Skip to content

رخصت

عالمی افسانہ میلہ 2019

افسانہ:نمبر 56

“رخصت”

سلطانہ حجاب ۔ بھوپال ۔ انڈیا

روز کی طرح آج بھی شیامو علی الصبح بیدار ہو گیا تھا.ماں اور تینوں چھوٹی بہنیں زمین پر بچھی پھٹی پرانی چٹائ پر سو رہی تھیں.بڑی بہن چندا باورچی خانہ کے پاس دری پر سو رہی تھی.اس گھر میں کل یہی افراد تھے.باپ تین سال پہلے انہیں چھوڑ کر گیا تو اب تک نہیں لوٹا تھا.اس کے جانے کے بعد ماں بہت روئ تھی لیکن وہ خوش تھا کیونکہ باپ شرابی تھا اور ماں کو روز مارتا’گالیاں دیتااور کبھی کبھی بچّے بھی اس کا نشانہ بن جاتے.

دھیرے دھیرے ماں کی آنکھوں کے آنسو خشک ہو گئے اوراس نے قسمت کے اس فیصلے پر سر جھکا دیا.پانچوں بچّوں کی ذمہ داری تھی اب اس پر.وہ ان کی زندگیاں سنوارتو نہیں سکتی تھی مگر انہیں بچائے رکھنا چاہتی تھی.لہٰذا اس نے گھروں میں کام کرنا شروع کردیاجہاں سے ملنے والی جھوٹنوں پر زندگی کا سفرجاری رہا.گزرتے وقت کے ساتھ ماں کی صحت جواب دینے لگی وہ مستقل بیمار رہنے لگی تھی تب شیامو نے گھر کی ذمہ داری خود اوڑھ لی اور ماں کو گھر بٹھا دیا

نہ وہ پڑھا لکھا تھا نہ ہی کوئ ہنر اسے آتا تھا لیکن گھر تو چلانا تھالہٰذا وہ بہت صبح اٹھ کر ایک بڑا تھیلا لے کر نکل جاتا…سڑکوں گلیوں کی خاک چھانتا

پھرتااور جب دوپہر کو واپس آتا تو اس کاجھولا بھراہوتا.پولیتھن کی تھیلیاں…لوہے.تانبے.پیتل وغیرہ کا ٹوٹا پھوٹا سامان…شکستہ کھلونے…بے جوڑ جوتے چپّل…میک اپ کا ریجکٹیڈ سامان …اور بہت کچھ…کچرے سے سمیٹا یہ سامان گھر والوں کے لئے خاصی دلچسپی رکھتا تھا.وہ اپنی پسند اور ضرورت کی چیزیں نکال لیتیں.باقی شیاموکباڑ خانہ میں بیچ آتا.اس کے بعد دیر رات تک مسجدوں مندروں اور گردوارےوغیرہ کے سامنے بیٹھا رہتاجہاں سے کھانے کے علاوہ پیسے بھی مل جاتے کبھی کبھی پرانے کپڑےبھی .سب سے زیادہ فائدہ مزاروں سے ہوتا.اس طرح گھر کا کاروبارچل رہا تھا.روزانہ ماں کو پچاس روپے دیتا.باقی اپنے پاس رکھتا.اسے بہنوں کی شادیاں جو کرنا تھیں ایک دو نہیں چارچار.

اس دن شیامو ذرا جلدی گھر آیا تو نل پر پانی بھرتی چندا کو دیکھ کر ٹھٹھک گیا وہ ایک لڑکے سےہنس ہنس کر باتیں کررہی تھی جو سائیکل لئے کھڑا تھاان کے انداز سے شیامو مشکوک ہو گیا.جب چندا گھر پہنچی تو شیامو نے اسے زور دار تھپڑ رسیدکر دیا.آواز سن کر ماں باورچی خانہ سے باہر آئ.

کیا ہوا شیامو!وہ تجھ سے بڑی ہے.

یہ کل سے پانی بھرنے نہیں جائیگی.

کیوں…کیا ہوا؟

اسی سےپوچھو.کیا کر رہی تھی وہاں.

ماں اسے اندر لے گئ لیکن بہت پوچھنے پر بھی چندا نے زبان نہیں کھولی.اب اس کی بجائے چھوٹی بہنیں پانی بھرنے جانے لگیں.تھکا ہونے کے باوجود اب شیامو اکثررات میں جاگتارہتا.بارہ بجے جب سارا محلہ سو جاتا…سائیکل کی گھنٹی کی آواز فضاء میں ابھرتی اور چندا بیچین ہو اٹھتی…کروٹ بدل کر دیکھتی…شیاموکبھی پانی پینے.کبھی مچھر مارنے..کبھی کسی اور بہانے سےجاگتا ملتا اور وہ من مسوس کر رہ جاتی.

لیکن شیامو ظالم نہیں تھاجب وہ چندا کی بھیگی اور متورم آنکھیں دیکھتا تو اس کا کلیجہ کٹ جاتالیکن وہ جانتا تھا کہ ابھی اس کا بیاہ نہیں ہو سکتا.اس کے پاس کچھ بھی تو نہیں ہے خرچ کرنے کے لئے…شادی میں کم سے کم دو ساڑیاں تو دینا ہوں گی وہ سوچتا…اور کچھ زیور بھی نقلی ہی سہی…ذات برادری والوں کی دعوت…دولہا کے کپڑے وغیرہ….اف!…وہ حساب لگاتاتو اسے اپنی ذات بڑی حقیر محسوس ہوتی…کیسے ہوں بہنوں کی شادیاں.

اس کی نیند اڑ جاتی..ادھار کون دے گااور پھرکتنا..؟

اس نے سائیکل والے لڑکے کے متعلق چھان بین کیااس کا نام کشن تھا

.وہ ایک چپراسی کابیٹا تھاچھ بہن بھائیوں میں دوسرا.

