Skip to content

رُونے والے

عالمی افسانہ میلہ 2018
افسانہ نمبر 117
رُونے والے
قیصردلاورجدون حسن ابدال ،پاکستان
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ساون برسنے کے بعد حبس پیدا ہو گئی تھی ۔ تاریکی ہلکی ہلکی سفیدی میں بدل رہی تھی ۔تین مرلے کے چھوٹے سے گھر میں ایک خستہ حال کمرہ تھا جس کی چھت بادلو ں کی گرج سے سہم سی جاتی تھی۔ دیواروں کا پلستر بھی اینٹوں کا ساتھ ایسے چھوڑ رہا تھا جیسے ہر کڑے وقت میں انسان کو دوست ۔کمرے کا دروزاہ تھامگر اندر کی کنڈی جانے کب سے ٹوٹی ہوئی تھی ۔ گھر کا صدر دروازہ بھی اپنی معیاد پوری کیے ہوئے تھا۔ زنگ نے اُسے اس طرح کھا لیا تھا جیسے دھیمک اچھے بھلے شجر کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ۔ باتھ روم میں پانی کا انتظام نہ تھا ۔ بجلی کی تاریں کئی جگہوں سے لٹک رہی تھیں۔ رحیم برآمدے میں لیٹا کرائے کہ اس مکان کو دیکھ رہاتھا اور سوچ رہاتھا کہ ایک وقت تھا جب اس کے باپ کے مکانوں میں لوگ کرائے دار ہوا کرتے تھے اور آج وہ۔۔۔۔۔
اُسے ایک لمحہ کے لیے جیرے قصائی کی باتیں یاد آگئیں۔
’’میں ساری عمر دوستی نبھانے اور رشتے کمانے میں لگا رہا صاحب بہادر!مگر جب میں نے دیکھا کہ لوگ پیسہ کمانے والے کو زیادہ عزت دیتے ہیں تب سے میں نے پیسہ کما نا شروع کردیا ہے اور جب پیسہ پاس آتا ہے جناب تو رشتے دار اور دوست خود کر چل کر آجاتے ہیں ۔صاحب بہادر !اب خلوص کی کوئی وقعت نہیں جی۔۔۔ پیسہ کمائیں ،پیسہ ۔۔۔یہی اس منافق معاشرے کا معیار بھی ہے اور ضرورت بھی ۔ مجھے دیکھیں پہلے کوئی چائے کا کپ نہیں پوچھتا تھا اب جیرا اُستاد ۔۔۔جیرا اُستاد۔۔۔ ہوتی ہے یہ ساری سلامیاں مجھے نہیں جی بابے کو ہیں بابے کو‘‘۔’’یہ بابا قائداعظم جس سے راضی ہو نا جی سب راضی ہو جاتے ہیں ۔‘‘
’’کیا ہوارحیم ۔۔۔لگتا ہے پھر طبیعت خراب ہوگئی ہے۔ آپ کوکتنی بار کہہ چکی ہوں اللہ کا واسطہ ہے مت سوچا کریں۔ اللہ تعالیٰ بہتر کرے گامگر مجال ہے آپ پر کبھی میر ی بات کا اثر ہوآپ کے سوچنے سے کیا ہوگا ۔ان بچوں کی ،خاطر میری خاطر اپنا خیال کریں اگر آپ کو کچھ ہوگیا۔۔۔۔۔۔‘‘رقیہ کچھ کہتے کہتے رُک سی گئی تھی۔
رحیم نے دل پر ہاتھ رکھااور لمحے بھر کے لیے اُس کے ذہن میں خیال آیا:
’’ہاں اگرا س کرائے کے مکان میں میں مر گیا تو میرے بیوی ، بچوں کا کیاہوگا ۔ میرے بچے تو رُل جائیں گے ۔میرے بھائیوں نے میری زندگی میں ہی مجھے گھر سے نکال دیا اور آج دو ماہ ہونے کو ہیں کوئی خبر تک نہیں لی میں کیسے مانوکہ میرے مرنے کے بعد وہ میرے بچوں کے سر پہ ہاتھ رکھیں گے ۔ بیوی کہاں دھکے کھائے گی‘‘۔اچانک سینے میں درد کی ٹھیس اُٹھی تو اس نے آنکھیں موند لیں ۔
’’کیا ہوا رحیم؟ لگتا ہے درد بڑھ رہا ہے خدا کے لیے اُٹھیے اور ہسپتال جائیے میں چلتی ہوں آپ کے ساتھ۔‘‘رقیہ نے رحیم کو سہارا دیتے ہوئے اُٹھا یا ۔
’’نہیں۔ گھر میں بچے اکیلے ہوں گے میں اکیلا چلا جاتاہوں ۔ ویسے جانے کا فائدہ نہیں ہے مجھے دیکھ کرہسپتال کا عملہ پہلے ہی ڈر جاتا ہیں کہ دل کا مریض ہے کوئی گولی ٹیکہ دیا تومرکے سرپڑے گا۔ خیر تم ضد کرتی ہو تو چلا جاتا ہوں۔‘‘رحیم نے کمرے کے فرش پر سوتے بچوں کو دیکھتے ہوئے کہا ۔
