Skip to content

رات

عالمی افسانہ میلہ 2019
افسانہ نمبر 84
رات
اقبال حسن آزاد مونگیر ۔ بہار ۔ انڈیا

رات بہت دبیز تھی. اتنی دبیز کہ اس پر کسی تیز دھار کے آلے سے شگاف تک نہ ڈالا جا سکتا تھا.نہ اسے ناخنوں سے کھرچا جا سکتا تھا۔گولیوں کی تڑتڑاہٹ بھی اس پر بے اثر تھی ۔دوشیزاوں کی بلند ہوتی چیخیں بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی تھیں۔سڑکوں پر بہتا ہوا خون بھی اس میں جذب ہوئے بغیر اس کے کناروں سے ڈھلکا جاتا تھا۔

رات کی اس سفاکی کو دیکھ کر علی جو اندر ہی اندر کانپ گیا۔

وہ زمین پر اکڑوں بیٹھا تھا۔اسے اپنی رگ رگ میں اندھیرا خون بن کر گردش کرتا ہوا محسوس ہوا۔اس کے اندر باہر ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ روشنی ایک ہلکی سی کرن بھی کہیں آس پاس دکھائی نہ دیتی تھی۔اندھیرا اتنا گہرا اور گاڑھا تھا کہ ہاتھ کو ہاتھ تک سجھائی نہ دیتا تھا۔

رات بالکل سیاہ تھی۔ اتنی سیاہ کہ کالے ناگ کی سیاہی بھی اس کے آگے ہیچ تھی۔ اسے اپنے قریب ، بہت قریب ایک زوردار پھنکار سنائی دی۔ وہ سہم کر کونے میں دبک گیا۔ پھنکار پھر سنائی دی۔ اس نے دھایان سے آواز کی سمت کان لگایا۔ یہ پھنکار اس کے اندر سے آ رہی تھی۔سانپ جیسے کنڈلی مار کر اس کے دل کے اندر بیٹھ گیا تھا….خوف کا سانپ۔ وہ خوف زدہ تھا۔ صرف وہی نہیں بلکہ پوری وادی خوف زدہ تھی۔ اونچے اونچے برف پوش پہاڑ، گھنیرے پیڑ، جھیل میں بہتا ہوا پانی یہاں تک کہ فضاوں میں چلتی ہوا بھی خوفزدہ تھی۔

رات بہت لمبی تھی۔اتنی لمبی جیسے جتنا آ سمان یا سمندر کا کنارہ۔ چلتے جاو، چلتے جاو کنارا ملتا ہی نہیں۔یہ مسافت کب ختم ہوگی۔ کنارا کب آئے گا؟ منزل کب ملے گی؟؟ نہیں معلوم۔

رات بہت بھیانک تھی۔ اتنی بھیانک جیسے کوئی عفریت،کوئی بھوت، پریت یا پچھل پیری۔ ماں کہتی تھی ،”بیٹا!اکیلے جنگلوں میں نہ جایا کر کوئی پچھل پیری پیچھے پڑ جائے گی۔“ماں کی یاد آتے ہی اس کی بوڑھی آنکھوں کے گوشے بھیگ گئے۔ اس جنت مکانی کو کیا معلوم کہ ہم کس دوزخ میں جل رہے ہیں۔ کیسے کیسے عفریت ،بھوت اور پریت سنگینیں لئے ہمارا لہو چاٹنے کے لئے سڑکوں پر گھوم رہے ہیں اور ہم مجبور،بے بس اور بے کس لوگ گھروں کے اندر بھوکے پیاسے کسی رو پہلی صبح کا انتظار کر رہے ہیں۔ ایسی چمکیلی اورپیاری صبح جب خوف کے بادل چھٹ جائیں گے اور ہم بھی آزاد ہواوں کی طرح ان خوبصورت وادیوں میں مست خرام ہوں گے اور برف زاروں پر ہمارے بچے کھیلتے پھریں گے۔

جب موسم کی پہلی برف باری ہوتی تو اس کا باپ خوشی سے چہکار بھرتے ہوئے کہتا۔”آہا ! اب ہمیں شلجم گوشت کھانے کو ملے گا۔“ اور وہ اپنے باپ کے سرخ و سپید چہرے اور مہندی سے سرخ داڑھی کواپنی چمکیلی آنکھوں سے دیکھتا۔ اس کی ماں کے سیب جیسے گال خوشی سے تمتماتے اور چھوتی بہن کے معصوم قہقہے ان کے چھوٹے سے گھر میں گونجنے لگتے۔

