Skip to content

روشنی کی طلب میں

2019

‎افسانہ نمبر: 25

‎ روشنی کی طلب میں

‎احسان بن مجید اٹک ، پاکستان

‎اس گھر کی دہلیز پر صبح سے شام تک ایک بوڑھی خاتون بیٹھی رہتی ہے جو ہر آنے جانے والے سے ایک ہی سوال کرتی ہے “میرا بیٹا کب آئے گا”.

‎مطالعہ کے دوران جب اس کا کمرہ اچانک تاریک ہو جاتا تو وہ صحن میں نکل آتا، گھر بھی تاریک ہوتا تو وہ گلی میں نکل جاتا، گلی کیا سارا شہر جیسے اندھیرے کے عفریت کی زد میں ہوتا، ایسا ہونا ایک دو دن کی بات تو نہیں تھی، اب تو اس بات کو عرصہ ہونے کو آیا تھا، پہلے اسے پریشانی ہوتی تھی اب دُکھ بھی ہونے لگا تھا کہ یہ عمل دن کے علاوہ رات کو بھی طویل وقفوں سے ہونے لگا تھا، وہ صرف اپنے لئے فکر مند نہیں تھا بلکہ گلی محلہ شہر اور سارے وطن کی پریشانی اس کے بدن میں اتر جاتی تھی، وہ چونکہ خود الیکٹرک انجینئرنگ کے آخری سال کا طالب علم تھا اس لئے اسے دوسرے طالب علموں کی پریشانی بھی ستاتی تھی۔ اس نے کئی بار سوچا کیا کرے، کس سے شکایت کرے، جنہوں نے شکایت کی ان کا ازالہ کب ہُوا، کتنی آوازیں نکلیں، کتنے ہاتھ ہوا میں لہرائے، کتنی بسیں جلیں، کتنے رکشے ٹُوٹے پھُوٹے، مجال ہے جو کوئی ٹَس سے مَس ہوتا ہو، جس کی پُنجی لُٹ گئی سو لُٹ گئی، خبر گیری کون کرے اور پھر ایک بات سوچتے ہُوئے آخر ایسا کب تک چلے گا، اس کو بے بس کرنے کے لئے اس کی سوچوں کا یہ آخری سٹاپ تھا۔

‎ایک گھنٹہ، دو، تین، یا خدا یہ ہم کس کردہ یا نا کردہ گناہ کے عذاب میں مبتلا ہیں، وہ گھر جو روشنی میں پُر سکون ہوتا ہے، تاریکی میں کتنا خوفناک ہو جاتا ہے، لگتا ہے جیسے کئی سائے صحن میں گھوم رہے ہوں، گھر کا ہر فرد سہم جاتا ہے، تھوڑی تھوڑی دیر بعد سرگوشیاں ابھرتی ہیں اور دَم توڑ جاتی ہیں، اچانک اس کے گھر کے سارے ٹیوب روشن ہوتے تو آنکھیں لمحہ بھر کے لئے چندھیا جاتی ہیں لیکن پھر روشنی سے سمجھوتہ کر لیتی ہیں، گلی میں نوجوانوں کا ایک شور اٹھتا ہے اور بکھر جاتا ہے، نو جوان بھی کتنے معصوم ہیں، تین تین گھنٹے مسلسل اندھیرا جھیلنے کے بعد تھوڑی دیر کے لئے روشنی میں آتے ہی خوش ہو جاتے ہیں، جانے کیا ہے، کیوں ایک بے حسی کا عالم ہے، ہم کیوں پسینہ بہانے، اپنے آپ کو سُوئیاں چبھونے اور رتجگوں کا عادی کر رہے ہیں؟ یہ سوال جب پہلی بار اس کے ذہن میں اُٹھا تھا بہت چھوٹا سا، ننھا سا تھا، تحمل کی لوری سے سو جانے والا، بے ضرر سا، لیکن اب، اب جوان ہو چکا ہے، چڈی پہنے اپنے پٹھے دکھانے والا، اب دھونس سے اپنا جواب مانگتا ہے!

