عالمی افسانہ میلہ”2020
افسانہ نمبر 2
داماریو کون آمو ر
عظمیٰ جبیں
راولپنڈی ، پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشرقی اُفق پر تاریکی سمٹ رہی تھی۔۔ خوابیدہ سورج وقت کی آغوش میں کروٹیں لے رہا تھا۔۔ اس سےپھوٹتی روشنی ،اپنی کرنوں کی زُلفیں بکھیرے ،کسی نوخیز کاکیشیائی دوشیزہ کی طرح انگڑائیاں لے کر ،بیدار ہو رہی تھی۔۔دھیرے دھیرے سرخی اور سفیدی باہم آمیز ہو تےگئے۔۔ اور چند ثانیوں کے سرکتے ہی تاریکی کی گود سےنٹ کھٹ دن آن وارد ہوا۔۔
یہ میلان میں فروری کی ایک روشن صبح تھی۔ سردی سے اٹھکیلیاں کرتی زرد رُو شعائیں صدیوں پرانے ڈو اومو کیتھیڈرل کی مرمریں برجیوں اور سنہری مجسمے کو منور کر رہی تھیں۔۔لیکن ابھی انہیں کیمروں میں محفوظ کرنے اور نگاہوں میں اتارنے والے سیاح وہاں موجود نہ تھے۔ مشہور چوراہے اور گیلریا وٹوریا آرکیڈ بھی ویران تھا۔ گویا ایک جہان ابھی محوِ خواب تھا۔
تاہم ناوِگلی میں ایک قدیم اور پُر شِکوہ عمارت کے ایک فلیٹ میں دو ضعیف آنکھیں صبح سویرے ایک تصویر پر جمی ہوئی تھیں ۔۔ مرصع فریم میں سجی جاذبِ نظر سٹیلا کی تصویر پر۔۔ جس کی سیاہ آنکھیں بولتی اور تراشیدہ لب مسکراتے تھے۔۔ پاس ہی رکھے کافی کے مگ سے بھاپ اُٹھ رہی تھی اور اس سے امڈتی مہک ماریو ڈی فائیو کی توجہ اپنی طرف مائل کرنےمیں مصروف تھی۔ ۔ ۔ بلا شبہ اس کوشش میں مصروف تو تھی لیکن اس کی محویت کے حصار کو توڑنے میں ناکام رہی اور غمزدہ سسکی کی طرح سیاہ کافی کےسینے میں گُھٹ کے رہ گئی۔ مسکراتی تصویرکے قُرب پر اتِراتے فریم نے اس کا تمسخر اڑایا۔ لیکن یک بار گی ماریو نے لرزتے ہاتھوں سےمگ اُٹھا کرسٹیلا کو مبارک باد کہا ۔۔۔اور نیم گرم کافی ایک ہی گھونٹ میں پی گیا ۔۔
دل ہی دل میں کافی کی تعریف کرتے ہوئے وہ الماری تک چلا گیا۔ اس نے لکڑی کے ایک منقش ڈبےمیں سے دو تحفے نکالے۔ پہلے اس نے روپہلی تحفہ کھولا۔ ۔ ۔ یہ ماریو کی طرف سے سٹیلا کے لیے تھا۔۔۔ ایک نازک سی زنجیر میں پرویا ہوا ہیرے کا لاکٹ ،جو اس نے تصویر کو پہنا دیا ۔۔۔ سنہری تحفہ اُس کے لیے تھا۔۔۔ اس میں سے سٹیلا کی مہک آ رہی تھی ۔۔ اس نے عجب سرشاری کے عالم میں اس تحفے کو کھولا ۔۔۔ ٹھیک پانچ سال بعد۔۔ آج اپنی آنجہانی اہلیہ سٹیلا کی سالگرہ کے دن۔۔۔ اس میں ایک قیمتی اور نفیس پائپ تھا۔۔۔ تمباکو ،کافی،اور سٹیلا کے وجود کی بھِینی بھینی خوشبو اسےجدائی کے ہر احساس سے ماورا کر دیتی تھی۔اس نے سامنے رکھے ۲۷ فروری کے اخبار پرتوجہ کیے بغیراپنے پائپ میں تمباکو بھرا اور اسے لائٹر سے شعلہ دکھا کر کھانستے ہوئے سر مئی دھواں اگلنے لگا۔
یہ پائپ اس کی محبت کی یادگار تھا۔ پانچ سال پہلےچودہ فروری کو ویلنٹائن ڈے پر اس نے ماریو کو یہ تحفہ دیا تھا ۔۔لیکن افسوس کہ اُس سے اگلے روزوہ سوتے میں ناگہاں اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئی ۔۔ اپنی سالگرہ سے محض چند دن پہلے ۔۔۔یہ ایک اذیت ناک سانحہ تھا۔۔۔ ماریو اسے سہہ نہیں پایا تھا۔۔ اسے یقین نہیں آتا تھا کہ وہ اس طرح یکدم اسے اکیلا چھوڑ کرجا سکتی ہے۔
یہ نہیں کہ اس کی زندگی رومانس اور محبت کی کہانیوں سے یکسر خالی تھی ۔پر سٹیلا سے اس نےعشق کیاتھا ۔ اسے عشق کی منزل تک سٹیلا ہی لائی تھی۔۔ اس کاہو کر ماریو نے کسی عورت کی طرف محبت بھری نظر سے نہ دیکھا تھا ۔
وہ اپنے علاقے کے ڈاک خانے کا انچارج تھا۔ایک دفعہ سٹیلا اپنی انجمن کی ڈاک وصول کرنے آئی ۔وہ اپنے پوسٹ بوکس کی اصل چابی دفتر ہی میں کہیں بھول آئی تھی اور غلطی سے کسی دوسری چابی سے اسے کھولنے کی کوشش کر رہی تھی ۔ماریو نے اسے اصول و ضوابط سے آگاہ کیا تو وہ جھینپتی ہوئی معذرت کر کے لوٹ گئی ۔
