عالمی افسانہ میلہ 2019
افسانہ نمبر 7
خوف
اویناش امن
پٹنہ ، بہار ( انڈیا )
ایک بڑھیا، بے چاری، غم کی ماری، دکھیاری، بے یارومددگار ، نہ ہمدرد نہ غم گسار، نہ کوئی نام لیوا نہ کوئی پانی دیوہ، اپنی بوسیدہ جھونپڑی میں زندگی کے بچے کھچے دن گزار رہی تھی۔ جمع پونجی کے نام پر وراثت میں ملی اس جھونپڑی کے علاوہ ایک ٹوٹا ٹن کا بکسا، ایک چھپرکھٹ جس کی رسیاں بیچ بیچ سے ادھڑی گئی تھیں، بچھانے کا ایک بھوترا، چند ٹوٹے پچکے برتن، آنگن میں ایک نیمبو کا پیڑ اور چھپر سے لٹکتی کدیمے کی لت کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔
زندگی کا بوجھ بھی عجیب شئے ہے۔ خواہ کتنا بھی وزنی ہو، کمرجھک جائے، پیٹھ اکڑ جائے، گردن ٹوٹنے کو آئے، انسان سر سے اتارنے کو تیار ہی نہیں ہوتا۔ درد جب حد سے گزرتا ہے تو انسان موت کی دعا مانگتا ہے مگر اس امید کے ساتھ کہ یہ دعا کبھی قبول نہ ہو۔
جینے کی تمنا بڑھیا کو ہر مشقت سے لڑنے کا حوصلہ دیتی۔ وہ پوپھٹتے ہی کیلے لے کر ریلوے لائن کے کنارے بیچنے بیٹھ جاتی۔ اس طرح شام تک بمشکل دو وقت کی روٹی کا انتظام کر پاتی۔
بڑھیا دنیا کے لئے کسی کام کی تو تھی نہیں جو کوئی اس سے ملنے آتا، کوئی اس کے پاس بیٹھ کر دو باتیں کرتا۔ لوگ اپنے غریب رشتہ داروں سے منہ چھپائے پھرتے ہیں کہ کوئی سوال کا دست دراز نہ کردے۔ لہٰذا رشتہ دار اس سے دور ہوچکے تھے۔
اس تاریکی میں روشنی اور اس کے اکیلے پن کا ساتھی ایک ہی تھا، اس کا بکرا ہیرا۔ وہ اسے اپنا بیٹا مانتی اور اس کا خوب خیال رکھتی۔ دن بھر کیلے بیچ کر تھک کر جب وہ گھر لوٹتی تو بکرے کی گردن میں بندھے گھنگھرو کی آوازسن کر اس کا دل کھل اٹھتا۔ جب بڑھیا کو دیکھ کر بکرا مے مے کرتا تواسے لگتا کہ وہ ماں ماں پکار رہا ہے۔ وہ دوڑ کر بکرے کی گردن سے لپٹ جاتی۔ بڑھیا خود بھوکی رہ جاتی مگر بکرے کو دانا دینا نہیں بھولتی۔ صبح صبح پاس کے باغییجے سے کٹہل کی پتیاں توڑ کر بکرے کے سامنے رکھتی اور ایک چھاگل میں پانی بھر کر بکرے کے قریب کر دیتی، تبھی کیلے بیچنے کو نکلتی۔
اس طرح بڑھیا کی زندگی کے بچے کھچے دن کٹ رہے تھے۔ ایک شام جب بڑھیا کیلے بیچ کر اپنے جھونپڑے پر واپس آئی تو اسے گھنگھرو کی آواز نہیں سنائی پڑی۔ اس کا دل دھک سے رہ گیا۔ اس نے دھڑکتے دل سے کنڈی پکڑی۔ آج کسی نے اسے ماں ماں کہہ کر نہیں پکارا، اس کا دل اندیشہ، بد سے دہل گیا۔ کانپتے ہاتھوں سے اس نے کنڈی کھولی۔ وہاں ہیرا ندارد ۔ اس کا دل بیٹھ گیا۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا، آنسو زار و قطار بہنے لگے ۔ وہ وہیں گھٹنوں کے بل اکڑوں بیٹھ گئی۔ آنسو تھے کہ تھمتے نہ تھے۔ اندھیرا گھرتا آرہا تھا۔ بڑھیا نے نہ کچھ کھایا نہ پیا، نہ اپنا بھوتھرا بچھایا نہ سوئی، تمام رات آنکھوں ہی آنکھوں میں گزار دی۔ کہاں جائے، وہ کس سے اپنا دکھڑا روئے، کون سنے گا اس کی فریاد؟ پتہ نہیں ہیرا کہاں ہے؟ کس حال میں ہے؟ زندہ ہے بھی یا نہیں؟ کسی نے چرا تو نہیں لیا؟ کہیں لائن پر جا کر کٹ تو نہیں گیا؟ محلے کے لونڈے اسے دیکھ کر عش عش کرتے تھے۔ ہو نہ ہو ناسپیٹوں نے اس کے ہیرا کو ذبح کر اس کی دعوت اڑالی ہے۔ صبح ہوئی تو وہ محلے میں ادھر ادھر دیوانہ وار بھٹکنے لگی۔ کسی نے اپنے گھر میں گھسا لیا ہو! کہیں اسے دیکھ کر ہیرا کسی آنگن سے ماں ماں پکار اٹھے مگر جیسا سوچا جاتا ہے ویسا ہوتا تھوڑی ہے! ادھر ادھر بھٹکتے ہوئے سورج سر پر چڑھ آیا۔ بڑھیا کے پاؤں لڑکھڑانے لگے، زبان خشک ہونے لگی۔ پیٹ بھوک کی آگ سے جلنے لگا۔ اب امید کا دامن چھوڑ کر وہ اپنی جھونپڑی کی طرف لوٹ ہی رہی تھی کہ مدرسہ اصلاح المسلمین کے سامنے سے گزرتے ہوئے اس کے قدم خودبخود رک گئے۔ یکایک اسے خیال آیا۔ کہتے ہیں مولوی بدرالدین بڑے عامل ہیں۔ جن ان کے اشارے پر ناچتے ہیں۔ کہتے ہیں کالا علم بھی رکھتے ہیں۔ کتنوں کا بھوت انہوں نے اتارا۔ ابھی عمرانہ جو اوپری اثر سے رات بھر چلاتی تھی، آنگن میں دو دو ہاتھ اچھلتی تھی اسے مولوی صاحب نے ہی تو ٹھیک کیا تھا۔ کیا پتہ میرے ہیرا کو بھی ڈھونڈھ کر لادیں۔ امید میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔ امید کا دامن پکڑے ہوئے انسان کو تنکا بھی لوہے کا گارٹر نظر آتا ہے۔ اندھیرے میں روشنی کی جو کرن نظر آتی ہے وہ خورشید کی چمک کو بھی ماند کر دیتی ہے۔
بڑھیا نے اپنی ساڑی ادھر ادھر سے درست کی، سرکو اچھی طرح ڈھنکا اور اپنے پرامید قدم مدرسے کے اندر ڈال دئے۔مولوی بدرالدین اپنے شاگردوں کے ساتھ دری پر بیٹھے پان چبا رہے تھے۔ بڑھیا گھستے ہی پچھاڑ کھا کر گرپڑی اور دہاڑ مار کر رونا شروع کر دیا۔ اب تو آنسو بھی خشک ہو چلے تھے۔ لہٰذا رونے کی آواز تیز تھی اور آنسو کم نظر آتے تھے۔
’’کیوں بڑھیا کیا بات ہے؟‘‘ مولوی صاحب نے منہ کھولا تو لاکھ جتن کے باوجود بھی منہ سے پان سنا لعاب داڑھی سے ہوتے ہوئے سفید کرتے پر ٹپک ہی گیا۔
’’مولوی صاحب، مولوی صاحب، میرا بیٹا ہیرا کھو گیا۔‘‘
’’اس بڑھیا کا بکرا کھو گیا ہے۔‘‘ ایک شاگرد نے وضاحت کی۔
’’نارے، بکرا نہیں ، میرا بیٹا، ہیرا بیٹا۔‘‘
’’چپ بڑھیا، ہمیں شبہ میں مبتلا نہ کر۔‘‘ لڑکے کی دعا بکرے پر نہیں چلے گی اور بکرے کی دعا لڑکے پر بے اثر ہے۔ بول لڑکا یا بکرا؟‘‘
’’جی۔۔۔ بکرا۔‘‘
’’ہوں!! مولوی کچھ سوچ کر بولے۔ ہم لاکر دیں گے تمہارا بکرا، بدلے میں کیا دے گی؟‘‘
’’آپ جو کہیں۔‘‘ بڑھیا پلو سے آنکھیں پوچھتی ہوئی بولی۔
’’تو کیا رمضان میں صدقہ نکالے گی مدرسے کے لیے؟‘‘
’’مولوی صاحب ، بڑھیا دلدر ہے۔ یہ کیا صدقہ نکالے گی؟‘‘ ایک شاگرد نے بیچ میں ