عالمی افسانہ میلہ 2019
افسانہ نمبر 23
دیمک
ثمرین افتخار ڈونگہ بونگا۔ پاکستان
اس کے گھر میں لگے تمام چوبی دروازے دیمک کی زد میں آچکے تھے ،تمام سے مراد دو دروازے ایک بوسیدہ اور ٹانڈ پر سجے اسٹیل کے جہینزی برتنوں سے مزین کمرہ اور دوسرا مرغی کے ڈربے جتنا حاجت خانہ،جہاں جانے سے پہلے کسی کو بھی اپنی کمر کبڑی کیے بنا جانا منع ہے جہاں کھڑے ہو کر نہانے کی سہولت درکار نہیں ۔جس کی چھوٹی سی دیوار میں روشنی کی درآمد کے لیے کیا گیا سوراخ پرندوں کا آشیانہ بن چکا ہے جس میں اکثرو بیشتر انڈے اور بچے موجود رہتے ہیں تاکہ کوئی دوسرا یہاں قابض نہ ہو جائے۔
دروازے کی لکڑی اپنا اصل رنگ وروپ کب کا کھو چکی تھی اس پہ لگی پالش، نم آلود ہوا نے چاٹ لی تھی اس کی رنگت ہاتھ کی میل کا شکار ہو کر سرمئی سا میک اپ تھوپے کسی بے ڈھپی سی عورت کا منظر پیش کر رہی تھی دیمک نے جگہ جگہ سوراخ کردیا تھے جو کسی بوڑھے کے چیچک زدہ چہرے کا نقشہ پیش کررہے تھے۔
اس پہ لگی اندرونی کنڈیاں کب کی غائب ہو چکی تھیں ان کے غائب ہونے سے بھلا کیا فرق پڑتا تھا وہاں کونسا کوئی قارون کا خزانہ چھپا تھا جسے کھونے کا ڈر مکینوں کو بے چین رکھتا۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ دروازے میں دیمکوں کی تعداد بڑھتی جارہی تھی ایسا محسوس ہوتا تھا یہ دروازے بھی کسی غریب کی کٹیا ہے جہاں ذیادہ بچوں کو جننا ریت بن چکی ہے یا پھر مقابلے کا کوئی میدان ہو کہ جہاں جس ٹیم کی تعداد زیادہ ہوگی وہی جیت کا تمغہ پہنے گی۔
اس گھر کے مکینوں میں چار لوگ رہتے ہیں۔
ایک بڑھیا جو نام کی طرح بالکل نیک واقع نہیں ہوئی ، جس کا نام نیکاں ہے۔جس کی ایک ٹانگ کا آدھا حصہ شوگر کی لپیٹ میں آنے کی وجہ سے کاٹ دیا گیا ۔جو گھر کے ایک کونے میں چارپائی کی قبر پر دھری ہوکر پڑی رہتی ہے اور منہ ہی منہ میں بڑ بڑاتی رہتی ہے ۔محلے والوں کے خیال میں وہ ذکر کرتی ہے لیکن گھر والوں کو خبر ہے کہ وہ ذکر نہیں کرتی بلکہ اپنی بیماری کو کوستی رہتی ہے۔
جوانی کے دنوں میں اس نے اپنے شوہر کو کبھی چین نہ لینے دیا کبھی غربت کا تانا کبھی اپنی خوب صورتی کا مقابلہ اپنے شوہر کی شکل سے کرنا جو قبول صورت واقع ہوا تھا۔
یہ عورتیں بھی ناں کیسا کیسا روپ دھار لیتی ہیں
نیک ،پارسا اور صابرہ بننے پر آئیں تو حضرت عائشہ کی مثال دینے کو دل چاہے اور ظالم بن جائیں تو ہٹلر کا نسوائی روپ دھار لیں۔
دوسرا فرد اپنی عمر سے ذیادہ بوڑھا دکھائی دینے والا اس کا شوہر بابا زلفی جس کا نام صابر رکھ دیا جائے تو کوئی مضائقہ نہ ہو جس کے بچپن نے کبھی بچپنا نہ دیکھا بلکہ ذمہ دار بڑے کی طرح باپ کی وفات کے بعد ساری ذمہ داری اٹھائی ،جس کی جوانی بچپن سے بھی زیادہ آزمائش بنی۔
اور بڑھاپا دوہرا امتحان۔
تیسرا فرد اس گھر کی پالتو بلی جو نیکاں کی چار پائی کے نیچے پاؤں پسارے پڑی رہتی ہے ۔جب بھوک لگتی ہے تو گلی میں نکل جاتی ہے اور لوگوں کے گھروں کا دروازہ کھلا دیکھ کر اپنے پیٹ کی آگ بجھا اپنے ٹھکانے پر آکر پڑ جاتی ہے ۔