ماریو اس وقت تینتالیس برس کا تھا ۔انتہا درجے کا لا ابالی اور لا پرواہ ۔ شادی شدہ زندگی اُسےایک جنجال محسوس ہوتی تھی ۔گھر گر ہستی اور بچوں سے اسے کچھ لگاو نہ تھا۔ ۔نجانے کیسے وہ پہلی ہی نظر میں اس شاندار خاتون کی زلفِ گرہ گیر کا اسیر ہو گیا ؟۔ ۔۔جس کی چمکدار سیاہ زلفوں کی طرح اس کی آنکھیں بھی سیاہ تھیں۔۔۔ بادامی آنکھوں کی جھالر بنی پلکیں بے پناہ گھنی اور بھنویں قدرتی طور پر کمان کی طرح کھنچی ہوئی تھیں۔۔زرا اُوپر کو اُٹھی چھوٹی سی ناک پہلو کے رُخ سے اور بھی دلکش لگتی تھی۔۔۔۔بالائی ہونٹ کے زاویے بہت تیکھے تھے لیکن نچلے ہونٹ کی قوس غیر نمایاں مگر تراشیدہ تھی۔۔۔ٹھوڑی باریک اور چہرہ نہایت مناسب طور پر لمبوترا تھا۔۔دبلی پتلی اوردراز قامت سٹیلالمبے سکرٹ اور ہم رنگ بڑے سے ہیٹ میں غیر معمولی طور پر سنجیدہ اور باوقاردکھتی تھی۔۔۔ اُس کا پہلا خیال تھا کہ شاید وہ یہودی ہے،لیکن وہ تو رومن کیتھولک نکلی۔وہ نن بنتے بنتے رہ گئی تھی شاید ماریو کے لیےہی۔
ماریو نے دوسری ملاقات میں ہی اس سے دوستی کر لی۔ایک ماہ تک وہ ایک دوسرے سے رابطے میں رہے ۔ بالآخر اس نے اپنی پسندیدہ بار میں اسے شادی کی پیشکش کر دی ۔اس نے دھیمی سی مسکراہٹ لبوں پر سجا کر اثبات میں جواب دیا۔ پھر شہزادیوں کی سی تمکنت سے اس کی انگوٹھی قبول کر لی ۔یوں پچیس سالہ اطالوی دوشیزہ سٹیلا اس کی شریک ِ زندگی بن گئی۔
ماریو سٹیلا کی تصویر تکتے ہوئے پائپ کے کش لیتا رہا۔۔۔
سیل فون میں چھپی یادوں کی راکھ کریدتا رہا اورپھر اُٹھ کربوجھل قدموں سے بالکونی میں آگیا ۔
سامنے نیلا آسمان تھا اور نہر کا کنارہ بہت واضح نظر آرہا تھا۔وہ دونوں چھٹی کے دن اس نہر کے ساتھ ساتھ دور تک سیرکیا کرتے تھے ۔۔۔۔۔۔کتنی ہی صبحیں اس کی یادوں میں تروتازہ تھیں۔۔۔۔اسے لگاجیسےزندگی کہیں ٹھہر گئی ہو۔
ناگاہ اس کے فون کی گھنٹی بج اُٹھی۔۔ وہ اپنے خیالوں میں ایسا محو تھا کہ بوکھلا سا گیا اور فون اس کی گرفت سے آزاد ہو کر نیچے جا گرا۔۔ پختہ راہگذر پرپٹخے جانےکی وجہ سے اس کی سکرین چکنا چور ہو گئی ۔۔۔ اس کا پاکستانی پڑوسی وہاں سے گذرا۔ نوجوان زاہدنچلی منزل میں طالبعلموں کے ساتھ رہتا تھا ۔ وہ ماسک سے منھ ڈھانپے ،کتابیں تھامے کہیں جا رہا تھا۔۔اس کی آواز پر وہ رک گیا۔ پھر صاف ٹشو پیپر میں لپیٹ کر فون اسے دے گیا۔ماریو اس کا بہت شکر گذار ہوا۔
اسے خیال آیا کہ شاید یہ سباس ٹی ین کی کال ہو۔ وہ اس کا بڑا بیٹا تھا۔تعلیم مکمل کر کےروم میں ایک بین الاقوامی تجارتی کمپنی میں ملازمت کرتا تھا۔ اب ایک سال سے ان کے کیلیفورنیا کے دفتر میں کام کر رہا تھا۔۔ اس نے سوچا کہ ہو نہ ہو اس نے سٹیلا کی سالگرہ پر مبارکباد کے لیے اسے فون کیا ہو گا یا پھر کروناوبا کی وجہ سے اس کی خیریت دریافت کرنا چاہتا ہو گا، لیکن فون تو سٹیلا کے پیچھے پیچھے آنجہانی ہو گیا تھا۔۔۔
اس نے کمپیوٹر چلایا اور سباس ٹی ین سے رابطے کی کوشش کرنے لگا۔تھوڑی دیر بعد دونوں باتیں کر رہے تھے۔سباس ٹی ین نے کافی دیر تک اپنی ماں کے متعلق گفتگو کی۔ پھر وہ اس کی مصروفیات جاننے کے لیے سوال کرتا رہا۔وہ اس بات پر اکثر ماریو سے الجھتا تھا کہ اس نے نیا گھر چھوڑ کر اس پرانےفلیٹ میں آنے کو کیوں ترجیح دی۔ آج بھی وہ اس کی بے آرامی کے خیال سے معترض ہوا۔ ماریو نے بالآخر اسے اصل سبب بتا ہی دیا۔اس گھر میں اس نے سٹیلا کے ساتھ اپنی زندگی کا آغاز کیا تھا ۔ اسکے چپے چپے پر ان کی رومان بھری زندگی کے نقوش ثبت تھے۔یہاں اسے سٹیلا کی یاد وں کے ہجوم میں اس کے فراق کا احسا س نہ ہوتا تھا لیکن اپنے جدید گھر میں اس نے سٹیلا کو ہمیشہ کے لیے کھو دیا تھا وہاں تمام تر آسائشوں کے باوجود وہ خود کو تنہا اور دکھی محسوس کرتا تھا ۔ان پانچ سالوں میں یا تو وہ جھیل کومو پر اپنے ریستوران میں وقت گذارتا رہا تھا یا پھر اس فلیٹ میں رہتا تھا جسے پہلے کرائے پر اُٹھارکھا تھا ۔۔۔ سباس ٹی ین اس کی منطق سمجھ گیا۔۔۔
