عالمی افسانہ میلہ 2018
افسانہ نمبر 122
دادا جی
برجیس آراء ۔ چشتیاں ۔ پاکستان
ہمارے گھر سے دو گلیاں چھوڑ کر دادا جی کی حویلی تھی .میں اپنے گھر کی تنگ گلی سے گزرتی ہوئ دادا جی کی کشادہ گلی میں داخل ہوئ ‘ جہاں ہندوؤں کے زمانے کے بنے ہوۓ مکانات تھے .ان میں سے بعض الیسے مکان بھی تھے , جن میں تھوڑی بہت ترامیم کی گئ تھیں .انھی میں سے ایک دادا جی کی حویلی بھی تھی .میں یہ تو نہیں جانتی تھی کہ دادا جی کے آباؤاجداد اسی مٹی کے مکین تھے یا ہندوستان سے ہجرت کرکے یہاں آباد ہوۓ تھے .اتنا جانتی ہوں کہ میری ماں نے ساری زندگی ان لوگوں کی خدمت کی اور اب میں نمک حلالی کے طور پر یہ کام سر انجام دینے لگی تھی .اس حویلی کے ایک بزرگ جنھیں سب دادا جی کہہ کر پکارتے تھے, میں بھی انھیں اسی نام سے پکارتی جس کا انھوں نے کبھی برا نہی منایا تھا . دادا جی کی حویلی وسیع وعریض تھی . حویلی کے باہر بوہڑ کا درخت تھا ساتھ ہی بیری کےدرخت تھے, جنکے نیچے بھینس بندھی رہتی .بوہڑ کے نیچے دادا جی ,دینو چاچا اورگاؤں کے بہت سے لوگ ہر وقت بیٹھے حقہ پی رہے ہوتے .
حویلی کا بڑا سا گیٹ تھا جس کے ساتھ پکی اینٹوں کی چوپال کے آگے برآمدہ اور غسل خانہ مہمانوں کے لیے بنوایا تھا چوپال کے صحن سے ایک دروازہ اندر کی جانب کھلتا تھا .ہمارے گھر کے صحن کے برابر ایک کمرا تھا . یہاں جلانے کے لیے لکڑیاں پڑی رہتیں .اس کمرے سے ایک دروازہ گھر کے اندر کھلتا یہاں کچی اینٹوں سے بنے مکان اور ان سے ملحقہ باورچی خانہ تھا ,البتہ غسل خانہ پکی اینٹوں سے بنا ہوا تھا .
میں نے آنگن میں داخل ہوتے ہی دادا جی کو سلام کیا:
اری “خی خو” کی بچی …..حرام زادی ….. وقت دیکھا کیا ہو گیا ہے ؟ اب آنا تھا سؤر کی بچی
تو جانتی ہے باہر صبح ہی چاۓ جاتی ہے اور تم اب آ رہی ہو حرام زادی
اب میری شکل کیا دیکھ رہی ہو کھڑی کھڑی جلدی کر چاۓ بنا
میں نے جلدی جلدی لکڑیاں جلاءیں اور دیگچی چولہے پر چڑھا دی کپ احتیاط سے صاف کرنے لگی .ابھی پچھلے ہفتے ہی دھوتے ہوۓ کپ ہاتھ سے پھسل کر ٹوٹ گیا تو دادا جی نے میرےمنھ پر تھپڑوں کی بارش کر دی تھی, وہ تو اللہ بھلا کرے دادای جان کا , جنھوں نے میری جان چھڑائ .
ارے چھوڑ بھی دیں بچی کو …..کیا جان سے مارڈالیں گے .
اس نے جان بوجھ کہ تو نہیں توڑا
آج پھر دادا جی میرے سر پر سوار تھے
اتنی دیر “خی جو” ؟
دادا جی آپ چلیں میں لاتی ہوں !
کپ ترتیب سے ٹرے میں رکھے کیتلی میں چاۓ ڈالی .
دادا جی حسب معمول چارپائ پر سفید ململ کا کرتا اور چیک کی دھوتی پہنے بیٹھے اور دینو چاچا کندھے دبا رہا تھا .مجھے آتا دیکھا کر دینو چاچا أٹھ کر میری طرف آۓ ,ٹرے پکڑی اور میں گھر چلی آئ
گھر میں آج خلاف معمول سر گرمیاں تھیں دادای جی نے گوشت گلنے کے لیے چولہے پر چڑھا رکھا تھا .دلہن باجی کباب بنا رہی تھی .جمیل میاں جو دلہن باجی کے شوہر تھے کوئ کتاب پڑھنے میں مصروف تھے
جمیل میاں مجھ سے کہنے لگے :
خوجی ! لگتا ہے دادی جان کی چہیتی پوتی تشریف لا رہی ہیں ,اسی لیے گھر کھانے کی خوشبوؤں سے مہک رہا ہے .
