عالمی افسانہ میلہ 2015
افسانہ نمبر 27
دسمبر کی آخری رات
قاضی طاہر حیدر ، میری لینڈ ، امریکہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چاروں طرف بکھرے عالیشان گھر، گہری دھند میں لپٹے ہوئے بھیانک عفریتوں کی مانند، چپ چاپ کھڑے جیسے انتہائی رازداری سے اپنے آپ کو دیکھنے والی نظروں سے اوجھل رکھنے میں دھند کا پورا پورا ساتھ دے رہے تھے۔ کھڑکی کے شیشوں پر اوس کے قطرے پھسل رہے تھے اور ان کی وجہ سے باہر ٹیرس پر جلنے والے طاقتور بلب کی روشنی کے باوجود بھی ایک انچ کی دوری پر پڑے گملے میں لگے پودے تک کو دیکھنا ناممکن ہو رہا تھا۔ ٹیرس سے پرے تو خیر پوری طرح دھند کا راج تھا جس نے ہر شے پر دبیز پردہ تان رکھا تھا۔ فلک کمرے کے وسط میں رکھی آرام کرسی پر بیٹھی ٹیرس کی طرف کھلنے والی کھڑکی کے شیشوں پر پھسلتے اوس کے قطروں کا نظارہ کرنے میں مگن تھی۔ فلک کو چند ساعتوں کے لیے بننے اور پھر بکھر جانے والے ان قطروں کا تسلسل بہت بھلا لگ رہا تھا۔ وہ لاشعوری طور پر اپنی توجہ ان کی جانب مرکوز کرتے ہوئے کمرے کے بند دروازے کے پیچھے سے آنے والی موسیقی کی اُن تیز آوازوں کو نظر انداز کرنے کی کوشش کر رہی تھی جو اس کے حواس کو مسلسل منتشر کرنے کا سبب بن رہی تھیں۔ نچلی منزل کے وسیع و عریض سٹنگ روم میں ناچ گانے کی محفل پورے عروج پر تھی اور ابھی اس کے تھمنے کا کوئی امکان بھی نہیں تھا۔ کیونکہ نہ تو ابھی گھڑی نے بارہ بجائے تھے اور نہ ہی ناچنے والی طوائفوں کے تھِرکتے بدنوں پر برسنے والے نوٹوں کی برسات تھمی تھی۔ کھڑکی کے باہر پھیلے مہیب سناٹے اور دروازے کی دوسری طرف سے آنے والے شور میں بہت تضاد تھا۔ یہی تضاد کمرے کے نیم گرم ماحول اور باہر پھیلی یخ بستگی میں بھی موجود تھا۔ فلک نے گہری سانس کھینچتے ہوئے کمرے کی گرم اور آسودہ ہوا کو اپنے بدن میں سفر کرتے ہوئے محسوس کیا۔ یہ آسودگی اسے کچھ بھلی نہ لگی کیونکہ یہ اس کی ذہنی حالت سے ہم آہنگی نہیں رکھتی تھی۔ اُسے محسوس ہوا جیسے کمرے میں چلنے والے طاقتور ہیٹر کی تپش سے اس کا بدن اور روح دونوں چٹخنے لگے ہوں۔ شدید تکلیف کے اس اچانک احساس نے اسے پوری طرح جھنجھوڑ ڈالا اور وہ فوراً آرام کرسی چھوڑ کر اُٹھ کھڑی ہوئی۔ تیزی سے قدم اُٹھاتے ہوئے وہ ٹیرس کی طرف کھلنے والے دروازے تک آئی اور ایک لمحہ تاخیر کئے بغیر اس نے چٹخنی گراتے ہوئے دروازہ کھول دیا۔ بدن منجمد کر دینے والی نم ہوا کا جھونکا اس کے بدن سے ٹکرایا تو اسے کسی قدر سکون محسوس ہوا۔اُس نے چند قدم مزید بڑھائے اور ٹیرس کے آخری سرے تک آ گئی۔ جس سے آگے گہری دھند کی قلمرو شروع ہو جاتی تھی۔ فلک نے اپنی کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی کو دیکھا جو گیارہ بجے کا وقت دکھا رہی تھی۔
’’ پرانے اور نئے سال کے بیچ میں ابھی ایک گھنٹے کا فاصلہ باقی ہے۔‘‘