‎گھر میں روشنی ہوتے ہی وہ مطالعہ کے کمرے کی طرف لپکا، دروازہ اندر سے بند کیا کہ چھوٹے بہن بھائیوں کا شور اس کے کانوں میں داخل نہ ہو اور وہ یکسُوئی سے مطالعہ کر سکے، ایک سال بعد اسے الیکٹرک انجینئیر بن جانا ہے، اس کو ڈپلومہ مل جائے گا جو ملازمت کے حصول میں اس کے کام آئے گا اور پھر وہ ایک خوبصورت دفتر میں بیٹھا کرے گا، اسے کسی سے سروکار نہیں ہو گا، کوئی روشنی میں ہو یا اندھیرے میں رہے، اس کے لئے اتنا ہی کافی ہو گا لوگ اسے انجینئیر کہیں گے ۔۔۔۔ اس کے اندر ایک آہ اٹھی جو سانس بن کر اس کے ہونٹوں سے خارج ہو گئی، یہی وجہ ہے، بالکل یہی باعث ہے جو ستاروں پر کمند ڈالنے والے نہیں ڈال سکتے۔ اپنی ذات کے حصار میں رہنے والوں کو باہر جھانکنے کی اجازت نہیں ہے، اسے اپنے آپ سے گھِن آئی، شدید گھِن، یوں کہ وہ اپنے بدن کا چولا اُتار پھیکنا چاہتا ہو، لیکن اس تعفن سے کوئی مثبت کام کر کے نجات پائی جا سکتی ہے، اس نے ایک انگڑائی سی لی، دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو الجھا کر پٹاخے نکالے، دونوں ہتھیلیوں کو دو بار رگڑا جیسے مَن میں کوئی کام کرنے کا مصمم ارادہ کر لیا ہو، اس نے میز کا دراز کھولا، کاغذ کی بڑی شیٹوں کا رول کیا ہُوا بنڈل نکالا، ایک شیٹ الگ کر کے میز پر بچھائی اور باقی بنڈل پھر رول کر کے دراز میں رکھ دیا۔ سکیل، ربڑ، پنسل، شارپنر اور سٹینسل نکال کر رکھے اور بائیں کہنی میز پر ٹِکا کر سر ہاتھ پر رکھتے ہوئے شیٹ پر جُھک گیا، وہ پنسل ہاتھ میں پکڑے چند منٹ سوچا کِیا، پھر شیٹ پر کبھی سکیل، کبھی سٹینسل(Stencil) رکھتے اور اٹھاتے ہوئے پنسل سے لکیریں کھیچتا رہا، بہت وقت بیت گیا، اس حیرت ہونے لگی ابھی تک اندھیرا کیوں نہیں ہُوا، معمول کے مطابق یہ کوئی غیر معمولی ہو گیا تھا، بھُول چُوک کی معافی ہو سکتی ہے، دوبارہ پنسل شارپ کرنے کے بعد اس نے شیٹ پر رکھ دی تھی اور بے شمار کھینچی گئی لکیروں کو غور سے دیکھنے لگا گویا ان لکیروں میں کوئی ایسی چیز پوشیدہ ہو جس کی اس نی کبھی تمنا کی ہو، اس کی نظروں نے ان الٹی ترچھی، عمودی اور متوازی، دائرے، مستطیل اور مربع بناتی لکیروں میں ایک ڈایا گرام تلاش کر لیا تھا۔۔۔ پھر یکدم روشنی بھاگ نکلی اور کمرہ اندھیرے سے بھر گیا، نیم غصے کی حالت میں اس نے پنسل شیٹ پر پھینک دی، گھنٹہ بھر مسلسل میز پر جُھک کر کام کرنے سے اس کی کمر میں اینٹھن ہونے لگی تھی، اس نے اندھیرے کا یہی استعمال بہتر سمجھا کہ کمر ہی سیدھی کر لے، اس نے کرسی سے ٹیک لگا کر انکھیں مُوند لیں، اسے یک گُونہ سکون کا احساس ہُوا اور ساتھ ہی ڈایا گرام کی خوشی بھی اس میں شامل ہو گئی لیکن ایک خیال کے مقناطیس نے جیسے خوشی کے سارے ذرے اپنی طرف کھینچ لئے، لکیریں اس کے خواب کی تعبیر نہیں ہیں، تعبیر تو ان لکیروں میں چھپے اس آلے. میں پوشیدہ ہے جو اس نے چند دنوں میں تیار کرنا ہے، یہ خیال اسے آسودہ کر گیا، روشنی کی پھواریں پھوٹیں گی، اس کی گکلی اندھیرے کے لئے نو گو ایریا ہو گی، دن کی محنت سے چُور لوگ رات سکون سے گزار کے صبح پھر مشقت کے لئے تازہ دَم ہو سکیں گے اور ۔۔۔ اور ایک بات تو اسے بہت بعد میں یاد آئی، یاد کیا آئی اسے نہال کر گئی، انجیئرنگ کے میدان میں یہ ایک عجیب و غریب کارنامہ ہو گا، تفاخر سے وہ مسکرا اٹھا، اسے ایوارڈ دیا جائے گا، کئی ریفرنس منعقد ہوں گے، چانسلر اسے اعزازی ڈگری دیں گے، ملکی تاریخ میں چند سطریں اس کے لئے بھی لکھی جائیں گی، وہ اٹھا کہ اب تو اندھیرا ہر سانس کے ساتھ اس کے اندر بھی اتر رہا تھا، صحن میں مکمل خاموشی تھی شاید اس کے چھوٹے بہن بھائی اندھیرے میں باتیں اور شرارتیں کرتے جس کروٹ لیٹے اسی میں سو گئے تھے۔۔۔