میری تو خوشی کے مارے چیخ ہی نکل گئ
ہیں ….جمیل میاں سچ ….ماریہ جی آرہی ہیں ؟
ماریہ جی لاہور میں پڑھتی ہیں ,یہ نہیں پتا کیا پڑھتی ہیں. ,لیکن مجھ سے بڑا پیار کرتی ہیں .وہاں کی ساری باتیں مجھے بتاتی ہیں اور مجھے خوجی نہیں بلکہ خدیجہ کہہ کر پکارتی ہیں تو لگتا ہے میں نوکرانی نہیں بلکہ ان کی سہیلی ہوں
أدھر دادای جان نے آواز دی:
“خی جو” کی بچی! ادھر دیکھ گوشت گل کیا ہے تو اسے نکال کر کونڈی میں ڈال کر کوٹ .میں کوفتے اپنے ہاتھوں سے بناؤں گی .ماریہ شام تک پہنچ جاۓ گی اور اس کے آنے تک سب کچھ تیار ہو جانا چاہیے میری بچی ہاسٹل کے بد مزہ کھانے کھاکھا کر لکڑی کی طرح سوکھ گئ ہے.
دینو کو ظہر کی نماز کے بعد شہر بھجوا دو تانگہ بچی کے آنے سے پہلے وہاں موجود ہو, ورنہ پریشان ہوگی. جمیل میاں سن رہے ہو ؟
جی بی بی جان ! ابھی کہتا ہوں.
یہ کہتے ہوۓجمیل میاں دروازےسے باہر نکل گۓ اورمیں نے دوبار جھاڑو لگانا شروع کر دی .ادھر سے داداجی گھر میں داخل ہوۓ اور آتے ہی کہنے لگے:
ارے سؤر کی بچی! تمھیں عقل نہیں ہے .سارے گھر میں مٹی اٹھائ ہوئ ہے.پہلے پانی گرا صحن میں پھر جھاڑو لگانا .میں نے دادا جی کی ہدایت کے مطابق صفائ کی .دسترخوان بھچایا اور اندر سے چینی کے برتن لینے چلی گئ یہ برتن یا تو شہر سے آۓ ہوۓ مہمانوں کے آنے پر نکلتے یا پھر ماریہ جی کے آنے پر. پیچھے سے دادای جان کی آواز آئ:
“خی جو ” برتن احتیاط سے نکالنا ,دھو کر صاف کپڑے سے اچھی طرح صاف کرنا.بہت دن ہو گۓ تم نے الماری کی اچھی طرح صفائ نہیں کی .
میں نے احتیاط سے برتن صاف کرکے دلہن باجی کے پاس باورچی خانے سے ملحقہ برآمدے میں رکھے اور خود دوسرے کاموں میں مصروف ہو گئ.
عصر کے بعد باہر چاۓ پکڑانے گئ تو کچی سڑک سے أڑتے غبار سے تانگہ گاؤں کی طرف آتے دیکھا خوشی سے چلاتے ہوۓ میں گھر داخل ہوئ :
دادای جان : دادای جان ماریہ جی آرہی ہیں.
اللہ تیرا شکر میری بچی خریت سے گھر پہنچ گئ, کہاں ہے میری ماریہ ؟
دادای جان ! نہر کے پل سے تانگہ نیچے اتر رہا ہے .
اے موئ ! تیری آنکھیں ہیں یا کیمرے فٹ کر رکھے ہیں ؟
نہیں دادای جان ! سامنے کھتیوں میں فصلیں ابھی چھوٹی ہیں تو سب دور سے نظر آتا ہے .
ادھر آ موئ! تیرے دادا جی نے تجھے تانک جھانک کرتے دیکھ لیا تو ناراض ہوں گے تجھ پہ
میرے آنے پر دلہن باجی نے برتنوں میں کھانا ڈال دیا اور میں نے جھٹ پٹ ساری چیزیں دسترخوان پہ چن دیں.
دادای جان , جمیل میاں اور ماریہ جی کی ملی جلی آوازیں میرے قریب محسوس ہوءیں تو میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا ماریہ جی میرے پیچھے کھڑی تھیں .دینو چاچا دونوں ہاتھوں میں سوٹ کیس پکڑے کھڑے تھے .ماریہ جی باری باری سب سے گلے ملی دادای جان بولی:
میری بچی سوکھ گئ کیسے ہلدی جیسی رنگت ہوگئ
میں نے چارپائ ذرا کھسکائ کھیس دوبارہ درست کیا اور تکیے کو ٹھیک کرتے ہوۓ کہا:
ماریہ جی بیٹھیں یہ کہہ کر میں پانی لینے چلی گئ.
