عالمی افسانہ میلہ 2019
افسانہ نمبر 82
تحریر نفیسہ سلطانہ انا
بھوپال انڈیا
عنوان ” رگ جاں “
مجھے اس سے بے پناہ محبت تھی ، میں اس سے جدا ہوکر ایک پل بھی جدا ہونے کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کیونکہ وہ میری رگ – جاں سے بھی قریب تھی۔۔
جب سے میں نے ہوش سنبھالا تب ہی سے ہمارا روحانی رشتہ تھا ۔۔
جیسے جیسے میں بڑا ہوتا گیا میری محبت بھی پختہ ہوتی چلی گئی میں اس کے اشاروں پر چلنے لگا۔۔
جو وہ چاہتی میں وہ کرتا جو وہ سوچتی مجھے محسوس ہوجاتا ۔۔
وہ تھی بھی اتنی حسین ، ایک مقناطیسی کشش تھی اس کے اندر جو مجھے اپنی طرف کھینچتی۔۔میں اس ہوش ربا کےحصار- سحر میں بری طرح جکڑ چکا تھا میرا وجود اب میرا نہیں رہا تھا۔۔
پھر میں جوان ہو ، ا اسکا حسن و شباب بھی عروج پر تھا ۔۔ مجھے اس کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا ، میں نے اسکی خاطر تمام رشتوں سے منھ موڑ لیا تھا یہاں تک کہ میرے بوڑھے والدین جنہوں نے اپنی خواہشات کا گلا گھونٹ کر میری ہر خواہش پوری کی مجھے پروان چڑھایا اچھی تعلیم دلائی کہ میں کسی کا محتاج نہ رہوں اور اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکوں ، لیکن میں نے انکی بھی ایک نہ سنی اور اپنے آپ کو اس کے سپرد کردیا۔۔
میں کرتا بھی کیا ؟ وہ میری رگ رگ میں خون بنکر دوڑتی تھی۔۔ میری ہر سانس میں اسکی خوشبو بسی ہوئی تھی ۔۔
میں بھول گیا تھا کہ میں جس دنیا میں اتارا گیا ہوں اس میں رہنے کے کچھ تقاضے ہیں۔۔کچھ فرائض ہیں جو خالق- کائنات نے مجھ پر عائد کئے ہیں۔۔مجھے میرے رب نے جس مقصد کیلئے اتارا میں نے اسکو جاننے کی کوشش تک نہیں کی۔۔
یہ میں کیسا اشرف المخلوقات تھا جو حیوان سے بدتر تھا۔۔
میں نے ساری عمراس حسینہ کے حسن میں گرفتار ہوکر گزار دی ۔۔یہاں تک کہ میرے اعصاب کمزور ہوگئے ۔۔جیسے جیسے وقت گزرتا گیا میرے جسم کے اعضاء میرا ساتھ چھوڑنے لگے لیکن میرے عشق میں کمی نہ آئی ، بڑھتا ہی چلا گیا کیونکہ مجھے پورایقین تھا کہ وہ مجھے کبھی چھوڑ کر نہیں جاسکتی۔۔
وہ جو میرا غرور تھی مجھے کبھی رسوا نہ ہونے دے گی اور مجھ سے کبھی بیوفائی نہیں کرے گی۔۔
لیکن دل کے کسی کونے سے آواز آئی اب تجھ میں رہ ہی کیا گیا ہے ۔۔آدھا تو ، تو مر ہی چکا ہے کیونکہ تیری یاد داشت کمزور ہو چکی ہے ، صاف دکھائی نہیں دیتا، دانت بھی دھیرے دھیرے گر رہے ہیں ، ہاتھ پیروں میں رعشہ طاری ہو چکا ہے ، کمر کچھ دیر بیٹھنے نہیں دیتی ۔۔اب وہ تیرا ساتھ کیسے دے سکتی ہے۔۔
میں ڈر گیا ۔۔ میں سچ مچ ڈرگیا ۔۔ اس سے جدا ہونے کا خوف مجھ پر طاری رہنے لگا۔۔
ایک دن جب دل ڈوب سا رہا تھااور میں اپنے اندر ایک خالی پن محسوس کر رہا تھا ایک انجانا احساس میری بے چینی میں اضافہ کر رہا تھا میرا گلا سوکھنے لگا ۔۔کانٹے سے محسوس ہورہے تھے میرے اندر ۔۔تو میں نے اسکو اپنے پاس بلایا ۔۔۔ آج بھی اس کے وجود سے مسحور کن خوشبو پھوٹ رہی تھی ، اب بھی اس میں وہی کشش
موجود تھی ۔۔ میں نے اپنی پوری قوت جمع کرکے اٹھنے کی کوشش کی ،لیکن میرا لاغر جسم واپس بستر پر ڈھ سا گیا ۔۔میں نے بمشکل لرزیدہ ہاتھ سے اس کا ہاتھ تھاما اور اپنے سینے سے لگا لیا ۔۔میری دھڑکنیں منتشر ہونے لگیں ، سانسیں بے قابو ہو گئیں پیاس کی شدت ایسی کہ “سمندر بھی پلا دو تو پیاس نہ بجھے “۔۔
میں نے اس سے کچھ کہنا چاہا ۔۔اسکا شکریہ ادا کرنا چاہا کہ وہ ابھی تک میرے ساتھ ہے ۔۔میں اس کو بتانا چاہتا تھا کہ مجھے اب بھی اس سے کتنی محبت ہے ۔۔میں اس سے وعدہ لینا چاہتا تھاکہ وہ ہمیشہ میرے ساتھ رہے گی مجھےچھوڑ کر تو نہیں جائے گے گی ؟ مگر میری آواز گلے میں ہی اٹک کر رہ گئی ۔۔۔لفظ خاموش ہوگئے۔۔ ہر طرف سائیں سائیں کرتا سناٹا محسوس ہونے لگا ۔۔میری آنکھوں کے سامنے ایک دھند سی چھا گئی ۔۔یہاں تک کہ میں خود کو ہواءوں میں اڑتا ہوا محسوس کرنے لگا ۔۔ میں نے اپنی پوری قوت یکجا کرکے اس کے ہاتھ کو مضبوتی سے تھامے رہنے کی کوشش کی۔۔۔لیکن میں ایسا نہ کرسکا ۔۔ میرا ہاتھ چھوٹ گیا ۔۔۔ میں ایک ٹک اسے دیکھ رہاتھا ۔۔
اچانک ایک دھواں سا اٹھا اور وہ میری آنکھوں سے اوجھل ہو گئی ۔۔
میری آنکھیں حیرت اور بے یقینی سے پتھرا سی گئیں ۔۔
اور دھواں کا وہ ٹکڑا آسمانوں کی بلندیوں کی جانب اڑتا چلا گیا ۔