‎آج اس کا خواب شرمندہ تعبیر ہو چکا تھا اور وہ دائیں بائیں، اوپر نیچے سے بغور دیکھ رہا تھا کہ اندھیرے نے دھاوا بول دیا، اس نے چند لمحے توقف کرنے کے بعد آلے کا ایک بٹن دبایا، اس کا گھر کیا ساری گلی کے گھر روشن ہو گئے، آج بھی نوجوانوں کا ایک شور اٹھا اور بکھر گیا، سب اپنے اپنے گھروں کو دوڑ گئے، کچھ دن یہ مشق جاری رہی، بلآخر ایک شام، اندھیرا ہوتے ہی جب گلی کے تمام گھر روشن ہُوئے تو اس کے گھر کی اطلاعی گھنٹی بجی، اس نے باہر نکل کے دیکھا، گھر کے سامنے ایک سرکاری جیپ کھڑی تھی اور دو با وردی لوگ کھڑے تھے، دونوں کے کندھوں پر دو دو تاج سجے تھے، اس نے دونوں کا استقبال کرتے ہوئے مصافحہ کیا۔

‎فرمائیے مَیں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہُوں ! اسکی نظر پہلے ایک پھر دوسرے چہرے تک گئی، دونوں کے چہرے سپاٹ، ایکدم جذبات سے عاری تھے۔

‎تمہیں ہمارے ساتھ چلنا ہو گا، جیسا چہرہ ویسی آواز، اخلاق کی قلت۔

‎کہاں اور کس لئے، میرا قصور! اس نے پوچھنا چاہا۔ ہم تمہارے سوالوں کے جواب دینے کے پابند نہیں ہیں پھر بھی تم اپنے وارنٹ گرفتاری دیکھ سکتے ہو اور تمہیں وہاں جانا ہے جہاں کارِ سرکار میں مخل لوگ جاتے ہیں اور دیکھو جب شہر میں سرکار تھوڑی دیر کے لئے اندھیرا چاہتی ہے تو کچھ سوچ کر ہی چاہتی ہے اور تم روشنی کی طلب میں سرکار سے ٹکر لے رہے ہو، چلو جیپ میں بیٹھو، ایک چہرے میں چھپی زبان چل رہی تھی۔

‎تکرار کی آواز سن کر اد کی ماں دروازے تک آئی تو اس کا ایک پاوں جیپ کے پائیدان پر تھا، ماں مَیں ابھی آتا ہُوں، وہ اتنا ہی کہہ سکا اور جیپ آگے بڑھ گئی، ماں دروازے میں بیٹھ کر بیٹے کا انتظار کرنے لگی اور پھر برسوں بیت گئے ۔۔۔۔

Published inاحسان بن مجیدعالمی افسانہ فورم

Be First to Comment

Leave a Reply