لیگو ڈی کومو اور وینس میں انہوں نے اپنا ہنی مون گذارا تھا۔ سٹیلا کے لیے یہ وقت بہت یادگار تھا۔۔۔ مگر جھیل کومواُسے کچھ زیادہ ہی بھا گئی ۔۔۔اتنی زیادہ کہ ماریو نے اس کی خاطر ڈاکخانے کی اپنی پرانی نوکری چھوڑ کر بتدریج یہاں ریستوران کھول لیا۔ابتداءً اس کاروبا ر میں سٹیلا اور ماریوکا ایک دوست باقاعدہ شراکت دار تھے۔ ریستوران کی عمارت انتہائی شاندار تھی۔ اندرونی آرائش کا سب کام سٹیلا نے سنبھالا ۔بلا شبہ اس کا ذوق انتہائی عمدہ تھا۔۔ اس کی رہنمائی میں عمارت کی پر کشش زیبائش کے علاوہ باغیچے میں بہترین پھول پودے لگائے گئے۔آرائشی درختوں پر جب اودے اور گلابی رنگ کے پھولوں کے گچھے لگتے تو سیاح اس ریستوران کی طرف کھنچے چلے آتے۔ٹیک کی لکڑی سے سجےہال اور ٹیرس بہت خوبصورت نظر آتےتھے۔ان پر بچھی کین کی کرسیوں پر شام کے سورج کی سنہری کرنیں پڑتیں تو سیاح دنگ رہ جاتے ۔ وہ وہاں سے آسمان اور پانی کے نظارے کرنے کے لیے لپک کر آتے اور دیر تک بیٹھ کر مزے مزے کے پکوان کھاتے۔۔ بلند وبالا پہاڑوں کے دلکش و سرسبز عکس پانی میں تھرتھراتے تو نوجوان جوڑوں کے دل بھی موجوں کے نشیب وفراز کے ساتھ رقص کرنے لگتے۔۔۔ سردیوں کے دن اور گرمیوں کی شامیں بے پناہ مصروف ہوتیں اور گاہکوں کے ہجوم میں سباس ٹی ین اور ٹرسٹا فٹ بال لیے دوڑتے پھرتے۔۔
سباس ٹی ین کو فٹ بال کے ساتھ کرتب دکھانے کا بے حد شوق تھا ۔سیاح رک رک کر اس کو دیکھا کرتے جبکہ ٹرسٹا ڈی فائیو اپنی ماں کی طرح ذرا شرمیلی تھی۔ وہ اپنا یو یو پکڑے کھڑی مسکراتی رہتی۔۔۔ ماریو کے کہنے پر بھی اپنی مہارت کسی پر آشکار نہ کرتی۔
یادوں کی کتاب کے ورق ورق پر قیمتی داستانیں رقم تھیں۔۔جن میں سانس لینے کو وہ فون میں محفوظ تصاویر دیکھنا چاہتا تھا۔۔ مگر سیل فون ٹوٹ گیا تھا۔۔ شہر کی زندگی میں بے چینی سرایت کرتی جا رہی تھی اور اس کے لیے اسے فوری ٹھیک کروانا ممکن نہ تھا۔
کووِڈ۔ ۱۹ کی وبا اٹلی میں بھی وارد ہو چکی تھی۔۔سسلی سے ٹرسٹا نے اسے متنبہ کیا تھا کہ وہ زیادہ وقت گھر میں رہے۔وہ پالرمو کے ہسپتال میں ڈیوٹی پر تھی ۔۔۔اس سے ماریو کی ملاقات دسمبر میں کرسمس کے موقع پر ہوئی تھی۔ نتالیہ اور جووانی نانا سے مل کر بہت خوش ہوئے تھے۔۔ وہ دونوں بہت شوق سے اس کے لیے تحفے لائے تھےاور اس نے بھی ان کے لیے چاکلیٹ اور بہت سے تحائف خرید رکھے تھے، جنہیں پا کر وہ دونوں بھی بے حد خوش ہوئے تھے۔ خوب سردی تھی اور انہوں نے گھر میں رہ کربھی بہت مزے کیے تھے۔۔۔ٹرسٹا نے ان کے لیے کرسمس کے ذائقہ دار پکوان تیا ر کیے تھے۔۔۔اور رات کو انہوں نے اپنےگذرجانے والے رشتہ داروں کو بھی یاد کیا تھا۔
خوشی کے لمحے بچھڑے ہوئے پیاروں کے ذکر کے بغیرادھورے سے جو رہتے ہیں۔۔ ان کی تکمیل کرنے خوبصورت یادیں ضرور امڈ آتی ہیں۔۔۔ہنستے ہنستے ماریو کھو سا جاتا تھا پھر سب کا دل رکھنے کو مسکرانے لگتا تھا۔۔۔اس موقع پر بچوں کی طرف سے دیے گئے کرسمس کارڈز اُس نے اِس فلیٹ میں کمرےکےدروازے پر چسپاں کر دیے تھے جو ابھی تک نو بہ نو تھے۔وہ حسرت سے ان پُر مسرت لمحوں کو یا د کر رہا تھا۔
سباس ٹی ین اور سارہ نے اسے کیلیفورنا سے لز اور لیون کی تصاویر بھیجی تھیں۔۔ وہ دونوں اب اطالوی کے علاوہ انگریزی میں بھی خوب باتیں کر لیتی تھیں اور فخریہ اسے ننھی منی نظمیں سناتی تھیں ۔۔۔ اس سے گفتگو کرتی تھیں ۔۔۔۔۔۔پر اس کی خالی آغوش اپنی پوتیوں کی منتظر تھی۔۔۔ انہیں ایسٹر پر ملاقات کے لیے آنا تھا اور وہ تبھی سے ایسٹر کا انتظار کرنے لگا تھا۔۔۔۔۔۔۔
