Skip to content

دی کوگیٹو… The cogito

عالمی افسانہ میلہ 2018
افسانہ نمبر 56
“دی کوگیٹو…
The cogito
(مفروضہء حقیقت)
ابصار فاطمہ
سکھر، پاکستان
Cogito ergo sum

اس نے اپنی نوٹ بک میں لکھا اور نظر اٹھا کر اردگرد ریستوران میں بیٹھے لوگوں پہ نظر ڈالی.
“ہمم…. میں سوچتا ہوں اس لیے وجود رکھتا ہوں. کتنی عجیب بات کہی نا رینے ڈیکارٹے نے.”
اس نے دوبارہ لکھنا شروع کردیا.

“کتنے عجیب ہوتے ہیں یہ فلسفی اور نفسیات دان. دنیا کو ایسے پہلو سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں جو پتا نہیں پایا بھی جاتا ہے کہ نہیں. اب یہ کیا بات ہوئی کہ اگر میں سوچتی ہوں تو وجود رکھتی ہوں. میں سوچنا چھوڑ دوں گی تو مر جاوں گی کیا؟ میں تو تب بھی سانس لے رہی ہوتی ہوں جب کچھ نہیں سوچتی.” اسے آج رستے میں دکھائی دینے والا ہر شخص یاد آنے لگا.
” وہ….. وہ جو بینچ پہ سو رہا تھا. وہ سوتے ہوئے سوچ رہا تھا یا مر گیا تھا؟ یہ سب جو میرے اردگرد بیٹھے ہیں، زندگی سے بھرپور، کیا یہ سوچ رہے ہیں؟ اور وہ فوجی جو ایسے بیٹھا تھا جیسے گہری سوچ میں ہو. دنیا جہان سے غافل، آسمانوں میں نہ جانے کیا کھوجتا ہوا. کیا وہ ہم سے زیادہ وجود رکھتا ہے؟ ہو سکتا ہے وہ اندر سے مرا ہوا ہو….. اور یہ بھاپ اڑاتا کافی کا کپ یہ میرے ہاتھ کے قریب پڑی چابیاں یہ بھی تو وجود رکھتی ہیں. یہ تو سوچ ہی نہیں سکتیں. یا شاید سوچتی ہوں اور یہ سوچیں ہم تک نہ پہنچ پاتی ہوں.”
اس نے ایک دم لکھنا چھوڑ دیا.” افف کیا میں فلسفی ہوتی جارہی ہوں. کسی بھی سر پیر کے بغیر بس لکھے جارہی ہوں. ایسے مہمل خیالات….. افف..اس نے یک دم آنکھیں میچ کر سر کو دو تین بار جھٹکا پھر ایک گہری سانس لے کر دوبارہ کچھ صفحات پلٹ کے دیکھے اور مزید لکھنے کی کوشش کی. اسے اس عنوان سے الجھن ہورہی تھی جو زبردستی اسائمنٹ کے نام پہ اس کے اوپر لاد دیا گیا تھا. کافی شاپ میں ہوتی بات چیت کی بھنبھناہٹ اسے مزید جھنجھلا رہی تھی جو اسے یکسوئی سے سوچنے ہی نہیں دے رہی تھیں. کبھی برابر کی ٹیبل پہ ایک دوسرے سے محبت جتاتے جوڑے کی باتوں پہ دھیان جاتا تو کبھی ذرا دور کسی کاروباری بحث میں الجھے دو اشخاص کے جملے کانوں میں بلا اجازت گھسنے لگتے.
“کیا اچھا ہو کہ میں ان آوازوں کے بارے میں سوچنا چھوڑ دوں تو ان کا وجود ختم ہوجائے. میں ان کے بارے میں سوچ رہی ہوں تبھی تو یہ میرے لیے وجود رکھتی ہیں. بلکہ آوازیں ہی کیا یہ کائنات بھی تو میرے لیے اتنی ہے جتنی مجھے پتا ہے.” وہ استحزائیہ انداز میں ہنسی. “جناب رینے ڈیکارٹے کے مطابق.” اس نے دل میں حتی المقدور طنزیہ انداز میں کہا.
” یعنی جن لوگوں سے میں کبھی نہیں ملی جن کا مجھے نام نہیں پتا وہ پیدا ہوتے ہیں مر جاتے ہیں مگر میری کائنات میں ان کا وجود کبھی تھا ہی نہیں. یہ تو ایسا ہی ہے جیسے ہمیں جب تک ڈائنا سورز کے بارے میں معلوم نہیں تھا تب تک ہمارے لیے ان کا کوئی وجود نہیں تھا.” اس کی نظریں خلاء میں معلق تھیں اور اسے اپنا آپ اپنے ہی دماغ کے اندر بھٹکتا محسوس ہورہا تھا.
” نہیں لیکن وجود تو تھا تبھی تو دریافت ہوئے. ایسے تو اگر میں خدا کے بارے میں سوچنا چھوڑ دوں تو کیا اس کا وجود بھی ختم ہوجائے گا. کیا خدا بھی اس لیے ہے کیوں کہ ہم اسے سوچتے ہیں؟” اسے پتا ہی نہیں چلا کب وہ بھنبھناہٹ اسے سنائی دینی بند ہوچکی تھی. اس کی سوچیں اب فلسفے عقیدے اور سائنس کے درمیان پھنسی تھیں.
“میں اس کائنات میں ہوں یا یہ کائنات مجھ میں ہے؟ سقراط نے بھی تو یہی کہا تھا ہمارے علم کا ماخذ ہماری ذات ہے. سب کچھ ہمارے اندر ہے بس اسے کھوجنا ہے. سوچتے رہنا ہے. کیا پتا یہ کائنات سرے سے ہو ہی نہ بس ایک دماغ ہو جو کسی جگہ پڑا سوچے جارہا ہو. جیسے جیسے میٹرکس نامی فلم… یعنی یہ سب اصل میں کہیں نہیں صرف ایک سوچ ہیں؟ شاید میں بھی کوئی کہانی کا کردار ہوں جو کوئی اور لڑکی رات گئے اپنے بیڈ کے سرہانے سے پشت ٹکائے تخلیق کر رہی ہے. اور میرا نام؟ کیا ہے میرا نام؟ سونیا؟ سووووونیا ” اس نے دل ہی دل میں کئی بار اپنا نام لے کر پکارا مگر آج پہلی بار اسے یہ نام بہت بے معنی سا لگا جیسے کسی اور کا نام ہو یا جیسے یہ لفظ ہی پہلی بار سنا ہو.
” کیا واقعی یہ میرا نام ہے؟ یہ میرا نام کیوں ہے؟ ” اس کا شدت سے دل چاہا کہ کوئی اس کا نام لے کر پکارے. مگر اس کافی شاپ میں سارے ہی چہرے اجنبی تھے. ان کے لیے وہ بے نام تھی. اس کا دل گھبرانے لگا. اس نے اپنی نوٹ بک بند کر کے چابیاں اس کے اوپر رکھ دیں. مبادا کھلے صفحات سے الفاظ نکل کر ماحول پہ حاوی نہ ہو جائیں. اس نے اپنا کپ اٹھایا اور اٹھ کر صفحات سے باہر نکل گئی. اب نہ وہاں کوئی ٹیبل تھی، نہ نوٹ بک نہ چابیاں اور نہ کافی شاپ.

Published inابصار فاطمہافسانچہعالمی افسانہ فورم
0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x