عالمی افسانہ میلہ 2015
افسانہ نمبر 116
طارق شبنمؔ ( بانڈی پورہ جموں کشمیر(انڈیا)
دہکتے انگارے
سلمیٰ گاڑی سے اُتر کر تیز تیز قدم اُٹھاتے ہوئے گھر کی اور چل رہی تھی تو دریا کنارے مرد و زن کی بھیڑ جمع دیکھ کر انجانے خوف میں مبتلا ہوگئی۔اس کے قدم خود بخود بھیڑ کی طرف بڑھنے لگے ۔وہاں موجود لوگ چہ میگویؤں میں مصروف تھے جب کہ کچھ عورتیں سینہ کوبی کرتے ہوئے واویلا کر رہی تھیں ۔۔۔یہ جگر خراش خبر سُن کر کہ کسی نا معلوم دوشیزہ نے دریا میں کود کر اپنی زندگی کا چراغ گل کر دیا ہے،اسکی جیسے جان ہی نکل گئی ۔ماتھے پہ ٹھنڈے پسینے کی بوندیں نمودار ہوگیءں ۔جسم کے رگ و ریشے میں تھرتھراہٹ پیدا ہوگئی جبکہ دل میں کئی طرح کے خوفناک اندیشے جنم لینے لگے۔وہ چاہتی تھی کہ کسی بھی طرح جلدی سے گھر پہنچ جائے لیکن ہمت جیسے جواب دے گئی تھی اور قدم سخت بوجھل ہورہے تھے۔اپنے آ پ کو بے جان لاش کی طرح گھسیٹے ہوئے جوں توں کرکے وہ بہ مشکل گھر پہنچی اور گھر کی دہلیز سے ہی بیٹی کو آواز دی لیکن کوئی جواب نہ پا کر اس کا دل جیسے بیٹھ گیا۔’’ اُلفت ۔۔۔ اُلفت بیٹی کہاں ہوتم۔۔۔؟‘‘وہ حواس باختگی کے عالم میں بے ساختہ چلاتے ہوئے اندر داخل ہو کر اس کو تلاش کرنے لگی۔کچن اور دوسرے کمروں میں ڈھونڈنے کے بعد اس نے اُلفت کے کمرے کا دروازہ کھولا تو وہ اطمینان سے نماز ادا کر رہی تھی۔کچھ دیر وہ عجیب نظروں سے اُس کو گھورتی رہی ،جب اس کو پوری طرح سے اطمینان ہوا کہ اُلفت صحیح سلامت ہے تو کچن میں آکر اس نے پانی کے کچھ گھونٹ پئے اور دم سنبھالنے بیٹھ گئی۔تھوڑی دیر بعد اُلفت بھی فارغ ہو کر آئی۔’’ اماں۔۔۔ تم کیوں چلارہی تھی؟۔۔۔ تم ٹھیک تو ہونا ؟۔۔۔‘‘’’ہاں بیٹی۔۔۔ ۔۔۔ میں بالکل ٹھیک ہوں‘‘۔اس نے اپنی کیفیت کو چھپاتے ہوئے کہا حالانکہ اس کی سانسیں اب بھی پھولی ہوئی تھیں۔’’ اماں۔۔۔ ڈاکٹر صاحب مل گئے کیا؟‘‘’’ ہاں بیٹی‘‘۔اس نے مختصر سا جواب دیا تو اُلفت بول پڑی۔’’ اماں۔۔۔ کل نصرت کی شادی ہے۔وہ اور اس کی ماں ہمیں دعوت دینے آئی تھیں۔‘‘’’بیٹی۔۔۔یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے۔۔۔ اللہ نصرت بیٹی کا دامن خوشیوں سے بھر دے۔۔۔۔۔۔‘‘۔وہ نصرت کو دعائیں دینے لگی تو اُلفت نے دوائی کی ٹکیا اور چائے کی پیالی سامنے رکھتے ہوئے کہا۔’’ دوائی کھالو ماں۔۔۔‘‘دوائی کھانے کے بعد سلمیٰ جس کا اندر باہر جیسے اتھل پتھل ہو چکا تھا سوچوں کی بھول بھلیوں میں کھو کر چرخہ کاٹنے میں مصروف ہوگئی جبکہ اُلفت کسی کتاب کی ورق گردانی کرنے لگی۔سلمیٰ کی کہانی بھی عجیب تھی۔۔۔ ایک زمانے میں خوشیوں بھرا گھرانہ تھا اس کا ،وہ مہارانی کی طرح زندگی گزارہی تھی۔لیکن تقدیر نے اس کے ساتھ وفا نہیں کی۔عین شباب میں ہی موت نے اس کا سہاگ چھین لیا اور اس کی خوشیوں بھری زندگی تپتے صحرا کی طرح ویران و اُداس ہو کر رہ گئی۔اس کا شوہر سراج ایک نیک عزت دار تجارت پیشہ شخص تھا۔قالینوں کا اچھا خاصہ بزنس چلتا تھا اور کمائی بھی خوب ہوتی تھی ۔گھر میں آرام و آسایئش کی ہر سہولیت میسر رکھنے کے ساتھ ساتھ وہ ہر مہینے بیوی بچوں کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر مختلف مقامات کی سیر کر اتا تھا۔