Skip to content

دوسری دنیاکی تلاش

عالمی افسانہ میلہ 2019
افسانہ نمبر 50
”دوسری دنیاکی تلاش“
تبسم زہرا (میرٹھ بھارت)

آج فضا میں ایک عجیب ہولناکی تھی ، موسم بھی ناخوش گوار تھا ، لگتا تھا مسلسل دُکھ سہنے کی وجہ سے دھرتی ماں پر سکتہ سا طاری ہے، اسی لیے زمین سوکھی تھی، ہوائیں رکی ہوئی تھیں ، درخت سانس روکے کھڑے تھے، پرندوں نے گھونسلے نہیں چھوڑے تھے، آفتاب نے شعاعوں کو آغوش میں چھپا کر چادر تان لی تھی اور چاروںا طراف دھند کا پہرا تھا۔ یقینا دھرتی ماں کسی گہری سوچ میں مبتلا تھی، اِسی لیے جب وقت بہ وقت اس کے احساسات کروٹ لیتے تو اس کے دل کا درد پگھل کر قطرہ قطرہ، اس کی آغوش میں ٹپک پڑتا اور وہ پھر کسی گہری سوچ میں مبتلا ہوجاتی ۔ وہ ضرور یہی سوچ رہی ہوگی کہ یہ دکھ ، یہ درد آخر میں کب تک سہوں گی ؟،میری آنکھیں کب تک میرے اپنوں کا بہتا ہوا لہودیکھیں گی ، کب تک میرے بچے آپس میں لڑ کر میرے کلیجے کو چھلنی کرتے رہیں گے ، کب تک آخر کب تک؟

ہائے افسوس ایسا کیوں ہوا ، مجھے آزادی کیوں ملی، اب مجھے لگتا ہے، اس سے بہتر توہم غلام ہی سہی تھے، کم سے کم میرے کلیجے میں ٹھنڈک تو تھی ، میرے بچے ساتھ مل کر جب دشمنوں کا مقابلہ کرتے تھے، تو میرا سر فخر سے اونچا ہوجاتا تھا، میرا دل باغ باغ ہو اٹھتا تھا،لیکن جب سے غلامی کی زنجیریں ٹوٹیں اور فرنگی ملک چھوڑ کر گئے ،میرے تمام خواب ، تمام خوشیاں اپنے ساتھ باندھ کر لے گئے ، ان کے جاتے ہی میرا گھر بکھر گیا ، میرے بچوں نے مجھے کئی حصوں میں تقسیم کردیا ، اس پر بھی انھیں سکون نہیں ملا اور بھائی ،بھائی کے خون کا پیاسا ہوگیا، ذات پات کے نام پر آپس میں جھگڑے ہونے لگے ، ایک دوسرے کو قتل کیا جانے لگا ، اسی لیے آج میری پیشانی میرے بچوں کے لہو سے سرخ ہے اور میرا کلیجہ ان کے خنجروں سے چھلنی ہے ۔

یہ سوچتے سوچتے اس کے اندر درد کا سیلاب اٹھا جو آنسوﺅں کی لڑی بن کر اس کی آغوش کو شرابور کر گیا ۔ یہ درد ،یہ آنسو اس لیے تھے کیوں کہ آج اس کی آغوش کے پالے پریشان تھے ۔ وجے سنگھ جیل میں پریشان تھا اور فخرالدین اس لیے پریشان تھا کہ وجے سنگھ جیل سے رہا ہونے والاتھا اس کی بیل منظور ہوچکی تھی ، لیکن اس کو رات کے سناٹے میں باہر نکالا جائے گا تاکہ پھر کوئی دنگا فساد نہ پھیلے ۔ ان چھ مہینوں میں وہ دوسر ی مرتبہ اپنی زندگی کا ایک مہینہ جیل میں گزار کر آرہا تھا ۔ اس بار جب وہ جیل گیا تھا تو اس نے فخرالدین کو دھمکی دی تھی کہ وہ اسے آکر بتائے گا اور یہی وجہ تھی آج فخرالدین بہت ڈرا ہوا تھا اور اس کے باہر آنے سے مایوس بھی تھا کیونکہ فخرالدین تو چاہتا تھا کہ اس نے جو جرم کیا ہے اس کو سزائے موت یا پھر عمر قید کی سزادی جانی چاہیے، اسی لیے انھوں نے ان چھ مہینوں میں انصاف لینے کے لیے ہر ممکن کوشش کی ، اُوپر تک بات پہچانے کے لیے اخبارات میں خبر چھپوائی ، کورٹ کچہری کے چکرکاٹے ، جمع کیا ہوا تمام سرمایہ صرف کر دیا۔ وہ کچہری کے چکر کاٹتے ہوئے، اس کے راستوں سے اس قدر مانوس ہوگیا تھا کہ رات کو سوتے ہوئے بھی وہ انصاف کی گہار لگاتا رہتا۔ اس کی حالت دیکھ کر یہ یقین سے کہا جا سکتا تھا کہ اگر ان کو نیند میں چلنے کی عادت ہوتی تووہ چلتے چلتے کچہری ہی پہنچ جائے ۔

فخروالدین کی ان تمام کوششوں کے باوجود بھی کہیں سنوائی نہیں ہورہی تھی اور میزان میں انصاف کا پلڑا ہوا میں ہی جھول رہا تھا۔

دن ڈھلتا جا رہا تھا اورجوں جوں وقت اپنا سفر طے کر رہا تھا ، فخرالدین پر وحشت کے سائے اور گہرے ہوتے جاتے تھے ۔ وہ سیاہی پھیلنے سے پہلے ہی اپنی تینوں بیٹیاں ، بہو رشیدہ پوتا عادل اور پوتی کے ساتھ کمرے میں بند ہوجانا چاہتا تھا۔ یہ پچپن سال کا بزرگ جس کی زندگی پر ہمیشہ مصائب کا پہرہ رہا ، جس نے زندگی میں خوشی کے عارضی لمحات ہی دیکھے ، ایک بار پھر اس کی جھکی ہوئی کمر اور کمزور کندھوں پر پورے خاندان کا بوجھ آگیا تھا ۔ فخرالدین نے جلدی جلدی گائے بھینسوں کو چارا ڈالا اور سیاہی پھیلنے سے پہلے ہی تمام لوگوں کو لے کر کمرے میں بند ہوگیا ۔ اس نے کمرے کی کنڈی لگا کر تالا ڈال دیا ، کھڑکیوں کو بند کرکے اس کے پردے درست کیے اور پھر پلنگ کے نیچے رکھا ایک موٹا ڈنڈا نکال کر اپنے سرہانے رکھ لیا ۔ اس نے آہیں بھرتے ہوئے دونوں ہاتھ پلنگ پر ٹکائے اور پھر دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا ۔ یکایک اس کی نظر سامنے دیوار پر موجود روزن پر پڑی ، وہ تیزی سے اٹھا اور روزن میں بھی ایک اینٹ پھنسا دی تاکہ وجے سنگھ اس روزن سے بھی اندر نہ داخل ہوسکے ۔

فخرالدین کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ باہر کی ہوا کو بھی اندر نہ آنے دیتا ۔ وہ پھر دبے قدموں سے پورے کمرے کا جائزہ لیتے ہوئے پلنگ کی طرف چلا اور پھر کسی سوچ میں گم پلنگ پرہاتھ ٹکا کر بیٹھ گیا ، کہ اچانک سوچتے ہوئے اس کی نگاہیں پلنگ پرلیٹی تینوںلڑکیوں پر رک گئیں ،جو خوف کے سایہ میں ایک دوسرے کو لپٹی ہوئی تھیں ، دوسرے پلنگ پر بہو اور اس کے دونوں بچے تھے بے سدھ پڑے تھے۔

رشیدہ نے اپنی چھوٹی بیٹی کو سلا دیا تھا اور اب وہ چھ سال کے عادل کو سلانے کی کوشش کر رہی تھی ، لیکن عادل کی آنکھوں میں ابھی نیند کہاں تھی ،وہ تو کھیلنا چاہتا تھا ، لیکن رشیدہ تھی کہ اس کو سلانے کی سعی کررہی تھی ، رشیدہ نے اس کو غصے میں زور زور سے تھپکنے کی کوشش کی اور عادل کے چپ چاپ نہ سونے پر اس کو ڈرایا کی اگر وہ نہیں سوئے گا تو اسے بھی وجے سنگھ لے جائیگا ، یہ سن کر عادل سہم گیا اور اس کی آواز بند ہوگئی، اس نے ماں کے آنچل میں منہ چھپالیا اور سونے کی ایکٹنگ کرنے لگا ۔ فخروالدین کو اس پر بہت ترس آیا ،انھوں نے عادل کو آواز دے کر اپنے پاس آنے کو کہا ۔

دادا کی آواز سنی تو عادل نے جھٹ سے آنکھیں کھول دیں اور ماں کی آغوش چھوڑ کر پلنگ سے اُترکر فخرالدین کی گود میں سما گیا ۔ فخرالدین نے عادل کو سینے سے لگا لیا ، تبھی عادل نے سینے سے ہٹتے ہوئے بڑی معصومیت سے کہا:

”ابا کیا وجے سنگھ مجھے اٹھا لے جائیگا“فخرالدین نے سہمے ہوئے عادل کا ڈر دور کرنے کے لیے اس کے گالو ں پر بوسہ لیتے ہوئے کہا: ”نہیں بیٹا وہ تمہیں کیسے اٹھا لے جائیگا ، باہر تو تمہاری دادی اور ابو جی سو رہے ہیں ناں ، وہ اسے اندر آنے ہی نہیں دیں گے اور اگر وہ آبھی گیا تو، ہمارے پاس تو یہ موٹا ڈنڈا ہے ، ہم سب مل کر اسے اتنا ماریں گے کہ وہ مر جائیگا “فخرالدین نے ڈنڈا اٹھا کر رکھتے ہوئے کہا :

”لیکن ابا امی تو کہہ رہیں تھیں کہ اچھے لوگ مرتے ہیں ، اس لیے ابو کو اللہ نے اپنے پاس بلا لیا اور وجے سنگھ تو اچھا بھی نہیں ہے “

” نہیں بیٹا سبھی لوگ اللہ کے پاس جائیں گے ، اچھے بھی برے بھی ہاں مگر اللہ کے پاس اچھے لوگوں کے رہنے کی جگہ الگ ہے اور برے لوگوں کی الگ“فخرالدین نے سمجھایا۔

پھر عادل کچھ سوچتے ہوئے بولا:

”جیسے وجے سنگھ الگ رہتا ہے اور ہم الگ رہتے ہیں “ فخرالدین نے آنکھیں جھپکا کر سر ہلاتے ہوئے کہا ” ہاں بیٹے ایسا ہی ہے۔“

فخرالدین پر ابھی بھی وہشت طاری تھی اس کی نگاہ کبھی دروازے پر ٹھہرتی تھی کبھی کھڑکیوں پر اور کبھی وال کلاک پر ، لیکن فخرالدین نے اپنے چہرے کے تاثرات نہ بدلنے دیئے اور وہ عادل کی باتوں کا مسکراکر جواب دیتا رہا ، پھر عادل تھوڑی خاموشی کے بعد کچھ سوچتے ہوئے بولا:

”اوہ اب مجھے سمجھ میں آیا مرنے کے بعد اچھے لوگوں کے رہنے کی جگہ کہاں ہے “ فخرالدین نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا :

”کہاں؟“

”وہ جگہ زمین کے نیچے ہے ، جہاں دادی اور ابو چلے گیے“

فخرالدین کی آنکھیںکچھ نم ہوگئیں اور اس نے سرہلاتے ہوئے کہا :

” ہاں بیٹے زمین کے نیچے اب دوسری دنیا آباد ہے۔ “اتنے میں عادل کے ذہن میں ایک اور سوال نے دستک دی اوروہ پوچھتے ہوئے بولا:

” ابا !ابو کے پاس تو بہت سارے پیسے تھے، وہ تو وہاں اچھی اچھی چیزیں خرید کر کھاتے ہونگے ۔“عادل کا سوال سن کر فخرالدین کے چہرے پر پھر ہلکی مسکراہٹ پھیل گئی اور وہ اس کو سمجھاتے ہوئے بولا:

”ارے بیٹے تمہارے ابو جی جس دنیا میں گئے ہیں، وہاں تو ساری چیزیںمفت ملتی ہیں ، جو چاہے کھاﺅ ، جو چاہے پیو۔“

فخر الدین کی بات سن کر عادل کسی گہری سوچ میں گم ہوگیا ،اس وقت اس کو دیکھ کر لگتا تھا، وہ ایک ایسی دنیا میں پہنچ گیا ہے جہاں کھلونوں کا ڈھیر ہے، مختلف قسم کی ٹافیاں اور چاکلیٹ ہیں اور دنیا بھر کے کھانے کا سامان موجود ہے ، جو چاہے کھاﺅ عادل جب اپنے خوابوں کی دنیا سے واپس آیا تو اس نے بڑے تجسس کے ساتھ سوال کیا:

”ابا وہاں چاکلیٹ بھی ملتی ہے؟“

فخر الدین نے جواب دیا:

”ہاںبیٹا چاکلیٹ بھی ملتی ہے ۔“

”اور کھانا بھی مفت ملتا ہے؟“

فخر الدین نے پھراثبات میںسر ہلایا:

”ہاں سب کچھ مفت ملتا ہے۔ “

”ارے واہ وہاں تو بہت مزا آتا ہوگا۔ “ پھر عادل نے بڑی معصومیت سے سوال کیا :

