عالمی افسانہ میلہ 2019
افسانہ نمبر73
دھواں
ڈاکٹر رخشندہ روحی مہدی
نئی دہلی ۔ انڈیا
آج اکرم کی شادی ہے ۔ اکرم اور میں چھٹی کلاس سے کالج تک ساتھ پڑھے تھے ۔ پاپا اپنی بڑی بہن ناظمہ پھپھو کے انتقال کے بعد اکرم کو اپنے ساتھ ممبئی لے آئے تھے ۔ دادا اور دادی کی زندگی تک ہم سب مل جل کر عید، بقرعید مناتے ۔ ۔ لیکن ادھر قریب ۱۱ سال سے گاءوں جانا نہیں ہوا ۔ ۳سال پہلے نوکری کے سلسلے میں اکرم چننئی چلا گیا ۔ ۔ اور میں ممبئی میں رہ گیا ۔ ۔ اکرم کی شادی گاءوں سے ہو رہی ہے ۔ لڑکی بھی ہماری کزن ہی ہے ۔ اب ایک مدت کے بعد اکرم سے ملاقات ہوگی ۔ ۔
ممی کو پاپا نے متعد د دلیلیں دے کر سمجھانے کی کوشش کی ۔ ۔ مگر ممی کو اپنی سسرال کی بوسیدہ دیواروں سے کوئی لگاءو نہ تھا ۔ ۔ ۔ پاپا ممی کو ناراض کرکے گاءوں جانے کا جوکھم نہیں اٹھا سکتے تھے ۔ اور ممی کی طبیعت بھی کچھ ٹھیک نہ تھی ۔ میرا جانا تو ضروری ہے ۔ مجھے اکرم کی دوستی پیاری ہے ۔ ۔ وگرنہ مجھے بھی گاءوں سے کیا لینا دینا ۔
پسنجر ٹرین رک رک کر آخر کار اسٹیشن پر رکی ۔ قصباتی بے رونقی اور سستی چاروں طرف بکھری پڑی تھی ۔
اسٹیشن سے گاءوں کی طرف جانے کے لئے ٹیمپو کا تھوڑا انتظار کرنا پڑا ۔ دل ملول سا ہونے لگا ۔ ۔ یہاں آنے کافائدہ کیا ، میں اپنے پاپا کے آبائی مکان تو جا نہیں سکتا تھا ۔ اکرم کی بارات شادی گھر پہنچ چکی ہوگی ۔ ۔ لڑکی والوں نے وہیں بارات کا انتظام کیا ہے ۔ ۔ راستہ پوچھتے پوچھتے شادی گھر پہنچ گیا ۔ ۔
صبح کے ۹بج رہے تھے ۔ ۔ اکرم گلے سے لگ کر مجھے چھوڑنے کو تیار نہ تھا ۔ ۔ پاپا کے سب رشتے دار امی اور پاپا کی خیریت دریافت کرتے رہے ۔ ۔ میں بغیر پہچانے سب ہی کے سامنے سر جھکاتا رہا ۔ ۔ اور دعائیں لیتا رہا ۔ ۔
بارات کی گہما گہمی میں لطف تو تھا مگر رات بھر کا سفر ۔ ۔ ۔ اور اس پر حاوی نیند کا نشہ ۔ طرح طرح کی خوشبوئیں ۔ شورشرابہ اور شوخ نظروں کا ایکسپورٹ امپورٹ تھکن پر بھاری پڑا رہا تھا ۔
ہماری آءو بھگت کا سلسلہ چل نکلا ۔ پرانے شہر کے پرانے رنگ ڈھنگ و روایات ایک خوشگوار احساس تھا ۔ ۔ میں نے اکتاہٹ بھرے تصورات کو دل سے نکال پھینکا ۔ ۔ ۔ ۔
