یوسف عزیز زاہد ۔
عالمی افسانہ میلہ 2015
افسانہ نمبر 14
دھوپ موسم میں برف گرنے کا منظر
یوسف عزیز زاہد، پشاور، پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درجہ حرارت نقطہء انجماد سے بھی نیچے گر چکا ہے اور سورج سوا نیزے پر ہے۔ میرے وجود کے اندر اور باہر برف ہی برف ہے ۔۔۔۔ زردی مائل سفید برف جو صدیوں سے تہہ در تہہ جمی ہوئی ہے۔ میں چاہتا ہوں سورج کی حرارت کو اپنے جسم میں اُتار کر برف سے چھٹکارا حاصل کروں مگر سوا نیزے پر ہونے کے باوجود سورج کی حرارت مجھ تک نہیں پہنچ پا رہی ۔۔۔۔ شائد سورج بھی اپنی حرارت کھو بیٹھا ہے یا اس کے وجود پر بھی اندر اور باہر تہہ در تہہ برف جمی ہے۔ میرے کمرے کی دیوار پر لگے وال کلاک کی سوئیاں برابر حرکت میں ہیں مگر وقت وہاں گہری نیند سو رہا ہے ۔میں چاہتا ہوں دفتر جانے کے بہانے ہی اس چار دیواری سے باہر نکلوں مگر وال کلاک کی سوئیاں صبحِ کاذب کا پتہ ہی نہیں دیتی ہیں اور خاموشی ہے کہ جسم کی تہہ در تہہ برف میں راستہ بنا کر اندر ہی اندر اترتی چلی جا رہی ہے۔
گھر ایک ہے ۔۔۔۔۔ شائد میں نے غلط کہا ۔۔۔۔۔۔ مکان ایک ہے۔ کمرے چار ہیں اور ہر کمرے میں ایک گھر آباد ہےاور ہر گھر کا ہر ایک فرد برف سے اَٹا ہے۔ خاموشی ہر کمرے میں پاؤں پسارے بیٹھی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ تمام گھرانوں کے بیچ برف کی زردی مائل دیواریں بلند سے بلند تر ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ میرے کمرے میں پھیلا ہوا برف آلود سناٹا اب بولنے لگا ہے۔ میں چاہتا ہوں برف کی اس قید سے رہائی پاؤں مگر گھڑی کی سوئیاں؟؟؟ شائد وال کلاک کے “سیل” ختم ہو چکے ہیں، نہ بولتا ہے نہ وقت کو آگے بڑھاتا ہے۔ میں کلائی پر بندھی گھڑی میں وقت کو تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو وہ جو بستر پر کمبل میں لپٹی ہے فورا” وال کلاک پر نگاہ کرتی ہے، پھر عجیب سی نظروں سے مجھے تکتی ہے ،کچھ کہنا چاہتی ہے مگر خاموشی کو کمرے میں پاؤں پسارے دیکھ کر اپنے وجود کی برف جھاڑنے میں مصروف ہو جاتی ہے۔ میں اُسے نظر انداز کر کے ایک بار پھر کلائی کی گھڑی میں وقت دیکھتا ہوں، سیکنڈ کی سوئی برابر حرکت میں ہے۔ وقت سانس لے رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر باقی دو سوئیاں؟؟؟