” ابا آپ بھی تو بہت اچھے ہیں ،آپ بھی ہمیں چھوڑ کر مفت کی دنیا میں چلے جاﺅ گے۔ “

فخرالدین کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی اور وہ عادل کو پیار کرتے ہوئے بولا:

” ہمیں تو وہ مفت کی دنیا اچھی نہیں لگتی ، ہم تو اپنے پیارے پیارے بیٹے عادل کے پاس رہیں گے ، جب تم بڑے ہوجاﺅگے ، تم ابو کی طرح بہت سارے پیسے کماﺅگے اور پھر ہم تو یہیں پر بہت ساری چیزیں کھائیں گے ، ایک اچھا سا گھر بنائیں گے اور ہم سب مل کر یہیں رہیں گے ۔“

پھر فخر الدین عادل سے پوچھتے ہوئے بولے:

” اچھا عادل یہ بتاﺅ کہ تم بڑے ہوکر کیا بنو گے؟ “

عادل نے بڑے معصومانہ لہجے میںجواب دیا:

” میں تو ابو بن جاﺅں گا۔“فخرالدین نے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور بولا:

” ارے نہیں یار جیسے ڈاکٹر ، انجینئر ، پائلٹ، ان میں سے کیا بنوگے؟ “ عادل پھر خاموش ہوگیا اور کچھ سوچتے ہوئے بولا:

” میں تو انسپکٹر بنوگا ، انسپکٹر “ یہ کہتے کہتے وہ انسپکٹر کی ایکٹنگ بھی کرنے لگا، پھر وہ سرگوشی میں بولا:

” ابا آپ کو معلوم ہے انسپکٹرکے پاس اصلی بندوق ہوتی ہے اور وہ کسی کو بھی مار سکتا ہے۔ “ وہ پھر کھڑا ہوگیا اور بولا:

” میرے پاس بھی اصلی بندوق ہوگی اور میں سب کو مار مار کے دوسر ی دنیا میں بھیج دوں گا جہاں سب لوگ مفت کی چیزیں کھائیں گے“ اس نے گولی چلانے کے اندازمیں چاروں طرف ہاتھ چلانے شروع کر دیئے ۔

فخرالدین نے اس کا ہاتھ پکڑ کر بٹھاتے ہوئے کہا:

” ارے یار تو بھی ایک نئی بات کرتا ہے ۔“

عادل کی باتوں نے فخر الدین کے دل سے تمام دہشت کو جیسے دور کر دیا تھا اور وہ اس کی باتوں میں گم جیسے وجے سنگھ کو بھول گیا ہو ، پھر اچانک تیز ہوا کا جھونکا کمرے کے دروازے پر دستک دے کر چلا گیا ۔ فخر الدین نے فوراََ عادل کے منہ پر ہاتھ رکھ لیا اور تیزی سے اسے اپنے سینے سے لگا لیا ۔ تینوں بیٹیاں اور بہو خوف کے مارے اٹھ بیٹھیں اور فخرالدین دیر تک دروازے کو غور سے دیکھتا رہا، ان کے کانوں میں انجانی سی خوف کی آہٹ سنائی دینے لگی ، ان کو پیرو کی آہٹ تو سنائی دے رہی تھی مگر وہ پیرو کی آہٹ وقت کی آواز کا مقابلہ نہیں کر پا رہی تھی، پورے کمرے میں وال کلاک نے شور مچا رکھا تھا ۔ اس نے پھر غور سے سنا اور اسے پیچھے گلی سے کسی کے بولنے کی آواز یں آئیں۔ اس نے پھر گھڑی کی طرف دیکھا ابھی تو آٹھ بھی نہیں بجے تھے ۔ پھر اس نے عادل کو اپنے سینے سے لگائے رکھا اور دیر تک اس کو تھپتھپاتا رہا۔

اب عادل ان کے سینے پر تھا اور اس کی نگاہ گھنٹے پر تھی ، اس کو لگ رہاتھا، گھنٹے کی سوئیاں اس کے دماغ میں فٹ کر دی گئی ہیں جو لمحے لمحے کی خبر ان کو دیتی جا رہی ہے ۔ ان کے پورے اعصاب پر وحشت طاری تھی اور وہ سوچ رہا تھا، اب وجے سنگھ باہر آنے والا ہوگا ۔ اب باہر آگیا ہوگا ۔ اب گھر کی طرف بڑھ گیا ہوگا اور بس کچھ دیر میں وہ گھر پر ہوگا ۔ اس کا جسم سن پڑنے لگا ۔ اس نے پھر نیند کی آغوش میں جاچکے عادل کو اپنے پاس پلنگ پر لٹا لیا اور اس پر لحاف اڑا دیا ۔ فخر الدین پوری رات کسی آہٹ کو سننے کی کوشش کرتا رہا اور بیچ بیچ میں اس کی یادوں کی پگڈنڈی بھی روشن ہوتی رہی ۔ وہ اپنے گزرے دن کے بارے میں سوچنے لگا، جب اس کی بیوی آمنہ زندہ تھی ، ان دونوں نے عاقل کے لیے کیا کیا خواب دیکھے تھے ، لیکن آمنہ کے تمام خواب تو مرتے وقت اس کی آنکھوں میں ہی بند ہوگئے اور آمنہ ان خوابوں کو آنکھوں میں بند کیے منومن مٹی کے نیچے سو گئی ۔ فخرالدین نے سوچا شاید اسے معلوم تھاکہ خوابوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔وہ بھی زندگی کی طرح عارضی ہیں، کب بنتے ہیں کب بکھر جاتے ہیں ،کچھ خبر نہیں ہوتی ۔