۔ باریک گوٹے کی کناری والے دھنک رنگ دوپٹے ۔ چوڑی دار پاجامے ۔ ۔ گھیردار فراکیں ۔ کسی کی دو چوٹیاں سینے پر دربان سی پہرہ دیتیں ۔ کسی کی لمبی رنگین چوٹی کے ریشمی پھندنے بل کھائی کمر کے نچلے حصے پر تبلے کی تھاپ لگاتے ۔
کم سن لڑکیاں اپنے سادہ بے پروہ حسن سے انجان سی استقبالیہ ٹیم میں کھڑی تھیں ۔ ۔ منقش بیل بوٹوں والے چاندی کے مرادابادی لوٹے کی اونچی صراحی دار گردن سے گراتی پانی کی باریک دھار سے زیادہ باریک نرم لچکتی لڑکیاں نازک انگلیوں سے لوٹے کو خم کرے میرے ہاتھوں کو دھلانے پر مصر ۔ ۔ میں نے ہاتھ آگے کر دئے ۔ ۔ میرے ہاتھوں پر سے پھسلتا ہوا پانی چاندی کی صلفچی میں چھن چھن گرنے لگا ۔ نرم تولئے سے بے حدملایمت سے میرے ہاتھ خشک کئے گئے ۔ ۔
مہندی کی تھال میں موم بتیاں جلائے مہندی والے کم سن لڑکوں کے سامنے گوری گوری ہتھیلیاں پسارے لڑکیاں قالین پر بیٹھنے لگیں ۔ ڈھولک کی دھمک’ پر بنے کا سہرا سہانہ لگتا ہے دلہن کا تو دل دیوانہ لگتا ہے ۔ ۔ ۔ ‘کی تان بے سری ہونے پر بھی دلکش لگ رہی تھی ۔
میں نے دل میں مسکرا کر اس نظارے کو دیکھا اور تھکان اتارنے کا حل سوچا ۔ ۔ نہا کر آرام کیا جائے ۔ ۔ بارات کی واپسی شام چھ بجے سے پہلے تو ناممکن ہے ۔ ۔ میں اپنے کمرے کی طرف جانے کا اردہ کر ہی رہا تھا کہ پیتل کی سنہری تشتری لئے ایک عورت سب کے سامنے باری باری جاتی اور انکی انگلیاں پکڑتی اور تشتری میں کچھ نوٹ یا سکے رکھے جاتے ۔ ۔ شاید ناخون کاٹنے کا دور چل رہا تھا ۔ میں نے موقع دیکھ کر آرام کرنے کی ترکیب نکالتے ہوئے اکرم کے کان میں کہا’’ہر سنڈے کے معمول کے مطابق میرے ناخون ترشے ہوئے کیا بالکل منڈے ہوئے ہیں ۔ میں نہا کر آرام کرنا چاہتا ہوں ۔ ‘‘ وہ مسکرا کر بولا ۔ ’’ ارے بھائی یہ صرف رسم ہے نیگ دینے والا معاملہ ہے‘‘ ۔
یہ بھی کیا رسم ہے ; میں نے سوفے پر ڈھیر ہوتے ہوئے سوچا ۔
’’ بابو ۔ ۔ ۔ ‘‘ میں سنبھل کر بیٹھ گیا ۔
وہ میرے سامنے کھڑی ہوگئی ۔ اسکے چہرے کی ہر سلوٹ و قارو تمکنت کا امتزاج تھی ۔ ۔ ۔ اسنے میرے داہنے ہاتھ کی کن انگلی کو اپنے ہاتھوں کی شفیق حرارت میں ڈبو دیا ۔ ایک دھار دار بلیڈ سے میری انگلی کے ترشے ہوئے ناخون کو اگتے چاندکی گولائی میں ڈھال دیا ۔ میں نے دسوں ناخون اسکے سامنے کر دئے ۔ میری انگلیوں کے پوروں پر دسوں چاند اگ آئے ۔
میں نے جھل جھل کرتی سنہری تشتری میں پانچ سو کا کرارہ نوٹ رکھ دیا ۔ اسنے اپنے سر کے دونوں طرف ہاتھوں کی انگلیوں کو چٹخایا اور میرے چہرے کے دونوں طرف پھیر دیا ۔ ’’ سر پہ سہرا سجے ‘‘ ۔ ۔ میرا چہرہ کسی پری کی جادوئی چھڑی سے چھو گیا ۔ ۔ ۔ بیضوی چہرے پر مامتا کی شبنم ۔ ۔ بولتی آنکھوں میں خاموش خواہشات کی پرچھائیاں ۔ ۔ سر پر چادر کا کوناماتھے تک ڈھکا ہوا ۔ ۔ عمر کی ڈھلتی شام میں اسکے چہرے پر صبح نو کی شادابی و رعنائی دمک رہی تھی ۔ ۔ اسکی مخملی ملائم ٹھوڑی پر تین نیلے نقطے میری توجہ اپنی طرف کھینچنے میں کامیاب ہو گئے ۔
میں اسکی ٹھوڑی پر نظریں جمائے ہوئے تھا ۔
’’ آپ اسی شہر میں رہتی ہیں ; ۔ ‘‘ غیر ارادی طور پر مےرے منھ سے نکلا ۔
’’ شہر میں تو آپ بابو لوگ رہتے ہو ۔ میرا گاءو ں ۔ ۔ ۔ لال گڑھ ۔ ۔ یہیں ۔ ۔ قریب ہی ہے ۔ پیدل کا راستہ ہے ۔ چلو گے;‘‘ ۔ ۔ اسکی پرخلوص دعوت کو میں نظر انداز نہ کر سکا ۔ ۔ یہ جگہ اب دل چسپ لگنے لگی ۔
اکرم اپنی سالیوں کے جھرمٹ میں مجھے کیا اپنے آپ کو بھولا بیٹھا تھا ۔ ۔ میں نے سوچا پھر کب آنا ہو گا ۔ ۔ کیوں نہ اس علاقے کی سیر کر لی جائے ۔ اگر وقت ملا تو پاپا کے گاءوں بھی ہو آءونگا ۔ ۔ ۔ ساتھ میں اتنی شفیق اور باوقار خاتون کی راہ نمائی بھی رہے گی ۔ ۔
وہ اپنی چادر کو سر پر ٹھیک سے جما کر اکرم کی بلائیں لے رہی تھی ۔ ۔ اس نے بغیر گنے روپیوں کو بٹوے میں رکھ لیا ۔
ناشتہ لگ چکا تھا ۔ ناشتہ کی پلیٹوں پر سبھی پورے دل وجان سے نچھاور تھے ۔ میں نے ایک گلاس جوس پیا ۔ اسنے ناشتہ کی میز کی طرف دیکھا تک نہیں ۔ ۔ بٹوے کو چادر کے پلو کی گانٹھ میں باندھ کر میری طرف دیکھ کر چلنے کا اشارہ کیا ۔ ۔
میں اسکے پیچھے چل پڑا ۔
کھلی سڑک کے ساتھ ساتھ ایک کچی پگڈنڈی بائیں جانب لہراتی ہوئی اتر رہی تھی ۔ کنارے کنارے آم کے پرانے چھتناور درختوں سے پکے آموں کی رسیلی مہک راستے کو خوشگوار بنا رہی تھی ۔ وہ آگے لایءو کمینٹری دیتی آرام سے تیز قدم اٹھا تی چل رہی تھی ۔ میں تقریباََ بھاگ رہا تھا ۔