ماریو کے نزدیک دونوں بچے اور اُن کے بچے اس کی اور سٹیلا کی ذات کا تسلسل تھے ۔ وہ اپنےغروب ہوتے وجودوں کو ان میں طلوع ہوتا دیکھ رہاتھا۔۔۔ سٹیلا نے ہی اسے سکھایا تھا کہ بچے کتنے اہم ، پیارے اور عزیز ہوتے ہیں ۔۔ ۔ وگرنہ وہ تو بچوں اور ان کو پالنے کے تصور سے ہی بدک جاتا تھا ۔ شادی کے بعد بھی کچھ عرصہ تک اسے اس بات کا کہاں احساس تھا ۔ اکلوتا اور مرضی کا مالک ہونے کی وجہ سے وہ تو ان ذمہ داریوں سے کوسوں دور بھاگتا تھا۔۔لیکن سٹیلا نے اسے یہ ذمہ داریاں اتنی خوبی سے آراستہ کر کے دیں کہ اس نے انہیں طوق نہیں بلکہ پھولوں کا ہار جان کر زینتِ گلو کیا۔سٹیلا نے بچوں کی پرورش میں بہت محنت کی تھی۔۔ اس نے ان کے آنے کے بعد اپنی سماجی بہبود کی سرگرمیوں کو برضا و رغبت معطل کر دیا تھا۔ اس کی توجہ کا اہم مرکز اس کے بچے تھے۔جس کتاب میں اسےبچوں کی تربیت ونفسیات کی بابت معلومات ملنے کا امکان نظر آتا وہ اسے ضرور پڑھتی تھی ۔۔ اس کے علاوہ وہ اپنے بزرگوں سے بھی صلاح لیتی رہتی تھی، اسی لیے اُس کے دونوں بچے بہت سمجھدار اور با اخلاق تھے اور انہیں اپنے بزرگوں اور والدین سے بے حد پیار تھا۔ وہ اُن کی معیت میں راحت محسوس کرتے تھے۔۔
کچھ دیر بعد وہ الماری سے پرانے البم نکال کر تصویریں دیکھ رہا تھا ۔ ڈو اومو کیتھیڈرل میں اس کی شادی ۔۔۔تمام بزرگوں کا ساتھ۔۔۔ خوبصورت عروسی جوڑے میں چرچ کے سامنے کبوتروں کے ساتھ دلکش عکاسی ۔۔ وینس میں گنڈولا کی سیر۔۔ ساحلِ سمندر کے دلفریب مناظر۔۔ پھر کچھ سال بعد بچوں کے بپتسمہ کی رسم۔۔۔ جھیل کے کناروں پر پھولوں اور پودوں میں چھپے بیٹھے بچوں اور اہلیہ کی تصاویر۔۔۔ سویٹزرلینڈ اور فرانس کی سیروں کی یادگار اور شاہکار تصاویر۔۔۔۔ الپس کی بلندیوں کو زیرِ نگیں کرنے کی مسرتیں۔۔۔ کیا وقت تھا کیا خوشیاں ؟پر کہاں گئیں؟ اُسے دل چیر تے ناسٹیلجیا نے گھیر ا ہوا تھا۔۔
وہ اپنی لمبی اور قدرے گول ناک کے باوجود گہرے بھورے بالوں والا قبول صورت نوجوان تھا۔۔ دراز قد ہونے کے ساتھ ساتھ وہ گتھے ہوئے جسم کا مالک تھا۔۔ وہ کبھی فربہ نہ رہا تھا اگرچہ اب کچھ کچھ توندیل سا لگنے لگا تھا۔۔ اسے سائکلنگ اور ہائیکنگ کا شوق تھا اور ان سرگرمیوں نے اسے ہمیشہ چاک و چوبند رکھا۔اسی لیےاب بھی وہ اپنافارغ وقت میلان کے گلی کوچوں میں سیر و تفریح کرتےگزارنا پسند کرتا تھا ۔۔لیکن اب اس کے رفیق بس چند دوست رہ گئےتھے۔۔ یا اس کا ایک پاکستانی پڑوسی جواس کے ساتھ اطالوی سیکھنے کے شوق میں سیر کے بہانے کچھ گپ شپ کر لیتا تھا۔۔۔ایسی ہی یادوں میں کھویا وہ بہت دیر تک ان منجمد لمحوں کو برف کی طرح پگھل کر حیات کے قالب میں ڈھلتے دیکھتا رہا۔۔لیکن ایمبولینسوں کے سائرن نے اس کے خیالات کو منتشر کر دیا اور وہ ماضی سے حال میں لوٹ آیا۔۔
حالات کا جائزہ لینے کے لیے اس نے باہر گلی کی جانب کھلنے والی کھڑکی کا پردہ سرکایا اور خاموش نظروں سے تیزی سے گذرتی ایمبولینسوں اور پولیس کی گاڑیوں کو دیکھنے لگا۔۔ گلیاں تقریباً ویران تھیں۔۔ اس نے زندگی میں بہت سی آفات کو آتے دیکھا تھالیکن یہ عالمگیر وبا عجیب چیز تھی۔۔۔ جیسے کوئی خوفناک بلا۔۔۔
اس نے ٹی وی چلا دیا۔۔۔ البم میز پر کھلے پڑے رہ گئے اور وہ خبروں میں محو ہو گیا۔۔۔ کچھ دیر بعد اسے ان غیر معمولی حالات اور کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کی خبریں سن سن کر وحشت ہونے لگی۔۔ تبھی اسے احساس ہوا کہ خالی معدہ دہائی دے رہا ہے۔ اس نے فرج سے ہیم لے کر دو سینڈوچ بنائے اور محفوظ کیے پھلوں کا ڈبہ کھول کرایک چینی کے پیالے میں انڈیل لیا ۔۔ وہ کھاتے ہوئے مضطرب نظروں سے خبروں اور حالات کا تجزیہ کر رہا تھا ۔اس کے بعد اس نےوزیرِاعظم کونٹی کے تازہ بیانات سنے ۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کیا کرے۔؟سباس ٹی ین کے کیلیفورنیا جانے کے بعد سے وہ کافی اکیلا ہو گیا تھا اور اب تو ۲۰۲۰ء اس تنہا بوڑھے کے لیے ہولناک ہوتا جا رہا تھا۔