وہ تھکے تھکے قدموں سے چلتاہوا اپنی گلی سے باہر نکلا ۔اُس کی سانس کافی پھول چکی تھی سانس لینے میں اُسے دشواری محسوس ہو رہی تھی جس کی وجہ سے اُس سے چلا نہیں جا رہا تھا اُس نے پاس سے گزرتے رکشے کوہاتھ کے اشارے سے روکا۔
’’سول ہسپتال تک جانا ہے ‘‘
’’لے جاتے ہیں جی مگر پچاس روپے کرایہ ہوگا‘‘
رحیم نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو دس کے چار نوٹ اُسے دیکھ کر منہ چڑانے لگے جیسے کہہ رہے ہوں ہم تو چار ہیں تجھے پانچ کی ضرورت ہے۔ رحیم نے رکشہ والے کو دیتے ہوئے کہا۔
’’میرے پاس تو یہی چالیس روپے ہیں خدا راہ مجھے جلدی سے ہسپتا ل پہنچا دو میری سانس بہت تنگ ہورہی ہے ‘‘
’’او نہ بھائی جی۔۔۔ پٹرو ل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں پچاس لو گا پچاس،آج صبح سے پھر دو روپے لیٹر ظالموں نے بڑھا دیا ہے ‘‘ساتھ ہی رکشہ سٹارٹ کیا اور چلتا بنا۔
رحیم کے درد کی تکلیف بڑھ رہی تھی وہ روڈ کنارے ہی زمین پر بیٹھ گیا کچھ دیر بعد اپنی وجود کو پہلے سے کچھ بہتر محسوس کیا تو گرتا پڑتا ہسپتال پہنچ گیا۔ ہسپتال کا سارا عملہ اُسے اب پہچان چکا تھا آئے دن اُس کے آنے سے عملہ اُسے دیکھ کر کھسر پھسر کرنے لگتا۔
ڈاکٹر نے اس کا بلڈ پریشر چیک کرکے اسے بیڈ پر لیٹنے کا اشارہ کیا اور وارڈ بوائے کو ای سی جی مشین لانے کو کہا۔رحیم جیسے ہی سٹریچر پر لیٹایکدم دل کا دورہ پڑا(ہارٹ اٹیک ) ۔دور ہ بھی شدید قسم کا تھا۔وہ موت کو سامنے دیکھ کر دہک گیا ۔
’’ کیا میرا وقت برابر ہوگیا ہے۔‘‘
موت کے فرشتے نے اثبات میں سرہلایا۔ اُس کے سامنے اپنے دونوں بیٹوں کی صورتیں گھوم گئیں کیا میرے بچے آج یتیم ہوجائیں گے۔اللہ تو ہی ان کا محافظ ہے اوربیشک بہتر محافظ تو ہی ہے ۔اس کے لبوں سے کلمہ شہادت کی آواز سن کر ڈاکٹر اور دوسرا عملہ اس کی طرف لپکا ۔ڈاکٹر نے اُس کی سانس بحال کرنے کے لیے آکسیجن لگائی مگربہتر ی نہ دیکھ کر ڈاکٹر مایوسی کے عالم میں پیچھے ہٹااور پیسنہ صاف کرتے ہوئے کہا ۔’’اٹیک بہت شدید ہے انہیں راولپنڈی ریفر کرنا پڑے گا جلد ی سے ایمبولینس تیار کریں۔ ‘‘
یکد م رحیم کا وجود سرد پڑ گیا ۔ ای سی جی کرنے والا گھبرا گیا۔
’’ڈاکٹرصاحب اس کی تو ڈیتھ ہوگئی ہے۔‘‘
’’اس کے ساتھ کون آیا ہے؟‘‘
’’یہ ہمیشہ کی طرح آج بھی اکیلا آیا ہے‘‘
’’اس کی جیبوں میں دیکھو کوئی کارڈ کوئی کاغذ ہو شاید‘‘
ٖڈسپنسراس کے جیبوں کو ٹٹولنے لگا ۔
’’ڈاکٹر صاحب اس کے پاس تو شناختی کارڈ بھی نہیں ہے اورنہ کوئی کاغذ جیب میں ۴۰ روپے ہیں بس‘‘ ۔
اتنے میں رحیم کے موبائل پہ گھنٹی بجی اور سامنے ایک نمبر نمایاں ہوا ۔ڈسپنسر نے ڈاکٹر کو دیکھتے ہوئے کہا
’’ فون اُٹھاؤں جی ‘‘۔
ڈاکٹر نے اثبات میں سرہلایا ۔کال رسیو کرنے کے بعد رقیہ کی آواز آئی ۔
’’رحیم کیسی طبیعت ہے ،اتنی دیر کیوں کردی خیریت توہے ناں طلحہ بابا،بابا کررہاہے ‘‘۔
ہسپتال کاسارا عملہ اوپن سپیکر کی آوا ز سن کر رنجیدہ ہوگیا۔ ڈسپنسر نے دبی ہوئی آوازمیں کہا ۔
’’بہن جی یہ بھائی صاحب فوت ہوگئے ہیں آپ اپنے گھر کے مردوں کو کہیں آکر میت لے جائیں ‘‘۔