جھونپڑیوں کا سلسلہ نیم کی زرد نیبولیوں سے اٹا دور تک بکھر اتھا ۔ عقب میں ایک اونچی پہاڑی پر ہری گھاس اور ناگ پھنی کی جھاڑیوں پر کاسنی پھول کھلے تھے ۔ پہاڑی پر چڑھنے کی تیاری میں بکریاں اور بھیڑیں قلانچے بھر رہے تھے ۔ انکے پیچھے لڑکیاں اور انکے تعاقب میں لڑکے پڑھائی لکھائی کے بوجھ سے آزادنیم کی تازی ہری شاخیں لئے بھاگ رہے تھے ۔ ۔ جنکے لہرانے سے شائیں کی آواز یں ماحول کی خاموشی میں ارتعاش پیدا کر رہی تھیں ۔ ۔
وہ رک گئی ۔ ۔ سورج اسکی پشت پر تھا ۔ ۔
’’اس پہاڑی کا نام لال پہاڑی ہے اور اسی کے نام پر ہمارے گاءوں کا نام لال گڑھ پڑا ۔ ‘‘ وہ سامنے پہاڑی کی طرف دیکھ رہی تھی ۔ ۔
’’ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ بھیڑیں پہاڑی کے اوپر چڑھ کر کچھ چھوٹی سی ہو گئیں ۔ شڑاپ کی آوازیں معدوم ہونے لگیں ۔ لڑکیاں لڑکے اپنے لک چھپ کے کھیل میں مگن ہو کر نظروں سے اوجھل ہوگئے ۔ آدھا دن چڑھ آیا ۔ سورج کے آتشی چہرے کو ملائم سفید بادلوں کے ہنس اپنے پروں میں چھپانے کی کوشش کرنے لگے ۔ ۔
وہ پہاڑی کے دامن میں ایک پوکھرکے کنارے بیٹھ گئی ۔ اسکے پیروں میں بل دار چاندی کی دو دو چوڑیاں ۔ ناک میں بڑی ٹوپی کی بورڈ پن کی طرح لونگ ۔ اور کانوں کے اوپری حصے میں بندھی چپٹی تین تین بالیاں جن میں منے منے گھنگھرو لٹک رہے تھے ۔ ۔ اسکے سانس کی رفتار کی کی لے پر گھنگھرو مسکرا کر جھومنے لگے ۔ سورج ہنسوں کے پروں سے نکل کر اسکی آنکھوں میں چمکنے لگا ۔ ۔
’’کئی سو سال پہلے اس پہاڑی کی سب سے اونچی چوٹی پر ایک راجکمار نے قدم رکھا ۔ اس پہاڑ ی کے بالکل سامنے ایک گھاس پھوس کے اندھیرے جھونپڑے میں ایک چراغ جل اٹھا ۔ گھپ اندھیرے میں اس ننھے چراغ نے راجکمار کو راستہ دیکھایا اور راجکمار پہاڑ ی سے اتر کر اس پوکھر تک آگیا ۔ ۔ کہ تیز آندھی اٹھی ۔ پہاڑی اور اس پر کے پیڑ پودھے خوف سے تھرتھرا کر ڈولنے لگے ۔ ۔ آسمان سرخ ہو گیا ۔ دھول کے جھکڑ چل پڑے راجکمار کی آنکھیں بند ہو گئیں ۔ ۔ اور جھونپڑی میں جھلملاتا ننھا چراغ گل ہوگیا ۔ ۔
راجکمار گھبرا گیا کہ اسے اندھیرے کی عادت کہاں ;238; جھونپڑے میں چراغ کے گل ہوتے ہی دودھیا دھواں اٹھا ۔ راجکمار نے دھوئیں کی لکیر کی طرف دوڑ لگا دی ۔ گل ہوا دیا جلانے کو آگ لینے کے لئے جھونپڑے سے ایک آدی واسی لڑکی جنگل کی طرف دوڑی ۔ دددھیا دھوئیں کی لکیر میں راجکمار کو کچھ دیکھائی نہ دیا ۔ ۔ اور سنجوگ سے دونوں ٹکرا گئے!!