بیوی کی خواہشوں کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ بچوں کے لئے بھی ڈھیر سارے کھلونے اور تفریح کا دوسرا سامان لاتا تھا۔انہیں کسی بھی قسم کی کمی محسوس ہونے نہیں دیتا تھا۔پھر ایک دن اس کے اہل و عیال پر جیسے آسمان ٹوٹ پڑا ۔سراج حسب معمول صبح سویرے کام کے سلسلے میں اپنی گاڑی میں سوار ہو کر گھر سے نکلا لیکن شام کو واپس نہیں لوٹا۔سلمیٰ بے چینی سے اس کی راہ تک رہی تھی تو دیر رات یہ اندوہناک خبر سُن کر ،کہ سراج زخمی حالت میں اسپتال میں ہے،اس کے ہوش و حواس اُڑ گئے۔آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔وہ کچھ رشتہ داروں کے ہمراہ روتے بلکتے اسپتال پہنچی تو سراج زخموں سے چور بے سُدھ چار پائی پر پڑا ہوا تھا۔اسپتال میں افراتفری کا عالم برپاتھا ۔دیگر درجنوں لوگ جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے،خون میں لت پت درد سے کراہ رہے تھے۔سراج کی یہ حالت دیکھ کر شدت غم سے سلمیٰ کا وجود کانپ اُٹھا اور وہ پاگلوں کی طرح اپنا سینہ پیٹنے لگی۔ایک بزرگ شخص جس کا جوان بیٹا بھی زخم زخم ہوکر بے ہوش پڑاتھا،نے اس کی ڈھارس بند ھائی اور یہ بھی بتایا کہ شام کے وقت شہر میں رونما ہونیوالے مسلح جھڑپ میں درجنوں راہگیر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور کئی مضروب ہوئے ہیں ۔سراج بھی گھر لوٹتے ہوئے اسی جگہ گولیوں کی زدمیں آکر زخمی ہوا ہے۔کئی شب و روز اُمید و نا اُمیدی کے بیچ جھولتے رہنے کے بعد آخر سلمیٰ کی دنیا لُٹ گئی ۔سراج کے علاج و معالجہ پر زر کثیر خرچ ہونے کے باوجود بھی وہ جانبر نہ ہو سکا۔کئی دنوں تک اسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد آخر زندگی کی جنگ ہار کر وہ جوان مرگ ہوگیا ،جس کیساتھ ہی سلمیٰ کی زندگی کی کڑی آزمائش شروع ہوگئی۔پہاڑ جیسی جوانی میں ہی رفیق حیات کی المناک جدائی کا غم بچوں کی تعلیم و تربیت کا مسئلہ ۔۔۔ گھر یلو اخراجات و دیگر سماجی ضروریات کا بوجھ۔شروع شروع میں اگر چہ کچھ قریبی رشتہ دارواحباب اس کی ڈھارس بند ھاتے رہے اور اُسکی مالی معاونت بھی کرتے رہے لیکن محض چند مہینوں بعد ہی اپنے اپنے مسائل میں گرفتار ہوکر سب نے ہاتھ کھینچ لئے۔سلمٰی نے ہمت نہیں ہاری اور نہ ہی اپنی غیرت اور خودداری کو داؤ پر لگا کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا گوارا کیا،بلکہ اپنی شاہانہ طرز حیات کو بھول کر سخت محنت و مشقت کے ساتھ ساتھ نہایت ہی کفایت شعارانہ زندگی اختیار کرلی۔گھر یلو کا م نپٹانے کے بعدوہ دیر رات تک چرخہ کاٹنے یا پشمینہ شالوں پر گل بوٹے کاڑ ھنے میں مصروف رہتی تھی ،غرض جوں توں کرکے گھر یلو ضروریات اور بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے کرتی رہی۔۔۔اُلفت گریجویشن مکمل کرکے اب گھر کے کام کاج میں ماں کا ہاتھ بٹاتی تھی جبکہ بیٹے جنید نے ابتر مالی حالت کے پیش نظر دسویں جماعت کے بعد ہی پڑھائی چھوڑ کر قلیل تنخواہ پر سیلز مین کی نوکری اختیار کرلی تھی۔سلمٰی کی صحت بھی گِر چلی تھی،اب جو غم اس کو دن رات زہر یلا سانپ بن کر ڈس رہا تھا وہ تھا ،اُلفت کی شادی کا غم۔اس کاکنوارا پن سلمیٰ کے سر پر دہکتے انگاروں کی مانند سلگ کر اُسے اندر ہی اندر جلائے جارہا تھا کیونکہ آس پڑوس اور رشتے میں اس کی ہم عمر ساری لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہوچکے تھے۔اُلفت کی قریبی سہیلی نصرت ،جو عمر میں اس سے چھوٹی ہی تھی،کے آسودہ حال والد نے چند ہفتے قبل ہی لاکھوں روپے اُڑا کر اس کی منگنی انجام دی تھی۔اور چٹ منگنی پٹ بیاہ کے مصداق دھوم دھام سے ا ب اس کی بھی شادی ہونے جارہی تھی۔ اگر چہ اُلفت جو ایک سلیقہ مند،خوبصورت اور خوب سیرت لڑکی تھی کے لئے بھی کئی اچھے رشتے آرہے تھے لیکن گھر کی خستہ مالی حالت اور سماجی رسوم کے خوف کی وجہ سے سلمیٰ کے لئے یہ فریضہ انجام دینا قطعی ممکن نہیں بن رہا تھا ۔اُلفت کے دل میں اپنی یہ کم نصیبی زہریلے کانٹوں کی طرح چبھ رہی تھی۔اگر چہ وہ زبان پر کوئی سوال نہیں لا سکتی تھی لیکن اس کا چہر ہ ہی ایک بڑا سوال بنا ہوا تھا۔سلمیٰ جس تیزی سے چرخہ چلا رہی تھی اسی تیزی سے پریشان خیالات کا چرخہ اس کے ذہن میں چل رہا تھا جبکہ اُلفت ،جو خُود بھی پریشان سوچ و فکر کے تانوں بانوں میں اُلجھی تھی،ماں کی آنکھوں میں امڈ آئے درد کو صاف محسوس کر رہی تھی۔سلمیٰ کے چہرے پر کئی طرح کی لکیریں اُبھر اُبھر کر ڈوبی جارہی تھی۔وہ اپنے کربناک ماضی و حال کی کتاب کی ورق گردانی کرتے کرتے نہ جانے کس موڑ پر تھی کہ دفعتاً اس نے اپنا سردونوں ہاتھوں سے پکڑلیا اور بے حس ہو کر پیچھے کی طرف گر پڑی۔’’ کیا ہوا ماں۔۔۔۔۔۔ اُلفت نے سہارا دیتے ہوئے پوچھا۔‘‘ ’’ کچھ نہیں بیٹی۔۔۔۔۔۔تھوڑا سا چکر آگیا۔‘‘اس نے مریل سے لہجے میں جواب دیا۔۔الفت دوڑ کر کچن میں گئی اور پانی بھر ا گلاس لاکر ماں کو پانی پلایا اور گھبراہٹ کے عالم میں اس کا سردبانے لگی۔کچھ دیر بعد ہوش میں آکر جب اس نے آنکھیں کھولیں تو اُلفت محبت بھرے لہجے میں گویا ہوئی۔’’ اماں۔۔۔ یہ ٹینشن ایک دن تمہاری جان لے کر ہی رہے گا ۔۔۔ آخر کس غم کو تم نے دل میں پال رکھا ہے؟۔۔۔ ذر امیں بھی تو جانوں‘‘۔’’ کچھ نہیں بیٹی۔۔۔تم نصرت کی شادی میں جانے کی تیاری کرو۔۔۔‘‘اس نے نظریں چُرا کر اُلفت کو ٹالنے کی کوشش کی۔’’ تم نہیں بتاؤ گی اماں لیکن میں سب سمجھتی ہوں۔۔۔‘‘سلمیٰ اس کو حیرت زدہ نظروں سے تکنے لگی ۔اس نے کچھ توقف کے بعد اپنی بات جاری رکھی۔’’اماں ۔۔۔ایک میں ہی تو نہیں ہوں اور بھی تو بہت ساری لڑکیاں ہیں جنہیں حالات کے بے رحم تھپیڑوں نے یتیم و بے سہارا بنا کے چھوڑدیا ہے۔گلی کے نکڑ پر سبزی بیچنے والی آنٹی کو ہی دیکھ لیجئے تین تین جوان بیٹیاں ہیں اس کے گھر میں۔۔۔‘‘’’ہاں بیٹی۔۔۔ ان کا باپ تو ۔۔۔؟‘‘’’ اماں۔۔۔ سوال یہ نہیں ہے کہ کس کی وابستگی کس کے ساتھ تھی۔کوئی زید تھا یا بکر،اگر کوئی ایک نام پر تو کوئی دوسرے نام پر مارا گیا تو اس میں ان کے بچوں کا کیا قصور ہے؟ان کی بے کس جوان بیٹیوں کے سنہرے خواب چکنا چور ہورہے ہیں۔۔۔۔۔۔ہاتھ مہندی کو ترستے ہیں۔۔۔اماں کون کرے گا ان کی فکر؟۔۔۔ کون کرے گا ان بے وسیلہ دُلہنوں کے ہاتھ پیلے؟ اور وہ ماں کیساتھ لپٹ گئی۔جس کے ساتھ ہی دونوں کی آنکھوں کی طغیانی میں زور پیدا ہوگیا اور تیز تیز قطار در قطار آنسوں ٹپکنے لگے۔
Be First to Comment