’’کیااااا۔۔۔ رحیم فوت ہوگئے ہیں نہیں۔۔۔ نہیں ۔۔۔نہیں ۔۔۔میرے طلحہ اور صالحہ کے ابامرگئے ہیں ۔ہمارا تو کوئی نہیں جو میت لینے آئے اللہ کا واسطے میرے رحیم کو میرے گھرتک پہنچا دیں‘‘۔
جسد خاکی سے روح نکل چکی تھی اور کھڑی سارا تماشا دیکھ رہی تھی کہ اس کا خاکی بدن بے وارثوں کی طرح ورثہ کا منتظر تھا اور اُسکے اپنوں کو تو خبر بھی نہیں تھی۔
وارثاں دا کر مان نہ وراث ۔۔۔رب بے وارث کر ماردا ہو۔۔۔۔
ڈسپنسرنے رحیم کے پاؤں کہ ا نگھوٹھوں اور منہ کو باندھا اور آنکھیں بند کر دیں۔ہسپتال کہ عملے کہ پاس میت کے اوپر دینے کے لیے سفید چادر تک نہ تھی ۔
’’سر ابھی تو شفٹ بدلنے لگی ہے اس کا کیا کریں جی ‘‘ڈسپنسر نے ڈیوٹی پہ موجودڈاکٹر سے کہا۔
’’تم لو گ اس کی میت کو مارچری (مردہ خانے) میں رکھ آؤ اگلی شفٹ کو بتا دیں گے وہ جانیں اور ان کام ‘‘ڈاکٹر نے رحیم کی میت کو گھورتے ہوئے کہا۔ جیسے دل میں کوس رہا ہو کہ تو چھٹی کے وقت کہاں سے آدھمکا ۔
رحیم کی میت مارچری( مردہ خانہ ) میں رکھ دی گئی۔شفٹ بدلنے کے بعد میت اور رحیم کا موبائل اگلی شفٹ میں آنے والے عملے کے حوالے کردیے گئے۔رقیہ کے فون بار بار آرہے تھے کہ خدا راہ میت کو میرے گھر تک پہنچا دیں۔
رقیہ کی چیخوں نے محلے کے سب لوگوں کو متوجہ کیا اور ہوتے ہوتے چھوٹا سا مکان محلے کی خواتین سے کھچاکھچ بھرگئیں اور مرد سول ہسپتال چلے گئے ۔کچھ دیر بعد محلے کے چند مرد رحیم کی میت لے کر آگئے ۔رحیم کی روح مسکرا رہی تھی ۔اُس کی میت کو کسی اپنے نے کندھا نہیں دیا تھا۔سب غیرلوگ اُس کے نئے محلے کے لوگ۔
میت کے گھر داخل ہونے کے بعد رقیہ کی چیخوں نے آسمان کے ساتوں پردے ہلا دیے ۔بچے روتے ،چلاتے ماں کے ساتھ لپٹ گئے۔ بال کھولے رقیہ میت کے اوپر گر گئی۔
’’ میرے رحیم وہی کیا نا جس سے ڈرتی تھی میرے سائیں میرے بچوں کا ہی سوچا ہوتا ۔ میرا طلحہ تو تیرے بغیر سوتا بھی نہیں ‘‘
’’ہائے میرے رحیم! تجھے دل کی بیماری لے ڈوبی ۔پریشانیا ں تجھے دھیمک کی طرح چاٹ گئیں ‘‘۔’’میرے رحیم! اُٹھ ناں دیکھ تیرے بچے رورہے ہیں جنہیں ڈاٹنے اور مارنے سے مجھے روکتا تھا دیکھ اُٹھ کے دیکھ نا کیسے بلک بلک کے رورہے ہیں‘‘ ۔’’ میرے رحیم! مجھے اُجاڑ دیا ہے میرے بچوں کے ماتھے پہ یتیمی لکھ گئے ہو۔ تیرے لاڈلوں کے نخرے کون اُٹھائے گا کس در پہ رُلیں گے تیرے لال ۔کچھ سوچا ہوتا میرے رحیم کچھ بتایاہوتا‘‘۔
طلحہ باپ کی چارپائی کے ساتھ کھڑا اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے اُس کی آنکھوں کو کھولتے ہوئے بولا۔
’’بابا اُٹھو ناں سو کیوں رہے ہو‘‘۔’’مما بابا کے منہ کو کیوں باند ھاہے باباکھانا کیسے کھایں گے‘‘۔
رقیہ یکم دم چیخی
’’ میرے رحیم !طلحہ کے سوالوں کے جواب کیسے دوں گی جب یہ دروازے کو دیکھ کر تیرا انتظار کرے گا کہ کب بابا میرے لیے چیجی لے کر آئیں گے‘‘ ۔
اس نے صالحہ اور طلحہ دونوں کو چارپائی کے اوپر بٹھاتے ہوئے کہا ’’میرے شہزادوں تمہارے بابا تم سے ناراض ہوگئے ہیں تمہارے بابا تمہیں چھوڑ گئے ہیں‘‘۔
صحن میں کھڑی ہر عورت رقیہ کی آہ وزاری دیکھ کر رو رہی تھی ننھے منھے دونوں بچوں کو دیکھ کر پتھر بھی روپڑتے جو باپ کی آنکھ کھلنے کے منتظر اُس کی چارپائی پہ بیٹھے چہرے کو دیکھ رہے تھے ۔
رحیم کی روح یہ سب منظر دیکھ کر اُداس تھی اُس نے طلحہ اور صالحہ دونوں کو دیکھا جو اُس کے چہرے کو دیکھ رہے تھے اُ س نے بڑھ کر اپنے بیٹوں کے چہروں پہ ہاتھ پھیرنا چاہا مگر اچانک ایک انجانی قوت نے اُس روک دیا ۔ وہ رقیہ کی غشی کی حالت کو دیکھ رہا تھا ۔وہ جانتا تھا کے رقیہ کو آنے والے وقت کے اندھیرے دِکھ رہے ہیں۔
ایک شخص بھاگتا ہو ا رحیم کے بھائی شکور کے گھر تک پہنچا اور ملامت کرتے ہوئے بتایا۔
’’ تم لوگوں نے رحیم کو گھر سے تونکال دیا تھا مگر پھر بھی بتانے آیا ہوں کہ تمہار ابھائی مرگیا ابھی ابھی ہسپتال سے میت لے کرگھر آئے ہیں‘‘۔
شکور نے باقی بہن بھائیوں کو رحیم کے مرنے کی اطلاع دی اور کچھ دیر کے بعد بھائی اور بھابیاں گھبرائے ہوئے اُس گلی میں داخل ہوئے جہاں شکور کرائے پہ رہتاتھا۔
رحیم کی روح نے دیکھ کر طنزیہ مسکراہٹ لی۔
’’ لوا ب آئے ہیں ڈرامے باز جب مجھے ان کی ضرورت تھی اس وقت نہیں آئے‘‘۔ ا’’س گلی میں داخل تک نہیں ہوئے یہ تک نہیں دیکھا میں کیسے مکان میں رہتاہوں بجلی ، گیس ، پانی ہے کہ نہیں میرے بچوں کو کچھ چاہیے کہ نہیں میں نے دوائی لی کہ نہیں میرے وجود کو جب ان کی ضرورت تھی اس وقت یہ نا کے حصار میں تھے اور مجھے میرے حال پہ چھوڑ دیا اب جب میں ا س دنیا سے چلا گیا تو چلے آئے محبت جتانے‘‘۔
رحیم کی میت کو پہلا غسل دیکر چارپائی برآمدے میں رکھ دی گئی تھی چھوٹا سا صحن، برآمدہ ،کمرہ اور کمرے کی چھت عورتوں سے بھرے تھے ۔اب تو کچھ عورتیں آس پاس کے گھروں کی چھتوں پر جا بیٹھی تھیں ۔ جگہ کی تنگی دیکھ کر عورتیں آتیں، میت کا منہ دیکھتیں، کر رقیہ کے گلے لگتیں۔ اورجگہ کی تنگی دیکھ کر گھر پلٹ جاتیں ۔
رحیم کے سب سے بڑے بھائی صادق نے رقیہ کو بلایا۔
’’ میت ہم لے کر جائیں گے اور کفن دفن بھی ہم کریں گے ۔ اس کرائے کے مکان میں اگر برادری والے آئے تو بہت بے عزتی ہوگی کہ اس ایک کمرے کے مکان میں ہمارا بھائی کرائے دار تھا‘‘ ۔
رقیہ کو گزرنے والا وقت بھولا نہیں تھا ۔ اُسے رحیم کی وصیت یاد آگئی۔
’’دیکھورقیہ اگر کبھی میں مرجاؤں تو میری میت میرے بھائیوں کے حوالے نہ کرنا جنہوں نے مجھے اس بیماری کی حالت میں گھر سے نکالا اور پھر خبر تک نہ لی اور ہاں نہ ہی اپنے بھائیوں سے مجھے کفن ڈلوانا تاکہ کل میرے بچوں کو کوئی طعنہ نہ دے کہ تیرے باپ کو کفن ہم نے دیا تھا‘‘۔
رحیم کی روح نے سب بھائیوں کے چہروں کو گھورا اور مخاطب کرتے ہوئے کہا ۔
’’کاش تم میری آوازسن سکتے ‘‘۔’’آج اپنی عزت بچانے کی خاطر میری میت لے جانے کو آئے ہو‘‘۔’’اس وقت تمہاری عزت کہاں تھی جب میں بے آسروں کی طرح سامان لے کر اجداد کی حویلی سے نکلاتھا ‘‘۔’’مجھ سے میرے حصے کی زمین ہتھیانہ چاہتے تھے ناں ل۔۔۔و میں چھوڑ کے جا رہا ہوں ہوسکے تو تم ساتھ لے جانا‘‘۔’’تم میرے اس گھر تک نہیں آئے میری خبر تک نہیں لی ۔میں نے دو ماہ سسک سسک کرگزارے۔اب چلے آئے میرے خیرخواہ۔۔۔۔۔‘‘
رقیہ نے دوپٹہ ٹھیک کرتے ہوئے کہا۔
’’صادق بھائی رحیم کی وصیت تھی کہ اگر میں مرجاؤں تو اُن کی میت نہ اُن کے بھائیوں کو دوں اور نہ اپنے میکے لے جاؤں اور کفن بھی کسی کو نہ ڈالنے دوں اس لیے میں اُن سے کیا ہوا وعدہ نہیں توڑ سکتی ‘‘۔
صادق اور دوسرے بھائی بپھر گئے۔
’’ نہیں نہیں۔۔۔ میت ہم لے کر جائیں گے بھاڑ میں گئی تمہاری جھوٹی وصیت‘‘ ۔
محلے کے کچھ لوگ یہ جھگڑا دیکھ کر بول پڑے ’’ رحیم کی بیوی جو چاہے گی وہی ہوگا ٹھیک کہتی ہے وہ‘‘۔’’ آپ لو گ پہلے کدھر تھے۔کیونکہ مرنے والی کی اصل وارث اس کی بیوی ہے اور اس کی مرضی کے خلاف کچھ نہیں ہوگا‘‘ ۔
رحیم کی روح نے اطمینان کا سانس لے کر ایک دفعہ پیار سے رقیہ کی طرف دیکھا اور پھر بھائیوں کے لٹکے ہوئے چہروں کی طرف۔
بھابیاں بھی منہ بنائے میت کی چارپائی سے دور کرسیوں پہ جا بیٹھیں ۔
رحیم کی بہنیں جب سینا پیٹتی روتی چلاتی آئیں تو گھر میں کہرام مچ گیا ۔
’’میرے ویر، میرے رحیم! میرے شہزادے ویر ،ہائے۔۔۔ ہائے۔۔۔ ہائے ۔۔۔میرے طلحہ اور صالحہ کے بابا، میرے شہزادے ویر رُلتارُلتا بے علاج ہی مرگیا، ہائے ۔۔۔،میرے ویر ہمیں معاف کر دینا ہم کچھ نہ کر سکیں ،میرے ویر تیرے یتیموں کو ہم سنبھالیں گی ہم نصیبوں جلیاں تیری بہنیں، میرے ویر آج تو ماں کے پاس جارہاہے ناں ماں سے ہم سب کی شکاتیں کریں کہیں میری بہنیں بھی چپ تھی جب بھائیوں نے گھر سے نکالا تھا،میرے چن ویر آنکھیں کھول ناں ‘‘۔
سینا پیٹتی بہنوں کو دیکھ کر رحیم کی روح کچھ رنجیدہ ہوئی اور پھرکہا
’’ کاش تم میری آواز سن سکتیں ۔سوائے بڑی آپا کے میرا ساتھ اس وقت کسی نے نہیں دیا جب میں گھر چھوڑ کر نکل آیا تو تمہیں احساس ہوا کہ میں بے گناہ تھا۔چلوشکر خدا کااحساس تو ہوا ناں۔ بھائیوں کے دل تو اب بھی انہیں ملامت نہیں کررہے‘‘ ۔
رحیم کی پھپھی گرتی پڑتی روتی گھر میں داخل ہوئی ۔
’’بچہ بچہ ،میرے ویر کے بچے ،کیسا دکھ دے گیا ہے، بچہ بچہ ۔۔۔ابھی تو پہلے دکھ بھی نہیں بھرے تھے بچہ بچہ۔۔۔‘‘۔
رحیم کی روح ایک دفعہ طنزیہ مسکرائی ۔
’’ یہ سب اس بھرے مجمعے میں سچے ثابت ہورہے ہیں‘‘ ۔
رقیہ کے میکے سے بھی عورتیں روتیں پیٹتی آئیں ۔
رحیم کی روح کچھ دیر کے لیے سوچنے لگی ۔انہیں میری جوانی کی موت کا، دُکھ ہے یا اپنی بیٹی کے اُجڑنے کا،مگر جو بھی ہے، ان لوگوں نے میرے کڑے وقت میں میرا بہت ساتھ دیا ۔
رقیہ نے اپنے آپ کو سنبھالا اور ہاتھ سے سونے کی انگوٹھی اتار کر محلے کی ایک خاتون خالدہ کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے بولی۔
’’ آپا !آپ جلدی سے بازار جا کہ اسے بیچ آئیں تاکہ رحیم کے کفن کا انتظام ہوسکے خدا راہ جلدی واپس آئیے گا‘‘۔
عورت انگوٹھی لے کراپنے گھر آئی اور شوہر سے کہنے لگی ’’کافی موٹی اور خوبصورت انگوٹھی ہے رحیم کی بیو ی نے بیچنے کے لیے دہے۔ تاکہ رحیم کے کفن کا انتظام ہو سکے میں تو کہتی ہوں آپ بازار جا کر اس کی قیمت لگوائیں یہ ہم رکھ لیتے ہیں اوررقیہ کو پیسے دے دیتے ہیں‘‘ ۔
اُس کا شوہر کچھ دیر میں بازار سے لوٹا اورسات ہزار روپے بیوی کو دیتے ہوئے بولا ’’ انگوٹھی کی قیمت سات ہزار لگی ہے تم جلد ی جاؤ اور یہ پیسے اُسے دے کر آؤ‘‘۔
’’میں تمہاری انگوٹھی بیچ آئی ہوں یہ لو رقم اور اب جسے چاہو کفن کے لیے دو ‘‘۔
’’آپا!آپ اپنے میاں سے کہیں کہ وہ کا ان پیسوں سے رحیم کے کفن انتظام کریں‘‘ ۔
رحیم کے نئے جوڑے کی تیاریاں ہو رہی تھیں ۔ اس کی روح کو وہ منظر یاد آگیا جب رقیہ آنے والی عیدپر بچوں کے کپڑوں کے لیے پریشان تھی ۔
’’ رحیم اس بار تو حالات بالکل اجازت نہیں دیتے کہ ہم بچوں کے لیے عید کے کپڑے خریدیں ‘‘۔
مگر ۔۔۔۔بچوں کے نئے کپڑوں کے بجائے رحیم کے لیے نیا جوڑا تیارہو رہا تھا ۔
’’ابھی تک پہلے دن کا کھانا نہیں بنوایا گیا یہ عورت ہم لوگوں کی ناک کٹوائے گی کوئی دیگ نہیں چڑھائی گئی جنازے میں وقت ہی کتنا رہ گیاہے‘‘۔ صادق نے بھائیوں اور جرگہ میں بیٹھے لوگوں کو سناتے ہوئے کہا۔
’’دیکھیے جن حالات میں وہ شخص مرا ہے اور جس طرح اس کی بیوی کفن کا انتظام کر رہی ہے اس صورت میں تین چار دیگیں پکانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ۔ توشہ کے لیے چھوہارے منگوا لیے گئے ہیں ‘‘۔ کفن کا انتظام کر نے والے شخص نے بتایا ۔
’’مگر ان لوگوں کا کیا ہوگا جو صبح سے آئے ہوئے ہیں ہم لوگوں کی روایات ہیں کہ مرنے والے کے گھر چاول پکائے جاتے ہیں۔‘‘ رحیم کے بھائی نے غصے سے سب کو مخاطب کر تے ہوئے کہا۔
’’دیکھیے یہ نہ تو حکم خدا ہے اور نہ شریعت اس کی اجازت دیتی ہے کہ جہاں کوئی شخص بھوکا ایڑیاں رگڑ رگڑکر مر جائے وہاں دیگیں چڑھائی جائیں۔ رحیم کی بیوی کاجو فیصلہ ہوگا ہم وہی کریں گے کیونکہ وہ ہماری محلے کی بہن ہے۔‘‘
’’ہم خرچہ کرکے دیگیں منگوا لیتے ہیں۔‘‘
رحیم کی روح پھر مسکرائی ۔ لو یہ پھر بیس تیس ہزار روپے اپنے پاس لکھ لیں گے کہ جب جگہ کے بٹوارے کا مسئلہ اُٹھے گا تو یہ رقیہ سے مانگ لیں گے۔ تیرے شوہر کی فوتگی کا پہلا دن ہم نے کیا تھا ۔ جیسے پہلے ہارٹ اٹیک کی بار پندرہ ہزارسات سو روپے خرچ کیے اوربعد میں مانگ لیے تھے کہ تیری بیماری پہ یہ خرچہ ہوا تھا۔ او بھائیوْ! جیسے میں بھوکا دنیا سے چلا گیا ہوں ناں ویسے تم سب بھی بھوکے جاوگے یہاں سے۔
جرگہ سے ایک بزرگ نے اُٹھ کر سب کو مخاطب کیا۔
’’دیکھو بھائیوں ہمارے گاؤں میں آج بھی مرنے والے کے گھر تین دن تک چولہا نہیں جلتا ارد گر د کے گھروں سے لوگ کھانا بنا کر بجھواتے ہیں۔ یہ کیسی ریت ہے تم لوگوں کی کہ مرنے والے کے گھر بیٹھ کر مرچاول کھاتے ہوتمارے حلق سے ایسا کھانا اترتا کیسے ہے ؟۔ جس حال میں یہ شخص مرا ہے اس حال میں تو لوگوں کے پیٹ بھرنے سے بہتر ہے کہ اس کی بیوہ اور بچوں کا سوچا جائے‘‘ ۔
صادق اور دوسرے بھائیوں کے سر جھک گئے ۔ اور منہ بسورتے ہوئے بولا
’’او بزرگوں!یہ وقت خطبہ دینے کا نہیں ہے خاندان کی کچھ روایات بھی ہوتی ہیں ۔ ہمارے باپ دادا سے ہوتا آیا ہے کہ مرنے والے کے پہلے دن تین چار دیگیں چڑھائی جاتی ہیں‘‘ ۔
بز رگ بھی غصے ہوگئے۔
’’چاہے مرنے والے کے ورثا ء کی استطاعت ہو نہ ہوقرض اُٹھا کے خاند ان کی ناک بچاتا رہے ‘‘۔’’بھاڑ میں گئی تمہاری ایسی روایات اور تمہارے خاند ان کی ناک‘‘ ۔’’رحیم چند دن پہلے مجھے گلی میں ملا تھا اور ٹھیک سے چل بھی نہیں پارہا تھا ۔بھوک اور پریشانیوں نے اُسے اندر سے کھوکھلا کردیا تھا۔ وہ بیچارہ بھوکا مرگیا اور تم اُس کی بوٹیاں نوچ کر کھانا چاہتے ہو‘‘۔
بات رقیہ تک پہنچ گئی ۔