اب مشکل یہ کہ رجکمار اسکی بولی نہ جانے اور آدی واسی لڑکی راجکمار کی بھاشا نہ سمجھے ۔ دونوں بڑے غور سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے ۔ ۔ ۔ اور ۔ ۔
دونوں نے ایک نئی بولی ایجاد کی اور ایک دوسرے کی بات سمجھنے لگے ۔
راجکمار اپنی رانی کی بیماری دور کرنے کے لئے اس پہاڑ ی کی چوٹی سے ایک طلسماتی جڑی بوٹی لینے آیا تھا جو ہر ماہ کی چودھویں رات کو اس پہاڑ ی کی چوٹی پراگتی تھی ۔ اور چند لمحوں بعد ہی مر جھا جاتی تھی ۔ اس رات جیسے ہی راجکمار نے جڑی بوٹی کی طرف ہاتھ بڑھیایا ۔ ۔ تیز آندھی کے بگعلے اڑنے لگے ۔ ۔ وہ اس جڑی بوٹی کو نہ پا سکا تھا ۔ آندھی رکنے کے بعد راجکمار لڑکی کو لیکر جب پہاڑی پر آیا تو جری بوٹی مر جھا گئی تھی ۔ ۔
۔ وہ دونوں ایک دوسرے کی زبان سمجھنے لگے ۔ ۔ اور اس نئی زبان کو روانی سے بولنے لگے ۔
کئی سو راتیں بیت گئیں چاند گھٹا کے سرمئی کالے دامن میں سر جھکائے سو گیا ۔ وہ جڑی بوٹی اس پہاڑ پر نہ اگی ۔ ۔
سورج کی پہلی کرن کے ساتھ دونوں پہاڑ کی چوٹی تک ایک دوسرے سے شرط لگا کر چڑھتے ۔ راجکمار لڑکی کو بھاگ کر پکڑ لیتا ۔ دونوں کھلکھلا کر ہنستے ۔ ۔ پہار کی چوٹی پر اگی ناگ پھنی کاسنی پھولوں سے بھر جاتی ۔ راجکمار جنگلی پھول توڑتا اور لڑکی کے سیاہ ریشمی جوڑے میں سجا دیتا ۔ سورج اپنی آنکھیں میچ لیتا ۔ بادل اترا کر لڑکی کے سر پر اپنا نرم یاتھ رکھ دیتا اور لڑکی کے سر میں کھلے پھولوں کو مرجھانے نہ دیتا ۔ ۔ لڑکی کا آبنوسی بدن مہک مہک ا ٹھتا ۔ دن بھر کی مسافت سے تھکا ماندہ سورج شام کے کاندھے پر سر رکھ دیتا ۔ ۔ شام اپنی بانہیں پسار کر سورج کو لوری سناتی ۔ ۔ ۔ ۔ راجکمار لڑکی کا جوڑا کھول دیتا ۔ ۔ کاسنی پھول لڑکی کے سیاہ ر یشم بالوں سے پھسلتے ۔ ۔ پھولوں کی نازک ضرب سے لڑکی کے پیروں میں بندھے جھانجھر جھنک اٹھتے ۔ ۔ لڑکی کے قدموں میں کاسنی پھولوں کے ڈھیر اکھٹے ہو جاتے ۔ آسمان کا دامن ستاروں سے بھر جاتا ۔
لیکن چاند کا دور دور پتہ نہ ہوتا ۔ ۔ راجکمار نیند سے مخمور لڑکی کو اپنے مضبوط بازوءوں میں سنبھالتا ۔ ۔ لڑکی کے سیاہ ریشم بال راجکمار کی بانہوں کو گدگداتے پہاڑی کے سینے پر لہراتے ۔ ۔ لڑکی کی کنول آنکھیں جھپک جاتیں ۔ ۔ راجکمار دھیرے دھیرے بے آواز قدموں سے پہاڑ ی کی چوٹی سے اتر جاتا ۔ ۔
جھونپڑے میں ننھا چراغ روشن ہو جاتا ۔ ۔
کہ ایک رات اچانک ۔ ۔
برسوں سے اندھیرے میں ڈوبی پہاڑ ی پہ چاند کی کرنوں کی روپہلی بارش ہوئی ۔ مگر چاند کا دور دور پتہ نہ تھا ۔ ۔ ستارے جھک کر پہاڑ ی کی چوٹی پر رک گئے ۔ راجکمار کی نیند کھل گئی ۔ ۔ راجکمار نے لڑکی کا ہاتھ پکڑا اور جھونپڑی سے نکل کر بھاگتے ہوئے پہاڑ کی چوٹی پر کھڑاہوگیا ۔ راجکمار نے ہاتھ بڑھا کر سر نگوں ستارے توڑ لئے ۔ ۔ آدی واسی لڑکی کی سونی مانگ میں ٹانک دئے ۔ ستاروں کی روپہلی کرنیں لڑکی کے بال بال میں چاندی بھر گئیں ۔ ۔ ۔
پہاڑی کی چوٹی پر طلسماتی جڑی بوٹی اگ آئی ۔ ۔ ۔
لڑکی کے سخت آبنوسی بدن میں بھنور اٹھے ۔ ۔ وہ لوچ دار مکھن کی لوئی بن کر راجکمار کے قدموں سے لپٹ گئی ۔ وقت جم گیا ۔ لمحہ بھر کو ۔ ۔ ستاروں کو ٹوٹٹتے دیکھ تنہا ہوتے آسمان کے سینے سے چپکے چپکے چاند نے اپنا گول مکھڑا چمکایا ۔ ۔
چاند کی تھالی میں چکور ی نے اپنی پرچھائی دیکھی اور وہ اسے اپنا سراپہ سمجھ بیٹھی اور ۔ ۔ چاند کے ہالے میں قید ہو گئی ۔ ۔ ۔ مدتوں بعد چاند پوری جوانی پر تھا ۔ ۔
جڑی بوٹی ایک انچ بڑی ہوگئی ۔ اسکی نرم نازک کونپلوں سے سرگوشی ابھری ۔ ۔ ’’اگر رانی کی زندگی چاہتے ہو تو ۔ ۔ ۔ اس لڑکی کا دل نکال کر لے جاءو ۔ اور رانی کے دل کی جگہ لگا دو ۔ ‘‘راجکمار اپنی نئی بولی بھول گیا ۔ وہ لڑکی کے کسی سوال کا جواب نہ دی سکا ۔ اسنے اپنی کمر سے بندھی دھاردار تلوار نکالی ۔ راجکمار نے لڑکی کے کاسنی پھولوں سے سجا ریشمی سر اپنے پہلو میں رکھا ۔ ۔ لڑکی کی آنکھوں کے نوعمر خواب سسک سسک کر اسکی گھنیری پلکوں میں قید ہو گئے ۔ ۔ راجکمار نے اسکے سینے پر آہستہ آہستہ تلوار چلانی شروع کی ۔ ۔ دل پر شور ۔ ۔ ۔ دھڑکتا رہا ۔ ۔ لڑکی کی مانگ سے ستارے ایک ایک کرکے پہاڑی کے سنگلاخ سینے پر گر تے رہے ۔ ستاروں کی ضرب سے پہاڑی کی چوٹی کی کمر خمیدہ ہو گئی ۔ لڑکی کے سینے سے ابلتا گرم خون قطرہ قطرہ پہاڑی کے دامن میں جمع ہو کر پوکھر کے پانی میں حل ہو نے لگا ۔ ۔ پوکھر کا شفاف پانی خون ہو گیا ۔ پوکھر کے شفاف پانی کو سرخی میں تبدیل ہوتے دیکھ پرسکون تیرتا راج ہنس گھبرا کر اپنے جوڑے سے بچھڑ گیا ۔ ۔ اورتنہا اپنے برف سے سفید پھیلے پروں میں اپنی چونچ نیوڑھائے سرخ پوکھر کی تلچھٹ میں بیٹھ گیا ۔ ۔ لڑکی کا مکھن لوچ دار بدن اکڑکر نیلا ہونے لگا ۔ روپہلی کرنوں کی بارش تھم گئی ۔ چاند کا مسکراتامکھڑا کرب سے ذرد ہوگیا ۔ ۔ ۔ ۔ ناگ پھنی کے کانٹوں سے کاسنی پھولوں کے نازک جگرچاک ہوگئے ۔ ۔