تازہ ترین خبروں کے مطابق لمبڈی میں چرچ سروس کے لیے ،وبا میں مرنے والوں کے تابوتوں کے انبار لگے ہوئے تھے۔۔ پوپ فرانسس نے اپنے پیغام میں عوام الناس کو خداوند کی طرف متوجہ ہونے کا درس دیا اور بنی نوع انسان کو اس ناگہانی آفت سے بچنے کے لیے دعاوں میں مصروف رہنے کی تاکید کی ۔ اس نے فوراً اپنے سینے پر اشارے سےصلیب بنا کر دعا کی اور مزید خبریں سنتا سنتا اونگھ گیا۔سحر خیزی اس کی عادت تھی لیکن کچھ عرصے سے اس طرح وقت بے وقت اونگھنا بھی اس کی عادت میں شامل ہو چکا تھا۔۔
اگلے دن اس کی سباس ٹی ین اور ٹرسٹا سے دوبارہ بات چیت ہوئی۔۔ سباس ٹی ین دفتر نہیں جا رہا تھا۔ وہ گھر سے ہی کمپیوٹر پر کا م کر رہا تھا ۔۔ مگرڈاکٹروں کو مشکل حالات کا سامنا تھا ۔ٹرسٹا اور مارکو مریضوں کے ساتھ ہسپتال میں بہت زیادہ مصروف تھے۔۔اُن دونوں نے اس کےلیے وائرس سے محفوظ رہنے کا ہدایت نامہ دہرایااور وہ اچھا اچھا کہتا رہا۔۔۔ میلان میں جسے وہ بھی دیگر اطالویوں کی طرح میلانو کہتا تھا ابھی تک کلی طور پر تالا بندی اور نقل وحرکت محدود کرنے کے سخت احکامات نہیں دیے گئے تھے۔۔ سر بر آوردہ سیاستدانوں اور تجارتی طبقے کا خیال تھا کہ کاروبارِ زندگی مکمل طور پر معطل کر دینے سے ملکی معیشت کا ستیا ناس ہو جائے گا۔۔۔ تاہم روم اور بہت سے دیگر علاقوں میں لوگوں کو گھروں تک محدود رہنے کا حکم دے دیا گیا تھا ۔۔ جب وائرس کے ہولناک جبڑوں نے ڈاکٹروں کو بھی نگلنے سے دریغ نہ کیا تو ہر طرف سراسیمگی پھیل گئی ۔۔ ۹ مارچ کو وزیرِ اعظم نے ہنگامی حالات کے پیشِ نظر سارے ملک میں لوگوں کے گھروں میں رہنے اور ذرائع
آمد ورفت کلی طور پر بند کرنے کے احکامات جاری کر دیے۔ ملکی و غیر ملکی پروازیں البتہ پہلے سےہی معطل تھیں۔
ابتدا میں بہت سے اطالویوں کی طرح اس نے بھی محصوری کی ہدایات پر زیادہ توجہ نہیں دی تھی اس لیے وہ کچھ دن پہلے شہر میں گھومتا رہا تھا ۔اس نے اپنی مخصوص بارمیں دو پیگ الکحل نوش کی تھی۔۔ نہر کنارے چہلیں کرتے مقامی سیاحوں کی آمد ورفت دیکھتے ہوئے پائپ پیا تھا اور پانی میں ٹمٹماتی روشنیوں کے متحرک عکسوں میں گم ہو کر اپنے پسندیدہ کھانے کاسیولا کو نہایت رغبت سے کھایا تھا۔۔ سٹیلا اس کی فرمائش پر بہت لذیذ ریزاٹو اورکا سیولا بنایا کرتی تھی۔۔لیکن کئی بار وہ پورٹا رومینیا میں ہوٹلنگ کے لیے بھی جایا کرتے تھے جہاں وہ اکثرچیز پیزا بہت شوق سے کھاتا تھا۔۔
سٹیلا کے بعد اس نے اپنی نئی کار بیچ دی تھی اور شوفر کی چھٹی کرا دی تھی اب وہ ایک عام اطالوی کی طرح کیب، ٹرام اور میٹرو ریل میں سفر کرتا تھا۔۔ وہ لاٹھی لیے میلان کے گلی کوچوں ، بازاروں اور پارکوں میں گھومنے سے راحت محسوس کرتا تھا۔۔ اسی طرح جیسے وہ ایامِ جوانی میں گھومتا تھا ۔ اسے آوارہ گردی کا شوق تھاسو جب وہ چھٹیاں گذارنے روم جاتے تو میلوں پیدل چلتے تھے اور اس سے خوب لطف اندوز ہوتے تھے نیز دیرینہ دوستوں سے بھی ملتے تھے ۔ چند دن پہلے بھی وہ میلان میں اپنے ایک پرانے دوست سے ملا تھا اور اس کے بیٹے سے بھی جو فٹ بال کھیلتا تھا لیکن اس دن وہ کچھ بیزار سا تھا اور فلو کا شکار معلوم ہو رہا تھا۔ اس کے دوست کا خیال تھا کہ غالباً اٹلی میں کورونا وائرس چین سے آنے والے سیاحوں اور اطالوی تاجروں کے ساتھ آیا تھا۔ لیکن یہ سن کر بھی وہ اس وبا کے بارے میں زیادہ متفکر نہ تھا ۔ مگر دن بہ دن حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے تھے۔ روم اور فلورنس کی طرح میلان میں بھی ہر وقت لوگوں کے ازدحام سے چھلکتی سڑکیں اور بازارویران ہو گئے تھے۔ وہ حیران و پریشان تھا ۔