میں اپنے آفس جانا چاہتا ہوں مگر آفس میں بھی ابھی کون آیا ہو گا؟ آفس میں آتا بھی کون ہے ۔۔۔ سب لوگ تو خود کو برف کے قید خانے میں بھول آتے ہیں۔ لیکن میں نے عہد کیا ہے کہ آج خود کو آفس تک گھسیٹ ہی لے جاوٗں گا، میں روز ہی بھول جاتا ہوں اور خود کو گھر میں چھوڑ کر آفس آ چلا جاتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر آج!! کمرے میں پاؤں پسارے بیٹھی خاموشی، مکان میں گونجتا برف آلود سناٹا اور صدیوں سے تہہ در تہہ جمی ہوئی برف ۔۔۔۔۔۔ مجھے حرارت کی ضرورت ہے!! درجہ حرارت نقطہ انجماد سے بھی نیچے گر چکا ہے اور سورج سوا نیزے پر ہے۔
آفس بھی خالی پڑا ہے اور میں خود کو اپنی سیٹ پر تلاش کرتا ہوں میں موجود ہوں ؟؟؟ یا شائد غیر موجود ہوں! شائد میں آج بھی خود کو جمی ہوئی برف میں اپنے کمرے میں بھول آیا ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے راستے میں میرا وجود برف کی کسی قبر میں اتر گیا ہو؟ کچھ بھی ہو میں آفس کی سیٹ پر موجود نہیں ہوں ۔۔۔۔۔۔ تو پھر کون ہے جو میری سیٹ پر براجمان ہے؟
“سلام صاب”
“سلام۔۔۔۔۔۔۔تو تم آفس آگئے ہو کرم داد؟ میری ٹیبل پر آج کا اخبار کیوں موجود نہیں؟”
“اخبار پر برف جم گئی ہے صاب ،کچھ پڑھا ہی نہیں جا رہا میں نے دھوپ میں رکھ دیا ہے۔”
“کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟ تم اپنے حواس میں تو ہو؟ میرا مطلب ہے دفتر میں موجود ہو یا؟”
“معلوم نہیں صاب ،موجود ہوں یا شائد موجود نہیں ہوں، گھر سےآیا بھی ہوں یا نہیں کچھ کہہ نہیں سکتا”
“گڈ مارننگ سر”
“مارننگ۔۔۔۔یو آر لوکنگ چارم فل ایز ایور روشی”
“تھینک یو سر”
“لیٹرز ٹائپ ہو گئے؟”
“نو۔۔۔۔ سر ۔۔۔ کی بورڈ پر برف جمی ہوئی ہے”
“وہاٹ۔۔۔۔۔آپ افس میں ہیں مس روشانہ یا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟”
“معلوم نہیں سر۔۔۔۔۔گھر سے نکلی تو تھی آفس کے لئے ہی مگر راستے میں شائد کوئی گڑبڑ ہوئی ہے، میں آفس تک پہنچ ہی نہیں سکی، شائد ابھی تک گھر میں ہی ہوں اپ جانتے ہیں نا مما پر فالج کا اٹیک آیا ہے ”
تو آپ بھی مس صاب آپ بھی۔”کرم داد حیرت سے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر روشانہ کو دیکھتا ہے۔ تب میں اسے باہر جانے کا اشارہ کرتا ہوں۔ باہر ہال میں وہ سب ایک ہی میز کے گرد جمع ہو کر خود کو تلاش کر رہے ہیں۔ بھنبھناہٹ برف سے راستہ بنا کر میرے کیبن تک آ رہی ہے۔ اُنہیں اس بات کا احساس نہیں کہ ان کے جسم تازہ برف سے اٹ چکے ہیں اور صدیوں سے تہ در تہہ جمی ہوئی زردی مائل برف پہلے ہی ان کے جسموں کو قید کر چکی ہے۔ روشی میری نگاہوں کے تعاقب میں ان لوگوں پر ایک اُچٹتی نگاہ ڈالتی ہے ۔۔۔ میں اسے اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں۔
“آج شام آپ گولڈن ریستتوران میں آ رہی ہیں نا مس روشی؟ آپ کے لئے ایک اچھی خبر ہے مگر خود کو ساتھ لانا نہ بھولیے گا۔”
