Skip to content

دل پھینک

عالمی افسانہ میلہ 2021
دوسری نشست
افسانہ نمبر 37
دل پھینک
ڈاکٹر عشرت معین سیما
برلن ۔ جرمنی

یہ تو مجھے میری چھوٹی بہن شہلا نے بر دکھوے کے دن ہی بتا دیا تھا کہ اس کے ہونے والے دولہا بھائی اچھے خاصے دل پھینک ہیں۔ خاص طور پر جب وہ زنان خانے میں میری بہنوں اور بھابھیوں سے کھل کر ہنسی مذاق کر رہے تھے تو اُن کی یہ خصوصیت اُبل اُبل کر گھر کی خواتین کے سامنے عیاں ہورہی تھی۔ لیکن اماں کو اُن کا یہ عورتوں سے مذاق کرنا خاندان میں گھل مل کر رہنے کی نشانی لگی تھی یا پھر اُن کا اپنا بیٹا نہ ہونے کی کسی محرومی نے اُن کے دل پر دستک دی تھی ۔تب ہی وہ کئی سالوں بعد اپنے دل میں جاگنے والی اس بیٹا نہ ہونے کی محرومی کو بیٹے جیسے داماد پانے کی صورت میں بدلتا دیکھ رہی تھیں۔ اسی لیے ہی تو وہ فوراً اُن کا ماتھا چوم کر ہاتھ میں سو روپے کا نوٹ تھما کر چلی آئی تھیں جو ایک طرح سے رشتہ پکا کرنے کی ضمانت تھی ۔پھپھو اماں اور بڑی امی کو اماں کی یہ حرکت بالکل پسند نہ آئی کہ بلا مشورہ انہوں نے اپنا حق رائے دہی فیصلے کے طور پر استعمال کرلیا۔ لیکن اس وقت وہ دونوں ہی خاموش رہیں۔ بر دکھوے سے واپسی پر گھر آتے ہی انہوں نے اماں کو آڑے ہاتھوں لیا اور اُن کی حرکت پر اُنہیں خوب باتیں سنانا شروع کر دیں۔وہ تو ابا نے مداخلت کرکے بیچ بچاؤ کیا اور رشتے کو مناسب سمجھتے ہوئے ہمیشہ کی طرح اماں کی طرفداری کی۔ میں دریچے سے لگی سب کی باتوں پر کان لگائے ہوئے کھڑی تھی۔ خاندان کے مردوں میں سب ہی کا کہنا تھا کہ لڑکا برسر روزگار ہے، تعلیم بھی ٹھیک ہے اور باپ بھائی بھی نیک نام ہیں لیکن جو خاندان کی خواتین بر دکھوے میں گئی تھیں اُن کی مختلف رائے تھی، کوئی کہہ رہا تھا کہ لڑکا مجھ سے زیادہ خوش شکل ہے، کوئی مجھ سے زیادہ ہنس مکھ گردانتا اور کوئی کہتا جس مرد کی مردان خانے میں بولتی بند ہو اور زنان خانے میں ہنسی ٹھٹھا چلتا ہو اس کی عورت کی زندگی جلاپے سے کٹھن ہوجاتی ہے اور صبر شکر کے آنسو پیتے ہی گزرتی ہے۔ یہ تمام باتیں میرے دل میں عجیب سے وسوسے پیدا کر رہی تھیں زندگی کے اس اہم سفر کی ابتدا خدشات سے شروع ہوتی دکھائی دے رہی تھی ۔ لیکن اماں تو اس لڑکےکے اخلاق و کردار پہ واری صدقے تھیں اور ابا ہمیشہ سے میری اماں پر، لہٰذا میرا رشتہ شکیل احمد قریشی سے طے ہوگیا اور چھ ماہ بعد ہی شادی بھی ہوگئی۔ اس چھ ماہ کے دوران شکیل صاحب نے ہمارے گھر کے کم از کم چھتیس چکر لگائے اور بقول شہلا کے یہ چکر انہوں نے میرا دیدار کرنے کو کاٹے تھے لیکن خاندانی روایات اور مشرقی طرز کے امین گھرانوں کی لڑکیاں اُس زمانے میں منگیتروں سے پردہ کرتی تھیں، سو میں نے بھی ان روایتوں کا پاس رکھا اور شادی کی رات ہی پہلی بار اپنا گھونگھٹ شکیل احمد قریشی کے آگے اٹھایا۔
ابتداً شادی کے بعد انہوں نے میری خوبصورتی و نیک سیرتی کی شاید تعریف بھی کی لیکن نہ جانے مجھے کیوں لگتا تھا کہ وہ میری تعریف کے بجائے اپنی ہی تعریف کر رہے ہیں۔ جیسے وہ کہتے کہ
“ میرے دراز قد کے مقابلے میں تمہارا پستہ قد ہونا دراصل ہمارے خوبصورت ازدواجی جوڑے ہونےکی نشانی ہے“
یا
“تمہاری سانولی رنگت اور سادے نین نقش میرے گورے رنگ اور ستواں ناک پہ بھاری دکھائی دیتے ہیں”
شادی کے پہلے دن کے بعد سے ہی مجھے اُن کی ستائش بھلی نہ لگی بلکہ اُن کی شخصیت کے کچھ پہلوؤں پر دلی اطمنان بھی نہ ہوا ۔لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ میں بھی اس قسم کے جملوں کی عادی ہوتی گئی اور اُن کا میرا گھونگھٹ اٹھانا یا گرانا بھی رفتہ رفتہ اُن کے لیے ایک ہی جیسی بات ہوتی چلی گئی ۔
