Skip to content

دَتّو

عالمی افسانہ میلہ 2021
دوسری نشست
افسانہ نمبر 26
دَتّو
تحریر: لبنیٰ طاہر
پتہ نہیں اس کے دانت کس پر چلے گئے تھے؟ ننھیال، ددھیال میں دور و نزدیک تک بھی کسی کے دانت ایسے نہیں تھے اپنے دیگر بہن بھائیوں کی طرح اس کا رنگ بھی گلابی مائل سفید تھا، بڑی بڑی غلافی آنکھیں اور لمبی مُڑی ہوئی پلکیں، بال بھی سیاہ چمکدار اور گھنے تھے بس دانت ان کی طرح ہموار نہیں تھے بلکہ بڑے بڑے اور باہر کو نکلے ہوئے تھے جس کی وجہ سے اس کی پوری شخصیت باقی گھر والوں سے یکسر مختلف ہوکر رہ گئی تھی.. بچپن میں ہی ان دانتوں کی وجہ سے اسے دَتّو کہہ کر پکارا جانے لگا تھا پہلے پہل بڑے بہن بھائیوں نے چڑانے کی غرض سے اسے دَتّو کہنا شروع کیا تھا اور وہ رج کے چڑتی بھی تھی رونا دھونا چیخنا چلانا بھی کرتی جس سے چڑانے والوں کو مزید شہہ ملتی پھر آہستہ آہستہ گھر والوں کی دیکھا دیکھی محلے اور پھر خاندان میں بھی وہ دَتّو کے نام سے پکاری جانے لگی.. وقت کے ساتھ ساتھ اس نے اپنے اس صفاتی نام سے سمجھوتہ کرلیا یہاں تک کہ وہ اپنا اصلی نام بھی کبھی کبھی بھول جاتی بھولے بھٹکے امی یا ابا اگر اسے نام لے کر آواز دیتے تو ہونقوں کی طرح انہیں دیکھا کرتی اس کا اصل نام شہنام تھا ایک خوبصورت اور منفرد نام لیکن کیا کیا جائے کہ وہ دتو کے نام سے مشہور تھی۔۔۔
کبھی کبھی وہ سوچتی کہ وہ سب کی طرح کیوں نہیں ہے؟ اکثر اپنے بچپن کی تصویریں نکال کر دیکھتی پانچ، چھ سال کی عمر تک کی تصویریں دیکھ کر اس کے دل سے آہ نکل جاتی ان تصویروں میں اس کے دانت ایسے ہی تھے جیسے باقی بہن بھائیوں کے، سفید چمکدار موتی کی طرح جَڑے ہوئے بالکل ہموار، امی نے ایک بار بتایا تھا کہ جب اس کے دودھ کے دانت ٹوٹے تو وہ ہر وقت مسوڑھوں پر زبان یا انگلیاں پھیرتی رہتی تھی بقول ان کے وہ اسے اس حرکت پر نہ صرف ڈانتی ڈپتی تھیں بلکہ ڈراتی بھی تھیں کہ ایسا کرنے سے وہ ڈریکولا بن جائے گی مگر وہ پھر بھی باز نہ آتی تھی آج اسے یہ باتیں یاد تو نہیں تھیں مگر کف افسوس ضرور ملتی کہ کاش اس وقت امی کی بات مان لی ہوتی تو آج وہ سچ مچ ڈریکولا جیسی نہ دکھتی۔
کس سے شکوہ کرتی کیا دھرا تو اس کا اپنا ہی تھا آئینے میں خود کو دیکھتی تو رونا آنے لگتا کبھی کبھی جی چاہتا ہتھوڑے سے ان بد ہیئت دانتوں کو توڑ ڈالے اچھی خاصی شکل کا ان دانتوں کی وجہ سے بیڑا غرق ہوگیا تھا۔ دہانے پر ہاتھ رکھ کر جب آئینے میں خود کو دیکھتی تو بالکل مختلف نظر آتی خوبصورت غلافی آنکھیں اور ان پر گھنی مُڑی ہوئی پلکوں کی جھالر، آدھا چہرہ چھپا کر وہ بھی اپنی بہنوں کی طرح حسین لگتی تھی تب اس نے نقاب کرنے کا فیصلہ کیا یوں بھی اب اس کا کالج میں داخلہ ہوگیا تھا اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہاں بھی تضحیک کا نشانہ بنے جب اس نے امی سے یہ بات کی تو انہوں نے اس پر نہ کوئی سوال کیا نہ اعتراض لیکن بہن بھائیوں نے خوب خوب کِھلّی اڑائی۔