وہ چہرے سے برف ہٹا کر مسکرانے پر اکتفا کرتی ہے تو باہر ہال میں بھنبھناہٹ کے ساتھ آنکھوں سے غلاظت بھی بہنے لگتی ہے۔ تب میں روشی کو باہر جانے کا اشارہ کرتا ہوں وہ میرے کیبن کا دروازہ کھول کر کہیں گم ہو جاتی ہے اور بھنبھناہٹ شور میں تبدیل ہو کر یکلخت خاموشی کی بکل مار لیتی ہے۔ میرے کیبن میں خاموشی کے ساتھ برف کی دیواریں بلند ہونے لگتی ہیں۔ میرا کیبن برف سے اٹ گیا ہے۔ مجھے حرارت کی ضرورت ہے مگر ۔۔۔۔ درجہ حرارت نقطہ انجماد سے بھی نیچے گر چکا ہے اور سورج سوا نیزے پر ہے۔
گولڈن ریستوران چاروں طرف سے برف میں گھِر چکا ہے اور برف ہے کہ گرتی چلی جا رہی ہے، اندر کا ماحول بھی برف آلود ہے، باہر سڑک سنسان ہے، کبھی کوئی سواری یا برف سے اٹا چہرہ خاموشی سے گزر جاتا ہے۔ بیت دور ایک بیضوی شکل کی کثیرالمنزلہ عمارت کا ہیولا سا دکھائی دیتا ہے۔ اچانک ریستوران کا دیوار گیر ٹیلیویژن آن ہوتا ہے اور ہو بہو اس عمارت کا بیرونی منظر دکھایا جاتا ہے پھر کیمرہ اندرونی مناظر پر فوکس ہوتا ہے۔ عمارت کی منزلوں کا کوئی شمار نہیں ہے۔ ویاں بھانت بھانت کے لوگ انہماک کے ساتھ اپنے اپنے کام میں مصروف ہیں ان کے لباس مختلف مگر اجلے ہیں اور چہروں سے اطمینان چھلکتا ہے۔ میں ان مناظر سے نکل کر بےچینی سے باہر دیکھتا ہوں روشی ابھی تک نہیں آئی! معلوم نہیں وہ آ بھی سکتی ہے یا نہیں؟ ممکن ہے برف کے خوف نے اسے گھر سے باہر نکلنے ہی نہ دیا ہو۔ ہو سکتا ہے وہ گھر سے تو نکل آئی ہو مگر راستے میں اُسے برف نے نگل لیا ہو۔ ریستوران کے اندر میزوں کے گرد بیٹھے ہوئے لوگ خاموشی سے اپنی تلاش میں مصروف ہیں اور ان کے بیچ برف کی تہہ در تہہ دیواریں تیزی سے پروان چڑھ رہی ہیں میں اپنی میز پر برف میں گھِرا تنہا بیٹھا ہوں۔
ریستوران کے عین وسط میں ایک گول میز رکھی ہے اس کے گرد دو اجنبی بوڑھے کسی اجنبی زبان میں محوِ گفتگو ہیں۔ ان کے بیچ برف کی دیواریں بھی حائل نہیں اور وہ ایک دوسرے کی بات کو سمجھ رہے ہیں۔ روشی ابھی تک آئی کیوں نہیں؟ میں ایک بار پھر شیشے کی دیواروں کے اُس بار گرتی ہوئی برف کے منظر کو آنکھوں میں اُتار لیتا ہوں سڑک کے اُس پار ایک عارضی سے چھپر کے نیچے چند لوگ بیٹھے قہوہ پی رہے ہیں۔ چھپر پر ڈھیروں برف پڑی ہے مگر قہوہ پینے والوں کے کپڑے مٹی، دھول اور آئل سے اٹے ہوئے ہیں۔ پسینے کی لکیریں ان کے چہروں پر جم گئی ہیں۔ اس سارے برف آلود ماحول میں ان کا وجود عجیب لگ رہا ہے۔ حیرت کی بات ہے اس کشیدہ ماحول میں ان کے چہروں پر مسکراہٹ کی چمک اتنی دور سے بھی مجھ تک پہنچ رہی ہے۔ اچانک اس چھپر کے سامنے سے سرخ کپڑوں میں لپٹی ایک عام سی لڑکی خود کو برف سے بچاتے ہوئے گزر جاتی ہے۔ میرے ساتھ وہ دونوں بوڑھے بھی اس لڑکی کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔
“یہ روشی نہیں ہو سکتی کوئی اور ہے۔”
میں خود کلامی کے انداز میں کہتا ہوں اور دونوں بوڑھوں کے بیچ ہونے والی گفتگو پر کان دھرتا ہوں مگر کوئی بات پلے نہیں پڑتی۔ سفید وردی میں ملبوس ویٹر نے اُن کی میز پر کافی کے برتن لگا دئے ہیں وہ دونوں اپنے لئے بلیک کافی بنا کر انہماک سے گفتگو کو آگے بڑھاتے ہیں اب ان کے لہجے پُرجوش ہیں۔ میں بیزاری سے باہر دیکھتا ہوں۔ چھپر کے سامنے سے ایک پرانی کھٹارہ بس گزر رہی ہے، بلکہ رینگ رہی ہے۔ ڈرائیور نے سبز اور سفید رنگ کے کپڑے بہن رکھے ہیں آنکھوں پر سیاہ چشمہ ہے۔ بس میں بیٹھے ہوئے لوگ سردی سے کپکپا رہے ہیں اُن کے جسم پر کپڑے بھی ناکافی ہیں اور بس کی کھڑکیوں کے شیشے بھی ٹوٹے ہوئے ہیں رنگا رنگ جسم پچکے ہوئے بیٹوں کے ساتھ کھڑکیوں سے جھانک رہے ہیں۔ نوزائیدہ بچے ماؤں کی خشک چھاتیوں سےچمٹے دودھ تلاش کر رہے ہیں اور سبز و سفید وردی میں ملبوس ڈرائیور اُن سے بے نیاز آنکھوں پر سیاہ چشمہ چڑھائے بس چلانے میں مگن ہے۔ رینگتے رینگتے بس آنکھوں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔ بس منظر سے غائب ہوئی ہے لیکن سڑک پر موجود ہے، دونوں بوڑھے سیاہ کافی پی کر اور بس کو دیکھ کر مسکراتے ہیں۔ سورج سوا نیزے پر آچکا ہے مگر درجہ حرارت ابھی تک نقطہ انجماد سے نیچے ہے میرے چاروں طرف برف اور خاماشی ہے۔ اب ان بوڑھوں کے لہجے زیادہ پُر و جوش نہیں چھپر کے نیچے اب کچھ اور لوگ میلے کچیلے کپڑوں میں قہوہ پی رہے ہیں۔ وہ ابھی تک نہیں آئی اور اب کیا آئے گی، اب تو رات نے اپنی سیاہ زلفیں پھیلا دی ہیں۔ میں ایک بار پھر خود کو ریستوران کے اندر تلاش کرتا ہوں۔
“شائد وہ آئی ہو اور مجھے موجود نہ پا کر واپس چلی گئی ہو۔ ”
تو کیا میں ریستوران میں بھی موجود نہیں ہوں؟ یا شائد آج پھر میں خود کو گھر میں ہی چھوڑ آیا ہوں یا پھر کہیں راستے میں ۔۔۔۔۔۔۔؟ میں خود کو ٹٹولتا ہوں لیکن کیا میں گھر میں بھی موجود تھا؟ میری بیوی اکثر مجھ سے کہتی ہے۔
“آپ تو ہمیشہ خود کو دفتر میں بھول آتے ہیں۔”
اور میں ہمیشہ خود کو آفس کی سیٹوں پر تلاش کرتا ہوں۔ عجیب بات ہے۔ نہ میں گھر میں موجود ہوتا ہوں نہ آفس میں، تو پھر جب میں نہ گھر میں ہوں نہ آفس میں اور نہ ہی ریستوران میں تو پھر میں کہاں ہوں؟؟ روشی ابھی تک نہیں آئی اسے بھی شائد برف کی قبر نے نگل لیا ہے۔
Urdu short stories and writers
Be First to Comment