اور چوتھا فرد غربت ہے جو پہلے دن سے ہی ان کے پلو سے دوہری گرہ لگا کر بندھی ہے جسے وہ جوانی میں بھی نہ کھول سکے اب ناتواں ہاتھوں میں کہاں دم۔
بوڑھا زلفی پیشے سے بڑھئی ہے اس کے ہاتھوں نے ہمیشہ لکڑی کا ذائقہ چکھا اور روح نے غریبی کا۔
دل میں کئی بار کسک اٹھی کہ امیری کا اک لقمہ ہی میسر آجائے لیکن آسودگی نے تو جیسے اس گھر پہ سو سو لعنت بھیج کر اک کونے میں دھر دیا تھا جہاں آتے جاتے حالات اسے ملعون کہہ کر چڑاتے۔
یہ چار ساتھی ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ رہے ۔
آج موسم صبح سے ہی خراب تھا ۔بابا زلفی جس نے اپنے اوزار گھر کی دیوار کے ساتھ رکھ اپنا ٹھیا بنا رکھا تھا موسم کے تیور دیکھ انھیں اٹھا کر کمرے میں رکھ دیا۔
کچھ لکڑی کے پھٹے بھی تھے جن میں سے کچھ اس نے گھر کے کمرے کے دروازے کے لیے جمع کیے تھے کیونکہ دروازہ دیمک کی وجہ سے بالکل خراب ہوچکا تھا ۔وہ پھٹے بھی اس نے جلدی سے کمرے میں دھر دیئے ۔
رات ہونے کو تھی۔آسمان گھنے سیاہ بادلوں کی چادر اوڑھ کر سیاہ حالات کی خبر سنا رہا تھا ۔نیکاں اپنی چارپائی پر پڑی بڑبڑارہی تھی کمرے میں لگا نارنجی بلب آنکھ مچولی کر رہا تھا اچانک ماحول میں موجود سناٹے نے اپنی چپی توڑی اور تیز آندھی اور طوفان کی باگ کھول دی۔کمرے میں جلتا بلب بجھ گیا شاید بجلی چلی گئی تھی ۔
اندھیرے ماچس ڈھونڈنے کے لیے بابا زلفی نے اندازے سے ٹانڈ کی جانب ہاتھ بڑھائے برتنوں کی ٹھا ٹھپک کی آواز کمرے میں گونجی اور ماحول مزید ڈراؤنا ہوگیا اور ماچس بھی کہیں نیچے گر گئی۔
اچانک طوفانی ہوا میں شدت بڑھ گئی ۔بوڑھی اپنی چارپائی پر مزید سمٹ گئی فضا میں مختلف چیزوں کے آپس میں ٹکرانے کی آوازیں بڑھ گئیں۔یوں محسوس ہوتا تھا کئی ملی جلی آوازیں حالات کی سنگینی پر بین کر رہی ہوں اور ان گلے بین کر کر بیٹھ گئے ہوں۔
تاریکی میں صرف آوازیں محسوس کی جا سکتی تھیں یا پھر اندر کا ڈر۔اچانک زلفی کے کانوں سے کسی بھاری مگر کھوکھلی چیز کے گرنے کی آواز سنائی دی اور اس کے ساتھ ہی ایک ہلکی سی چیخ بھی۔
اس آواز کو سنتے ہی بابا زلفی نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر پھیرنا شروع کردیا تاکہ ماچس ڈھونڈ سکے بالآخر ماچس مل گئی لیکن وہ خالی تھی۔
اس کے دل کی دھڑکن مزید تیز ہوگئی یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے ضعیف دل چیخ چیخ کر کہہ رہا ہو۔کچھ ہو گیا ہے۔
یکلخت نارنجی بلب جل اٹھا ۔سامنے کے منظر نے اس پہ رقت طاری کردی ۔دیمک آلود دروازہ ضعیف ہڈیوں کے پنجر پر یوں پڑا ہے جیسے اس کی اصل جگہ یہی ہو۔
لکڑی کو نیست و نابود کرنے والی دیمکوں کا جھنڈ فرش پر ادھر ادھر اک نیا ٹھکانہ ڈھونڈنے میں مگن تھا اور سانسوں کو موت کی دیمک چاٹ چکی تھی۔
Be First to Comment