محلے والوں میں اچھی امیج تھی پڑھائ کے ساتھ ساتھ بائک سدھارنے کا کام سیکھ رہا تھا گھر کے مالی حالات بہت معمولی تھے.لیکن اس سے بہتر.اگر رشتہ آتا بھی ہے تو گھر کے حالات دیکھ کر لوٹ جائے گااماں کے پاس زیور نام کی کوئ چیز نہیں ہے جو کچھ تھا وہ تو شرابی باپ نے اڑا دیا ایک بار اسےاپنے باپ پر شدید غصّہ آیا اوراس نے دل ہی دل میں اسے گالیوں سے نوازا

اس رات جب سائیکل کی گھنٹی بجی تو وہ چپ چاپ آنکھیں بند کئے پڑا رہا .چندا نے اسے دیکھاکچھ لمحہ انتظار کیا پھراٹھ کر تیزی سے باہر نکل گئ تھوڑی دیر بعد شیامو بھی باہر آگیاچاندنی رات میں اس نے دیکھا گھر کے پچھواڑے..دو سائےکھڑے تھے. وہ شکستہ دیوارکے پاس کھڑا ہو کر سننے لگا.کشن کہہ رہا تھا

کتنے دنوں بعد تجھے دیکھ رہا ہوں چندا.”

کیا کروں؟بھیا کی نیند کھل جاتی ہے”.اس کے لہجیے میں بے بسی تھی کڑواہٹ نہ تھی.

“آج…”

“بہت کام کرتا ہے وہ تھک جاتا ہے.آج سو رہا ہے”اس کی محبّت کے احساس نے شیامو کی آنکھیں نم کردیں.

لیکن میں تیرے بنا نہیں جی سکتا چندا!

“میرا بھی یہی حال ہے”چندا سسک پڑی تھی.کچھ دیر کی خاموشی کے بعدکشن نے کہا”پتا جی اس رشتے. کے لئےتیار نہیں ہوں گے.انہیں جہیز چاہئے”

“لیکن ہمارے پاس تو کچھ نہیں.”کچھ دیر خاموشی رہی.پھرچندا نے کہا.

“چلو ہم کہیں دور چلتے ہیں جہاں ساتھ رہ سکیں”

“چل سکوگی؟”

“ایک بار کہہ کر تو دیکھو کشن”فرط جذبات سے چندا کی آواز کانپ رہی تھی اس نے کشن کے سینے پر سر رکھ دیااور اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی

“اماں نے مجھے اپنی چاندی کی چوڑیاں دی تھیں اور کچھ پیسے بھی…میں وہ لے آؤں گی”

“نا چندا نا..یہ کچھ نہ لانا ہم چوری کرکے نہیں بھاگ رہے ہیں .میں تمہارے گھر والوں کو دکھ دینا نہیں چاہتا ہم اپنی دنیا خود بنائیں گے…”

شیامو کی آنکھوں سے آنسؤوں کے چند قطرے گر کر مٹی میں مل گئے.وہ واپس آگیا.اس کے دل میں کہیں سکون کی گھنٹیاں بج اٹھی تھیں.

صبح چندا بہت خوش تھی.اس کے ہونٹوں پر گیت مچل رہے تھے..آنکھوں میں سپنے رقصاں تھے…لیکن کبھی کبھی وہ رو پڑتی تھی ماں پر اس کی نظریں ٹک جاتیں..بہنوں کو سینے سے لگا لیتی…اب یہ سب بچھڑ جائیں گے.پتہ نہیں کبھی ان سے مل بھی پائے گی یا نہیں.بھائ سے نظریں نہیں ملاتی تھی بس پیروں کو ہی دیکھتی رہتی.آخر وہ دن آہی گیا اس دن شیامو دیر سے گھر لوٹا.اس وقت چندا نہا رہی تھی وہ اندر گیا جلدی ہی اسے چندا کی گٹھری مل گئ اس نے جلدی سے اسے کھولا پرانے کپڑے تھے ان کے درمیان ایک چھوٹا آئینہ..ٹوٹی لپسٹک.کچھ بندیاں رکھی تھیں شیامو کا دل بھر آیا.پھر اس نے اس گے اوپر اپنی خریدی ہوئ کامدار نئ سرخ ساڑی.سرخ چوڑیاں.نیا میک اپ باکس.سنہری سینڈل.چاندی کے کنگن اور پایل…اور دو ہزار روپے رکھ کر گٹھری دوبارہ باندھ دی.کچھ دیر بعد سب نے کھانا کھایاچندا اور شیامو دونوں کے گلے سے نوالا نہیں اتر رہا تھا.وہ جلدی ہی اٹھ گیا ایک بھر پور نظر چندا پر ڈالی چندا کی آنکھیں سرخ اور نم تھیں وہ رخصت ہونے والی تھی.شیامو کا جی چاہا اسے گلے لگا لے.سر پرہاتھ رکھ کر کہے”سدا سہاگن رہو”

لیکن وہ کچھ نہ کر سکا.

نصف رات میں گھنٹی کی آواز گونجی.چنداکا انتظار ختم ہوا

اس کا ہمسفر اسے بلا رہا تھا.اس نے گٹھری اٹھائ سوتی ہوئ ماں کےپیر چھوئے…شیامو نے اس کے دبے قدموں کی آہٹ اپنے پاس محسوس کی پھر دو قطرے اس کے پیروں پر پھسلتے چلے گئے.چندا منہ دبائے پلٹی اور تیزی سے باہر نکل گئ.

Published inافسانچہسلطانہ حجابعالمی افسانہ فورم
0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x