Skip to content

دستک

عالمی افسانہ میلہ 2019
افسانہ نمبر 129
دستک
عبدالمجید آذاد ۔مالیگاؤں انڈیا

وہ اپنی چھوٹی سی دنیا میں خوش تھا۔۔۔۔ عجیب سی چیز ہے یہ زندگی بھی کوئی بدنصیب جینے کی آرزو میں مر جاتا ہے۔۔۔۔ اورکوئی بے چارہ…… مرنے کی چاہ میں جئیے جاتا ہے۔۔۔۔وہ بھی تو ایسا ہی بدنصیب تھا۔۔۔ وہ جس قدر زندگی کو سمیٹنے کی کوشش کرتا۔۔۔۔ زندگی اس کی مٹھی سے اتنی ہی تیزی سے پھسلتی جاتی۔۔۔۔زندگی کی الجھی ڈور سلجھانے کے لئے وہ لاکھ جتن کرتا اسکی فکر، اس کی بے چینی، یاسیت کی دہلیز پہ دم توڑ دیتی۔۔۔۔ ایک نہیں….! کئی بار اس کے دل میں خیال آیا۔۔۔۔ اپنی زندگی کو بے رحم موجوں کے حوالے کردے۔۔۔۔ یا پھر خود اپنے ہاتھوں اپنی موت کا سامان کر لے ایسا کرنا اس کے لئے بہت ہی آسان تھا۔۔۔۔ لیکن! اسے اپنی دکھ بھری زندگی سے اتی نفرت بھی نہیں تھی۔۔۔۔ جتنی محبت اپنی بچی منّی اور چُھٹکی سے کرتا۔۔۔ وہ اکثر سوچتا تھا۔۔۔ یہ کیسی زندگی ہے…..!؟ کیونکہ انکی زندگی کا مکمل دارومدار لوگوں کی موت پر تھا۔۔۔۔ شہر خموشاں جہاں تنہائی ہے……. خوف ہے……وحشت ہے تاریکی ہے۔۔۔۔۔اسی شہر خموشاں کی دیوار سے منسلک ایک خستہ حال جھونپڑا۔۔۔۔ اس چھوٹے سے بے رونق جھوپڑے میں تین زندگیاں، لوگوں کی موت کی راہ دیکھتی ہیں۔ کریم خان کی طرح اس کا جھوپڑا بھی جھک سا گیا ہے شہر خموشاں کی دیوار کے سہارے کھڑا ہے ورنہ تیز ہوا کی زد میں آکر کب کا گر گیا ہوتا ہے۔ کریم خان۔۔۔ جِسے لوگ کریمُوں کے نام سے جانتے ہیں۔۔۔۔ وہ بے چارہ گذشتہ پندرہ یا سولہ سال سے قبر کھودنے کا کام انجام دے رہا ہے۔۔۔۔
“بابا۔۔۔۔۔او بابا۔۔۔۔ پورے دس روز ہوگئے۔۔۔۔۔۔ اب تک کوئی میت نہیں آئی۔۔۔۔
“بابا۔۔۔بولو نا۔۔۔۔ آٹھ دس میت ایک ساتھ کب آئے گی۔۔….؟ ”
“جب فساد ہوگا!”
“بابا فساد کب ہوگا!”
“ایسا نہیں کہتے بیٹا… !”
“بابا او بابا۔۔۔۔!”
“کیا ہے بیٹا؟؟”
“بابا۔۔۔ اگر کچھ روز ایسے ہی گذر گئے…… اور کوئی میت نہیں آئی ۔۔۔۔۔ تو پھر کیا ہوگا۔۔۔۔ کہیں بھوک سے ہم لوگ ہی۔۔۔۔۔!”
“نہیں بیٹا ایسا نہیں کہتے۔۔۔۔ وہ بہت رحیم ہے۔۔۔۔”
کریم خان نے شفقت سے اپنے معصوم بچی کے سر پر ہاتھ پھیرا اور پھر اداس نظروں سے دروازے کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔۔
کریم خان بڑے شہروں کے بارے میں سوچنے لگا۔۔۔۔ جہاں انسان بے موت مر جاتا ہے۔۔۔۔ یا پھر ماردیا جاتا ہے۔۔۔۔
لیکن وہ بڑے شہروں تک جائے گا کیسے؟ یہ جو خستہ حال جھوپڑا ہے اس کی بے روزگاری اور غربت پر ترس کھاکر ٹرسٹ حضرات نے دیوار سے لگ کر ایک جھوپڑا بنادیا۔۔۔۔
“بابا۔۔۔۔ او بابا۔۔۔۔ دیکھو کوئی آیا ہے۔۔۔۔۔۔”