خدیجہ! ذار تولیہ دے دو راستے میں سارے کپڑے مٹی مٹی ہو گۓ .دادا جی سے کہیں نا اپنے چہیتے ایم پی اے سے کہلوا کہ پکی سڑک ہی بنوا دیں .ووٹ لیتے اور دعوتیں أڑاتے ہیں اتنا تو کروا سکتے ہیں !!
میں نے جلدی سے. تولیہ اور صابن ماریہ جی کو تھمایا .ادھر سے دادای جی کی آواز آئ “خی خو” !
غسل خانہ دھودیا تھا کہ نہیں ؟
دادای جان ! آج تو غسل خانے کے فرش کو خوب رگڑ رگڑ کے صاف کیا ہے .میں نے دوبارہ دسترخوان پر نظر گھمائ کہ کسی چیز کی کمی نہ ہو , ورنہ دادا جی میری جان کو آ جاءیں گے .
ماریہ جی جب بھی گھر آتی کھانوں کا خوب اہتمام کیا جاتا .ماریہ جی تھی بھی سب کی لاڈلی .دادا جی اگرچہ عورت کو دنیا کی حقیر مخلوق سمجھتے اور تذلیل کرتے , لیکن ماریہ جی کی ہر فرماءلش پوری کرتے .کھانے سے فارغ ہوکر میں نے دادا جان سے پوچھا :
اگر اجازت دیں تو میں ماریہ جی کو اپنی ماں سے ملوا لاؤں وہ بییمار ہیں زیادہ چل پھر نہیں سکتی ورنہ ماریہ جی کو ملنے ضرور آتی
تیرے دادا جی کا پتا ہے نہ تمھیں ناراض ہوں گے .الیسا کرناتم کل صبح تھوڑی دیر کے لیے ساتھ لے جانا .ولیسے بھی آج تھکی ہوئ آئ ہے .میری بچی ذرا آرام کر لے میں نے بھی جی بھر کہ اپنی شہزادی سے باتیں کرنی ہیں. کتنے عرصے بعد آئ ہےمیری بچی
اگلے دن میں سورج طلوع ہونے سے پہلے دادا جی کی حویلی میں موجود تھی.ماریہ جی ابھی سو رہی تھی میں نے ہوا کی رتھ پہ سوار سارے کام جھٹ پٹ نبٹاۓ اتنی دیر میں ماریہ جی بھی اٹھ گئ منھ دھو کہ ناشتہ کیا .دادای جان نے چولہے پرکچھ پکنے کے لیے رکھا ہوا تھا .دلہن باجی رقیہ خالہ سے کپڑے دھلوانے کے لیے نکال رہی تھی . ہم نے دادای جان سے اجازت لی تو انھوں نے ماریہ جی کو سختی سے منع کیا کہ کمی کمینوں کے گھر سے کچھ نہیں کھانا .
اک لمحے کے لیے میں اداس ہوئ لیکن اگلے ہی لمحے خوش بھی کہ ماریہ جی میری ماں کے ہاتھوں کے بنے آلوؤں کے پراٹھے اور دہی پودینے کی چٹینی شوق سے کھاتی اور فرماءش کرکے بنواتی اور ہم باتیں کرتیی خستہ پراٹھوں کا لطف بھی لتیی.ہم حویلی کے پچھلے دروازے سے نکل کر اس تنگ گلی میں آگءیں جہاں ہمارا گھر تھا .
ابا نے چارپائ بچھائ ارے آج تو ہماری بی بی آئ ہیں . “خی جو” کی ماں دیکھو تو ….ماں نے پیار کیا ہم چارپائ پہ بیٹھنے کی بجاۓ کمرے میں چلی گءیں سارے گاؤں کی خبریں ماریہ جی کو سنائ .ماں اتنے میں ماریہ جی کا پسندیدہ کھانا لے آءیں پیٹ بھر کے کھانا کھایا أس کے بعد ماریہ جی کو کڑھائ والی چادر دکھائ جو میں نے اپنے ہاتھوں سے تیار کی تھی .خدیجہ دادای جان ناراض ہوں گی اب چلنا چاہیے. باہر گاؤں کی لڑکیاں دیواروں کے اوپر سے سر نکالے ہمیں دیکھ رہی تھیں .یہ ساری گلی ہم جیسے غریب محنتی لوگوں کی تھی حویلی داخل ہوۓ تو دادای چھوٹے برآمدے میں جاۓ نماز پہ بیٹھی ظہر کی نماز پڑھ رہی تھی دلہن باجی باورچی خانے سے ملحقہ برآمدے میں کچھ پکا رہی تھی ہماری آوازیں سنتے ہی بولی “خی جو” کی بچی کام تمھارے باپ نے کرنا تھا اب جلدی کرصبح کے دھونے واے برتن اسی طرح پڑے ہیں .نماز کے بعد سب کھانا کھاءیں گے.