اُس نے خود کلامی کے انداز میں کہا اور پھر اُسے اپنے اِس انداز پر بے اختیار ہنسی آ گئی۔ ایک لمحے کے لئے فلک کو ایسا لگا تھا جیسے وہ کسی اور ہی دنیا میں چلی آئی ہو جہاں پر اس کا داخلہ ممنوع ہے اور جہاں نئے اور پرانے سال کا حساب رکھا جاتا ہے۔ وہ تو اُس دنیا کی باسی تھی جہاں ہر سال ایک جیسا ہوتا ہے، ہر مہینہ ایک جیسا ہوتا ہے جس میں صرف ماہواری کے سات دن تعطیل ہوتی ہے۔ فلک نے اپنے ہونٹوں پر تلخ مسکراہٹ سجاتے ہوئے زور سے ٹیرس سے نیچے تھوکا۔ اس وقت اُسے یہ حیران کن احساس بھی ہوا کہ اگر اس گھڑی اُس کے سامنے اُس کا کوئی گاہک ہوتا تو وہ اُس کے منہ پر بھی تھوک دیتی۔ چاہے وہ کتنا ہی بڑا امیر زادہ یا افسر کیوں نہ ہوتا۔ فلک نے فوراً ہی اپنے آپ پر قابو پا لیا کیونکہ اس قسم کا خیال اُس کے پیشے کے لیے نہایت تباہ کن ثابت ہو سکتا تھا۔ وہ کوئی گھٹیا قسم کی پیشہ کرنے والی نہیں تھی جس کے گاہک گلی کے غنڈے یا اُوباش قسم کے غیر سنجیدہ نوجوان ہوتے ہیں۔ وہ تو ایک ہائی سوسائٹی کال گرل تھی جسے اونچے طبقے کے باوقار لوگ ہی اپنی دل بستگی کے لیے نہایت اونچے دام چکا کر بلواتے ہیں اور ایسے لوگ صرف مہذب اور بااخلاق لڑکیوں کو ہی اپنی شاندار خواب گاہوں کی رونق بنانا پسند کرتے ہیں۔ یہ شعوری سطح تہذیب و اخلاقیات سے کتنی ہی بعید کیوں نہ ہو، بہرحال یہ فلک کے پیشے کا سوال تھا!!! فلک کو ایک بار پھر شدید ہنسی کا دورہ پڑا جس کا دورانیہ بہت طویل ثابت ہوا۔ ایسے دوہرے معیاروں سے اُسے آئے روز واسطہ پڑتا رہتا تھا اور اصولاً اُسے ان کا عادی ہو جانا چاہیے تھا۔ لیکن ہزار کوششوں کے باوجود بھی وہ اپنے اندر موجود اس طاقتور وجود کو شکست نہیں دے سکی تھی جو ایسے کسی بھی مرحلے پر اس کے شعور کو بری طرح جھنجوڑنا شروع کر دیتا۔ یہ وجود کہیں باہر سے نہیں آیا تھا بلکہ اس کی ذات کا ہی ایک حصہ تھا۔ جو گزرے ماہ و سال میں اس کے اندر ایک علیحدہ اور منفرد حیثیت اختیار کر گیا تھا۔ لمحہ بہ لمحہ پیش آنے والے اچھے بُرے حالات واقعات میں پوشیدہ تضادات نے اس وجود کے لیے خوراک کا کام کیا تھا اور اسے پال پوس کر اتنا توانا بنا دیا تھا کہ ہر قدم پر یہ فلک کی ذات میں پوشیدہ حالات کے رنگ میں رنگے ہوئے اپنے مخالف وجود کو شکست دینے کے درپے رہتا۔
فلک اس سے بری طرح چڑتی تھی لیکن اُس کے دل کے کسی دور اُفتادہ گوشے میں اس وجود کے لیے محبت کے جذبات بھی موجود تھے۔ کیونکہ اسی کی بدولت وہ اپنے گزشتہ کل سے رابطہ استوار رکھے ہوئے تھی۔ اسی وجود کی بدولت وہ آج بھی اُس خالص محبت کی یادوں کو زندہ رکھے ہوئے تھی جس کے بغیر اُس کی زندگی ایک خالی ٹین کے کنستر جیسی ہو کر رہ جاتی جو گھروں میں صرف کوڑا کرکٹ ڈالنے کی غرض سے رکھا جاتا ہے۔ محبت کا خیال آتے ہیں فلک کے ذہن میں سرمد کا خاکہ اُبھر آیا۔ گول چہرے والا خوبصورت ، گورا چٹا اور ہنس مکھ نوجوان جس کی باتوں سے فلک اپنی زندگی کے تانے بانے بنتی تھی۔ جس کے محبت بھرے لمس سے فلک کے بدن کی تمام تر حرارت قائم تھی۔ سرمد کے جانے کے بعد فلک کو ایسا لگتا تھا جیسے اس کے جسم کی حرارت بھی غائب ہو گئی ہو اور وہ ایک ایسے تنور کی مانند ہو کر رہ گئی ہے جس کا سارا ایندھن جل چکا ہو۔ اُسے لگتا تھا جیسے اُس کے گاہک اُس کے جسم سے جو حرارت کشید کرتے ہیں وہ محض اس جل چکے ایندھن کی راکھ میں پوشیدہ چنگاریوں کی تپش ہے جس میں اب کوئی پیداواری صلاحیت باقی نہیں رہی۔ اُسے ان احمق گاہکوں پر ہنسی آتی جو اس گھاٹے کے سودے میں بھی آسودگی تلاش کرنے میں مگن رہتے۔ اگر انہوں نے اُسے اس ذلیل پیشے سے منسلک ہونے سے قبل ایک بار دیکھا ہوتا تو شائد انہیں آسودگی کے اصل مفہوم کا ادراک ہو سکتا۔ مگر اب تو محض آسودگی کا دھوکا ہی ان کے نصیب میں لکھا تھا جس کے لیے انہیں دام چکانے تھے۔
فلک کو محسوس ہوا جیسے اُس کی سوچیں ایک مرتبہ پھر گندگی میں بھٹکنے لگی ہیں۔ سرمد کی شبیہ کے ساتھ ان سوچوں کی کوئی مناسبت نہیں تھی۔ فلک نے اپنے شانوں پر اونی شال کو درست کیا اور کمرے کے اندر آ کر دروازہ بند کر دیا۔ وہ آرام کرسی پر بیٹھ کر سکون کے ساتھ اپنی گزشتہ زندگی کے سنہری ایام کو ورق بہ ورق پڑھنا چاہتی تھی۔ اُس نے ایک بار پھر اپنی گھڑی کی طرف دیکھا۔ ابھی مزید آدھا گھنٹہ وہ اپنی من پسند سوچوں کی دنیا میں بھٹک سکتی تھی۔ اس کے بعد وہ جانتی تھی کہ سٹنگ روم میں جاری ناچ گانے کی محفل ختم ہو جائے گی اور معزز مہمان و میزبان مختلف کمروں میں اُسی کی طرح انتظار کی گھڑیاں گنتی لڑکیوں کے بدنوں سے آسودگی کا دھوکا کھانے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں گے۔ سالِ نو کو خوش آمدید کہنے کا یہ انداز فلک کے لیے جانا پہچانا تھا اور اس کی ساری جزئیات اسے ازبر تھیں۔ پچھلے تین سالوں میں وہ ان آداب سے پوری طرح آشنا ہو چکی تھی اور یہ آشنائی اُس کے لیے قابلِ فخر ہر گز نہیں تھی۔ اس لیے وہ ان تین سالوں پر محیط تجربات کے بارے میں سوچنا نہیں چاہتی تھی۔ وہ تو ان تین سالوں کی خلیج کے پار موجود محبت کی اُس قلمرو کے ساحلوں پر لنگر ڈالنے کی متمنی تھی جہاں قدم قدم پر سرمد کی حسین یادو ں کے نقش موجود تھے۔ آرام کرسی پر ڈھیر ہوتے ہوئے اُس نے اپنی سوچوں کو بالکل آزاد چھوڑ دیا۔ وہ کسی بڑے گھرانے کی بیٹی نہیں تھی لیکن اسے زندگی میں کسی چیز کی کمی بھی محسوس نہیں ہوئی کیونکہ اُس کے والد نے اپنی قلیل آمدنی کے باوجود اپنے چھوٹے سے کنبے کی نہایت احسن انداز میں کفالت کی تھی۔ فلک کے دونوں بھائی اس سے عمر میں بڑے تھے لیکن فلک ہی اپنے ماں باپ کو سب سے پیاری تھی۔ یہ ایک فطری بات تھی کیونکہ فلک کے باپ کی کوئی بہن نہیں تھی اور اُس کی ماں کو بھی اُس کے بھائیوں سے کچھ زیادہ شفقت نصیب نہیں ہوئی تھی۔ فلک کا باپ روز افزوں بگڑتے حالات سے تنگ آ کر اپنے سارے خاندان کو چھوڑ کر کنڑول لائن کے اُس پار سے ہجرت کر کے اِس پار چلا آیا تھا تاکہ پرسکون زندگی گزارنے کے لیے کوئی بنیاد حاصل کر سکے۔ اسے یہاں پر کچھ مہاجر دوستوں کی مدد سے مہاجرین کے کوٹے میں سرکاری ملازمت اور ایک کوارٹر مل گیا جو اُس کے لیے زندگی کی اہم ترین کامیابی تھی۔ وہ ملازمت پر حاضر ہونے سے پہلے واپس جانا چاہتا تھا تا کہ اپنی منگیتر کو بیاہ کر اپنے ساتھ لا سکے جو وہیں اُس کے انتظار میں بیٹھی تھی۔ دوستوں سے قرض حاصل کر کے وہ واپس گیا اور انتہائی سادگی سے نکاح کر کے فلک کی ماں کو اپنے ساتھ لے آیا۔ اُس دن کے بعد اُس نے کبھی واپس اپنے خاندان والوں کے ساتھ رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی جنہیں وہاں پر سیاسی جوڑ توڑ کی بنا پر سرکاری ملازمتیں اور دیگر مراعات حاصل تھیں۔ فلک کی ماں نے بھی نہایت ثابت قدمی سے اپنے ماں باپ سے دور رہ کر اپنے شوہر کا ساتھ دیا او رایک خوش و خرم گھرانے کی تشکیل کے لیے کوشاں رہی۔ فلک کی پیدائش پر جیسے اُن کا گھر مکمل سا ہو گیا تھا اور اس دن فلک کا باپ خوشی سے پھولے نہیں سماتا تھا۔
فلک چونکہ ایک لاڈلی بچی تھی اس لیے بچپن سے ہی اُس کے ہر انداز میں ایک خاص طرح کی نزاکت رچ بس گئی تھی جس کی وجہ سے اُس کی شخصیت کی مقناطیسی دلکشی ہزار گنا بڑھ گئی۔ وہ زندگی کے ہر مرحلے پر محبتیں سمیٹتی رہی۔ بچپن ہی سے ہر کوئی اُس کی متاثر کن شخصیت کا گرویدہ تھا۔ سکول میں وہ ایک ہر دل عزیز طالبہ کی حیثیت رکھتی تھی جس سے اُس کی سہیلیاں اور اُستانیاں یکساں محبت کرتی تھیں۔ وہ کالج میں گئی تو شہر کے تمام منچلے اس کے حسن سے گھائل ہو کر کالج گیٹ کے باہر قطاروں کی شکل میں موجود رہنے لگے لیکن اُسے اِن دیوانوں کی نہ تو ضرورت تھی نہ ہی اُسے ان میں کوئی دلچسپی تھی۔ کیونکہ اُس کی زندگی میں حقیقی محبت کرنے والے ماں باپ کے علاوہ ایک اور شخصیت بھی موجود تھی جس کی تصویر بچپن سے ہی اُس کے دل و دماغ پر رفتہ رفتہ نقش ہونا شروع ہو گئی تھی اور اب یہ خاکہ اتنا گہرا ہو چکا تھا کہ اسے کسی بھی طرح کھرچ کر مٹانا ممکن ہی نہیں رہا تھا۔ بلا شبہ یہ سرمد ہی کا چہرہ تھا جو اُس کے حواس پر چھایا ہوا تھا۔ سرمد فلک کے باپ کے انتہائی گہرے دوست کا بیٹا تھا جو انہی کے محلے میں رہتے تھے۔ فلک بچپن ہی سے سرمد کے ساتھ کھیلی تھی اور وہ ایک دوسرے کی نظرو ں کے سامنے جوان ہوئے تھے یہی وجہ تھی کہ وہ ایک دوسرے کے دل کے انتہائی پوشیدہ کونوں کھدروں تک بھی رسائی رکھتے تھے۔ انہوں نے کئی مرتبے کھیل ہی کھیل میں اپنا گھر بسایا تھا اور اس گھر کو خوبصورت اور پاکیزہ جذبات سے آراستہ کیا تھا۔ کئی مرتبہ ایک دوسرے سے روٹھے تھے اور پھر راضی بھی ہو گئے تھے۔ وہ اک دوسرے کے رازدار تھے اور اپنے دل کی باتیں ایک دوسرے کو بتانا اپنا فرض شمار کرتے تھے۔ سرمد باقی ساری دنیا کے لیے ایک شرمیلا نوجوان تھا جس کے گال بات بے بات سرخ ہو جایا کرتے اور جس کی آنکھیں ادھر اُدھر دیکھنے سے جھجکتی تھیں جیسے وہ کوئی بیہودہ منظر دیکھنے جا رہا ہو۔ مگر فلک کے سامنے وہ انتہائی بے باک ہو جاتا جیسے وہ کوئی اور نہیں خود اُسی کی ذات کا حصہ ہو۔ فلک بھی اُس کے سامنے ایک کھلی کتاب کی طرح تھی جس کے دل و دماغ میں اُٹھنے والی ہر تحریک کے بارے میں وہ مکمل آگاہی رکھتا تھا۔ وہ جوان ہوئے تب بھی اُن دونوں کے درمیان وہ جھجک راہ نہ پا سکی جو مخالف جنس سے تعلق رکھنے والے دو جوان افراد میں ہوتی ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہوا کہ وہ دوسروں کی موجودگی میں زیادہ گھلنے ملنے سے احتراز برتنے لگے اور سرمد نے فلک کے گھر میں ہر وقت گھسے رہنا ترک کر دیا۔ وہ اب کبھی کبھار ہی فلک کے گھر جاتا اور جب اُسے اکیلا پاتا تب ہی وہ ایک دوسرے کو اپنی کار گزاریوں سے آگاہ کرتے جو انہوں نے گزشتہ دنوں میں کیں ہوتیں۔ وہ طویل منصوبے باندھنے کی بجائے روز مرہ کی چھوٹی چھوٹی باتوں میں زیادہ دلچسپی لیتے اور ایک دوسرے کے معمولات کے حوالے سے طویل گفتگو کرتے۔ سرمد نے کبھی فلک سے پیارکا اظہار نہیں کیا تھا اور نہ ہی کبھی فلک نے اس حوالے سے کوئی بات کی تھی کیونکہ دونوں میں ہی اس قسم کے تکلفات کے لیے کوئی گنجائش موجود نہیں تھی۔ دونوں بغیر کہے سنے ایک دوسرے کے دل کی دھڑکنوں میں چھپا پیغام بخوبی سن سکتے تھے اور اس پیغام کی سچائی پر دونوں کو یقین کامل تھا۔ بی۔اے کے فائنل امتحانات سے کچھ عرصہ پہلے سرمد کو اچانک ہی مذہبی سیاست سے دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔ اس کی وجہ سرمد کا ایک دوست تھا جو اسے ہر وقت اخلاقی انحطاط کے شکار معاشرے کی دن بدن بگڑتی صورتحال اور اسلامی انقلاب کی ضرورت پر لیکچر دیتا رہتا تھا۔ سرمد نے فلک کو اس بارے میں پوری تفصیل سے آگاہ کیا تھا لیکن فلک کے لیے یہ ایک چونکا دینے والی بات تھی کہ سرمد کے اندر ایک شدت پسند تیزی سے سر اُبھار رہا تھا اور اس کی فطری ملائمت ایک خاص قسم کی تند مزاجی میں ڈھلتی جا رہی تھی۔ اب جب بھی وہ فلک سے ملنے آتا زیادہ تر فلک کو اپنے دوست ابرار کے متعلق ہی بتاتا جو کسی مذہبی تنظیم کے کالج یونٹ کا ناظم اعلیٰ تھا۔ فلک کو اس کردار سے کچھ زیادہ دلچسپی نہ تھی لیکن پھر بھی سرمد کو خوش کرنے کے لیے سنتی رہتی۔ سرمد کی گفتگو کے تناظر میں فلک نے ابرار کی جو شبیہ اپنے دماغ میں بنائی تھی وہ اسے کچھ زیادہ متاثر نہیں کر سکی تھی۔ فلک کو ایسا لگا تھا جیسے مذہبی امور میں مکمل دسترس رکھنے کے باوجود بھی ابرار ایک ایسا تنگ دماغ انتہا پسند ہے جس کی وسعتِ قلب وہاں ختم ہو جاتی ہے جہاں سے عقل و دانش کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسے شخص کا خاکہ تھا جو اپنی کم علمی کو اپنی سچی داڑھی میں چھپانے کی ناکام سعی کر رہا ہو۔ فلک نے ان خیالات کو ہنسی مذاق میں سرمد تک بھی پہنچایا لیکن سرمد نے اسے یہ کہہ کر سختی سے روک دیا کہ کسی کی دین داری کا مذاق اُڑانا سراسر غیر شرعی فعل ہے۔ فلک کی پریشانی اس وقت زیادہ بڑھ گئی جب سرمد نے کشمیر کی آزادی اور جہاد کے متعلق بات کرنا شروع کی۔ فلک جانتی تھی کہ سرمد ایک ذہین نوجوان ہے اور ہر چیز کو ٹھوس عقلی بنیادوں پر تولنے کے بعد ہی کسی چیز کے بارے میں حتمی نتیجہ اخذ کرنے پر یقین رکھتا ہے لیکن اُسے محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ مذہب کے نام پر جذباتی بلیک میلنگ کا شکار ہو رہا ہے۔ فلک نے اکثر اپنے والد سے کنٹرول لائن کے اُس پار بسنے والے اپنے خاندان سے متعلق باتیں سنی تھیں جو وہاں خاص سیاسی اثر و رسوخ رکھتے تھے اور اعلیٰ حکومتی عہدوں پر تعینات تھے۔ فلک کے والد اکثر اُسے بتایا کرتے تھے کہ وہ لوگ مفاد پرستی کی اُس گہری کھائی میں گر چکے ہیں جہاں سے باہر نکلنا اب خود اُن کے بس میں بھی نہیں ہے۔
