگئی -اس نے یہاں رہنے کا ارادہ تو کر لیا تھا لیکن انجانے خوف سے خوفزدہ بھی تھی –
اسے اس بات کا اندازہ بھی ہو گیا تھا کہ یہاں کے لوگ اس کا جنسی استحصال بھی کرینگے -لیکن اسے اب ان سب باتوں سے کوئی خوف نہیں تھا -ہاں !خوف تھا تو بعد کے بھیانک انجام سے –
اس کا کیا وہ تو ایک مردہ لاش تھی جو اندر سے مر چکی تھی -اب صرف باہر سے اسے مرنا تھا –
اس نے جنسی بھوکے بھیڑیوں کو سبق سکھانے کی ٹھان لی -جس نے بھی اس سے جنسی تعلقات بنانا چاہا اس نے اس کا استقبال کیا -اس نے اپنے پاس ایک ڈائری بھی رکھلی اور آنے والوں کے نام اور پتے بھی نوٹ کرنے لگی -جب ایسے لوگوں کی تعداد کافی ہو گئی تو اس نے یہاں سے ہجرت کر ایسی جگہ جانے کا سوچا جہاں زندگی کے باقی دن سکون سے گزار سکے-لہذا ایک رات صبح صادق سے پہلے جب ساری مخلوق نیند کے آغوش میں تھی – اس فہرست کو جسے اس نے اپنے خون جگر سے بولڈ لیٹرس میں لکھا تھا شہر کے مانے جانے چوراہے نہرو چوک پر چسپا کر دیا -اور اپنی گٹھری اٹھائے مشرقی صوبے کی طرف روانہ ہو گئی –
جب لوگوں کی آنکھیں کھلیں تو ان کی نظر اس فہرست پر پڑی جس کے اوپر لکھا تھا جن لوگوں نے جنسی تعلقات بنائے ان کے اندر ایڈز کا وائرس پہنچ چکا ہے -جو لوگ مجھ سے دور رہے -انکا شکریہ
ادھر شگفتہ مشرقی صوبے کے ایک ایسے علاقے میں پہنچ گئی جہاں کچھ غریب اور بھکاریوں کی جھونپڑیاں تھیں -شگفتہ نے ایک بوڑھی عورت کو اپنی کہانی سنائی اور باقی زندگی یہاں رہکر گزار نے کی خواہش ظاہر کی -اس عورت کو شگفتہ سے ہمدردی ہو گئی -اس نے اپنی جھونپڑی میں اسے رہنے کی جگہ دیدی -شگفتہ نے اپنی سا ری دولت اس بوڑھی عورت کو سونپ دی -اس عورت نے اسے ڈھیر سا ری د عآئیں دیں -یہاں وہ ماں سا پیار پاکر خوش ہے –

Published inعالمی افسانہ فورممعین الاسلام صوفی بستوی
0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x