’’ آپا !آپ اپنے میاں سے کہیں کہ آج کے دن کسی قسم کاکوئی خرچہ کسی اور کو نہ کرنے دیں۔ اگر میرے پیسوں سے کچھ رقم بچتی ہے تو ایک دیگ منگوا لیں ۔ باقی رحیم کے بھائی اگر اپنے گھروں میں رحیم کا قل کر نا چاہیں تو بھلے کریں ۔مگر پہلے دن رحیم کی وصیت تھی کہ۔۔۔‘‘
رقیہ کچھ کہتے کہتے رک گئی ۔
رقیہ کے باپ نے اُسے بلاکر پہلے دن کا خرچہ کرنے کو کہااور بتایا کے اُس کے بھائی کا بار بار سعودیہ سے فون آرہا ہے کہ رحیم بھائی کی تدفین کا سارا خرچہ کریں اور رقیہ کو کہیں کے وہ پریشان نہ ہو۔
رقیہ نے باپ کو تسلی دیتے ہوئے بتایا کہ ’’سب انتظام ہو چکے ہیں ۔ آپ بے فکر رہیں‘‘ ۔
جنازے میں شریک ہونے کے لیے لوگ باہر گلی میں اکھٹے ہو رہے تھے ۔ ساتھ والے ایک گھر میں بھی کرسیاں بچھا دی گئیں تھیں ۔ رحیم کے دوستوں کا ٹولہ بھی چہرے پہ افسردگی کاتاثر لیے گلی میں داخل ہوا ۔
رحیم کی روح پھر مسکرائی ۔ ’’لو صاحبو یہ میرے یار ہیں میرے دوست ، دوست کم تما شا گیر زیادہ کس طرح منتیں کرکر کے انہیں میں نے اپنے حالات سے آگاہ کیا تھا کسی نے پلٹ کر دیکھا تک نہیں ۔میں جب بلاتا تو کہتے یا ر چھٹی نہیں ملتی تجھے پتا ہے نہ ڈیوٹی ہی ایسی ہے۔ آج میرا چہرہ دیکھنے اور اس بات کا اطمینان کرنے آئے ہیں کہ یارواقعی مرگیا ہے یا نہیں ۔ کاش یہ اس طرح میری زندگی میں آجاتے اور میرا ہاتھ پکڑ کر کہتے جگر! فکر کیوں کرتا ہے ۔’’شہزادے ہم ہیں ناں‘‘۔
رحیم کی میت کو غسل کے لیے اُٹھایا گیا۔برادری کی عورتیں آپس میں کھسر پھسر کرنے لگیں ۔رقیہ سب کی باتیں سن رہی تھی۔
’’آج مرنے والے کا پہلا دن ہے رات تو رکنا پڑے گا‘‘۔
’’ہاں مگر یہاں تو اس ڈربے میں رہنے کی جگہ نہیں ہے، میراتو یہاں دم گھٹ رہا ہے ،میں تو بھئی اپنے گھر جاؤں گی‘‘۔
’’اے ہاں بہن جی میں بھی جاؤں گی سنا ہے ابھی تک پہلے دن کے چاول بھی نہیں پک کر آئے ۔ اے بہن وہ کیا کہتے ہیں ناں ’’مرا مردود، نہ دعا نہ دررود‘‘۔
’’ٹھیک کہتی ہوبہن کوئی فائدہ نہیں یہاں رکنے کا،میں تو گھنٹے میں چار بار چائے پیتی ہوں اور یہاں تو پانی کا گھونٹ بھی مل جائے تو غنیمت ہے ‘‘
غسل کے بعد کفن میں میت عورتوں میں لایا گیا تو رقیہ کی چیخوں نے گھر کے درودیوار ہلا دیے ۔
’’میرے رحیم! تجھے نئے جوڑے کی مبارک ہو‘‘۔’’ میرے سائیں !میں نے تیرا وعدہ نبھا دیا ہے‘‘۔’’ میرے سائیں! تجھے تیرا آخری جوڑا تیرے پیسوں کا پہنایا ہے میں نے اپنی سہاگ کی نشانی آج تجھ پہ واردی میرے رحیم!‘‘۔
طلحہ اور صالحہ سہمے جنازے کی چارپائی کے ساتھ کھڑے تھے ۔ ماں اوردوسری عورتوں کو روتا دیکھ کر سہم گئے تھے ۔ باپ کوسفید چادروں میں لپٹا دیکھ کر طلحہ کچھ خوف زدہ ہوگیا تھا۔
کچھ دیر میں میت کو اٹھا لیاگیا ۔ رحیم کی میت کو سب کندھا دینا چاہتے تھے ۔ رحیم کی روح طنزیہ مسکرائی ۔
’’کیا یہ کندھا زندگی میں نہیں دیا جا سکتا تھا اگرتم سب میں سے کوئی ایک بھی اس کڑے وقت میں مجھے کندھا دیتا توآج۔۔۔۔۔،کیامردہ کو ہی کندھا دینا ثواب کا کام ہے۔ کیا زندہ کا ہاتھ پکڑ کر تسلی دینے کا کوئی اجر نہیں،کیا کوئی مُلا، کوئی اُستاد یہ نہیں بتاتا کہ کوئی رشتہ دار کوئی دوست یار مصیبت میں ہو تو اس کا ساتھ دو،یہ بدلتے ہوئے کندھے رب سے کون سا اجر لینا چاہتے ہیں‘‘ ۔ اس نے جنازہ میں شریک سب لوگوں کے چہروں کو گھورا کوئی کس موج میں تھا کوئی کس سوچ میں ۔