’’ میں کبھی اُس کھائی میں گرنا پسند نہیں کرتا تھا۔ اس لیے میں یہاں آ گیا۔ یہاں بھی مفاد پرستی برہنہ ناچ رہی ہے۔ لیکن مجھے یہ اطمینان ہے کہ کم از کم میں اس ننگے ناچ میں شامل نہیں ہوں۔ بیٹی معصوم لوگوں کی جانیں بہت قیمت رکھتی ہیں اور اس سے بھی زیادہ قیمت رکھتے ہیں لوگوں کے سادہ جذبات، جن کے ساتھ کھیل کر کچھ لوگوں نے اپنی شان و شوکت کے محل کھڑے کر رکھے ہیں۔ زندہ انسانوں کو جینے کی آزادی چاہیے، اپنے ملک میں اپنا راج چاہیے اور یہی بنیادی چیز ہے لیکن ہوتا یہ ہے کہ انہیں گمراہ کر دیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ اپنے مفادات کے لیے ان کے جذبات کی قیمت وصول کر لیتے ہیں۔ لوگ بیوقوف نہیں ہیں لیکن اپنے اعتقادات کے نام پر بلیک میل ہو جاتے ہیں اور کچھ میری طرح کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں۔ یہ دونوں راستے صحیح نہیں ہیں لیکن درست راستے کا انتخاب کرنے کے لیے بہت ہمت کی ضرورت ہے جو کم از کم مجھ میں نہیں تھی۔‘‘
فلک کو اپنے باپ کی بات یاد آتی تو وہ تڑپ کر رہ جاتی۔ اُسے لگتا تھا جیسے اُس کی نظروں کے سامنے سرمد کسی کے مفادات کی بھینٹ چڑھ جائے گا لیکن وہ کچھ نہیں کر سکتی تھی۔ سرمد پر تو جیسے ابرار نے ایک سخت خول سا چڑھا دیا تھا جسے توڑنا اب ممکن نہیں رہا تھا۔ فلک نے آخری کوشش کے طور پر سرمد کی فطری کمزوری کو نگاہ میں رکھتے ہوئے اُسے سنجیدہ دلائل کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ عقلی بنیادوں پر ساری صورتحال کا تجزیہ کرنے کے بعد وہ اسی نتیجے پر پہنچے گا کہ اندھا دھند بھڑکتی آگ میں کود پڑنا محض بے فائدہ جذباتیت ہو گی اور کچھ نہیں۔ لیکن فلک کی یہ کوشش بھی بے سود رہی کیونکہ سرمد نے اسے یہ کہہ کر خاموش کر دیا کہ وہ جانتا ہے کہ غلطی کہاں موجود ہے اور اس غلطی کو دور کرنے کے لیے اُسے اس آگ میں کودنا پڑے گا تاکہ مقصد کا حصول ممکن ہو سکے۔ فلک نے لاکھ سر پٹخا کہ وہ ایک غلط سسٹم کا حصہ بننے جا رہا ہے لیکن اُس کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔آخر کار بی۔ اے کی امتحانات کے بعد سرمد مجاہد کیمپ میں تربیت کے لیے چلا گیا۔ فلک دن رات دعاؤں میں مگن رہتی کہ کاش اس کے اندیشے غلط ثابت ہوں اور سرمد واپس اپنی پرانی زندگی میں لوٹ آئے۔ اسی دوران میں فلک کے دونوں بھائیوں کی ولایت پلٹ لڑکیوں سے شادیاں ہو گئیں اور جب سرمد لوٹا تو فلک کے دونوں بھائی ولایت جا چکے تھے۔ فلک کے لیے یہ ایک خوش آئند بات تھی کہ سرمد واپس آ گیا ہے لیکن پہلی ملاقات میں ہی سرمد نے اپنے آئندہ کے ارادوں کے بارے میں اسے بتاتے ہوئے کہا کہ وہ انشا اللہ جلد ہی کنٹرول لائن کے اُس طرف چلا جائے گا جہاں اس وقت اُس کی اشد ضرورت ہے۔ فلک کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کہے اور کیسے سرمد کو سمجھائے کہ وہ جس بنیاد پر وہاں جانا چاہتا ہے وہ بنیاد ہی در اصل کھوکھلی ہے۔ سرمد ہوا کے جھونکے کی طرح جیسے آیا تھا ویسے ہی چلا گیا اور اب کی بار اُس کی واپسی کے بارے میں بھی کوئی حتمی بات معلوم نہیں تھی۔سرمد کے والد کے لیے بھی یہ ایک بڑا صدمہ تھا اور وہ اکثر ان کے گھر میں آ کر اس بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کیا کرتے تھے۔
