Skip to content

رفتار وقت

عالمی افسانہ میلہ 2015
افسانہ نمبر 3
رفتارِ وقت
شاہد جمیل احمد، گوجرانوالہ، پاکستان
جولائی کا مہینہ آتا تو گھڑی بیل (Passion Vine ) کے پھولوں کا جادو سر چڑھ کر بولتا۔ پھول ہوں یا پھل، گرم مرطوب علاقوں میں پیشن ایک کریز ہے جو پھولوں اور پودوں سے محبت کرنے والوں کو لاحق ہوتا ہے۔ اسے یوں لگتا جیسے گہرے نیلگوں ، جامنی آسمان کے بیچ دُودھیا ٹِکی میں وقت اپنی گھڑی کی سوئیاں اوڑھ کر سو گیا ہو۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب خوش قسمت لوگ ہی گاوٗں سے شہر جایا کرتے تھے۔ دنیا ہو یا دیہہ مگر خوش نصیب لوگ تو گنے چُنے ہی ہوتے ہیں۔
چچا اسمعیل کا شمار اُن معدودے چند لوگوں میں تھا جن کا شہر آنا جانا تھا۔ اُسے وسط پنجاب کے ایک چھوٹے گاوٗں کے جنوبی محلے میں واقع اپنی چھوٹی سی دکان کے لئے سودا سلف کی خریداری کی خاطر شہر جانا پڑتا۔ اس بار تو شاید تین ماہ گزر گئے مگر وہ شہر نہ جا سکا۔ بڑی وجہ مون سُون کی بارشیں تھیں جن کے کارن گاوٗں کے سارے رستے اور پگڈنڈیاں جوہڑ کا منظر پیش کر رہے تھے ۔ کَتے کاتک کے مہینے میں کھیتوں کھلیانوں کا پانی خشک ہوا اور بچی کچھی دھان کی فصلوں میں درانتی پڑی تو اسے بھی اپنی دکان کا خیال آیا جس کے ڈھکنا لگے ٹین کے ڈبے سوائے کھکھربُورے اور نُگدی کے، خالی بھاں بھاں کر رہے تھے۔ اسمٰعیل کے شہر جانے کی سب سے زیادہ خوشی تو بیگمے کو تھی جس نے دو اڑھائی مہینے پہلے ہی اُسے اپنے بیٹے کے لئے شہر سے نئی کیمی (CAMY) گھڑی لانے کی سائی دے رکھی تھی۔ چھ ماہ پہلے اس نے اسمعیل کے ذریعے شہر میں گھڑیوں والی دکان سے گھڑی کی قیمت کا پتہ کروایا اور پھر اسے تین سو روپے جمع کرنے میں آدھا سال لگ گیا۔ اِدھر پیسے جمع ہوئے اُدھر موسمی بارشوں کی طویل جھڑی لگ گئی۔ اب جو اسمٰعیل نے شہر جانے کا عندیہ دیا تو اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اس نے اپنے سائیں سے چوری اپنے چھوٹے بیٹے کو اصلی گھڑی خرید کر دینے کا وعدہ کر رکھا تھا، کاکے کے ابا کو پتہ چل جاتا تو وہ اتنے پیسوں سے چھوٹی موٹی کٹی بچھی تو لے آتا پر گھڑی ہرگز نہ خریدنے دیتا۔ بڑی محبت تھی بیگمے کو اپنے چھوٹے بیٹے سے۔ پتہ نہیں محبت تھی یا اس کے اندر کا کوئی خوف لیکن وہ اس کی کوئی فرمائش نہ ٹالتی۔