جنازہ نکلتے وقت دونوں بچے چیخنے لگے ۔ طلحہ بار بار ماں کی قیمص پکڑکر روتے ہوئے پوچھتا۔ ’’مما یہ سب انکل بابا کو کدھر لے کر جارہے ہیں۔مما بتائیں نہ میں رات کو کس کے پاس سوؤں گا۔‘‘
رقیہ کو غشی کا دورہ پڑا اور صحن میں گر گئی ۔ رقیہ کی ماں نے اُس کا سر گود میں لے لیا۔ ’’میری بچی ہوش کر۔۔۔میری بیٹی ہوش کر۔۔۔ دیکھ بچے کیسے بلک رہے رقیہ! رقیہ!۔۔۔ ‘‘۔
خالدہ پانی لاکر رقیہ پر چھڑکنے لگی ۔طلحہ بھاگتا ہوا گلی میں آیا اور جنازے میں شریک لوگوں کو پکڑ پکڑ کر کہنے لگا
’’میرے بابا کو کدھر لے کر جارہے ہیں ا،نکل! انکل !میرے بابا واپس کر یں ناں‘‘۔
ہر آنکھ نم ناک تھی۔محلے کے لڑکے نے طلحہ کو اُٹھایا اور رحیم کے گھر لا کر رقیہ کے حوالے کیا۔ طلحہ مسلسل ایک ہی بات کہہ رہاتھا
’’میرے باباواپس، کرو میرے بابا واپس کرو‘‘
جنازہ قبرستا ن پہنچایا گیا اور نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد رحیم کے چہرے سے کفن ہٹایا گیا ۔لوگ دوقطاروں میں ہوکر میت کا چہرہ دیکھنے لگے ۔ اور ساتھ ساتھ کھسر پھسر کرنے لگے ۔
’’کافی کمزور ہوگیا تھا۔ رنگ تو بالکل بدل گیا تھا رحیم کا۔‘‘
’’جناب! آنکھیں تو بھوک اور بیماری سے بالکل اندردھنس گئیں تھیں ۔‘‘
’’اتنی عمر کا تو نہیں تھا مگر داڑھی بالکل سفید ہوگئی تھی اس کی۔ ‘‘
جنازے کے بعد لوگ رحیم کے بھائیوں کو ملنے لگے ہر شخص اپنی حاضری لگا نا چاہتا تھا۔قطاروں میں لگے لوگ رحیم کے بھائیوں کو پکڑ پکڑ کر سینے سے لگا رہے تھے ۔
رحیم کی روح پھر مسکرائی ۔کیا یہ لوگ خدا کی رضا کے لیے آئے ہیں یا دنیا داری کے لیے ۔تعزیت کا یہ کون سا رنگ ہے کہ کسی شخص کا کوئی اپنا مرگیا ہے وہ اپنے ہاتھوں سے اُس کی تدفین نہ کرے بلکہ لوگوں سے ملتارہے اور تدفین غیر کردیں ۔
رحیم کی روح پھر مسکرائی ۔ ہاہاہاہا۔۔۔تیرے اپنے۔۔۔ ہاہاہا ہا۔۔۔ تیرے اپنے تجھے دفنائیں گے۔
میت کو لحد میں اُتار دیا گیا ۔ اورجنازے میں آئے ہوئے لوگ مٹی کی مٹھیا ں بھر بھر کر ڈالنے لگے اپنے پرائے سب رحیم پر مٹی ڈال رہے تھے۔
رحیم کی روح نے ایک دفعہ سب جنازے کے لوگوں کو مخاطب کرنا چاہا۔
’’دیکھو دیکھو یہ ہے زندگی کی حقیقت، دیکھ لو کل تمہار ا بھی یہی حال ہوگا ،تمہارے اپنے تم پر مٹی ڈال کر جائیں گے، اس گڑے میں تم اکیلے ہوگے ،دیکھ لو سب مجھے چھوڑ کر جارہے ہیں ،اب اس کوٹھڑی میں، میں ہوں اور میرے اعمال ۔ہے کوئی سننے والا ۔اُس کی روح چیخنے لگی ۔
جنازے میں آئے لوگ قبر کے مکمل ہونے کے بعد اپنے اپنے گھروں کو پلٹنے لگے ۔ اور کچھ دیر میں قبرستان کی خاموشی پہ رات کی سیاہی پھیل گئی ۔
رحیم کی روح اپنی طرف چلی گئی ۔
اگلے دن سے زندگی پھر معمول پر آگئی تھی ۔ سب اپنے اپنے گھروں میں پھر سے آباد ہو گئے تھے اگر کچھ اجڑا تھا تو رقیہ اور اس کے بچوں کا ۔رقیہ جان چکی تھی کہ اب اس کوبیوگی کی زندگی کیسے گزارنی ہے جیسے کانٹوں سے ململ کا دپٹہ اُتارا جائے ۔ طلحہ اور صالحہ اب بھی شام ڈھلے دروازے کی سمت دیکھتے ہیں کہ شاید ان کا بابا چیجی لے کر آئے ۔

Published inعالمی افسانہ فورمقیصر دلاور جدون

Be First to Comment

Leave a Reply