وہ آمنہ کے خیالوں میں گم ہوکر اس سے باتیں کرنے لگا :

”آمنہ تم بہت چالاک نکلیں، بیٹے کی محبت میں تم نے بیٹے کو بھی اپنے پاس بلا لیا اور مجھے تنہا ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کے لیے چھوڑ دیا ۔“

پھراس کی آنکھوں میں آمنہ کا چہرہ جھلملا گیا اور اس کو درد سے کراہتی ہوئی وہ آمنہ یاد آئی ، جب وہ اپنے آخری لمحوں میں تھی ۔ جب اس کے وجود سے تیسری بیٹی کو جدا کیا گیا تو جیسے آمنہ نیم جان رہ گئی ۔ اس کے جسم کے آدھے حصے نے کام کرنا بند کر دیا تھا۔ اس کو محسوس ہونے لگا تھا کہ اب اس کا آخری وقت ہے، تو اس نے فخرو الدین کو بلوایا اور ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کرلرزتی زبان سے وصیت کی کہ میرے بچوں کاہمیشہ دھیان رکھنا، انہیں اپنے سینے سے لگا کررکھنا اور میں عاقل سے دوری برداشت نہیں کر پاﺅنگی، اسی لیے تم مجھے گھر کے ایک کونے میں ہی دفن کر دینا تاکہ میں ہمیشہ اپنے بیٹے کو دیکھتی رہوں اور پھرآمنہ نے عاقل کو بلوایا۔ اس وقت تیرہ سال کے عاقل نے جیسے ہی ماں کی یہ حالت دیکھی وہ اس سے لپٹ گیا اور آمنہ اسے سینے سے لگائے دنیا سے گزر گئی ۔

آمنہ کی تدفین گھر کے ایک کونے میں کر دی گئی جہاں ایک سایہ دار درخت تھا، اس کے بعد فخر الدین جو ایک اسکول میں ہیڈ ماسٹر تھا، اس نے اپنی نوکری چھوڑ دی اور گھر پر ہی لکڑیوں کی ٹال کر لی ۔ وہ اپنا سارا وقت بچوں کی پرورش میں ہی گزارتا ، اس نے عاقل کو پڑھایا لکھایا اور عاقل پڑھ لکھ کر انجینئر بن گیا، اس کی شادی کی ۔ اب جب کہ فخر الدین کی محنت سے اس چمن میں بہار آئی تھی ، ایک مرتبہ پھر سے خزاں نے پورے چمن کو جھلسا دیا تھا اور بہار کے دن روٹھ گئے۔

وجے سنگھ نے عاقل کا قتل کر دیا۔ فخرالدین نے اس کے قتل کے بعد بھی اس کی وصیت کا پاس رکھا اور آمنہ کو عاقل سے دور نہیںکیا بلکہ اس کے بازومیں عاقل کو بھی دفن کر دیا ۔ آمنہ کی موت کے وقت تو فخر الدین کا گھر کافی وسیع تھا ، لیکن جیسے جیسے وقت سمٹتا گیا ، گھر کا دائرہ بھی کم ہوتا گیا اور اس نے تنگدستی میں گھر کا ایک بڑا حصہ بیچ دیا لیکن جیسے جیسے گھر کے آس پاس کے کھیتوں کی پلاٹنگ کی جانے لگی، کالونیاں بننے لگیں تو ان کا لونیو ںمیں ہندﺅں کی آبادی بڑھ گئی اور وہ بستی جو کھیتوں میں بسی تھی اور جس کا نام علیم نگر تھا ہوتے ہوتے اس کا نام دھرم نگر پڑ گیا تھا اور اب محض فخرالدین کا گھر اس پورے علاقے میں اکیلا تھا جہاں سنکھ اور گھنٹیاں نہیں بجتی تھی۔