راجکمار نے دھڑکتا دل احتیاط سے اپنے انگرکھے میں چھپایا ۔ لڑکی کے سینے کے گہرے داغ پر اپنا سنہری دوشالہ اڑھایا ۔ جسکا رنگ دیسی انڈے کی زردی کی طرح زرد تھا ۔ لڑکی کے تازہ سرخ خون میں ڈوبی تلوار اپنی کمر سے لٹکائی ۔ جھونپڑی میں روشن ننھا د یا گل ہو گیا ۔ ۔ اس سے دودھیا دھواں اٹھنے لگا ۔ ۔ اسی دودھیا دھویں کی لکیر میں راجکمار اپنے ملک کی طرف لوٹ گیا ۔
’’وہ لڑکی کو اپنے ساتھ کیوں نہیں لے گیا;‘‘ میں سرخی مائل بہتے پانی کو دیکھ کر بولا ۔
’’ وہ پیار اپنی رانی سے کرتا تھا‘‘ اسکی آواز بہت دور سے آتی ہوئی لگی ۔
’’پھر راجکمار نے اسکی بولی کیوں بولی ۔ اسکے لئے ستارے کیوں توڑے ۔ ‘‘ میں زچ ہو کر بولا ۔
’’ کیونکہ راجکمار ایک سچا انسان تھا ۔ وہ اس آدی واسی لڑکی کی سونی آنکھوں میں محبت جیسے لافانی جزبے کی قوس و قزہ جگانا چاہتا تھا ۔ اسنے کتنا عظیم کارنامہ انجام دیا کہ ایک سادہ ورق پر ازلی تحریر کندہ کردی ۔ ۔ موسم آئے گئے مگر ۔ ۔ دل کے نہال خانوں میں وہ سونے کے حرف ۔ ۔ پتھر سرد جسم پہ وہ گرم مومی نگاہوں کے منجمد قطرے ۔ ۔ جنگلی پھولوں سے سجی مانگ میں چم چم ستارے ۔ سانولی کایاپرابھرے راجکمار کے لمس سے ابھرے نیلے کالے گودنے ۔ راجکمار کی چاند ی کی کایا میں رل مل کر چمپئی ہو کر دہکنے لگے ۔ ۔ وہ زمین سے اٹھا کر اسے آسمانوں کی سیر پر لے گیا ۔ ۔ چاند نے چکور کو آسمان سے اتر کر قدم قدم چل کر اپنی کرنوں کی اوٹ دی ۔ ایسا بیش قیمت سرمایہ پا کر مفلس آدی واسی لڑکی کسی مہا رانی سے کم نہ رہی ۔ مسرت کا جلترنگ بجاتا جھرنا راجکمار اسکے انگ انگ میں جگا گیاتھا ۔ ایسا بیش قیمت سرمایہ پاکر ر اجکما ر کے ساتھ رہنا کیا اہمیت رکھتا ہے; ۔ راجکمار کے ساتھ رہنے سے رانی کی زندگی سونی ہو جاتی اور راجکمار ایک دوراہے پر بٹ جاتا ۔ ۔
کیا اپنے محسن کے وجود کے دو ٹکڑوں کی بنیاد پر لڑکی اپنی آرزءوں کے عظیم الشان محل تعمیر کر سکتی تھی;
۔ وہ مکمل محبت کا پیکر!! اپنی رانی کے پاس پہونچا ۔ ۔ وہ اسی کا تھا اسی کاہے اسی کا رہنا چاہئے ۔ ۔ ‘‘ وہ اٹھ کر کھڑی ہوگئی ۔ ۔ اسکے جھانجھر ساکت تھے ۔ ۔
