Skip to content

دلی پہنچنے میں کتنا وقت لگتا ہے؟

عالمی افسانہ میلہ 2021

تیسری نشست

افسانہ نمبر 57

دلی پہنچنے میں کتنا وقت لگتا ہے؟

اقبال حسن خان

اسلام آباد پاکستان

سب اُنہیں دادا کہتے تھے تو میں بھی کہنے لگا حالانکہ میری اور اُن کی عمریں ایسی نہیں تھیں کہ میں اس رشتے سے پکارتا۔

صحت بہت اچھی تھی اور شاید اس کی ایک وجہ صبح کی سیر بھی رہی ہوگی کیونکہ میری اور اُن کی دوستی کا یہی سبب بنا تھا۔ چار

بیٹے تھے، جن میں سے تین باہر کے ملکوں میں تھے اور خاصے خوشحال۔چوتھا اور سب سے چھوٹا شکیل تھا جو اُن کے ساتھ رہتا تھا۔

میں نے ایک دن کہیں کہہ دیا کہ آپ جس بیٹے کے ساتھ رہتے ہیں، وہ سب سے چھوٹا ہے نا۔ ارے صاحب وہ تو ہتھے سے اُکھڑ گئے ۔ بولے،، کیا مطلب میں

اپنے بیٹے کے ساتھ رہتا ہوں؟ وہ میرے ساتھ رہتا ہے،،۔ میں نے شرمندہ ہو کر وضاحت کرنے کی کوشش کی ،، وہ دادا۔اصل میں۔۔۔۔،، اُنہوں نے میری بات

کاٹ دی اور اس دفعہ مسکرا کر بولے ،یار عجب دستور ہے دنیا کا۔ اولاد چھوٹی ہوتی ہے تو والدین کے ساتھ رہتی ہے اور جب جوان ہو جاتی ہے تو

والدین اس کے ساتھ رہنے لگتے ہیں، مگر خیر—ہاں تو میں پوچھ رہا تھا کہ لاہور سے اگر سڑک کے رستے سے جائیں تو دلی کتنی دیر میں پہنچ

جائیں گے؟

یہ تذکرہ ہمارے درمیان کوئی تین برس سے ہوتا تھا۔میں جب گھر سے نکل کر اُن کے گھر تک پہنچتا تو پہلے ہی سے ہاتھ میں چھڑی لیے مختصر سے لان

میں کھڑے ملتے۔دعا سلام کے بعد ہم خاموشی سے چلنے لگتے۔کبھی کبھی تو اُس باغ تک خاموشی رہتی جو ہمارے گھروں سے کوئی ڈیڑھ دو کلومیٹر دُور تھا اور

جس میں ہم ہر صبح سیر کرتے ہوئے لمبے لمبے سانس لیتے تھے۔

تھک کر ہم دونوں گھروں کو روانگی سے پہلے پتھر کی بنچ پر دس پندہ منٹ ضرور بیٹھتے اور یہی وہ وقت ہوتا جب وہ دلی اور لاہور

کے درمیان کار سے جانے کے وقت کا تعین کرنے کی کوشش کرتے۔۔

،،دیکھو میاں ہمارے گھر سے واہگہ تک ایک گھنٹہ سمجھ لو۔لاہور سے دلی کوئی آٹھ گھنٹے لگتے ہیں۔پچھلے سال میرے چچا زاد کا منجھلا لڑکا چھمن آیا تھا

تو یہی بتا رہا تھا۔ یعنی اگر ہم صبح پانچ بجے نکلیں تو چار بجے تک دلی پہنچ سکتے ہیں۔ ہمارے گاؤں پہلے دلی سے کوئی تین گھنٹے دُور تھا مگر سنا ہے اب سالوں نے

اچھی سڑک بنا دی ہے تو گھنٹے گھر کا رستہ رہ گیا ہے۔ مطلب صبح کا ناشتہ لاہور میں اور شام کی چائے دلی میں۔ ایسا ہی ہے نا؟

شاید ایسا ہی ہو سکتا تھا مگر اس میں بڑی قباحتیں تھیں۔اول تو ویزے کا مسئلہ تھا اور دوسرے یہ کوئی یورپی یونین کے ملک تو تھے نہیں اور نہ ہی کینیڈا اور امریکہ

والا معاملہ تھا کہ کار لی اور پھٹ سے ہندوستان سے پاکستان یا وہاں سے یہاں آئے اور گئے۔میں نے دبی زبان میں کتنی ہی مرتبہ اُنہیں یہ بتانے کی کوشش کی مگر وہ