اس نے ایک زور کی سانس لی۔اسے اپنے اندر خالی پن کااحساس ہوا۔ ہر طرف سناٹا تھا۔ چیختا چلّاتا سناٹا۔رات بالکل خاموش تھی۔ ایسی خاموش جیسے قبرستان کی قبریں۔ کہیں کوئی آہٹ، کوئی آواز نہیں۔

یوں ہی دیوار سے ٹیک لگائے اسے اونگھ آ گئی۔ اب وہ سو تا تھا نہ جاگتا تھا۔ ہنستا تھا نہ روتا تھا۔اس حال میں اگر کوئی اسے دیکھتا تو سمجھتا کی شاید وہ مر چکا ہے۔لیکن وہ زندہ تھا۔اسے حیرت ہوتی کہ وہ اب تک کیسے زندہ ہے۔تین جوان بیٹوں کی لاش دیکھنے کے بعد بھی وہ زندہ تھا۔ گولیوں سے چھلنی اور خون سے سنی لاشیں۔ ان کے کڑیل اورجوان جسم بے جان پڑے تھے۔ اور وہ پتھرائی آنکھوں سے انہیں دیکھے جا رہا تھا۔ اس کا جسم بھی گویا پتھر کا ہو چکا تھا۔اس کے جذبات و احسات سبھی پتھرا چکے تھے۔ وہ رونا چاہتا تھا مگر اس کی آنکھوں نے اس کا ساتھ نہیں دیا۔آنسووں کا جھرنا اندر ہی اندر کہیں خشک ہو چکا تھا۔ وہ چیخنا چاہتا تھا مگر اس کے حلق سے کوئی آواز نہیں نکلی۔ساری آوازیں گھٹ کر رہ گئیں تھیں۔

یہ باتیں تو کئی سال پرانی ہو چکی تھیں مگر زخم ہی بھرا تھا نہ ہی ان پر کھرنڈ جمی تھی۔

کسی کے رونے کی آواز سن کر اس کی نیم وا آنکھیں پوری طرح کھل گئیں۔ کوئی ہچکیوں میں رو رہا تھا۔ شاید کوئی عورت تھی۔ شاید اس کی بیوی تھی….اس کے بچوں کی ماں….جو ہچکیاں لے کر رو رہی تھی۔ مگر وہ یہاں کہاں؟ وہ بھی اپنی قبر کے اندر آرام کر رہی تھی۔یہ رونے کی آواز….یہ ہچکیاں ….یہ دبی دبی سسکیاں ….یہ سب اس کے اندر سے نکل رہی تھیں۔صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ ضبط ساری حدوں کو توڑ کر باہر نکلنے کو تھا۔اس نے اپنی ٹانگیں سیدھی کیں اور پھر پھیل کر فرش پر لیٹ گیا۔پھر اس نے جسم کو بالکل ڈھیلا چھوڑ دیا ،آنکھیں بند کر لیں اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔

مرغ کی آواز سن کر اس کی آنکھ کھل گئی۔ دن چڑھ آیا تھا اور دھوپ سارے میں پھیلی ہوئی تھی۔ اسے اپنا سارا جسم اکڑا ہوا محسوس ہوا۔ اس نے ہاتھ پیر کھینچ کر اسے سیدھا کرنے کی کوشش کی اور اُٹھ کر بیٹھ رہا۔اس کی زبان اینٹھ رہی تھی اور منہ کسیلا ہو رہا تھا۔آنکھوں میں کیچ بھر آئی تھی اور کمرے کے در و دیوار دھندلا رہے تھے۔ اس نے اپنی ساری قوت یکجا کی اور اُٹھ کر کھڑا ہو گیا۔اور پھر دھیرے قدموں سے چلتا ہوا باہر بر آمدے میں آ گیا۔سبھی کھڑکیاں اور دروازے بند تھے مگر آنگن کھلا ہوا تھا۔اس نے بالٹی میں رکھے پانی سے منہ پر چھینٹیں ماریں اور تولیہ سے چہرہ صاف کیا۔اس کی بہوآنگن میں اُکڑوں بیٹھی کچھ کر رہی تھی۔ اسی وقت اس کے کانوں میں کچھ کھٹ پٹ کی آواز آئی۔ آواز دوسرے کمرے سے آ رہی تھی۔ اس کے قدم بے اختیار اس طرف بڑھ گئے۔اندر داخل ہوتے ہی اس کے چہرے پر اطمینان اور خوشی کی ایک ہلکی سی لہر دوڑ گئی۔

اس کا دس سالہ پوتا اس کی بندوق صاف کر رہا تھا۔

Published inافسانچہاقبال حسن آزادعالمی افسانہ فورم
0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x