اب تقریباً ہماری شادی کےچالیس سال گزر چکے تھے اُن کے منہ سے میں نے اپنے لیے محبت کے محدود جذبات یا اپنائیت کا ایک بھی لفظ محسوس نہیں کیا تھا۔ میں اکثر سوچتی تھی کہ جب ایسا شادی کے ابتدائی دنوں میں نہ ہوا تو اتنا عرصہ گزرنے کے بعد انہیں میری شکل میں کوئی کشش کہاں سے نظر آئے گی یا انہیں میری کوئی ایسی ضرورت کہاں محسوس ہوگی جو ایک شوہر کو بیوی کی محبت میں محسوس ہوتی ہے۔میں نے تو شاید شادی کےپہلے روز سے ہی اُن کے منہ سے اپنے بجائے کسی عزیزہ کے دلکش نین و نقش کے قصیدے سنے اور کبھی کبھی تو کسی دوشیزہ کی اداؤں اور ناز بردار یوں کا عملی مظاہرہ بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ایسا لگتا تھا کہ انہیں کسی بھی قسم کی کشش تو مجھ میں کبھی بھی نظر نہیں آئی البتہ چہرے اور بدن کی کئی خامیاں گاہے گاہے بیان کرکے انہوں نے اس احساس کو جگائے رکھا تھا کہ میں اُن کے زاویہ نگاہ کے مرکز میں نہ سہی لیکن کسی کونے کھدرے میں ضرور پڑی ہوں اور بیوی کی صورت میں میری ذات اُن کی توجہ اپنی جانب کھینچنے کی کشش ضرور رکھتی ہے۔ چاہے یہ توجہ تنقیدی ہو یا تعمیری مجھے اس سے غرض اس لیے زیادہ محسوس نہ ہوسکی کہ شادی کے بعد ہر سال دو سال میں اوپر تلے پیدا ہونے والے چار بچوں کی پیدائش کے سلسلے نے مجھے ان باتوں پر غور کرنے کی فرصت ہی نہ دی۔ لیکن پانچویں بچے کی آمد کی خبر نے شکیل صاحب کو بھی پریشان کر دیا تھا، کلرکی کی سرکاری نوکری میں اتنے بچوں کی کفالت و پرورش آسان کام نہیں تھا۔ اس وقت ہی سے تو میری بھی صحت جواب دینے لگی تھی۔ خدا نے ہی کوئی راستہ کھولا کہ دنیا میں آنے والا چھٹا بچہ نہ صرف وقت سے پہلے آگیا بلکہ پیدائش کے مراحل میں اتنی پیچیدگی ہوئی کہ ڈاکٹرنی کو بچہ دانی ہی جسم سے باہر نکال کر پھینکنا پڑی، وہ آنے والا ننھا فرشتہ بھی چند ہی روز دنیا میں سانس لے کر واپس جنت کی طرف روانہ ہوگیا۔ شکیل صاحب کہتے تھے کہ وہ ننھا فرشتہ ہماری آخرت میں مغفرت کی نوید تھا لیکن مجھے تو لگتا تھا کہ وہ دنیا ہی میں میرے لیے کسی گناہ کا کفارہ بن کر آیا تھا جس نے مجھے جانوروں کی طرح سال دو سال پر بچہ جننے سے روک دیا۔
اس بچے کے بعد مجھے اپنے دیگر بچوں سے محبت کا احساس اپنے دل میں محسوس ہوا ۔ اس سے قبل تو بس ایسا لگتا تھا کہ یہ ازدواجی زندگی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے یہ پانچ بچے کسی کارخانے میں چلتی پٹی پر کسی مصنوعات کے لیے تیار ہونے والا کوئی مال ہیں ۔ مجھے بھی لگنے لگا تھا کہ سارا سال کسی روبوٹ کی طرح زندگی کے مسائل حل کرنا ، صبح سے شام تک خاندان کے لیے فرائض و حقوق کی جنگ لڑتے رہنا ، رات کو تھک ہار کر اپنا جسم اور بستر شوہر کے حوالے کر دینا اور سال کے آخر میں ایک نئی زندگی کو دنیا میں لاکر انسانوں کا انبار لگا دینا ہی میرا دنیا میں آنے کا مقصد رہ گیا ہے۔بچوں کی بڑھتی تعداد مجھے اپنے گھر میں اُن کیڑے مکوڑوں کا ڈھیر لگتی تھی جو زمین پر گندم کے خوشے سے جڑے دانوں کی چھینا جھپٹی کے لیے دنیا میں بھیجے گئے ہیں ۔ مجھ کو کبھی یہ محسوس ہی نہیں ہوا تھا کہ یہ بچے تو قدرت کا وہ تحفہ ہیں جنہوں نے مجھے صاحب اولاد ہونے کا شرف بخشا، جنہوں نے میری زندگی کو ایک مقصد کے ساتھ محبت اور خوشی سے بھی جوڑے رکھا ہے۔ یہ وہی بچے ہیں جنہوں نے مجھے انسان کو انسان بنانے کے فن سے متعارف کروایا اور زندگی کو فرائض و حقوق کے دائرے میں لاکر اس کی رفتار سے روشناس کروایا مگر سچ تو یہ ہے کہ محبت اگر ازدواجی زندگی کے دونوں فریقین کے دلوں سے غائب ہوجائے تو یہی بچے اُن کے لیے بے زاری اور میکانیکی عمل کا بوجھل نتیجہ لگنے لگتے ہیں ۔ میرے بچے میری محبت کے حقدار اور پاسبان تھے لیکن اس سے قبل میری توجہ کبھی اس طرف نہیں گئی تھی ۔ میں زمانے کی روش پر انہیں کھانا پینا دینے اور سونے جاگنے کی سہولت دینے کے ساتھ سرکاری اسکول بھیجنے سے زیادہ کا احساس نہیں رکھتی تھی۔ مجھے اپنی لڑکیوں کا مستقبل شادی اور لڑکوں کا روزگار ہی دکھائی دیتا تھا ۔ لیکن چھٹے بچے کی پیدائش کے بعد احساس محبت اور احساس محرومی نے آپس میں گتھم گتھا ہوکر میرے اندر سے بے حسی کے بت کو توڑ دیا ۔کہتے ہیں کہ احساسِ گناہ توبہ کی پہلی سیڑھی ہے۔ میں نے اس سیڑھی پر پہلا قدم رکھا تو مجھے محسوس ہوا کہ شکیل صاحب کو بھی میرے اس نئے سفر میں میرا ہمسفر ہونا ضروری ہے۔ میں نے کوشش کی کہ اُن کو کسی طرح اپنی اس راہ کا مسافر بناؤں اور اولاد سے جڑی ہر خوشی کے ذائقے سےمتعارف کرواؤں مگر وہ گزرے وقت کے ساتھ اپنی مصروفیت اور خود ستائشی کا بہانہ کرتے ہوئے اپنی دنیا شاعری، ادبی محافل میں اور نہ جانے کہاں کہاں بسا چکے تھے ۔جہاں بقول اُن کے انہیں داد و تحسین سے نوازنے والوں کا ایک جھمگھٹا لگا ہوا تھا۔ نو آموز خوبصورت اور دلربا نازک اندام شاعرات سے لے کر پکی عمر کی افسانہ و ناول نگار خواتین اُن کی تنقید نگاری کے لیے اپنی نگارشات پیش کرنا فخر سمجھتی تھیں ۔ کئی منچلے نوجوان شاعر اور عاشق اُن ہی خواتین کی کشش میں محفل کے چراغوں میں تیل بھرنے کی ذمہ داری اُٹھائے ہوئے تھے ۔ لیکن مجھے تو نہ شاعری سے کوئی شغف تھا اور نہ ہی ادب سے کوئی دلچسپی۔ البتہ ٹی وی ڈرامے اور سیریل بڑے شوق سے دیکھتی تھی ۔ کسی ڈرامہ فنکار کو قریب سے دیکھنے کی خواہش میں کبھی کبھار شہر کی ادبی و ثقافتی محفلوں میں زبردستی شکیل صاحب کے ساتھ چلی جاتی مگر ہمیشہ اور ہر محفل میں جانا میرے لیے ناممکن تھا اور وہ بھی مجھے ساتھ لے جا کر اپنی ویلیو کم نہیں کرنا چاہتے تھے۔
خیر مجھے اب اُن کی یہ ساری حرکتیں اور باتیں دکھ نہیں دیتی تھیں۔ میں نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو اپنے اس دکھ اور غم میں شریک کر لیا تھا۔ وہ میرے لیے ہر لحاظ سے ساتھ کھڑے تھے اور اپنی بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ اپنے باپ کے سماجی رویے اور عادات سے بھی واقف ہورہے تھے۔ یہ میری تربیت تھی کہ وہ باپ کے اس رشتے کا احترام کرتے ہوئے براہ راست انہیں کم ہی کچھ کہتے لیکن جب بلوغت کی سیڑھیاں وہ چڑھ گئے تو کبھی کبھار باپ کے ساتھ اُن کی کوئی نہ کوئی چھوٹی موٹی جھڑپ ضرور ہوجاتی ۔ کبھی کبھی مجھے محسوس ہوتا کہ میرے بچوں کا اپنے باپ کے ساتھ یہ رویہ میرے لیے تحفظ و محبت کی ایک مضبوط دیوار ہے لیکن کبھی کبھی مجھے افسوس بھی ہوتا کہ ہمارے گھر کا ماحول محبت و سکون کے حوالے سے اپنا توازن کھوتا جارہاہے۔
اگرچہ شکیل احمد قریشی بھی ان چالیس سالوں میں میرے قدم سے قدم ملا کر چلنے کے کبھی بھی روادار نہیں ہوئے لیکن اب چار بچوں کی تعلیم اور شادی کے فرائض نبھا کر اُن کی کمر جھک گئی تھی، ساٹھ پینسٹھ سال کی عمر میں ایک ہارٹ اٹیک کے بعد انہیں اپنی صحت کی بہت فکر ہوگئی تھی۔ اب ان ادبی محفلوں میں اُن کی جگہ نئے لوگ بھی آرہے تھے لیکن وہ اپنی جگہ چھوڑنے کو ہی تیار نہ تھے۔ لہذا انہیں بزرگ ادیب و نقاد کا لیبل لگا کر رفتہ رفتہ محفل میں کم ہی بلایا جاتا یا انہیں کسی تقریب میں صدارت کی کرسی پہ بٹھا کر خاموش کر دیا جاتا تھا۔ اپنی بزرگی کا یہ لیبل انہیں سخت ناپسند تھا تب ہی اب انہوں نے خود ہی ایسی محفلوں میں جانا کم کر دیا تھا ۔لیکن صبح ہوتے ہی وہ انفرادی سطح پر شاعرات و شعراء سے ملاقات یا فون پر گفتگو کا سلسلہ شروع کرتے تو شام گئے تک اس میں ہی مصروف رہتے ۔ اگر چہ اب تو سب سے چھوٹی بیٹی بھی دوسرے شہر کے میڈیکل کالج کی اسٹوڈنٹ بن گئی تھی اور ساتھ ہی اپنی پھوپھی کے گھر کی ہونے والی بہو بننے کی تیاری میں تھی لیکن شکیل صاحب کا انداز زندگی بزرگی کی طرف آنے کے بجائے اُلٹی جانب تیزی سے چلنے لگا تھا۔ میں شکیل صاحب کی ایک اس ہی عادت سے نالاں تھی وہ یہ کہ وہ اپنی بڑھتی عمر کی کسی ایسی سیڑھی پر ٹھہر گئے تھے جہاں وہ خود کو اب تک حسیناؤں کے جھرمٹ میں خوبرو جوان تصور کرتے تھے ۔اسی خوش فہمی میں وہ کبھی کبھی انتہائی حد تک پہنچ جاتے۔ دادا اور نانا کا خطاب پانے کے باوجود وہ اب اپنی اس عمر میں بھی عورتوں اور لڑکیوں کو سامنے پاکر کچھ ایسی چھچھوری حرکت کر جاتے کہ میں اور بچے شرمندہ ہوجاتے ۔ لیکن اُن پر کوئی اثر نہ ہوتا ۔محلے کی عورتیں اور خاندان بھر کی لڑکیاں انہیں ٹھرکی گردانتی تھیں۔ بیٹیاں الگ شکایتیں کیا کرتی تھیں کہ اُن کے سسرال میں اُن کے باپ کی وجہ سے اکثر ناگوار باتیں اُن کو سننا پڑتی ہیں اور بیٹے بھی مجھے ہی کہتے کہ میں نے اُن کے ابا کی لگامیں کس کر نہیں رکھیں۔ بھلا بتاؤ ! وہ بھی کوئی نتھی کا بیل ہیں یا کسی تانگے کا گھوڑا کہ لگام ڈال کر رکھا جاتا۔ میں دبے لفظوں میں بچوں کی یہ شکایات جب اُن تک پہنچاتی تو وہ اُلٹا مجھ پر ناراض ہوتے اور مجھ سے شکایات کا پٹارا کھول لیتے ۔ کبھی کبھی تو غصے میں کھانا پینا بھی گھر سے باہر ہی کرتے۔ پھر میں نے ایک ہی طریقہ اپنا لیا تھاکہ بس خاموشی سے سب دیکھتی رہتی اور بچوں کو بھی خاموش رہنے کی تلقین کرتی لیکن آج کل کی اولاد کتنی ہی فرمانبردار ہو والدین کی ذرا سی بھی غلطیاں انہیں جتانے سے باز نہیں رہتی ہے اور یہاں تو بات اُن کی اور اُن کے حلقہ احباب اور سسرال میں باپ کے ٹھرکی پن کے قصوں کی تھی وہ اُن سے کیسے برداشت ہوتیں۔
اس روز صبح میری سب سے بڑی بیٹی نائمہ اپنے دونوں بچوں کے ساتھ اپنے میکے آئی تو اُس کا موڈ خراب تھا اور بہت تھکی ہوئی بھی لگ رہی تھی ۔ میں سمجھی کہ پچھلے دنوں وہ اپنی اکلوتی نند کی شادی میں مصروف تھی جس کی تھکن وہ میکے میں اُتارنے کے لیےآئی ہے۔ لیکن کچھ دیر بعد اس کی بات چیت سے ظاہر ہوا کہ شادی پہ اپنے باپ کی اوچھی حرکتوں پر اس کے سسرال والوں اور میاں نے کوئی بات کہہ دی ہے جس سے وہ نہایت دل برداشتہ ہے۔ میرے پیار سے پوچھنے پر گویا وہ پھٹ پڑی اور روتے ہوئے باپ کی شکایت کرنے لگی ۔
“ امی ! آپ سمجھاتی کیوں نہیں ہیں ابو کو ؟۔۔۔وہ کیوں میرے سسرال کی عورتوں میں گھستے ہیں؟ بھلا کوئی عمر ہے اُن کی شادی پہ لڑکیوں لڑکوں کے بیچ میں گھس کر بھنگڑہ کرنے کی اور مہندی میں عورتوں پر جملے بازی کرنے کی ۔۔۔ مجھے کتنی خفت ہوتی ہے جب اسد اور اُن کے بہن بھائی ابو کا مذاق اُڑاتے ہیں۔۔،
نائمہ کا چہرہ شرمندگی سے لال ہورہا تھا۔ مجھے دکھ ہونے لگا کہ ہم کیوں گئے اس کی نند کی شادی میں؟ شکیل صاحب کا تو یہ پرانا وطیرہ ہے کہ بے گانے کی شادی میں عبداللہ بن کر دیوانہ وار ناچتے ہیں۔ چاہے گھر پہ آکر مجھ سے اپنی کمر اور گھٹنوں پر زیتون کے تیل سے مالش کروائیں یا درد دور کرنے کی گولیاں پھانکیں۔
“ آج جب گھر آئیں گے تو میں بات کرونگی تمہارے ابو سے ۔۔۔ تم جانتی تو ہو ان کی عادت ۔۔۔ بس مسجد میں نکاح پہ بلا لیتیں وہ ہی ہمارے لیے کافی تھا”
میں نے چرائی نظروں سے خجل ہوتے ہوئے نائمہ سے کہا اور کچھ دیر بعد اس کے قریب آکر اس کو گلے لگا کر پیار کرتے ہوئے یاد دلایا کہ آج منجھلے بیٹے کی سالگرہ بھی ہے جو ہمارے اوپر والے فلیٹ میں اپنی شادی کے بعد منتقل ہوگیا تھا۔
“اچھا ہوا تم آگئیں آج عمیر کی سالگرہ ہے وہ بھی چھتیس سال کا ہورہا ہے ہم اُس کی طرف چلیں گے۔۔۔ بیچاری نازش اپنی دو سال کی بیٹی کو سنبھالے یا عمیر کے لیے کیک بنائے ۔۔۔ اب تمُ اپنی چھوٹی بھاوج کی مدد کرو جاکر وہ پورے دنوں سے ہے نہ جانے کس دن تمہیں دوبارہ پھپھو بننے کی خبر سنا دے”
میں نائمہ کو چمکارتے ہوئے کہا ۔ بھائی کی سالگرہ کا سن کر وہ خوش ہوگئی ۔ خوش تو میں بھی ہوگئی تھی کہ اس کا دھیان دوسری جانب کرنے میں میں کامیاب ہوگئی ہوں ورنہ وہ سارا دن اپنا منہ پھلائے ہی رکھتی ۔ اب اس کے چہرے پہ بھائی اور بھاوج کی محبت نے رنگ بکھیر دیئے تھے۔
میرے دو بچے ملک سے باہر تھے ۔ جن میں سے ایک شادی شدہ بیٹی جدہ میں تھی اور ایک بیٹا اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ لندن میں رہتاتھا اب وہ وہیں کا ہوگیا ہے اور واپس اپنے ملک لوٹ کر آنے کا ارادہ بھی نہیں رکھتا۔ بچے اپنے باپ سے اُن کی حرکتوں کی وجہ سے دور ہوگئے ہیں لیکن شکیل احمد کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہوتا تھا وہ بس یہی کہتے تھے کہ میں نے بچوں کو اُن کے خلاف ورغلایا ہے۔
اُس شام اپنے بیٹے عمیر کے گھر کئی دنوں کے بعد ہم سب اکھٹے ہوئے تھے ۔ نائمہ اپنے بچوں کے ساتھ رات رکنے کے ارادے سے آئی تھی۔ بچے آپس میں کھیل رہے تھے نائمہ اور میری بہو چائے لے کر جب ڈرائنگ روم میں داخل ہوئیں تو شکیل صاحب نے بہو کا بغور جائزہ لیے ہوئے بے ساختہ اُس سے کہا