ماریہ جی کو آۓ ہفتہ ہوگیا تھا وقت الیسے گزرا پتا ہی نہ چلا.
اگلے دن سورج طلوح ہونے سے پہلے حویلی کے باہر تانگہ ٹھہرا ہوا تھا .گھر سے باہر تک دادا جی کے بولنے کی آوازیں آرہی تھیں:
جلدی تیار کرؤ بچی کا سامان باہر تانگے والا انتظار کر رہا ہے. سب أداس تھے میں چپ چاپ چولہے کے پاس بیٹھی ماریہ جی کو ایک کمرے سے دوسرے کمرے تک چکر لگاتے دیکھ رہی تھی.پھر میں نے اور دینو چاچا نے سامان تانگے پہ لادا
ادھر داداجی کی گرج دار آواز گونجی:
یہ جمیل میاں کہاں ہے ابھی تک نظر نہیں آرہا ؟اسے کہو بچی کو خود نہاول پور سے ریل گاڑی میں بٹھا کر آۓ.
داداجی کے حکم کے آگے کسی کی نہیں چلتی تھی. میں جب سے اس گھر میں آئ ,بلکہ ماں بتاتی ہیں کہ انھوں نے کبھی نہیں دیکھا جو دادا جی نے کہا ہو وہ پورا نہ ہوا ہو .ماں بتاتی ہیں ایک مرتبہ کوئ اجنبی مہمان رات کےوقت آگۓ ان کے ساتھ عورتیں اور بچے بھی تھے بارش ہو رہی تھی .دادا جی نے کہا جلدی سے کھانا تیار کرو باہر کوئ مسافر آۓ ہیں !!
دادای جان نے بس اتنا کہا :
جو ساتھ عورتیں ہیں,ان سے کہہ دیں ذرا ہمارے ساتھ ہاتھ بٹا دیں .یہ سنتے ہی دادا جان آگ بگولہ ہو گۓ ڈنڈا اٹھایا اور دادای جان کو مارنا شروع ہو گۓ وہ تو جمیل میاں نے دادا کو پکڑا اور باہر لے گۓ.کھانا تیار ہوا مہمانوں نے کھایا تب دادا جی گھر آۓ دادای جان کو بلایا ان کے ہاتھ زمین پر رکھواۓ چارپائ کا پایہ اوپر رکھا اور خود أس پہ سو. گۓ کسی میں ہمت نہیں تھی ,کہ ان سے بات کرسکے .دادای جان کے ہاتھ ٹھیک ہونے میں پورا مہنیا لگا .اس واقع کے بعد ماں نے نہیں دیکھا کہ کسی نے ان کی بات ٹالی ہو .
ماریہ جی کے جانے کے بعد حویلی کاٹ کھانے کو دوڑنے لگی .آج مغرب کی نماز کے بعد دادا جی نے سب کو بلایا میں جمیل میاں کی شادی کر رہا ہوں مجھے اس حویلی کا وارث چاہیے .اسی جمعے کو نکاح ہے .میرے اس فیصلے پر کسی کو اعتراز نہیں. ہونا چاہیے.دادا جی کا حکم ٹالنے کی پورے خاندان میں ہمت نہیں تھی یہ تو پھر ان کے گھر کا معاملہ تھا .جمیل میاں کچھ بولنے لگے تو انھیں خاموش کروا دیا گیا .دلہن باجی کا رنگ یک دم پیلا پڑ گیا اور وہ آنکھوں میں آنسو لیے وہاں سے أٹھ گئ.
جمعے کا دن آگیا سب تیاریاں مکمل تھیں .جو دلہن حویلی آئ اس کی عمر ماریہ جتنی تھی دو سال گزرجانے کے باوجود ان سے کوئ اولاد نہ ہوئ.