یہ کہہ کر ناراضی کا اظہار کرتے تھے کہ اس موضوع پر بات کرنے میں کیا ہرج ہے اور کیا بعید کبھی سالے لڑنا وڑنا چھوڑ کے اس پر آمادہ ہی ہو جائیں؟

میں کہتا دادا میں جانتا ہوں اپنی جنم بھومی کو انسان کبھی نہیں بھولتا اور آپ کو اپنا وہ گاؤں یاد آنے لگا ہے جس سے آپ نوجوانی میں جدا ہو گئے تھے۔ کار وار تو بھول جائیے، ریل سے چلے جائیے

یا پھرجہاز سے۔ ویزے کا ذمہ میں لیتا ہوں۔میری چچا زاد وہاں آج کل کسی عہدے پر ہیں۔سفارتخانے والے دو منٹ میں ہندوستانی محکمے سے ویزہ لگوا سکتے ہیں۔،،

ایک مرتبہ جب یہ بات میں نے چوتھی مرتبہ کہی تو چند لمحوں تک اثبات میں سر ہلاتے رہے پھر طویل سانس لے کے بولے،،

ہاں یہ بھی ہو سکتا ہے مگر یار میں جب بھی ہندوستان جاؤں گا، کار ہی میں جاؤں گا،،

شاید میرے چہرے پر ناگواری کے تاثرات دیکھے تو مسکرا کر بولے۔

میں اٹھارہ برس کا تھا جب پاکستان بنا۔میٹرک میں تھا۔وہاں ہندو لڑکے کہتے تھے ابے اب پاکستان بن گیا ہے تو تم یہاں کیا کر رہے ہو۔

جاتے کیوں نہیں؟ ابا نے ہندوستان کے لیے اوپٹ کیا تھا تو وہ بھی دفتر میں ایسی باتیں سنتے تھے۔دو بھائی مجھ سے چھوٹے تھے۔بہن ہمارے کوئی

تھی نہیں۔طے ہوا کہ پہلے مجھے پاکستان بھجوایا جائے تاکہ میں حالات دیکھ سکوں۔یہاں ہماری ایک پھپھو رہتی تھیں۔اُن کے میاں ریلوے میں انجینئر تھے اور وہ لوگ

پاکستان بننے سے کوئی چار سال پہلے ہی سے یہاں تھے۔خیر میں آ گیا مگر پھپھو نے مجھ سے کوئی اچھا سلوک نہیں کیا۔مانو اُنہیں مفت کا نوکر مل گیا تھا۔مجھے یہ دیکھ کر

بڑی تکلیف ہوئی۔ خیر، اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ مجھے ریلوے میں کلرکی مل گئی۔ اُس وقت تک انگریز یہاں دفتروں میں کام کرتے تھے۔ ایک گورا مجھ پہ مہربان ہو

گیا اور دو سال میں ہی میری ترقی بھی ہو گئی۔میں الگ مکان لے کر رہنے لگا۔ اُدھر جب ابا نے پاکستان کا قصد کیا تو ہمارے ساتوں ماموں اڑ گئے کہ ہم تو اپنی بہن

کو نہیں جانے دیں گے۔دو ایک سال یہ جھگڑا چلا اور نتیجہ یہ نکلا کہ ابا نے آنے کا ارادہ ہی چھوڑ دیا۔

یوں سمجھو کہ میں تن تنہا پاکستان میں تھا اور کنبہ ہندوستان میں۔اس دوران والدین دو ایک مرتبہ ملنے آئے۔لگتا تھا کہ وہ ہنگامہ خیزی کے واقعات سے نکل

گئے تھے اور وہاں مطمئن تھے۔تیس برس کی عمر میں اماں نے ہندوستان سے ہی اپنے عزیزوں میں سے ایک لڑکی لا کر میری شادی کر دی۔میں قطعا نہیں

چاہتا تھا۔میں نے صاف انکار کر دیا مگر اماں بولیں،،۔

نیک بخت رضو کے انتقال کو تو نو برس ہو گئے۔ہم نے تجھ سے چھپایا تھا کہ تُو پردیس میں اکیلا ہے تکلیف ہوگی۔بس میرا بچہ اب منع مت کر۔رشیدہ بڑی اچھی

لڑکی ہے۔تُو خوش رہے گا اس کے ساتھ،،۔

دادا پھر اُفق کو تکنے لگے۔میں نے بے چینی سے پوچھا۔

،،دادا کون تھیں یہ رضو؟

طویل سانس لے کر بولے۔

،،ارے یار وہی تو ہمارا سب کچھ تھیں۔جس صبح میں پاکستان آ رہا تھا، چھتوں چھتوں ہوتی ہمارے چھت پہ آخری دفعہ ملنے آئی تھیں اور دو چوڑیاں اُتار کر مجھے