“نازش ! تمہارا پیٹ تو اتنا بڑھ گیا ہے کہ لگتا ہے جڑواں بچے ہیں ۔۔۔اب اورکتنے دن رہ گئے ہیں تمہاری ڈیلوری میں؟ ۔۔۔ تم ان دنوں اتنا کام نہ کیا کرو ۔۔۔ آرام کرو آرام ۔۔۔اور ہاں ! یہ کھلے بال اچھے لگتے ہیں تم پر ماشاءاللہ ۔۔۔ یہ کیا کہ ہر وقت انہیں باندھ کر سر پہ دوپٹہ جما لیتی ہو۔۔۔
ابھی شاید وہ نازش کو ٹکٹکی باندھے مذید کچھ کہتے لیکن عمیر نے بات کاٹ کر کہا
“ جاؤ نازش ! اب اپنے کمرے میں آرام کرلو ۔۔۔ آپا کو بھی ساتھ لے جاؤ ۔۔۔ میں بھی تھک گیا ہوں بچوں کے ساتھ ذرا کھیل کر انہیں بھی سلاتا ہوں۔۔۔آپا! مونا اور کاشان کو یہیں رہنے دینا زوبی کے ساتھ کچھ دیر کھیل لیں پھر میں ان تینوں کے ساتھ ہی سو جاؤں گا۔۔۔ تم چاہو تو نازش کے کمرے میں اس کے ساتھ ہی سوجاؤ ۔۔۔ امی کے یہاں ویسے بھی تم ہمیشہ ٹھہرتی ہو ۔۔۔ آج بھائی کے گھر رُک جاؤ”
میں عمیر ک بدلتا ہوا ناگوار موڈ دیکھ کر اور اس کی باتوں سے سمجھ گئی کہ اب وہ اشارہ کر رہا ہے کہ میں اور اس کے ابو اپنے فلیٹ میں نیچے جاکر آرام کریں۔ لیکن نائمہ نے بھائی کی ان سنی کرتے ہوئے غصے سے اپنے باپ کی طرف دیکھا اور بولی
“ ابو ! آپ کا مسئلہ کیا ہے؟ آپ کی نظر اب گھر کی بہو بیٹیوں پر بھی اسی انداز میں پڑنے لگی ہے جس انداز میں آپ بازار و محفل میں دوسری عورتوں کو دیکھتے ہیں؟ ۔۔۔ کچھ تو شرم کیجئے نانا اور دادا بن چکے ہیں آپ ! ۔۔۔ مجھے سب کے سامنے آپ کو یوں کہنا اچھا نہیں لگ رہا مگر آپ خود اپنی عمر ، رتبے اور رشتوں کا ہی لحاظ کر لیں ذرا ۔۔۔ نازش بہو ہے آپ کی ۔۔۔ سسر باپ کی طرح ہوتا ہے ۔۔۔ کیا آپ کو یہ سب اس سے بولنا زیب دیتا ہے ۔۔۔اور آپ کو کچھ احساس ہے کہ پچھلے دنوں میری نند کی شادی پہ آپ نے جو ناچ گانا کیا ہے نا اس پر میرا کتنا مذاق بنا ہے ؟ ۔۔ بیٹی کے سسرال میں اس کی عزت کا کچھ احساس ہے آپ کو ؟ اور تو اور آپ نے میری سسرال کی عورتوں میں بیٹھ کر جو اپنی عزت افزائی کی ہے نا وہ ہم سب کو شرمندہ کرنے کے لیے کافی ہے۔۔۔۔ آپ جیسے مردوں کو ۔۔۔
شکیل احمد نے بیٹی کی بات کاٹتے ہوئے چلا کر کہا
“ کیا بد تمیزی ہے یہ ۔۔۔ باپ سے بات کرنے کی تمیز نہیں ہے ۔۔۔ یہی تربیت کی ہے تمہاری ماں نے ؟
اچانک ہنستا کھیلتا ہوا سارا ماحول سنجیدہ اور ناگوار ہوگیا۔ عمیر بچوں کا ہاتھ پکڑتے ہوئے انہیں دوسرے کمرے میں لے جانے لگا۔ بچے سہم سے گئے تھے۔ ہماری بہو نازش کی ہاتھ میں بھی چائے کی ٹرے میں کپکپاہٹ نے ایک ہلکا شور سا پیدا کردیا تھا۔ میں نے نائمہ کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور گھبراتے ہوئے اپنے شوہر سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا
“ چلیں چھوڑیں سب باتوں کو ۔۔۔ غصہ نہ کریں یوں ۔۔۔طبیعت خراب ہوجائے گی آپ کی “
“ طبیعت جائے بھاڑ میں ۔۔۔۔ تم لوگ تو چاہتے ہی یہی ہو کہ وقت سے پہلے ہی مر جاؤں۔۔۔اور تمہارے سسرال کی عورتوں میں کیا سرخاب کے پر لگے ہیں ؟ میں نے ذرا ہلہ گلہ اُن سب کے کہنے پر کر لیا تو تمہاری ساس اور شوہر کو کیوں پتنگے لگ گئے ؟ ایک تو تم لوگوں کی تقریب کامیاب بنائی اوپر سے تم مجھے یہ اوّل فُول بک رہی ہو “
شکیل صاحب نے مجھے گھور کر دیکھنے کے بعد بیٹی کو لتاڑا۔ ادھر نازش نے جلدی سے ٹرے میز پر رکھی اور کمرے سے نکل گئی۔ میں بھی اب وہاں سے جانا چاہ رہی تھی لیکن اب دونوں باپ بیٹی میں ٹھن چکی تھی۔ نائمہ انہیں ماضی اور حال کی وہ وہ باتیں یاد دلا رہی تھی کہ جس کی وجہ سے چھوٹابھائی شہیر پردیس سدھار گیا اور عمیر نے اپنا گھر شادی کے بعد الگ کر لیا۔ لیکن شکیل صاحب اُن باتوں کی ان سنی کرتے ہوئے مجھ سمیت تمام بچوں پر اپنی لعنت ملامت کے تیر چلا رہے تھے۔ میں گنگ ہوکر دونوں باپ بیٹی کی اس نفرت آمیز گفتگو کو سننے پر مجبور تھی۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا۔ اس سے قبل بھی عمیر اپنے باپ کے ساتھ اُس وقت اُلجھا تھا جب وہ اس کی ضد پر نازش کو دیکھنے پہلی بار اس کے گھر گئے تھے اور وہاں نازش کی بہنوں اور امی کے ساتھ کچھ غیر شائستہ گفتگو کی تھی جس پر نازش کی امی عمیر اور نازش کے رشتے کے لیے تیار نہیں ہورہی تھیں۔ بڑی مشکل سے میں نے اور عمیر نے بگڑتی بات کو سنبھالا تھا اور نازش کو اس کے گھر والوں کی جانب سے صرف اس شرط پہ بہو بنا کر لائے تھے کہ وہ الگ گھر میں رہے گی۔ لیکن اس کے باوجود شکیل احمد بہو کو جس نظر سے دیکھتے تھے اس کی چبھن نازش سمیت عمیر اور مجھ پر عیاں تھی۔ یہی وجہ تھی کہ عمیر نے اپنی غیر موجودگی میں نازش کو ہمارے یہاں یعنی صرف ایک ننچلی منزل پر بھیجنے کے لیے پابندی عائد کر رکھی تھی۔ باپ اور بیٹی میں طنز و غصے بھر جملوں کا تبادلہ تیز آواز میں جاری تھا میں نائمہ کو روکنے کی کوشش کررہی تھی لیکن وہ تو غصے اور جزبات سے بھری بیٹھی تھی۔ اُس نے باپ کو خوب رکھ رکھ کر سنائیں، شکیل صاحب کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ نائمہ کو تھپڑ ہی لگا دیں اور خاموش کروا دیں ۔ میں سر پکڑے یہ تماشا دیکھ رہی تھی ۔ بچے الگ حیرت اور خوف سے عمیر سے لپٹ گئے تھے۔ نازش بھی دوسرے کمرے میں یہ شور سن کر پریشان تھی۔ پھر وہی ہوا جو اس سے قبل بھی اکثر ہوا ہے۔ عمیر نے چلا کر اپنے باپ سے کہا ۔
“ نکل جائیں میرے گھر سے آپ ۔۔۔ مجھے ایسے ٹھرکی اور بے ہودہ باپ کی ضرورت نہیں ہے جو ہم سب کے لیے شرمندگی کا باعث ہو “ شکیل احمد نے بھی جواباً بیٹے کو برا بھلا کہا اور اُٹھ کر دروازے کی جانب چل دیئے ۔ میں نے بیٹی اور بیٹے کی جانب روہانسی ہوکر دیکھا اور تقریباً بھاگتی ہوئی شکیل احمد کے پیچھے پیچھے فلیٹ کی سیڑھیاں اُترنے لگی۔ شکیل احمد اپنے فلیٹ کا لاک کھول کر اندر جارہے تھے مجھے دیکھا تو ایک بار پھر لعنت ملامت کی اور غصے میں مجھے دھتکارنے لگے۔ میں خاموشی سے کسی مجرم کی طرح اُن کے پیچھے فلیٹ کے اندر آگئی۔ دروازہ بند کرکے سیدھے باورچی خانے میں گئی اور فرج سے ٹھنڈے پانی کی بوتل نکال کر اور پانی کا گلاس لیے کمرے میں آئی جہاں شکیل احمد بستر پہ آدھے لیٹے اور آدھے بیٹھے ہوئے اپنے غصے پر قابو پانے کی مشق اپنے دانت اور مٹھیاں بھینچ کر کر رہے تھے۔ میں نے پانی کا گلاس اُن کی جانب بڑھایا لیکن کوئی رد عمل نہیں ملا تو وہیں بستر کے کنارے سائیڈ ٹیبل پر گلاس رکھ کر کمرے سے باہر نکل آئی۔ چند سال قبل بھی چھوٹے بیٹے شہیر سے وہ کسی ایسی ہی بات پر اُلجھے تھے اور شہیر نے بھی لگ بھگ آج عمیر کی طرح ہی انہیں برا بھلا کہا تھا جس پر انہوں نے جواباً شہیر کو گھر چھوڑ دینے کا حکم دے دیا تھا۔ اُن کے حکم کی تعمیل میں شہیر نے بالکل دیر نہیں لگائی اور اپنے دوست کے یہاں چلا گیا جس کے بعد دل برداشتہ ہوکر اس نے شہر اور پھر ملک ہی چھوڑ دیا۔ میری ایک بیٹی صائمہ بھی میری بہن شہلا کی بہو بنی اور چند ماہ میں جدہ چلی گئی۔ شہلا اپنے بہنوئی کی حرکتوں کی وجہ سے میرے گھر کم ہی آتی تھی اور جب سے میری بیٹی کی ساس بنی ہے تو بہناپے سے زیادہ سمدھن ہونا اس پر غالب آگیا ہے۔ میں اپنے سارے رشتے چھوڑ کر شکیل احمد سے رشتے میں بندھی تھی۔ پتہ نہیں یہ مشرق کی مٹی کا اثر ہے یا یہاں کے پانی میں کوئی جادو کہ مشرق کی بیٹی اپنی روایات اور رسموں کی پابند ہوکر شوہر کو ہی خاندان کا ستون سمجھتی ہے۔ اپنی اولاد کی محبت اور قربت تک شوہر کے ساتھ کے لیے وار دیتی ہے ۔ ایک خاندان کی تشکیل گھر کے مرد سر براہ کے بغیر مکمل ہی نہیں سمجھتی ۔ چاہے وہ سربراہ شوہر بن کر اس کی عزت نفس کچل کر رکھ دے یا اس کے سر کو معاشرے میں شرم سے جھکا دے لیکن وہ اسے اپنے سر کا تاج ہی مانتی ہے اور اس سے علیحدہ ہونا خود کو اپنی زندگی سے الگ ہونا گردانتی ہے۔ یہی خاندانی عورت شوہر کے ہر عیب پہ پردہ ڈال کر اور اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لیتی ہے ، کانوں میں سیسہ گھول کر ڈال دیتی ہے یا ہونٹ سی کر خاموش رہتی ہے مگر ہر صورت میں اس شوہرکے ساتھ ہی رہنا چاہتی ہے۔