بیس مارچ کی صبح ماریو اپنے اپارٹمنٹ میں بیٹھا تازہ ترین خبریں سن رہا تھا جو پریشان کن تھیں ۔پھر اس نے ایک دو ای میل ملاحظہ کیں، ان کے جوابات دیے اور مسٹر رِکی سے رابطہ کیا۔ اس دوران وہ اس خبر سے چونک گیا کہ ہسپتال میں مزید مریضوں کو داخل کرنے کی گنجائش ختم ہو چکی ہے ۔ محکمہ صحت کے ارباب ِاختیار مزید ہسپتالوں کے قیام اور مائکل اینجلو ہوٹل کو قرنطینہ سنٹر بنانے کے لیے صلاح و مشورے کر رہے تھے ۔
کووِڈ۔۱۹ کی خبریں سن سن کر اسے اپنا آپ بیمار محسوس ہونے لگا تھا۔۔ ماریو کی خبر گیری پر مامور دو نرس بھی یکے بعد دیگرے قرنطینہ میں محصور ہو چکے تھے۔ پھر اُسے چھینکیں آ نے لگیں۔ کیا وہ واقعی بیمار ہو رہا تھا ۔ آخر اُسے حرارت بھی محسوس ہونے لگی ۔رات بھر ماریو ٹھیک سے سو نہ سکا۔ اس پر واقعی ناہنجار فلو کا حملہ ہو چکا تھا۔ صبح کسی اجنبی دِکھتے نرس نےحفاظتی لباس میں آ کر اس کا معائنہ کیا اور فوری طور پر اُسےہسپتال لیجایا گیا۔ وہاں اس کا کورونا کے لیے ٹیسٹ لیا گیا اور کچھ ادویات دے کر ذاتی قرنطینہ کے لیے گھر بھیج دیا گیا کیونکہ ہسپتال میں کوئی بستر خالی نہ تھا۔ اسے طبیعت میں مزید کسی خرابی کی صورت میں فوراً ہسپتال سے رابطہ کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
ماریو کو بخار تھا۔ جسم ٹوٹ رہا تھا اور وہ گاہے گاہے کھانس بھی رہا تھا۔ اس نے بمشکل سباس ٹی ین اور ٹرسٹا سے بات کی ۔۔ بچیوں نے اس کا دل بہلانے کی بہت کوشش کی اور دلچسپ باتیں کرتی رہیں۔۔ اسے اپنے کھلونے اور تازہ ترین ڈرائینگ دکھاتی رہیں لیکن وہ چاہتے ہوئے بھی زیادہ لطف اندوز نہ ہو سکا۔ اس نے وڈیو کال بند کی اور آرام کرنے کا ارادہ کیا۔ تاہم وہ کچھ دیر کھانستے کھانستے کمپیوٹر پر مصروف رہا۔ اس کی عدم توجہی کے باوجود اس کی پشت پر جدید طرز کا ٹی وی شکوہ کناں ہوئے بغیر تازہ ترین خبریں سناتا رہا۔ ٹِرسٹا نے ہسپتال سے رابطہ کیا اور انہیں اس کی خبر گیری کی تاکید کی۔۔ وہ چاہ کر بھی ماریو کے پاس نہ آپارہی تھی ۔۔ اسے اپنا ڈاکٹر ہونا بے مصرف محسوس ہو رہا تھا ۔ کیونکہ وہ ابھی تک اتنے محبت کرنے والے باپ کے لیے کچھ نہ کر پائی تھی۔ ماریو سونا چاہ رہا تھا پر نیند اس سے روٹھی ہوئی تھی۔
اپارٹمنٹ سے باہر اس کے پیارے شہر میلانو کے آسمان پر شفاف ستارے ٹمٹما رہے تھے ۔۔سان بیبلا سکوائر میں جلتی روشنیوں کے آس پاس ابا بیلیں اور پتنگے رقص کر رہے تھے۔۔ خاموشی کی بارش سارے علاقے کو جل تھل کر رہی تھی ۔۔ دُور آسمان پر کہیں کہیں بادَل تھے اور رفتہ رفتہ بلند عمارتوں کے گرد منظر دھند آلود سا ہو رہا تھا۔۔ جیسے کہ سوگوار ہو۔۔۔
کچھ فاصلے پر لمبڈی میں صدیوں کے سفر پر رواں دواں بیسیلیکا اور عظیم مینار بہت دن بعد طویل اور گہری نیند کے مزے لے رہے تھے پر ڈو اومو جمائیاں لیتا فلک بوس پیری لون بلڈنگ کی روشن پیشانی پر چلتے ”گھروں میں رہیں” کے پیغام پر کچھ پریشان کھڑا تھا۔۔ ۔۔ کہ اس پیغام نے اس کی رونقیں ماند کر دی تھیں۔۔ اُس کا رُواں رُواں اس خطرناک وبا کے خاتمے کی دعائیں کر رہا تھا مگر وہ مستعجاب نہ ہو رہی تھیں، اور ہر روز بہت سی روحیں اُسے الوداع کہتی فلک کی پہنائیوں میں گم ہو رہی تھیں۔ آج بھی چھ صد سے زیادہ نے رختِ سفر باندھا تھا۔وہ اپنے چاہنے والوں کو جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔۔ ۔۔ ۔۔اُداس اورخاموش نظروں سے۔۔
ماریو بھی اس کے عُشاق میں سے تھا۔۔ پہلےپہل وہ آتا تھا پر بغل گیر ہونے نہیں۔۔ اس سے عشق کا اظہار کرنے نہیں ۔۔ بس اس سے مرعوب ہو کر آتا تھا۔۔ پھر سٹیلا نے اس کی اور ماریو کی دوستی کروا دی ۔۔ اب وہ اس کی پناہ میں تھا ۔۔ڈو اومو کے عشاق میں سے تھا۔۔
رات سرد بھی تھی اور بھیگتی بھی جا رہی تھی ۔۔ کچھ سمٹتی اور مختصر ہوتی جا رہی تھی۔۔ پر اُس کے عاشق پر اُمڈافُلو بہار کے پھولوں کی طرح جوبن پر تھا۔۔ اُس کے وجود میں بِنا سرسراہٹ کچھ پھیلتا جا رہا تھا۔ ۔
اگلی صُبح ماریو کی کھانسی کی شدت میں اضافہ ہو چکا تھا۔۔ سانس لینا دوبھر تھا۔ ذرا سے فاصلے کو عبور کرنا اُسے اس طرح تھکا رہا تھا جیسے وہ کوہ پیمائی کی مشقت سے گذر کر عدم تنفس کا شکار ہو رہا ہو۔۔ جب ٹِرسٹا نے اسے فون کیا تو وہ کافی ابتر حالت میں تھا۔۔
کچھ دیر بعد نالے بلند کرتی ایمبولینس اس کی گلی میں داخل ہوئی ۔اسے مریضوں کی پہیے دار کرسی پر بٹھا کر لفٹ کے ذریعے نیچے لایا گیا ۔۔ یہ لفٹ کچھ سال پہلے اس عمارت میں نصب کی گئی تھی قبل ازیں نہیں ہوا کرتی تھی۔ پھر اسے ایمبولینس میں منتقل کیا گیا ،آکسیجن ماسک اس کے منھ پر لگا دیا گیا اور گاڑی تیزی سے ہسپتال کی طرف روانہ ہو گئی۔ اطراف کے اپارٹمنٹوں کے لوگ کھڑکیوں کے شیشوں سے غمزدہ آنکھیں لیے اُسے جاتے ہوئے دیکھتے رہے،دھیرے دھیرے ہاتھ ہلاتے رہے۔۔ کوئی باہر نہ نکلا ۔۔ سوائے زاہد کے ۔۔ جو نم روک برساتی پہنے، ماسک لگائے ماریو کو الوداع کہہ رہا تھا۔۔ ہسپتال کے عملے نے ساری عمارت کے مکینوں کو کورونا کی جانچ کروانے کی ہدایت کی تھی۔۔ یہ خطرے کی دستک تھی جس کی پھیلائی ویرانیوں میں اُس کے دروازے کے باہر ”لا ری پبلیکا ”کا تازہ پرچہ ٹوکری میں اداس پڑا رہ گیا تھا۔۔۔۔
جاتے سمے ماریو کی انگلی میں شادی کی انگوٹھی موجود تھی ،اور اس کے سینے پر سٹیلا کا دیا شادی کی پہلی سالگرہ کا تحفہ ایک ننھی منی سی صلیب کی صورت براجمان تھا جس کی دھاتی زنجیر اس کے گلے میں ڈلی ہوئی تھی۔۔ اسے بہت گھٹن محسوس ہو رہی تھی اور وہ آکسیجن ماسک کے نیچے کھینچ کھینچ کر لمبے سانس لے رہا تھا۔۔ وہ تھوڑی سی لاپرواہی سےایک ان دیکھے دشمن کا شکارہو چکا تھا۔۔۔ واپسی کا راستہ مسدود ہو چلا تھا۔
ٹرسٹا نے اس کی کیفیت سے سباس ٹی ین کو مطلع کیا تو وہ بہت دل گرفتہ ہوا ۔ بڑی مشکل سے اس نے خود کو سنبھالا اور کچھ دیر بعد کمپیوٹر چلا کر پرانی تصاویر اور ای میل دیکھنے لگا ۔۔ یک بارگی اس کی نظر ماریو کی ای میل پر پڑی۔۔۔ اس نے وہ میل کھولی اور پڑھنے لگا۔۔
ماریو نے بہت سی دعاوں کے بعداپنے دونوں بچوں کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا تھا کہ بولنے میں دقت کے باعث وہ خط لکھنےکی عادی اپنی انگلیوں سے انہیں اپنا آخری خط لکھ رہا ہے۔۔ اس نے انہیں اپنی وصیت سے آگاہ کیا تھا جس کی رُو سے جھیل کومو والا ریستوران اور رہائش گاہ اس نے سباس ٹی ین کے نام کر دی تھی، میلا ن میں موجود جدید فلیٹ مع تمام سامان ٹِرسٹا کو تحفہ کر دیا تھا اور اپنا اپارٹمنٹ اس نے وقف کر دیا تھا ۔ میلان کی ریڈ کراس سوسائٹی سے درخواست کی تھی کہ اسے جوں کا توں ضرورت مند طالبعلموں کے لیے استعمال کر لیا جائے۔ وہاں موجود ایک فائل میں بھی اور وکیل مسٹر رِکی کے پاس اس کی تحریری وصیت موجود تھی ۔ اس نے سباس ٹی ین سے درخواست کی تھی کہ حالات بہتر ہونے پر وہ آ کر اس کا ذاتی سامان لے لے ۔ وہاں پڑے ہوئے یورو اور لیرے اس نے چاروں بچوں یعنی پوتیوں اور نواسے نواسی کو دینے کی تاکید کی تھی ۔اُس نے اپنے بنک کھاتے میں موجود رقم کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں استعمال کرنے کی وصیت کی تھی۔۔ اور ساری دنیا کے لوگوں کے لیے سلامتی کی دعا کی تھی ۔۔ سارے ڈاکٹروں کو سلام لکھا تھا۔۔ آخر میں اس نے اپنے بچوں کو بڑے والہانہ انداز میں پیار لکھا تھا اور اپنے آنجہانی بیٹے الفریڈو کو بہت رقت بھرے انداز میں یاد کیا تھا، جو دو ماہ کی عمر میں نمونیہ سے جاں بحق ہو گیا تھا۔ اس نے لکھا تھا کہ میں نے آج حقیقتاًاس تکلیف کو محسوس کیا ہےجو اس نے ننھی سی عمر میں مرنے سے پہلے جھیلی ہو گی۔۔ وہ مرنے کے خیال سے دُکھی نہیں تھا کیونکہ اسے یقین تھا کہ اس کے پیارے بچے اور ان کے بچے اسے ضرور محبت سے یاد کریں گے اور وہ پُر امید تھا کہ موت کے توسط سے وہ الفریڈو اور سٹیلا کے قریب ہو جائے گا۔ اس نے ایک مختصر نظم میں لکھا تھا:
الوداع
——
زندگی کی دیوی نے مجھ پر
اپنا جوبن لٹا دیا
اس توانائی سے میں نے
بھنورے کی طرح
پھولوں کا طواف کیا
جب ایک وینس فلائی ٹریپ نے
مجھے جکڑ لیا
تو مجھے عشق کا امرت مل گیا
میرا عشق اور وہ
پہاڑی پر کِھلے پھول بن گئے
جھیل میں تیرتے راج ہنس بن گئے
اطالیہ کے افق پر چمکتے
زہرہ اور بدر بن گئے
زمیں سے اُگتے میرے ستارو
جب تمہیں ہماری یاد آئے
توزہرہ اور بدر کو دیکھ لینا۔۔۔
سباس ٹی ین کا صبر جواب دے چکا تھا۔ وہ آنسووں بھری آنکھوں سے آخر میں لکھے اطالوی جملے کو دیکھ رہا تھا’دا ماریو کون آمو ر’ اور محبت کی اُس تپش اور مہک کو محسوس کر رہا تھا جو ا ِس میں سے پھوٹ رہی تھی۔ اُسی لمحے اس کے فون کی گھنٹی بجی او روہ روح تک لرز گیا۔۔۔ ِٹرسٹا کا فون تھا ۔۔۔ ہیلو ِٹرسٹا میں پاپا کی میل پڑھ رہا تھا ۔۔۔کیا تم نے بھی پڑ۔۔۔۔۔
اس کی بات بیچ میں ہی رہ گئی ،ٹِرسٹا بے پناہ آزردگی سےروتے ہوئے بولی ”برادر بہت بُرا ہوا بہت بُرا۔۔۔ ”
سباس ٹی ین کچھ نہ کہہ سکا اور نہ ہی اپنے آپ پر قابو رکھ سکا۔۔۔
کچھ دیر روتے رہنے کے بعدٹِرسٹا بمشکل تمام گویا ہوئی” جانتے ہو، کورونا ہمارے پیاروں پر آفت بن کر نازل ہواہے۔۔ اس نے اِٹلی پر غموں کے پہاڑ تو ڑ ڈالے ہیں ۔۔ میں نے بہت کوشش کی کہ تمہیں حقیقت ِ حال بتا بتا کر زیادہ پریشان نہ کروں ،لیکن اب میری برداشت ختم ہو گئی ہے ۔۔ خداوند ہم پر رحم کرے۔۔”
سباس ٹی ین نم نگاہوں سے بہت دُور میلانو کے قبرستان میں بنی ہوئی کئی صد تازہ قبریں دیکھ رہا تھا اور ایک پر ماریو ڈی فائیو1936ء۔۔۔۔،2020ء تحریر تھا ۔ وہ اس تنہا قبر کو دیکھ کر ناقابل بیان صدمے سے دوچار تھا پر وہاں ایک نہیں بہت سی تنہا قبریں تھیں ۔ بہت سے لوگوں کو اداس کرتی تنہا قبریں جن پر پھول رکھنے والا کوئی نہ تھا ۔
آنسووں کی جھڑی کچھ تھمی تو ٹِرسٹا پھر گویا ہوئی ،” برادر مجھے اس غم کی گھڑی میں تمہارے کاندھے اور پاپا کی تھپکی کی کمی بہت شدت سے محسوس ہو رہی ہے”
”پاپا ”۔۔۔ سباس ٹی ین بولا۔
‘ ہاں پاپا ۔۔وہ تو ابھی اس موذی سے جنگ لڑ رہے ہیں لیکن ۔۔ لیکن میرے شوہرمارکو صف ِ اول کے ڈاکٹروں کے ساتھ اس آفت وبا سے لڑتے ہوئے۔۔ زندگی ہار گئے ہیں ۔۔’
سباس ٹی ین کرب سے چلا کر بولا’نہیں ۔۔ایسا نہیں ہو سکتا’اور اس کی آواز رندھ گئی۔
”سبا س ٹی ین سنتے ہو۔۔ وہ اس بیماری کے ظالم پنجے کا شکار ہو کر اس دنیا سے چلے گئے ہیں۔۔
مارکو پر کورونا کا شدید حملہ ہوا اور وہ چند دن میں ہی شکست کھا گئے۔۔”ٹرسٹا انتہائی تکلیف میں تھی۔۔۔ وہ جیسےمنت کر رہی تھی۔۔
”مجھے تسلی دو سباس ٹی ین ۔۔ مجھے ہمت دو، میں بالکل ٹوٹ گئی ہوں۔۔
خدا کرے پاپاکو کچھ نہ ہو۔۔ لیکن ان کی حالت بہت خراب ہے۔۔
کل ان کے ڈاکٹر سے بھی میری بات ہوئی تھی لیکن وہ کچھ کہنے کی کیفیت میں نہیں تھے ۔۔۔ مجھے حوصلہ دو برادر۔۔۔۔” اور وہ بے تحاشاروتے روتےدوبارہ ہچکیاں لینے لگی۔
دوسری طرف محض سسکیاں تھیں۔۔ وہ ان سسکیوں کے بیچ ٹرسٹا کو تسلی دے رہا تھا پرلفظ اپنے معنی کھو رہے تھے۔۔۔ اور پھر وہ بھی معدوم ہو گئے۔۔۔ دونوں غم میں گنگ ہو گئے تھے اور جیسے دوگونگے ایک دوسرے کو سمجھ رہے تھے۔۔
بند گلی میں کھڑے سوگوارسباس ٹی ین کی آنکھوں میں اُتری غم کی گہری دھند میں ایک تارہ چمک رہا تھا پر کتنی دیر کے لیے وہ نہیں جانتا تھا
Comments are closed.