فخرالدین نے ہمیشہ اپنے بچوں کی پرورش دین دار ماحول میں کرنے کی کوشش کی تھی، وہ پانچوں وقت کی نماز کا پابند تھا اور اس نے بچوں کو بھی اسی راہ پر چلایا تھا ۔ عاقل بھی عادل کی ایسی ہی پرورش کرنا چاہتا تھا اسی لیے جب وہ نماز پڑھتا تو عادل کو بھی اپنے ساتھ کھڑا کر لیتا ، اس وقت بھی عاد ل باپ سے مختلف سوال کرتا:

”ابو آپ نماز کیوں پڑھتے ہیں ؟“

عاقل نے اسے پیار سے سمجھایا ”بیٹا تم دیکھتے ہو اللہ نے ہمیں کتنا اچھا اچھا کھانا دیا ہے ، وہ تینوں وقت ہمیں کھانا دیتا ہے ،تو ہم اس کا شکر ادا کرتے ہیں ،تبھی تو وہ پھر سے کھانا دیگا۔“

عادل پھر سے سوچ میں گم ہوجاتا اور پھر نئے نئے سوالات اس کی زبان سے نکلنے لگتے ۔ اس کو دیکھ کر لگتا تھا کی اس کے دماغ میں سوالوں کی ایک دکان کھلی ہوئی ہے جہاں نئے نئے سوالات تیار رہتے ہیں اور وہ اپنے ان تمام سوالوں کے جواب چاہتا ہے ۔

فخرالدین چاہتے ہوئے بھی اس گھر کو چھوڑ کر نہیں جا سکتا تھا ۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ اس کی بیوی ہمیشہ کے لیے اس کی مٹی میں سما گئی تھی دوسرے یہ کی اس کو لگتا تھا ،موت برحق ہے ۔ موت سے کوئی بچ نہیں سکتا ،حالانکہ عاقل کے قتل کے بعد اس کو ایک بار پھر اپنے اس فیصلے پرغورکرنا پڑا ۔ مگر پھر اس کو خیال آیا کی اب تو میرا بیٹا عاقل بھی یہیں بس گیا ہے، تو ہم سب یہاں سے کیسے جا سکتے ہیں ! لیکن پھر اسے وجے سنگھ کا خیال گزراکہ اس کی وجے سنگھ سے ذرا سی بات پر لڑائی ہوئی تھی کہ بس وہ ہماری تھوڑی سی زمین اپنے گھر میں ڈال لینا چاہتا تھا اور عاقل نے اسے ایسا نہ کرنے دیا تھا ۔ لیکن پھر اس کے بعد تو وجے سنگھ سے ہمارے اچھے تعلقات بن گئے تھے ۔ عاقل نے تو کبھی سوچا ہی نہیں ہوگا کی دوستی کی آڑ میں نفرت کی جوالہ دہک رہی ہے کاش میں ہی سمجھ جاتا ۔ وہ دو گز زمین میں اسے دے دیتا ، یہ سوچتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسوڈھلک گئے ۔ ان کو کفن میں لپٹا ہوا عاقل یاد آگیا۔ وہ فوراََ پلنگ پر اٹھ کر بیٹھ گیا اور خدا سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنے لگا۔

اس رات کے درمیانی ح میںحصے میں فخر الدین نے اپنی زندگی کو دہرایا تھا اور اب ان کی زندگی کا لمحہ لمحہ تازہ ہوکر اس کے ذہن کی سطح پر نقش کی صورت میں بکھر گیا تھا ۔ اس نے ایک بار پھر سوچا نا معلوم ،میں نے زندگی کو دہرایا یا پھر زندگی مجھے دہرا رہی ہے ۔ اب وہ اسی کشمکش میں مبتلا تھا کہ اس نے دوسرے پلنگوں پر نگاہ ڈالی ۔ سب لوگ سو چکے تھے ۔ وہ ایک بار پھر اٹھا اور دبے قدموں سے پورے کمرے کا جائزہ لینے لگا ، کھڑکی اور دروازہ ہلا کر دیکھا اور ان کی مضبوطی کا یقین ہوجانے کے بعد وہ پلنگ پر آکر لیٹ گیا، اس کی یادوں کی پگڈنڈی پھر سے روشن ہونے لگی ۔ مضطربہ حالت میں اسے کب نیند آگئی، معلوم ہی نہیں ہوسکا۔