اصل میں اس سے اُوپر کا چھِلے ہی میں اللہ میاں کو پیارا ہو گیا تھا۔ ماں بتاتی تھی کہ اس کا بڑا بھائی پیدا ہوا تو بہت ہی خوبصورت تھا ، ستواں ناک اور چِری ہوئی موٹی آنکھیں ، پیدا ہوتے ہی ٹُکر ٹُکر دیکھنے لگا ،یہ بھی معجزہ ہی تھا ، پھر پتہ نہیں اسے کیا ہوا ، شاید کسی کی نظر لگ گئی یا کسی سُودک والی کا سایہ پڑ گیا۔ پیدائش کے تیسرے روز اس نے رونا شروع کردیا اور ماں کے تمام حیلے، جتن کرنے کے باوجود بھی وہ ایک پل کو چُپ نہ ہوا ، یہاں تک کہ اس کا جسم نیلا ہو گیا اور وہ اللہ کا جی شام سے پہلے ہی اللہ کو جا پیارا ہوا۔ بیگمے کو یوں لگا جیسے اس کا اکلوتا بھائی دِینو ایک بار پھر اس کی آنکھوں کے سامنے پوہ کی سردی میں زمین کے کچے فرش پر بیٹھی اس کی ماں کی گود میں مہاجر کیمپ کی ایک ویران شام دم دے گیا ہو اور اس کی ماں نے اسی فرش کو ایک بار پھر پھُوڑی بنا لیا ہو۔ اس دن کے بعد بچے کے رونے کا خوف اس کے دل میں آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا ، اس کی کوشش ہوتی کہ کسی بھی طرح اس کا بچہ رونے نہ پائے۔ اب بھی ،جب تَلے کا یعنی اس کے مرنے والے بیٹے سے چھوٹا گیارہ سال کا ہو گیا تھا اور چھٹی کلاس میں دور پار کے گاوٗں سائیکل پر پڑھنے جاتا مگر وہ ابھی تک اس کے رونے سے بہت ڈرتی تھی۔ وہ بیچاری اپنے خاوند اور دیورانیوں، جٹھانیوں سے چوری اس کی چھوٹی چھوٹی فرمائشیں پوری کرتی مگر اب وہ ذرا بڑا ہوا تو اس کی فرمائش بھی بڑی ہو گئی ، اس نے اپنے ایک کلاس فیلو کی کلائی پر کیمی گھڑی بندھی دیکھی تو اپنی ماں سے ویسی ہی گھڑی دلانے کی فرمائش کر دی اور اس بیچاری نے چار و ناچار حامی بھی بھر لی۔گھڑی دلا کر ماں نے جیسے ہمیشہ کے لئے وقت کو اس کی کنی میں باندھ دیا، ویسے ہی جیسے سکول بھیجتے وقت وہ بلوں والے پراٹھے اور اچار کی پھانک کو پونے میں باندھ کر اس کی سائیکل کے ہینڈل سے لٹکا دیتی تھی۔
اسے اچھی طرح یاد ہے جب پہلے دن گھڑی باندھ کر وہ سائیکل پر ساتھ والے گاوٗں سے بھینس کے لئے تعویذ لینے جا رھا تھا تو ادھ راستے میں ہی اس نے گھڑی کلائی سے کھول کر جیب میں رکھ لی مبادا سائیکل کا ہینڈل بار بار ہلنے اور گھڑی چھنکنے سے اس کی مشینری خراب نہ ہو جائے۔ عمر کا یہی حصہ تھا جب اسے اپنے گرد وقت کی دوئی کا احساس ہوا۔ ایک وقت جو اس کے باہر یعنی اس کی کلائی پر گھڑی کی صورت بندھا تھا اور ایک وقت جس کے گھڑیال کی سُوئیاں اس کے درُوں گھومتی تھیں۔ اس کے دماغ میں اندرونی طور ایک خود کار گھڑی فِٹ ہو گئی تھی جو اسے ہمہ وقت جگانے ، اُٹھانے اور بھگانے کے کام آتی۔ اس اندر کی گھڑی پر الارم بھی لگتا تھا ، اسے جب جلدی جاگنا ہوتا تو وہ اپنے دماغ میں مطلوبہ وقت پر سوئیوں کی پوزیشن کا تصور کر کے سو جاتا اور پھر عین اس وقت فکر مندی سے ہڑ بڑا کر جاگ جاتا ، بعد ازاں عمر بھر اسے کسی ظاہری گھڑی پر الارم لگانے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔ یہی وہ وقت تھا جب اسے اس کی سوچ کے حوالے سے اولیں بیماری لگی اور جس بیماری کا تعلق بھی وقت سے ہی تھا۔ اسے یوں محسوس ہوتا جیسے وقت ہمیشہ ایک رفتار سے سفر نہیں کرتا بلکہ موسموں کے ساتھ اس کے گزرنے کی رفتار کم یا زیادہ ہوتی رہتی ہے۔ پتہ نہیں یہ اس کا مشاہدہ تھا یا احساس مگر اسے یوں لگتا جیسے سردیوں میں وقت جلدی گزرتا ہے اور گرمیوں میں تاخیر سے۔ پھر اس نے اپنے احساس کو کسی خاص وقت سے منسوب کرکے دیکھا تو نتیجہ پھر وہی کہ سردیوں میں صبح کے آٹھ جلدی بج جاتے ہیں جبکہ گرمیوں میں دیر سے ، پھر اس نے دیکھا کہ شام یا رات کے اوقات میں وقت کی رفتار اس کے متضاد ہے یعنی سردیوں میں رات کے آٹھ بہت دیر سے بجتے ہیں جبکہ گرمیوں میں بہت جلد۔ اسے سمجھ نہیں آتا تھا کہ آخر چکر کیا ہے اور اب تو اس چکر نے اسے جیسے گھن چکر بنا دیا تھا۔ اس سے بھی بڑی مصیبت یہ تھی کہ فقط اسے ایسا محسوس ہوتا تھا جب کہ اس کے اردگرد کسی شخص کو ایسا مسئلہ یا بیماری لاحق نہیں تھی۔ سردیاں ہوں یا گرمیاں مگر گھڑیوں کی سوئیاں میکانکی ہونے کی بنا پر بظاہر سدا ایک ہی رفتار سے چلتی دکھائی دیتیں مگر اس کے حساب میں وقت کی رفتار مختلف اوقات میں مختلف ہوتی۔ یہ بھی کہ گھڑی کی سوئیوں پر اثر انداز کششِ ثقل کا الگ سے کوئی مقیاس بھی نھیں تھا۔ وہ چاہتا کہ ہر کوئی وقت کی کشتی کا اپنے دل کے سمندر کی سطح پر رواں و متزلزل کھینا محسوس کرے اور وقت کی رفتار بارے فقط یہ نہ کہے کہ گرمیوں میں سورج جلد طلوع ہوتا ہے اور سردیوں میں تاخیر سے، کہ یہ وقت کے سلسلے کی عام تر اور آسان ترین تاویل ہے۔
اب جبکہ رات اور دن چھوٹے بڑے ہوتے مزید پینتیس سال آگے کھسک گئے تو وہ ناسا کی آبزرویٹری میں بڑی دوربین کے پاس بیٹھا اپنے ماضی بارے سوچ رہا تھا ، وقت کے ساتھ اس کی زندگی میں تبدیلیاں رونما ہو چکی تھیں ، ماں نہیں تھی اور کیمی کی جگہ ٹیگ ہیور ، گرینڈ کریرا ، ٹیسوٹ اور راڈو نے لے لی تھی۔ وہ زندگی بھر غور و فکر تئیں بہت مصروف رہا اور اسے اب صرف اپنی زندگی کے بڑے بڑے پڑاوٗ ہی یاد رہ گئے تھے۔ پہلے گاوٗں ، پھر شہر ، پھر کینیڈا اور پھر امریکہ۔ اسے اپنے آخری پڑاوٗ میں آنے کے بعد غور و فکر کی دوسری بیماری لاحق ہوئی ، اس بیماری کی کیفیت کچھ ایسی تھی کہ اچانک اس کی رُوح کو پھڑکا لگ جاتا اور وہ کچھ لمحوں کے لئے دور خلاوٗں میں اُڑ جاتی۔ یوں تو پہلی بیماری بھی پریشان کُن ہی تھی مگر دوسری والی نے تو جیسے اسے ہلکان ہی کر دیا ، اُسے یوں لگتا جیسے روح اُڑنے سے اس کا جسم خُلیہ خُلیہ ہو گیا ہو۔ وہ پہلے فکشن نگار تھا اور بعد میں ماہرِ فلکیات و کونیات۔ کاسمالوجی میں اس کی دلچسپی کا باعث دراصل اسکے فکشن کے تصورات و تخیلات ہی تھے۔ اس کا خیال تھا کہ اپنی امیجی نیشن کی قوت کے بل پر فکشن نگار ہی کو اعلیٰ سائنسی ، ماورائی اور کائناتی تصورات کا موجد ہونا چاہئیے۔ یہ تو بعد کا معاملہ ہے کہ تجربہ و تحقیق کی کسوٹی پر پورا اترنے کے بعد کوئی خیال نظریہ بن پاتا ہے یا نہیں، پر نہ سوچنے سے خام سوچنا سو درجے ارفع ہے۔
اسے اس آبزرویٹری میں ملازمت اختیار کئے پانچ سال ہو گئے تھے اور یہ سوچ کر اس کے خشک ہونٹوں پر تبسم کھیلنے لگتا کہ اب اس کے ماحول میں فکشن کے تخیل کی اہمیت کو باقاعدہ تسلیم کر لیا گیا تھا اور کائنات کی وسعت و حرفت بارے کچھ لوگوں کو صرف سوچنے جیسے اہم کام پر مامور کر دیا گیا تھا۔ گیارہویں سمت والے (11th dimension ) ہوں یا گاڈ پارٹیکلز (Higgs particles or god particles) والے یا پھر تخلیقی فکِشن والے، سب ایک کنبے کی طرح دکھائی دیتے۔ آج وہ بہت خوش تھا، بظاہر پینتالیس سال کی رائیگانی کے بعد اسے اپنی پہلی بیماری میں افاقے کے آثار دکھائی دئیے، پتہ نہیں افاقہ تھا بھی کہ نہیں پر اسے ایسا محسوس ہوا تھا۔ اب کی بار جب اس کی رُوح اُڑی تو یہ کوڑی لائی کہ بلیک ہول (Black hole) کے قُرب میں وقت کی رفتار سُست پڑ جاتی ہے ا ور اس کی وجہ کشش ثقل (Gravity ) ہے۔ جیسے جیسے کششِ ثقل بڑھتی ہے ویسے ویسے وقت کی رفتار کم ہوتی جاتی ہے۔ اگر ہم ایک گھڑی آسماں کی بلندی پر لٹکا دیں اور دوسری زمین کے پاتال میں رکھ دیں تو زمین کی گہرائی والی گھڑی کششِ ثقل زیادہ ہونے کی وجہ سے آسمان کی اونچائی میں دَھری گھڑی سے سُست رفتار ہو گی، اسی طرح اگر ہم کسی بلیک ہول میں گر رہے ہوں تو ہم سیکنڈوں میں بھسم ہو جائیں گے لیکن اگر کوئی ہمارا پیارا زمین پر بیٹھ کر ہمیں کائنات میں بلیک ہول کے اندر گرتا دیکھ رہا ہو تو اُس کے لئے ہم کھربوں سالوں میں بلیک ہول رسید ہوں گے، تو پھر وقت کی رفتار بھلا ایک جیسی کہاں رہی ، وقت کی رفتار ایک سی نہیں ہے! وقت کی رفتار ایک نہیں ہے! اس کا جی چاہا کہ وہ بھی، ارشمیدس کی طرح ، واشنگٹن کی گلیوں میں ننگ دھڑنگ بھاگ نکلے۔#
َََََََََََََََََََََ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
* گیارہویں سمت، گاڈ پارٹیکلز اور بلیک ہول علوم فلکیات، کونیات، تھیوریٹیکل فزکس اور کاسمالوجی کے concepts ہیں ۔

Published inشاہد جمیل احمدعالمی افسانہ فورم

Be First to Comment

Leave a Reply