دیتے ہوئے بولی تھیں،،۔

،،جاؤ اللہ کی امان میں دیا۔اور دیکھوں جب بارات لے کر آؤ تو گھوڑے پہ مت آنا۔کار میں آنا۔بس یہ میری خواہش ہے،،۔

میں نے ہنس کر کیا،،۔ تو اس لیے آپ کار میں دلی جانا چاہتے ہیں؟ مگر وہ تو اب نہیں رہیں،،۔

طویل سانس لے کر بولے،،۔ ہاں نہیں رہیں۔ٹی بی ہو گئی تھیں اُنہیں۔میں نے بعد میں سنا کہ اُن کے گھر والے اُن کے مرنے سے

خوش تھے کیونکہ اُنہوں نے شادی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔اُن کا اور میرا قصہ صرف اماں کے علم میں تھا اور وہ بھی میں نے

پاکستان روانگی سے دو دن پہلے بتایا تھا۔خیر میاں، جائیں تو جب بھی کار پہ ہی جائیں گے۔اُن کے گھر نہ سہی، اُن کی قبر پہ سہی،،۔

مجھے اس محبت کرنے والے بوڑھے پہ بڑا پیار آیا۔میں نے اُسی رات اپنی چچا زاد کو دلی فون کیا اور پورا قصہ سنا کر

دادا کی خواہش پوری کرنے کی راہ ڈھونڈے کو کہا۔پہلے تو وہ ہنسیں پھر کہنے لگیں۔

،،کوئی مسئلہ نہیں ۔ میں اپنا چچا کہہ کر ویزہ لے دوں گی۔لاہور سے تو مشکل ہے لیکن واہگہ سے دلی تک بلکہ اُن کے گاؤں

تک کار میں پہنچانا میرا ذمہ،،۔

میں نے اگلی صبح یہ خبر دادا کو دی تو مانو بس نہیں چلتا تھا کہ مجھے سر عام گلے لگا لگا کر ادھ موا کر دیتے۔

اب لاہور اور دلی کے درمیان کے فاصلے پر وہ پہلے سے زیادہ گرم جوشی سے گفتگو کررہے تھے۔

،،یار بچی سے پوچھ لیتے کہ واہگہ سے دلی تک کتنی دیر لگتی ہے؟خیر آٹھ ہی گھنٹے لگتے ہوں گے۔تو بھئ کب چلنا ہے اسلام آباد؟

میں رات دیر تک دادا کے بارے میں سوچتا رہا۔ایک مکمل گھریلو اور ذمہ دار باپ اور شوہر ہونے کے باوجود ، اڑسٹھ برس کرنے کے باوجود

وہ کسی ایسی رضو کی محبت کا دیا دل میں ابھی تک جلائے ہوئے تھے جو چھتوں چھتوں ہوتی اُن سے ملنے آتی تھیں اور جنہوں اپنی بارات

کار میں لانے کو کہا تھااور جو اب دنیا میں نہیں تھیں تو دادا اُن کی خواہش کے احترام میں اُن کی قبر پر سہی، کار میں حاضری دینا چاہتے تھے۔

میں انہی خیالوں میں سو گیا۔

صبح حسب معمول اُن کے گھر کا رخ کیا۔اُن کے گھر کے سامنے چند لوگ جمع تھے۔ایک امبولنس بھی کھڑی تھی۔میں تیزی سے قریب پہنچا۔وہ دادا کی میت

امبولنس سے اُتار کر گھر میں لے جا رہے تھے۔اُن کا چھوٹا بیٹا مجھے جانتا تھا۔قریب آیا اور میرے گلے لگ کر رونے لگا،،۔ڈیڑھ بجے ابا کی طبیعت خراب

ہوئی، ہم فورا ہی ہسپتال لے گئے مگر وہ بچے نہیں،،۔میں نے لڑکے کو رسمی تسلی دی اور جنازے کا وقت پوچھا۔مجھ سے وہاں رکا نہیں گیا اور

میں باغ میں چلا گیا۔معمول کی سیر کی اور جب پتھر کی بنچ پر بیٹھا تو لگا دادا میرے برابر ہی میں بیٹھے کہہ رہے ہوں،،

دیکھو یار واہگہ سے اگر نو بجے بھی نکلیں تو دلی زیادہ سے زیادہ آٹھ گھنٹے۔۔

Published inاقبال حسن خانعالمی افسانہ فورم

Be First to Comment

Leave a Reply