فلک سرمد کے اس وعدے پر ہی اپنے شب و روز گزارتی رہی کہ ایک نہ ایک دن وہ اسے اپنی دلہن بنانے کے لیے ضرور لوٹ آئے گا اور جس حسین زندگی کے انہوں نے سپنے دیکھے تھے وہ حقیقت بن جائے گی۔ اسی دوران میں فلک کے والد اپنی ملازمت سے ریٹائر ہو گئے۔ اب انہیں جلدی سے فلک کے ہاتھ پیلے کرنے کی فکر ستانے لگی۔ بیٹی کے دل کی حالت سے وہ اگرچہ بے خبر نہیں تھے لیکن کبوتر کی طرح بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرنے پر بھی تیار نہیں تھے۔ انہوں نے بیسیوں نوجوان لڑکوں کی گولیوں سے چھلنی لاشیں اپنی آنکھوں سے دیکھی تھیں اور اب وہ کسی انہونی کے انتظار میں بیٹھ کر قت ضائع کرنا مناسب نہ سمجھتے تھے۔ انہو ں نے ولایت میں اپنے دونوں بیٹوں سے اس بارے میں بات کی تو دوسری طرف سے ملنے والا جواب ان کی توقع کے مطابق ہر گز نہیں تھا۔ دونوں ہی بیٹے اپنی ولایتی بیویوں کے دام میں اس بری طرح جکڑے جا چکے تھے کہ ماں باپ اور بہن کے لیے سوچنے تک کی ان کو اجازت نہ تھی اور نہ ہی ایسی کوئی غلطی کر کے وہ ولایت سے نکلنا چاہتے تھے۔ یہ صدمہ فلک کے والد کے لیے روح فرسا تھا۔ اُن کی زندگی بھر کی محنت سے کھڑی کی ہوئی خاندان کی عمارت میں اچانک اتنی گہری دراڑیں پڑ گئیں تھیں کہ ساری عمارت ایک لمحہ میں زمین بوس ہو گئی۔ اُس رات نہ جانے اپنے بستر پر کروٹیں بدلتے ہوئے کون کون سے مناظر اُن کی نگاہوں کے سامنے گھومتے رہے، کون کون سے واقعات انہوں نے یاد کئے اور کون کون سی سوچوں کی سولی پر وہ لٹکے، کیونکہ صبح جب انہیں اُن کے بستر پر مردہ حالت میں پایا گیا تو ان کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں جن میں بے شمار مناظر ایک دوسرے میں گڈمڈ ہو کر ٹھہرے ہوئے تھے۔
والد کی موت کے بعد فلک کے لیے سرمد کی واپسی کی اُمید ہی زندگی گزارنے کا واحد جواز بن کر رہ گئی تھی۔ یہ جواز بھی اُس وقت ختم ہو گیا جب ابرار نے ایک دن سرمد کے والد کے گھر آ کر یہ مژدہ جانفزا سنایا کہ اُن کا بیٹا کنٹرول لائن کے اُس پار دشمنوں کی غاصب افواج کے ساتھ بے جگری سے لڑتے ہوئے شہادت کا رتبہ پا گیا ہے۔ یہ خبر انتہائی خطرناک بم کی طرح فلک کے دل و دماغ پر گری اور اسے ایسا لگا جیسے وہ ہر ایک احساس سے بے نیاز ہو گئی ہو۔ وہ بے ہوش ہو کر گری تھی لیکن اُس کی ماں کے سامنے اپنے خاوند کی موت کا منظر گھوم گیا اور وہ سمجھی کہ باپ کی طرح بیٹی کی بھی حرکتِ قلب بند ہو گئی ہے۔ اس سوچ کی ہولناکی نے اُس کے دماغ کی شریان پھاڑ ڈالی اور وہ وہیں ڈھیر ہو گئی۔ فلک کو جب ہوش آیا تو ایک اور منحوس خبر اُس کی منتظر تھی۔ لیکن پہ در پہ صدمات کی یورش میں وہ یہ سدھ بدھ ہی کھو بیٹھی تھی کہ وہ قدرت کے اس بے رحم مذاق پر ہنسے یا اپنے پیاروں کی موت کا ماتم منائے!!!
