عالمی افسانہ میلہ 2019
افسانہ نمبر111
دوسرا کنارا
انس اقبال نیو جرسی ۔ امریکہ
۔یاد کرو جب میں اور تم یہیں ملے تھے۔۔۔۔اسی جھیل کے کے کنارے!!اور موسم بھی ایسا ہی تھا!!!
تب تم نے کہا تھا: ۔ ”یہ بارش…یہ بارش مجھے بہت ڈراتی ہے اور جب یہ بجلی چمکتی ہے تو۔۔ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میرا دم ہی نکل جائے گا‘ میرا دل کسی باجے کی دھنکی کی طرح دھنکنے لگتا ہے اور میری آنکھیں اس چمک میں نجانے کن کن حقائق کو دیکھ لیتی ہیں۔۔۔اوریہ گرجتے بادل ۔۔۔ان کی ہر گرج مجھے دھمکانے لگتی ہے!!!“۔
ہاں تمہیں بس ایک ہی چیز اچھی لگتی تھیٗ وہ تھی بارش کی سوندھی مہک! مگر اس پسند کا اظہارکرتے ہوئے بھی تم کسقدر خوفزدہ تھیں ٗ تم نے کہا تھا:۔
”جب بھی میں آنکھیں بند کر کے اس مہک کو محسوس کرنے لگتی ہوں، اپنے آپ کو زمانے سے دور لیجانے لگتی ہوں تو بادل غرانے لگتے ہیںٗ احساس دلانے لگتے ہیں کہ چاہنا، چاہے جانا یا کچھ بھی پسند کرنا میرے اختیار میں نہیں!”۔
یاد ہے یہ بات کہتے ہوئے تمہاری آنکھیں بھر آئی تھیں۔ مجھے وہ آنکھیں دیکھ کر اسی تکلیف کا احساس ہوا تھا جیسا اس ہرنی کو دیکھ کر!!! جو بے بسی کے عالم میں ایک شکاری کو اپنا بچہ پکڑتے دیکھ رہی تھی۔جب شکاری نے بچے کو پھانس لیا تھا تو ماں کبھی پھندے کے قریب آتی توکبھی ڈر کر بھاگ جاتی۔ اس کشمکش میں آخر وہ دور پیڑ کے پیچھے کھڑی مایوسی کا شکار بن کر رہ گئی تھی۔ اس کی آنکھیں ! اف!! مگر تب میں کچھ نہیں کر پایا تھا ٗ ایک ڈاکٹر ہو کر بھی میں اپنی مسیحائی کونہیں جگا پایا تھا! مگر اس دفعہ میں نے تمہیں تنہا نہیں چھوڑاتھا! بلکہ اپنی چھتری کے نیچے تمہیں زور سے کھینچ لیا تھا ٗ اور تم بھی، حالانکہ کسی بے تکلفی کا رشتہ نہ ہونے کے با وجود میری طرف کھنچی چلی آئی تھیں اور پھر ایک زوردار گرج نے ہمارے درمیان حائل اس دوری کو مٹا ڈالا تھا!!!
اور یاد ہے۔۔۔اس دفعہ بھی موسم ابرآلو د ہی تھا‘ میں اپنے کلینک میں معمول کے مطابق مریض دیکھ رہا تھا کہ اچانک تم بادِ صبا کی طرح آئیں۔۔۔میرا کلینک، جس میں ہر طرف دوائیوں کی بدبو تھی مہک اٹھا تھا۔ تم نے میرے گلے سے سٹیتھوسکوپ اتار کر دور پھینک دی تھی اور بضد تھیں کہ اسی جھیل کے کنارے چلیں۔ یاد ہے! تم نے کس طرح ایک جھوٹے بہانے سے کلینک بند کروادیا تھا ‘ حالانکہ ہم جانتے تھے کہ سب ہمارے جھوٹ سے آشنا ہیں! مگر کسی نے احتجاج تک نہیں کیا تھا!! بلکہ لگتا تھا کہ ایک خوبصورت منصوبے کے تحت انہیں لوگوں نے ہمیں جانے دیا ہو!!!
پھر جب ہم جھیل کے کنارے پہنچے تو بارش شروع ہو چکی تھی۔ میں نے گھبرا کر جلدی سے چھتری کھول لی تھی کہ کہیں تم بھیگ نا جاؤ‘ ڈر نہ جاؤ!میں سوچ رہا تھا کہ کہیں بادلوں کی گرج تمھیں دہلا نہ دے اور کہیں۔۔۔کہیں تمھاری آنکھیں نہ بھر آئیں!
مگر جیسے ہی چھتری کھول کر میں تمھاری جانب مڑا تو میں حیران رہ گیا! تم بانہیں پھیلائے کسی پیاسی تتلی کی طرح بارش میں لہرا رہی تھیں! تم آنکھیں بند کئے جھوم رہی تھیں۔۔۔رقص کر رہی تھیں۔ بادل زور زور سے گرج رہے تھے اور ہر گرج کے ساتھ، بجلی کی ہر چمک کے ساتھ تمہارے قدم تیزی سے رقص کرنے لگتے۔ لگتا تھا جیسے تم اس سوندھی سوندھی مہک کے سمندر میں موجزن ہو ٗ تم حسین بوندوں کی طرح مچل رہی تھیں۔ میں اسقدر محو تھا کہ جب ہوا کے ایک زوردار جھونکے نے چھتری میرے ہاتھ سے چھین کر دور پھینک د ی تو مجھے ہوش آیا!!!
چھتری اڑ کر تمہارے پیروں کے قریب جا گری تھی۔ میں بے خود سا چھتری کو تھامنے یا تمہیں تھامنے، بڑھنے لگا تھا۔ یہ تو بجلی کی چمک تھی کہ جس نے مجھے جھنجھوڑا اور میں چھتری اٹھانے کے لئے جھکا۔ جھکتے ہی میری نگاہ تمھارے خوبصورت پیروں پر پڑی تھی جن میں ہلکا ہلکا کیچڑ اس طرح لگا تھا جیسے کسی نئی نویلی دلہن کے پیروں میں حناء! انکی آزادی مجھے نئے نئے تصورات میں لے گئی تھی اور میں نے تب ہی تمہیں جیون ساتھی بنانے کا فیصلہ کیا تھا!!!
یاد ہے پھر کبھی بارش نے تمہیں نہیں ڈرایا تھااور نہ ہی تمہاری آنکھوں میں کبھی بے بسی نظر آئی تھی۔ کتنے خوش تھے ہم!!!
مگر آج! وہی موسم ہے، وہی ساتھ ہے، وہی جھیل کا کنارا ہے، حتی ٰکہ فضاء میں مہک بھی وہی ہے!! مگر آج ہم زندگی کی کچھ حقیقتوں کے ساتھ ہیں۔ شائد یہ وہی حقائق ہیں جن سے کبھی بادلوں کی گرج نے تمہیں ڈرایا تھا! شائد بجلی کی چمک میں تمہیں، مجھ میں اسی زمانے کی تصویر نظر آ رہی ہوجسکی بے رحمی سے، لاپرواہی سے تم ڈرا کرتی تھیں۔ مگر یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ جس فیصلے کے لئے تم نے مجھے بلایا ہے وہ اس سے بھی بڑی غلطی ہو جو تمہاری نظروں میں مجھ سے سرزد ہوئی ہے۔ شائد تم اسی وجہ سے ان لمحوں کو نہ پہچان پا رہی ہوکہ کچھ غلط فہمیوں نے ہمیں چند سالوں کے لئے اس بھیگے موسم میں اکٹھا ہونے سے روک رکھاتھا۔ شائد یہ ان باتوں کا اثر ہوجو لوگوں نے ہماری خوشیوں سے جل کر ہماری جدائی میں تم سے کی ہوں! میں یہ نہیں کہتا کہ تم غلط ہو، مگر یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ کہر جس کے پیچھے سے تم مجھے دیکھ رہی ہو ہٹ کر ایسا شفاف منظر پیش کر دے کہ جس میں تم خود کو میرے ساتھ دیکھ سکو!!!
ایک دفعہ تم نے ہی تو کہا تھا کہ اس جھیل کا دوسرا کنارا کتنا سنسان ہے۔۔۔ایسا لگتا ہے جیسے وہاں کوئی سانس لینے والا بھی نہیں۔۔۔بس جھاڑ جھنکار اور ایک ہولناک خاموشی!!! مگر جب تم میرے ساتھ وہاں گئی تھیں تو وہ اتنا ہی خوبصورت تھا جتنا کہ ادھر والا کنارا، بس دوری نے ایک مدت تک انجان کر رکھا تھا۔ کہیں تم میرے وجود کو وہی دوسرا کنارا تو نہیں سمجھ رہیں؟ کیا آج یہ بارش تمہیں اس دوسری بارش کی طرح بےخود نہیں کر رہی، جس میں تم نے ہماری محبت کو سب دکھوں کا مداواء سمجھ کر قبول کیا تھااور اس قبولیت نے تمہیں اتنا بے خوف کر دیا تھا کہ تم ہر بارش میں بادلوں کی گرج کو سنتی رہیں اور بجلی کی چمک میں اپنے لئے ان پودوں میں مستقبل کے خوبصورت پھول چنتی رہی تھیں۔۔۔دیکھا میں نے صحیح سمجھا تھا تم بالکل نہیں بدلیں اور نہ ہی تم کچھ بھول پائی ہو۔ بس یہ اس وقتی کہر کا اثر تھا۔۔۔اس دھند کا اثر تھا کہ جس نے اس دوسرے کنارے کو ایک مدت تک تمہارے لئے تاریک رکھا تھا! مگر اب جبکہ میری باتوں نے، میری موجودگی نے اس بجلی کی چمک میں مجھے تمہارے سامنے اس خوبصورت منظر کی طرح آشکار کر دیا ہے جو اس دوسرے کنارے کے جھاڑ جھنکار کے پیچھے تھا۔۔۔دیکھو۔۔۔دیکھو تمہاری آنکھیں میری سچائی کو پہچان کر کس طرح بھیگ رہی ہیں‘ مگر یہ بے بسی نہیں ہے بلکہ طمانیت ہے، سکون ہے!! جو ایک بھیانک غلطی سے بچنے کے بعد ہی آتا ہے!!!
ہاں آؤ۔۔۔آجاؤ اس چھتری تلے کہ ہم نے ابھی بہت دور جانا ہے۔اس بارش میں ہمیں ابھی کافی سفر طے کرنا ہے۔
Be First to Comment