“کیا بات ہے۔۔۔۔۔ بھائی۔۔۔۔!! میت کی خبر لائے ہو۔۔۔۔۔۔”؟ کریم خان نے نرمی سے پوچھا۔ آنے والا شخص انتہائی اداس تھا۔۔۔۔۔ سر پر رومال باندھے ہوئے تھا۔ “گورکن کہاں ہے۔۔۔۔؟”
“ہاں ہاں بولو کیا کیا بات ہے۔۔۔۔ میں ہی ہوں گورکن۔۔۔۔۔”
کریم خان نے نرمی سے کہا۔ “ماں گذر گئی ہے۔۔۔۔۔” آنے والے شخص نبھائی ہوئی آواز سے کہا۔۔۔۔۔۔
“میرے والد کی قبر مشرقی حصہ میں ہے۔۔۔۔۔ میں چاہتا ہوں کہ ماں کی قبر بھی اسی سمت کھودی جائے۔۔۔۔”
کریم خان نے ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔۔ میں مَن بھر کا سر ہلایا اور دل ہی دل میں سوچنے لگا۔۔۔۔۔
اللہ بڑا رحیم ہے، میری بچی کی آواز سن لی اب میرے اور میرے بچوں کے لئے دو وقت کی روٹی کا انتظام ہو جائے گا۔
“تمہاری محنتانہ کے ساتھ ہی بچوں کے لئے کچھ سامان بھی ہے۔۔۔۔۔”
آنے والے شخص نے کریم خان کے ہاتھوں میں ایک ہزار روپیہ دیتے ہوئے کہا “ماں نے یہ وصیت کی تھی ان کی موت کے ساتھ گورکن کو چالیس روزکی خوراک بھی دیجائے۔۔۔۔ ماں کی یہ آخری خواہش تھی۔۔۔… اور
ماں اکثر کہتی تھی ایسا کرنے سے مرنے والے کی مغفرت ہو جاتی ہے۔”
کریم خان قبر کھودتے ہوئے سوچ رہا تھا انسان کتنا خود غرض ہے اس بستی کا۔۔۔۔۔ اس گاؤں کا ہر فرد جانتا ہے میرا اور میرے بچوں کی زندگی کا گذر بسر۔۔۔۔ لوگوں کی موت پر ہوتا ہے۔۔۔۔ پھر بھی کبھی کوئی شخص اپنوں کی موت سے قبل میرے جھوپڑے کی طرف رخ نہیں کرتا۔ انسان کو جیتے جی اپنی آخرت کی فکر نہیں ہوتی۔۔۔۔ لیکن! موت کے وقت گورکن اور مغفرت کی فکر ہوجاتی ہے۔۔۔
دن تو بہرحال گذر ہی جاتا ہے سکھ میں گذرے یا دکھ میں۔۔۔ میرا تو یقین ہے میرا رب میرے حصے کا رزق مجھے ضرور عطا کرے گا۔۔۔۔ کسی کی موت ہو نہ ہو۔ اب کچھ دن تو سکون سے گذر ہی جائیں گے۔۔۔
کریم خان نے ان پندرہ سالوں میں بہت سی قبریں کھودی۔۔۔ چھوٹی، بڑی، امیر کی، غریب کی۔۔۔۔۔ لیکن اس کی آنکھوں میں آنسو نہیں آئے۔ بلکہ وہ تو لوگوں کی موت کا ہر وقت منتظر رہا۔۔۔۔۔۔ اس کی آنکھوں میں آنسو اس وقت آئے جب ہفتوں گذر جائے۔۔۔۔۔۔ اور میت کی خبر نہیں آتی۔۔۔۔۔ کریم خان کے آنسو اتنے سستے بھی نہیں تھےوہ باوضو ہوکر اپنے رب کے سامنے روتا گڑگڑاتا۔۔۔۔۔ اور جب روتا تو روتے ہی چلا جاتا۔۔۔۔۔۔ قبر کھودتے کھودتے موت کا خوف اس کی آنکھوں میں اتر آیا تھا۔۔۔۔ وہ غریب تھا لیکن دین دار تھا۔۔۔۔
موت کا درد اسے پہلی بار اس وقت ہوا جب اس کی اپنی بیوی بانو گذر گئی۔۔۔۔ منّی اور چھٹکی کو موت کا احساس پہلے بار ہوا۔۔۔۔۔ دونوں بچیاں اپنی ماں سے لپٹ کر خوب روئی۔۔۔ ان کا اپنا تو کوئی تھا نہیں۔۔۔۔۔ قبرستان کے ذمہ داروں نے تدفین کا انتظام کر دیا۔۔۔۔ ساتھ ہی ساتھ کچھ رقم اور دو وقت کی روٹی کا نظم۔ ان کی اپنی زندگی انتہائی مشکل سے گذر رہی تھی۔۔۔۔۔ کریم خان کو اپنی فکر نہیں تھی۔۔۔۔ اسے تو ہر وقت اپنی بچیوں کی فکر ستاتی تھی۔۔۔۔۔۔
اس نے اپنی بچیوں کے مستقبل کے لئے ان کو شہر کی سرکاری اسکول میں داخل کرادیا۔۔۔۔ کریم خان پڑھا لکھا نہیں تھا۔۔۔۔ اس نے کبھی اسکول کا منہ نہیں دیکھا۔۔۔۔ لیکن بے رحم زمانے سے اس نے بہت کچھ سیکھ لیا تھا۔ کریم خان اور اس کی بچیاں اب خوش تھی۔۔۔۔ اسکول سے ملنے والی کھچڑی سے ان کو کچھ راحت ہوئی۔۔۔
کریم خان غریب، مگر خوددار تھا۔۔۔ اس نے کبھی کسی کے سامنے اپنا دامن نہیں پھیلایا۔۔۔۔ اس نے جب بھی مانگا، اپنے رب سے مانگا۔۔۔۔۔۔
مرحومین کے رشتہ دار جو بھی دیتے وہ خاموشی سے لے لیتا اور اپنے رب کا شکر ادا کرتا۔۔۔۔
گاؤں میں جب کسی کے یہاں میت ہوتی۔۔۔ تب مرحوم کے رشتہ دار دس دن کی خوراک کریم خان کو دے دیتے پتہ نہیں لوگ ایسا کیوں کرتے تھے، یہ گاوں کی ریت تھی یا گاؤں والےاسے غریب سمجھ کر ایسا کرتے تھے۔۔۔۔۔۔ یا پھر اپنے مرحومین کی مغفرت کے لئے۔۔۔۔۔
جب کسی سرمایہ دار کے گھر کسی کی موت ہوجاتی تو۔۔۔ تب وہ لوگ گورکن کو ایک ہزار روپیہ کے ساتھ چالیس دن کی خوراک بھی دے دیتے صدقہ جاریہ سمجھ کر۔۔۔۔۔
قریب قریب ایک مہینہ گذر گیا۔۔۔۔ گاؤں میں کسی کی موت نہیں ہوئی۔۔۔۔ اسکول ماسٹر کو کریم کی غربت کا علم تھا اسلئے وہ کریم خان کی بچیوں کو کھچڑی کچھ زیادہ ہی دے دیتا تھا۔۔۔۔
اسکول سے ملنے والی کھچڑی ہی ان بے سہاروں کا سہارا تھی۔۔۔۔ بچیاں رات کو جلد سو جاتی۔۔۔۔ لیکن کریم خان کی آنکھوں میں نیند نہیں ہوتی۔۔۔ وہ شفقت بھری نگاہ سے اپنی بچیوں کو دیکھتا ان کے مستقبل کے لئے غور کرتا۔۔۔۔ اور پھر سوچتے سوچتے سو جاتا۔۔۔۔۔
اس روز گھر میں سب گہری نیند سو رہے تھے۔۔۔۔ دروازے پر دستک ہوئی۔۔۔۔۔۔ منّی نے اپنی آنکھوں کو ملتے ہوئے دروازہ کھولا۔۔۔۔۔ دو چار نوجوان دروازے کے باہر کھڑے تھے۔۔۔۔۔
منّی نے معصومیت سے پوچھا۔۔۔۔۔
“کیا بات ہے۔۔۔۔؟”
“قبر کھودنی ہے، بڑی میت ہے۔”
منّی نے دروازے پر سے آواز لگائی۔
“بابا۔۔۔۔ او بابا۔۔۔۔ دیکھو نا کوئی آیا ہے۔۔۔۔”
منّی جلدی سے اپنے بابا کے بستر کے قریب گئی۔۔۔۔ زور زور سے اپنے بابا کو ہلایا اور پھر دہاڑیں مار کر رونے لگی۔۔۔۔ منّی کو روتا دیکھ کر چُھٹکی بھی رونے لگی۔۔۔۔
کریم خان کی موت کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔۔۔ جھوپڑے کے قریب سیکڑوں لوگ جمع ہو گئے۔۔۔۔ سب کے سب کریم خان کی اچھائی بیان کر رہے تھے لیکن کسی نے یہ نہیں سوچا۔۔۔ ان دو معصوم بچیوں کا کیا ہوگا….؟ انکے آنسو پونچھنے کے لئے…… ، ان کے شاندار مستقبل کے لئے انکے دروازے پر اب کون دستک دے گا۔۔۔۔۔؟

Published inعالمی افسانہ فورمعبدالمجید آزاد

Be First to Comment

Leave a Reply