“ارے دَتّو!..تمہارے دانت اتنے بڑے بڑے ہیں کہ نقاب میں بھی نظر آئیں گے، شرط لگالو نقاب وقاب سے بھی کوئی فرق نہیں پڑنے والا”ناصر بھائی نے بلند وبانگ سا قہقہہ لگایا اس نے ایک قہر بھری نظر ان پر ڈالی اور منہ پھیر کر چل دی پھر باری باری سب بہن بھائیوں نے دامے درمے سخنے اس کے نقاب کو لے کر آوازے کسے مگر وہ ڈٹی رہی گو کہ اکیلے میں اپنی اس تضحیک پر روتی رہی مگر سب کے سامنے مضبوط بننے میں ہی عافیت تھی۔۔۔
جس مقصد کے لیے اس نے نقاب کرنے کا فیصلہ کیا تھا کسی حد تک وہ اس میں کامیاب ہوئی تھی اب کم از کم باہر اور خاص طور پر کالج میں اسے مذاق اڑاتی نظروں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا حالانکہ وہ لڑکیوں کا کالج تھا لیکن وہ یہاں بھی چہرہ چھپا کر رکھتی عذر یہ پیش کرتی کہ کالج بیشک لڑکیوں کا ہے لیکن یہاں مرد بھی ہیں اساتذہ، کلرک اور کینٹین چلانے والوں کی شکل میں اس لیے نقاب اتارنے کا رسک نہیں لیا جاسکتا اس بات پر بھی اس کا مذاق اڑایا گیا مگر یہ قابلِ برداشت تھا۔۔
مذاق اڑانے والوں کے علاوہ کچھ ایسے بھی تھے جو اس کے پردے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے خاص طور پر مرد جب اس سے مخاطب ہوتے تو اپنی نگاہیں نیچی کرلیتے وہ جہاں سے گزرتی اس کے لیے راستہ چھوڑ دیتے وہ اتنے پروٹوکول کی عادی تو نہیں تھی مگر اس صورتحال سے محظوظ ہوتی تھی پردے کا پردہ تھا اور صورت کا عیب بھی چھپ گیا تھا زندگی مخصوص ڈگر پر رواں دواں تھی ناصر بھائی اور ریحام آپی کی شادی ہوتے ہوتے وہ گریجویشن کرچکی تھی اور اب امی ابا کو اس کی شادی کی فکر تھی اور یہ فکر وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جارہی تھی کیونکہ اس کے لیے جو بھی رشتہ آتا وہ اس کے بجائے اس سے چھوٹی خوشنام کا سوالی بن جاتا وجہ اس کے وہی بدبخت دانت تھے اب ظاہر ہے رشتے کے لیے آنے والوں کے سامنے تو پردے کی بوبو بن کر نہیں بیٹھا جاسکتا تھا نتیجتاً آنے والے خوشنام کی طرف مائل بہ کرم ہوجاتے۔ایک دن اس نے سنا کہ امی ابا سے کہہ رہی تھیں۔”اجی میں کہتی ہوں کہ اس مسئلے کا کوئی حل نکالیں کب تک دَتّو یہ سب جھیلتی رہے گی؟”
“بھئی میں کیا کرسکتا ہوں میرے بس میں کیا ہے؟”ابا نے ذرا سا حیران ہو کر پوچھا۔
“علاج کروائیں اس کا اور کیا کرنا ہے؟میں نے سنا ہے ایسے دانتوں کو لوہے کی تاریں لگا کر برابر کردیا جاتا ہے یا پھر گھسائی ہوجاتی ہے”۔
وہ جو باورچی خانے میں کھڑی امی ابا کی گفتگو سن رہی تھی اس کے دل میں امید کی کرن سر اٹھانے لگی۔
“گھسائی کا تو فائدہ نہیں ہے اس کے دانت بہت زیادہ بڑے ہیں کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا اور جہاں تک تاریں لگوانے کی بات ہے جسے بریسز کہتے ہیں وہ مہنگا علاج ہے میرے پاس اتنی رقم نہیں ہے”ابا کا جواب سن کر امید کی وہ کرن بھک سے بجھ گئی۔
“ایسا کرتے ہیں امی دَتّو کے دانتوں پر ایک زوردار مکا مار کر توڑ دیتے ہیں”سب سے چھوٹے عاشر کی اس فضول بکواس پر ابا نے خشمگیں نظروں سے اسے گھورا۔ “سوری ابا مذاق کر رہا تھا”
“دفع ہو جاؤ یہاں سے ہر وقت کا مذاق!..”