مجھ یاد ہے شہیر کے گھر اور پھر ملک چھوڑنے کے بعد شکیل احمد کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔ میں اس وقت بھی ڈر رہی تھی کہ اُن کی طبیعت نہ بگڑے ۔ دن رات جائے نماز پر اُن کی صحت و سلامتی کی دعا کرتی تھی اور وہ بستر پہ لیٹے لیٹے اپنے دل کا حال فون پہ شہر بھر کی جاننے والی خواتین کو سناتے رہتے۔ میرے وجود کا احساس انہیں اُس وقت ہوتا جب کھانے پینے اور دوا لینے جیسی کوئی حاجت ہوتی ۔ میں اکثر سوچا کرتی تھی کہ مائیں اپنے بیٹوں کی دن رات نظر اُتار کر اور اُن کی خوبصورتی کے گن گا کر انہیں ایسا خود پسند بنا دیتی ہیں یا یہ وصف انہیں ورثے میں ودیعت ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ورثے میں ملتے تو شاید شہیر اور عمیر بھی ایسے ہی ہوتے لیکن وہ اپنے باپ سے بالکل مختلف تھے۔ تعلیم اور میری تربیت نے انہیں بہترین انسان بنایا ہو یا نہیں لیکن باپ کی ان خجالت آمیز حرکتوں کو بچپن سے دیکھ کر ان میں یہ احساس ضرور بیدار کردیا تھا کہ انسان کا سماجی رویہ ہی اس کی عزت قائم کرتا ہے اور اس رویئے کی تعمیر میں مرد کو عورت کا احترام کرنا اور اپنا احترام کروانا سب سے اہم ہے۔
میں نے کچھ دیر بعد کمرے میں جھانک کر دیکھا ۔ وہاں شکیل احمد قریشی بدستور اپنے میں بستر پہ آڑھے ترچھے لیٹے ہوئے تھے اور پانی کا گلاس میز پر آدھا خالی رکھا ہوا تھا۔ مجھے اطمنان ہوا کہ انہوں نے ٹھنڈا پانی پی لیا ہے تو غصہ بھی ذرا ٹھنڈا ہوا ہوگا۔ میں ہچکچاتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئی اور جب اُن کی نظر مجھ پر پڑی تو اُن کا غصہ دوبارہ اُن کی زبان سے اظہار بن کر برسنے لگا۔
“ دفع ہوجاؤ یہاں سے بد شکل عورت! تمہاری اولاد بھی تمہاری طرح بد تمیز و بد لحاظ ہے۔۔۔ نہ باپ کا کوئی احترام تم نے انہیں سکھایا ہے اور نہ خود کبھی مجھے کسی خاطر میں رکھا ہے۔۔۔ نکل جاؤ یہاں سے ۔۔۔ شکل نہیں دیکھنا چاہتا تمہاری۔۔۔
میں خاموشی سے مجرموں کی طرح کمرے سے نکل گئی اور دوسرے کمرے میں آکر ہمیشہ کی طرح اپنی قسمت پر رونے لگی۔ جب بھی کوئی ایسی صورتحال ہوتی تو مجھے خود پر ہی غصہ آتا کہ زندگی کا اتنا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود میں شکیل احمد کے دل میں نہ مقام بنا سکی اور نہ ہی اُن کی زندگی میں اپنے لیے کوئی عزت حاصل کر سکی۔ رشتہ نبھانے والی مشرقی روایت کو لے کر میں عمر بھر اُن سے خاموش محبت ہی کرتی رہی اور اُن کی دھتکار اور بے توجہی کواپنی خاموش ریاضت اور خدمت کرکے نہ جانے کیسے خود کو پتھر کا ایک بت بناتی چلی گئی جس پر اُن کے کسی بھی رویے کا اثر نہیں ہوتا۔مجھے اس بات کا احساس تھا کہ انہوں نے مجھے فرمانبردار اولاد کی شکل میں زندگی جینے کا مقصد دے دیا ہےلیکن میں یہ بھی جانتی تھی کہ انہوں نے اپنی ہی حرکتوں سے خود کو اپنے بچوں سے دور کر لیا ہے۔ اس عمر میں آکر اُن کے پاس اولاد کی محبت تو کُجا کوئی توجہ بھی ڈھنگ سے نہیں حاصل ہوئی ہے۔ وہ ساری عمر محنت کرنے کے بعد بھی اپنے انعام سے محروم ہیں۔ عمیر کا انہیں یوں بے عزت کرنا یا نائمہ کا یوں زبان درازی کرنا اُن کا اپنا بویا بیج تھا جس کی تلخ فصل وہ اس عمر ِ ناتواں میں کاٹ رہے تھے ۔ جب کہ یہی اولاد میرے لیے اتنی فکر مند رہتی کہ ہر مشکل پہ اپنی جان مجھ پر نثار کرنے کو تیار رہتی ۔میری ساری رات اسی تاسف میں گزر گئی کہ وہ دنیا کی ہر نعمت پانے کے باوجود خود کو وقت کے ساتھ تبدیل نہ کرسکے اور نہ ہی اپنے مزاج و طبیعت کے ٹھرکی پن کو قابو کر سکے۔ نہ جانے کیوں اس رات مجھے یہ احساس شدت سے کیوں ہورہا تھا کہ اس طویل ازدواجی سفر میں کہیں نہ کہیں مجھ سے بھی کچھ زیادتی ہوگئی ہے۔ شاید میں ہی اپنے شوہر کو نہ پہچان پائی ہوں ۔ مجھے اس سفر کے آغاز سے اب تک کا ہر دن کسی فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے چلتا محسوس ہورہا تھا ۔ میری شادی شدہ زندگی کے ابتدائی سفر میں ہی اطراف کے لوگوں کی سُن گُن نے دل میں اندیشے اور بے اعتباری کے بیج بو ڈالے تھے جس نے میری ازدواجی زندگی کو کبھی پھلنے پھولنے نہیں دیااور میرے اندر روایت میں جکڑی اور محرومی میں بندھی ایک عورت نے مجھے ہمیشہ شکیل احمد قریشی کے سامنے ایک بیوی اور اُن کے بچوں کی ماں بنا کر پیش کیا جب کہ اُن کے دل کا خلا بھرنے کے لیے انہیں ایک محبوبہ کی بھی ضرورت تھی یا صرف ایک ایسی عورت کی ضرورت جو اپنے فن تخلیق سے شادی کے بعد شکیل احمد جیسے محرومیت کے مارے شخص کو نیا جنم دے سکتی ۔۔۔لیکن اب بہت دیر ہوچکی تھی مجھے یہ رشتہ سمجھنے میں بھی اور انہیں یہ تعلق سمجھانے میں بھی۔۔۔ ان ہی گزرے لمحوں کو سوچتے سوچتے نہ جانے کب میری آنکھ لگ گئی ۔
جب فجر کی اذان کی آواز پر آنکھ کھلی تو میں نماز پڑھنے کی نیت سے اُٹھی اور وضو کرنے کے بعد کمرے سے نکل کر شکیل صاحب کے کمرے میں چپکے سےجھانکا تو میرا دل دھک سے رہ گیا۔ شکیل احمد قریشی بستر سے گر کر زمین پر بے سدھ اوندھے پڑے ہوئے تھے ۔ یہ منظر دیکھ کر میں دوڑتی ہوئی کمرے میں آئی اور چلا کر انہیں سہارے سے اُٹھانے کی کوشش کرنے لگی۔ اُن کی سانسیں اور نبض ہلکی ہلکی چل رہی تھیں ۔ میں نے بھاگ کر میز پر رکھا فون اُٹھایا اور عمیر کو جلدی نیچے آنے کو کہا اور دوبارہ شکیل صاحب کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر سہلانے لگی ۔ چند ہی لمحوں میں عمیر اور نائمہ بھاگتے ہوئے نیچے آگئے اُن کے پاس ہمارے فلیٹ کی ایکسٹرا چابی تھی ،گھر میں داخل ہوتے ہی عمیر نے باپ کو سہارا دے کر سیدھا کیا اور نائمہ نے فوری ایمبولینس کو فون کیا۔ میرے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے تھے۔ شکیل صاحب نے غنودگی کی حالت میں میرا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا۔ اُن کی آنکھیں نیم کھلی ہوئی تھیں ۔ انہوں نے میرا نام لے کر کہا
“ شبانہ ! سینے میں بہت درد ہورہا ہے ۔۔۔تم مجھے بچا لو ۔۔۔ مجھے بہت تکلیف ہورہی ہے”
میری آنکھوں سے آنسو جاری ہونے لگے۔ مجھے معلوم تھا کہ شکیل صاحب جب بھی اپنا غصہ دباتے ہیں تو وہ کسی درد کی صورت میں ہی باہر نکلتا ہے، میں اُن کے اس درد سے واقف بھی تھی اور درد کا علاج بھی کر دیتی تھی لیکن اس بار اُن کے اس انجانے درد کی دوا بہم پہنچانے کے لیے مجھے دیر ہوگئی تھی ۔شکیل احمد قریشی کی سانس کی رفتار کم ہورہی تھی، ایسا لگ رہا تھا کہ میری آغوش میں اُن کے درد میں بھی کمی آرہی ہے۔وہ بدستور میرا ہاتھ تھامے ہوئے ہلکے ہلکے میرا نام پکار رہے تھے ۔ چند ہی منٹ کے بعد مجھے لگا کہ باہر ہسپتال کی ایمبولینس کا سائرن تیز اور قریب آ رہا ہے۔ کچھ دیر میں دروازے پر گھنٹی بجی اور نائمہ کے دروازہ کھولتے ہی طبی عملہ اور ڈاکٹر تیزی سے کمرے میں داخل ہوئے۔ اس وقت شکیل احمد کی بند ہوتی ہوئی آنکھوں میں شوخی اور غصہ کہیں گم ہوچکا تھا۔ صرف ایک بیچارگی دکھائی دے رہی تھی۔ ڈاکٹر نے مجھے اُن سے الگ کرتے ہوئے اُن کی نبض چیک کی مجھے نائمہ ایک طرف لے گئی اور کچھ ہی دیر بعد ڈاکٹر نے بتایا کہ شکیل احمد قریشی دل کا دوسرا دورہ نہیں سہار پائے اور انتقال کر گئے ہیں۔ نائمہ اور عمیر خاموشی سے ایک طرف ہوگئے اُن دونوں کے چہرے پر اداسی اور پریشانی تھی نائمہ نے مجھے میرے بازوں سے تھامتے ہوئے خاموشی سے گلے لگا لیا۔ میرے آنسو میرے چہرے کو بھگو رہے تھے۔ پتہ نہیں یہ صدمہ وصال کے آنسو تھے یا شکیل احمد سے اعتراف محبت کےاحساس کو جگاتے آنسو تھے ۔ مگر اس وقت ساری زندگی کے گِلے شکوے اور کدورتیں ان آنسوؤں میں بہہ رہےتھے ۔میرے کانوں میں شکیل احمد کے آخری الفاظ گونج بار بار رہے تھے وہ اپنے درد کی دوا مجھ سے یہ کہتے ہوئے مانگ رہے تھے کہ
“ شبانہ !میرے سینے میں بہت درد ہورہا ہے ۔۔۔تم مجھے بچا لو ۔۔۔ مجھے بہت تکلیف ہورہی ہے”
میں اُس وقت شکیل احمد کا یہ درد مسلسل اپنے سینے میں محسوس کر رہی تھی ۔۔۔ نہ جانے یہ درد اپنے جیون ساتھی کے بچھڑنے کی تکلیف تھا یا کسی دل پھینک نے اس بار میرے دل پہ بھی کاری ضرب لگا دی تھی۔

Published inعالمی افسانہ فورمعشرت معین سیما

Comments are closed.