شام کا تھکا مانداسورج آسمان کی سیڑھیاں اترکر شفق کی پھیلی باہوں میں گر نے لگا ۔ شاداب گھاس کی پلکیں نمناک ہو گئیں ۔ شام کی مٹ میلی چادر سے خنک ہوا اپنا سر ٹکرانے لگی ۔ ۔ دور سے مورنی نے مور کو پکارا ۔ ۔ کھپریل کی چھتوں پر اداس ہوا اپنا ٹھنڈا سایہ لئے بڑھنے لگی ۔
چھ بج رہے تھے ۔ بھیڑ بکریاں پہاڑی کے دامن میں جمع ہو نے لگیں ۔ انکے پیچھے لڑکیاں اور انکے تھوڑا پیچھے لڑکے ہاتھوں میں نیم کی تازہ شاخوں کو جھلاتے ملن کی تمتاہٹ چہروں پہ سجائے ایک شان سے پہاڑی کی چھاتی پر ایک نیا باب تحریر کر رہے تھے ۔ ۔
وہ سر جھکائے خاموش میرے آگے چل رہی تھی ۔ ۔ بہت چھوٹے چھوٹے قدم رکھ کر ۔ ۔ میں اسکے برابر چلنے لگا ۔ ۔
وہ مجھے پگڈنڈی کے آخری گھماءو تک چھوڑ نے آئی ۔
اس عرصہ میں ایک تمناکو میں نے اپنے سینے میں بے روک ٹوک جوان ہونے دیا ۔ اور ۔ ۔
اسکا اظہار کردیا ۔
’’ میں آپکی ٹھوڑی پر چمکتے یہ تین نقطے ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
وہ ہولے سے ہنس دی ۔
میں نے صندلی ٹھوڑی میں دمکتے ہوئے تین نیلم با ادب چوم لئے!!! ۔
اسنے اپنے قدم روک لئے اسکے جھانجر جھن سے بجے ۔ کانوں کی چپٹی بالیاں سرکتی چادر سے جھلکیں ۔ آنکھوں کے گوشے خاموشی سے مسکرائے ۔
۔ ۔ ۔ اسکے سر سے انڈے کی ذردی کے رنگ کا سنہری دوشالہ پھسل کر اسکی اٹھی ہوئی گردن کو چھوتا ہوا اسکے شانوں پر ٹہر گیا ۔ سورج ایک ایک کرکے آسمان کی تمام سیڑھیاں اتر گیا ۔ شام اپنے آخری پڑاءو پر رات کے بازو پر سر رکھنے کو مچل گئی ۔ اسکی گردن کے نیچے ۔ ۔ کرتے کھلے گریبان میں ۔ ۔ ابھرے ہوئے رسی نما نشان نے مجھے دیکھا ۔ میں چونکا ۔ ۔ ۔
وہ واپس مڑ گئی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسکے جانجھروں کی دھمک معدوم ہونے لگی ۔ ۔ ۔
میں نرم پگڈنڈی کو پار کرکے کالے تارکول کی بے حس پکی سڑک کی طرف بڑھنے سے پہلے رک گیا ۔ ۔ میرے دل میں دھماکا سا ہوا ۔ ۔ ۔
ممی کے بلاءوز کے ڈیپ گلے سے جھانکتا ۔ ۔ موٹی بل دار رسی سا بالکل اسی طرح کا نشان میں بچپن سے دیکھتا آیا ہوں ۔ ۔
کئی بار پاپا نے ممی کو سنہری شال لاکر دیا ہے اور لاکھ کہنے پر بھی ممی نے کبھی انڈے کی زردی کے رنگ والے دوشالے کو نہیں اوڑھا ۔ ۔ ۔
پاپا کے اسٹڈی روم میں انکی کتابوں کے درمیان ایک پرانہ چراغ انکی کرسی کے عین سامنے آج بھی رکھا ہوا ہے ۔ ۔ ۔
جسکے بجھنے پر دودھیا دھواں اٹھتا ہے۔