یہ سب سن کر چائے بناتے بناتے اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے تھے۔۔۔
پھر وہی ہوا جو ان حالات میں ہوتا ہے خوشنام کا رشتہ طے ہوگیا اور وہ جلد ہی بیاہ دی گئی جس رات اس کی رخصتی ہوئی تھی شہنام نے وہ تمام رات آنسو بہاتے ہوئے گزاری تھی اسے اس بات کا دکھ نہیں تھا کہ خوشنام کی شادی اس سے پہلے ہوگئی تھی بلکہ وہ تو ادا کیے گئے کچھ بے درد الفاظ کی اذیت جھیل رہی تھی یہ رشتہ بھی اسی کے لیے آیا تھا مگر اسے دیکھتے ہی اس خاتون نے جو اب اس کی چھوٹی بہن کی ساس تھی کہا تھا”معاف کیجیے گا بہن ہمیں تو بتایا گیا تھا کہ آپ کی بیٹیاں بہت خوبصورت ہیں مگر!….”باقی کے الفاظ اس نے خود ہی اخذ کرلیے تھے اور وہاں سے اٹھ کر چلی گئی تھی بعد میں پتہ چلا کہ وہ لوگ خوشنام کو پسند کرکے رشتہ پکا کر گئے ہیں۔۔۔
“اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا”
نور جہاں کو سنتے ہوئے وہ تکیے میں منہ چھپائے خود کو بھی یہی باور کروانے کی کوشش کر رہی تھی اس کے سیاہ ریشمی بال سرھانے پر بکھرے ہوئے تھے اس کے کمرے کے سامنے سے گزرتے ہوئے امی نے ایک متاسف نظر اس پر ڈالی اس کے جسم کے ہلکے سے ارتعاش سے پتہ چلتا تھا کہ وہ رو رہی ہے ماں کا دل بیٹی کی اس حالت پر ترس کھا کر رہ گیا تھا۔۔۔
بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا تھا اس کے بالوں میں چمکتے چاندی کے کچھ تار اور غلافی آنکھوں کے نیچے بننے والی لکیروں نے اسے احساس دلایا تھا کہ کتنا سارا وقت اس کی زندگی میں کوئی تبدیلی لائے بغیر دبے پاؤں سرک گیا ہے۔۔اس کی زندگی میں تو کوئی تبدیلی نہ ہوئی تھی مگر گھر کے حالات کافی حد تک بدل گئے تھے دونوں بہنیں تو پہلے ہی بیاہی جاچکی تھیں ناصر بھائی بھی شادی کرکے بیوی بچے کو لے کر دوسرے شہر جابسے تھے بھرا پرا گھر خالی خالی سا ہوگیا تھا ریٹائرمنٹ کے بعد ابا کا زیادہ تر وقت مسجد میں گزرتا اور عاشر سارا دن آفس میں ہوتا تھا گھر کے کام کاج سے فارغ ہو کر وہ اپنے کمرے میں بند ہوکر درد بھرے گیت سنا کرتی اس کے کمرے سے آتی ان گیتوں کی آواز سن کر امی دل مسوس کر رہ جاتیں انہیں یہ سوچ سوچ کر ہول اٹھتے کہ ان کے بعد شہنام کا کیا بنے گا؟تب ان کی نمازیں طویل ہونے لگتیں وظیفوں میں اضافہ ہوجاتا اور یہ شاید انہی کی دعاؤں کا اثر تھا کہ اس کے لیے ایک رشتہ آگیا حیران کن بات یہ تھی کہ رشتہ طے پاگیا آنے والوں نے اس کے دانتوں کو دیکھ کر بھی اسے نہ صرف پسند کرلیا بلکہ شادی کی تاریخ بھی مانگ لی امی، ابا کی تو مانو دلی مراد بر آئی تھی مگر وہ ششدر تھی یہ معجزہ کیسے ہوگیا تھا؟ اسے یقین نہ آتا تھا وہ تو بہت عرصہ پہلے مایوس ہوچکی تھی کہ وہ کبھی دلہن بنے گی، گھر بسنے کے خواب سے دستبردار ہوگئی تھی اسی مایوسی کے عالم میں اس نے ایک بار عاشر سے پوچھا تھا کہ کیا وہ سچ مچ مکا مار کر اس کے بد صورت دانت توڑ سکتا ہے؟عاشر یہ سن کر پہلے تو دیر تک ہنستا رہا تھا پھر اس کی آنکھوں میں لرزتے آنسو دیکھ کر اسے گلے لگا کر خود بھی رو پڑا تھا اور بولا تھا”آپی مت رو۔۔میں جب کمانے لگوں گا نا تو تمہارے دانتوں کا علاج کرواؤں گا”۔
اس نے پہلی بار اسے دَتّو کے بجائے آپی کہہ کر پکارا تھا اور اس کے بعد ہمیشہ یہی کہہ کر مخاطب کیا۔۔
کچھ عرصہ پہلے ہی وہ نوکری پر لگا تھا اور علاج کی نوبت آنے سے پہلے شہنام کا رشتہ طے پاگیا۔۔
وسیم کی تصویر دیکھ کر حیرانی کے ساتھ ساتھ وہ پریشانی میں بھی مبتلا ہوچکی تھی کہ وسیم اچھا خاصا بندہ تھا اسے بہت اچھی لڑکی مل سکتی تھی پھر وہ ہی کیوں؟۔۔ ہزاروں خدشات لیے وہ رخصت ہوکر وسیم کے سنگ اس کے گھر آگئی تھی۔۔۔
صبح ہوتے ہوتے اس کے تمام خدشات بھاپ بن کر اڑ چکے تھے جب اس نے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر رکھی اس بتیسی کو دیکھا تھا جو وسیم نے اس کے سامنے منہ سے نکال کر رکھی تھی۔۔

Published inعالمی افسانہ فورملبنیٰ طاہر

Comments are closed.