اس کے بعد فلک نے اپنی زندگی کے بارے میں سوچنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ حالات نے اسے جس ڈگر پر چلایا وہ ایک ٹرانس میں آئے ہوئے معمول کی طرح چلتی چلی گئی۔ اُس نے ایک نجی تعلیمی ادارے میں نوکری کی لیکن اُس ادارے کے مالک کی گندی نظروں نے اُسے احساس دلایا کہ اُس کے پاس موجود واحد چیز جس کی اس معاشرے کو ضرورت ہے اُس کا حسین اور جوان بدن ہے۔ کیونکہ اِس پر ابھی تک اُس کی اندرونی شکست و ریخت کا کوئی ہلکا سا نشان بھی نہیں پڑا تھا۔ لوگ ظاہری چمک دمک سے دھوکہ کھا رہے تھے اور فلک نے بھی اُنہیں اس دھوکے سے نجات دینا مناسب نہ سمجھا بلکہ وہ اس دھوکے کی دھار کو مزید تیز کرنے میں منہمک ہو گئی۔ وہ جانتی تھی کہ یہ ایک درست راستہ نہیں ہے لیکن اُسے اپنے باپ کی یہ بات بھی یاد تھی کہ درست راستے کا انتخاب بہت صبر آزما اور ہمت طلب کام ہے اور اپنے باپ کی طرح وہ بھی اتنی ہمت اپنے اندر موجود نہیں پاتی تھی۔
فلک کی یادوں کا سلسلہ اچانک ٹوٹ گیا۔ اُسے احساس بھی نہیں ہو سکا تھا کہ کب کمرے کا بیرونی دروازہ کھلا اور کب ابرار کمرے میں داخل ہوا۔ اُسے تو اُس وقت معلوم ہوا جب ابرار کے بھاری بھرکم ہاتھ کا بوجھ اُس نے اپنے شانوں پر محسوس کیا۔ فلک نے اضطراری انداز میں چونک کر گردن اُٹھائی تو ابرار اُس کی پشت کی طرف سے اپنی گھنی داڑھی سمیت اُس پر جھکا ہوا تھا۔اُس کے منہ سے اُٹھنے والے شراب کے بھبکے فلک کی حسِ شامہ کو مجروح کر رہے تھے۔ یقیناً نیچے سٹنگ روم میں جاری پارٹی اپنے اختتام کو پہنچ چکی تھی اور تمام معزز مہمان اپنے اپنے کمروں میں تشریف لے جا چکے تھے۔ میزبان بذاتِ خود فلک کے شانے پر ہاتھ رکھے اُس کی پشت پر موجود تھا۔ ابرار نہایت قد آور مذہبی رہنما بن چکا تھا اور اگلے الیکشن میں اپنے حلقے سے قانون ساز اسمبلی کی نشست کا امیدوار تھا۔ وہ فلک کے حسن کا گرویدہ تھا اور اکثر اُسے بلواتا رہتا تھا۔ پہلے پہل تو فلک نے اُس کی انتہائی بڑی پیش کش نہایت بے دردی سے ٹھکرا دی تھی لیکن پھر پیشہ ورانہ اصولوں کی وجہ سے ذاتی رنجش کو نظر انداز کرتے ہوئے خامی بھر لی ۔
’’ نیا سال مبارک ہو۔‘‘ ابرار نے اپنے بدبودار منہ کے ساتھ فلک پر مزید جھکتے ہوئے کہا اور چٹاخ سے ایک بوسہ اُس کے گال پر جڑ دیا۔
’’ ہوں۔۔۔۔۔ بارہ بج گئے۔‘‘ فلک نے کرسی سے اُٹھتے ہوئے کہا اور ابرار لڑکھڑا کر دو قدم پیچھے ہٹ گیا
Be First to Comment