سورج طلوع ہونے سے پہلے ہی وہ اٹھ گیا لیکن اب بھی اس میں اتنی سکت نہ تھی کی وہ کمرے کے باہر قدم رکھ سکے ۔ اسی لیے فخرالدین بستر پر ہی لیٹا رہا اور سورج کے طلوع ہوتے ہی اس نے کمرے کا دروازہ کھولا اور ڈنڈا ہاتھ میں لیے کمرے سے باہر نکلے ۔ اس نے باہر قدم رکھتے ہی چاروں طرف کا جائزہ لیا ۔پورا گھر ویسے کا ویسا تھا بس ماں بیٹے کی قبرپر پیلے پتوں کا فرش بچھا تھا ، جسے شاید قدرت نے ٹھنڈ سے بچانے کے لیے بچھایا تھا۔ چاروں طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی ایک عجیب خاموشی ، معلوم ہوتا تھا عاقل کا قتل ابھی ابھی ہوا ہے ۔

دن گزرتے گئے اورفخر الدین پورے خاندان کا بار اٹھاتا چلا گیا ۔ دن کا بڑا حصہ کچہری میں گزرتا ۔ اس کے مالی حالات کمزور ہوتے جارہے تھے اور اب گھر میں وقت بہ وقت فاقوں کی نوبت آنے لگی تھی ۔

فخر الدین اپنے اکلوتے بیٹے کے قاتل کو سزا دلوانا چاہتا تھا ۔ اسی لیے وہ مقدمے کی پیروی میں لگارہتا ، حالانکہ اس کی کہیں سنوائی نہیں تھی اور یہی سوچ سوچ کر وہ دن بہ دن ہارتا جا رہا تھا اور پھر گھر میں فاقوں کی اتنی نوبت آنے لگی کی بچوں کو دو وقت کا دودھ بھی ملنا بند ہوگیا ۔ گائے بھینسوں کو وقت پر چارانہ ملنے کی وجہ سے ان کی ہڈیاں نکل آئیں ،بھینسوں کے تھن سوکھ گئے ۔

ایک دن رشیدہ نے دیکھا عادل مٹی کھود رہا ہے ۔ ماں نے سوچا اچھا ہے ،عادل کھیل رہا ہے اس کو بھوک کا خیال بھی نہیں آئیگا ۔ عادل نے مٹی کھودتے ہوئے اچھا خاصا گڈھا کر لیا ، جب فخرالدین نے عادل کو مٹی کھودتے دیکھا تو اس نے عادل کو گھڑکی دیتے ہوئے کہا:

”یہ کیا کر رہا ہے؟ “

عادل ڈر کر کھڑا ہوگیا اور دونوں ہاتھوں کو اپنے کپڑوں سے پوچھتے ہوئے بولا:

”ابا مفت کی دنیا کا دروازہ تلاش کر رہا ہوں ، جہاں مفت کا کھانا ملتا ہے ، جہاں ابو رہتے ہیں، دادی رہتی ہیں، ہم سب وہیں چلیں گے ، ہیں ناں ابا یہاں تو ساری چیزوں کے پیسے دینے پڑتے ہیں “

عادل کی بات سن کر فخر الدین تھرا گئے ۔ عادل کی معصوم طبیعت نے ان کے صبر کا پیمانہ چھلکا دیا، ان کی آنکھوں سے زارو قطار آنسو بہنے لگے اس نے عادل کو گود میں اٹھا لیا اور اسے کلیجے سے لگا کر خوب پیار کیا۔

دن گزرتے جا رہے تھے اور فخرو الدین اور کمزور ہوتا جا رہا تھا ۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے ؟ اس سے پہلے تو وہ کہیں نہ کہیں سے پیسوں کا بندو بست کر لیتا تھا لیکن اب وقت بہ وقت فاقوں کی نوبت آنے لگی ۔ عاقل کے چھوٹے چھوٹے بچے باہر جا کر کہیں سے کچھ مانگ کر لے آتے کہیں سے کچھ ۔ فخرالدین نے اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بھی اپنی حالت کہیں بھی عیاں نہ ہونے دی، پیٹ کی جوالہ جب بھڑکتی تو بچے مندروں کے باہر بٹ رہے پرساد گھر لے آتے ، لیکن اب فخر الدین بچوں کو منع نہیں کرتا تھا۔

ایک دن جب مسجد سے کچھ لوگ فخرو الدین کو بلانے کے لیے آرہے تھے تو انھوں نے دیکھا عاقل کے بچے مندر کے باہر بیٹھے کھانا کھا رہے ہیں ، یہ دیکھ کر وہ حیران رہ گئے ، وہ فخر الدین سے آکر بولے:

” آپ کو کچھ خوف خدا نہیں رہا آپ بالکل مسجد نہیںآتے “

”ہاں بس وہ تھوڑی پریشانی چل رہی ہے۔ “ فخر و الدین نے ایک مجرم کی طرح جواب دیا ، پھر اس نے کہا:

”وہ آپ کا پوتا مندر کی سیڑھیوں پر بیٹھاکھا نا کھا رہا ہے ، آپ اُسے روکتے کیوں نہیں ؟“

فخر الدین کی نگاہیں جھک گئیں پھر جماعت میں سے ایک شخص نے کہا:

”لگتا ہے آپ ہندو ہو گئے ہیں ´ “

اس کی بات سن کر فخرالدین تھرا گئے ، اس کا پورا بدن سن پڑگیا ۔ جماعت والے چلے گئے لیکن فخرالدین دیر تک سوچتا رہا ۔ اس کے ذہن پر وہ فقرہ بار بار چوٹ کر رہا تھا کہ’ کیا آپ ہندو ہوگئے ہیں کیا آپ ہندو ہوگئے ہیں۔

پھر فخرالدین نے سوچا ، کیا وہ حقیقت میں ہندو ہوگیا ہے ۔

نہیں ایسا نہیں ہے ۔

ایسا ہو بھی سکتا ہے ۔

نہیں یہ تو عذاب الٰہی ہوگا ۔

نہیں عذاب الٰہی نہیں لیکن خدا یہ بھی تو کہتا ہے کہ اپنی زندگی کی حفاظت کرو، تو پھر میرا ہندو بننے میں کیا جا رہا ہے ہاں یہ صحیح ہے نہیں نہیں ایسا کچھ نہ کرنا ورنہ سب کیا سوچیں گے؟ ۔

اس کا دن اور رات اسی کشمکش میں گزر ی اورپھر اگلے دن اس نے سرکاری محکمے میں رپورٹ کی کہ اس کے گھر میں موجود بارہ کے بارہ ہندو ہوگئے ہیں اور آج سے اسے فخرالدین نہیں بلکہ فقیر چند کے نام سے بلا یا جائے ۔

اس خبر کا اخبار میں چھپنا تھا کی ہر طرف یہ خبر ہوا کے ساتھ پھیلی ،اس سے پہلے ان کے بیٹے کے قتل کی خبر کو اخبار والوں نے چوتھے صفحے پر جگہ دی تھی ، لیکن اس خبر نے اخبار کے پہلے صفحے پر جگہ بنائی تھی اور اب اس کے گھر میں پریس والوں کا جمع غفیرتھا ، تبھی اس سے ایک اخبار والے نے سوال کیا ۔

”فخر الدین عرف فقیر چند آپ نے تحریر میں لکھا ہے کی آپ کے گھر کے سب افراد ہندو ہوگئے ہیں ، لیکن آپ تو گھر میں آٹھ لوگ ہیں “

فخرالدین نے بڑی سادگی سے جواب دیا:

”نہیں بھائی ہم گھر میں بارہ ہیں، آٹھ افراد اور ایک بھینس ، ایک گائے اور دو ان کے بچے، انھوں نے بھی اپنا دھرم بدل لیا ہے ۔ “

فخرالدین کے دھرم بدلنے نے جہاں ان کو مسلمانوں میں رسوا کر ا دیا تھا ، وہیں سب جگہ یہ خبر آگ کی طرح پھیلتی گئی اور اوپر بیٹھے افسروں تک ان کے بیٹے کے قتل کی خبر پہونچی ۔

وجے سنگھ کو ایک بار پھر گرفتار کر لیا گیا اور معاملے کی تہہ میں جانے سے متعلق کاروائی شروع ہوگی ۔ اس بار وجے سنگھ کی بیل نامنظور ہوچکی تھی اور پریس والوں کی اس کے گھر میں آمد و رفت بڑھ گئی ۔ وہ فخر الدین سے طرح طرح کے سوالات کررہے تھے ، تبھی اچانک عادل ایک پلیٹ میں کھا نا لیے ہوئے گھر میں داخل ہوا ۔ وہ اسے بڑے چاﺅ سے کھا رہا تھا پھر فخر الدین نے دیکھا سب کی نگاہیں اچانک پیچھے کسی پرٹھہر گئی ۔ فخر الدین نے مڑ کر دیکھا ۔ عادل کے ہاتھ ، منہ گیلے تھے اور وہ ایک کپڑے پر کھڑا تھا پھر اچانک وہ جھکا اور سجدے میں چلا گیا ۔ کھانے کے خالی برتن اس کے پاس پڑے تھے ۔ فخرالدین نے ایک نظر عادل کو دیکھا ،پھر سب کے چہرے کو دیکھا اور نہایت سادگی سے جواب دیا ۔

”ابھی اللہ کو بھگوان بننے میں ذرا وقت لگے گا“

Published inتبسم زہراعالمی افسانہ فورم

Be First to Comment

Leave a Reply