رمضان المبارک کی آمد آمد تھی اس مہینے کے شروع ہونے سے پہلے ہی حویلی میں خاص اہتمام شروع ہو جاتا پورے مہینے کا سودا سلف کی لسٹ دادا جی جمیل میاں سے اپنی نگرانی میں بنواتے اور خود سامان تانگے پر جا کہ خرید لاتے .اد مہینے کے تقدس کے طور پر چولہے میں آگ صرف سحری اور افطار کے وقت جلانے کی اجازت تھی اس کے علاوہ کوئ پکانے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا .پندرہ روزے گزر چکے تھے جب نئ دلہن کابھائ اوراک خالہ زاد دلہن کی عید دینے آۓ دوپہر کا وقت تھا دادا جی سو رہے تھے دادی جان نے مجھے جلدی سے روٹی بنانے کا کہا سالن پڑا ہوا تھا . ابھی انھوں نے دو دو نوالے ہی کھاۓ ہوں گے کہ دادا جی آن پہنچے .جوتے کی نوک ٹرے پر ماری اور اور سارے برتن ادھر أدھر بکھر گۓ .دادای جان کی شامت بھی ساتھ ہی آ گئ .اتنا عرصہ ہو گیا تمھیں اب اس گھر کے قاعدے قانون دوبارہ بتانے پڑیں گے؟
مہمان باہر کی طرف بھاگ نکلے ان کے پیچھے داداجی گالیاں. دیتے اور جوتے مارتے بھاگ رہے تھے .رک جاؤ حرام زادو! سؤر کے بچو واپس گۓ تو اچھا نہیں ہو گا.نہر کے پل سے ان کو واپس لایا گیا اور حکم صادر ہوا کہ عید یہاں کرو گے اسی شام ماریہ جی کی شادی بھی طے پائ دادا جی نے بتایا کہ ساتھ والے گاؤں میں میرے دوست کا پوتا ماریہ کا دولہا بنے گا .دلہا زیادہ پڑھا لکھا نہیں ہماری طرح اچھے خاصے زمیندار ہیں .اب عید کے ساتھ ساتھ ماریہ جی کی شادی کی تیاریاں بھی شروع تھی آدھے سے زیادہ سامان تو دادای جان نے پہلے ہی بنوایا ہوا تھا وہ دن آن پہنچا اور ماریہ پیا گھر سدھر گی .اچانک جمیل میاں کی طبعیت خراب ہوگئ گاؤں کے حکیم سے دوا لی مگر طبیعت نہ سنبھلی شہر لے جانے کے لیے تانگہ منگوایا ابھی تانگے والا پہنچا نہیں تھا کہ جمیل میاں کا انتقال ہو گیا حویلی میں کہرام مچ گیا .عصر تک گھر میں خواتیں اور باہر مرد جمع ہو چکے تھے .دادای جان بیٹے کی لاش کے سرہانے پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی وہ نہ رو رہی تھی نہ ان کا جسم حرکت کر رہا تھا گاؤں اور رشتےدار خواتین ان کے گلے لگ کے رو رہی تھیں مگر ان کو کچھ ہوش نہیں تھا .جمیل میاں کی قل خوانی والے دن سکتے کی حالت میں ان کا انتقال ہو گیا .
حویلی میں کافور کی خوش بو پھیلی ہوئ تھی الیسے لگ رہا تھا جیسے اس گھر سے روز ایک جنازہ نکلتا ہے . میرا بھی دادای جان کے بغیر اس گھر میں جی نہیں لگتا تھا .ہفتے کے اندر ہی دادا جی بھی اک دم بہت بوڑھے لگنے لگے کہاں وہ رعب ودبدبہ بولتے تو سب کی بولتی بند کر دیتے اور کہاں اب لاٹھی کے سہارے چلنے لگے .
میں ہر شام دادی جان اور جمیل میاں کی قبروں پہ پانی ڈالتی ,گلاب کی پتیاں نچھاور کرتی اگربتیاں جلاتی….یوں ہی بیٹھے بیٹھے میرا دل بھر آتا اور میں رونا شروع کر دیتی .
جمعرات کا دن تھا قبرستان حویلی سے کچھ فاصلے پہ ہی تھا میرے وہاں پہنچنے سے پہلے داداجی دادی جان کی قبر کے پاس بیٹھے ان سے باتیں کر رہے تھے اور روتے ہوۓ کہہ رہے تھے:
بشیراں! مجھے معاف کر دے میں نے ساری زندگی تم پر بہت ظلم کیے تو اچانک مجھے چھوڑ کر چلی آئ .اب تمھارے بغیر میرا دل نہیں لگتا !!
میں نے داداجی کو زندگی میں پہلی بار روتے دیکھا
میں تیز قدموں سے پلٹی گھر چلی گئ.
Urdu short stories and writers
Be First to Comment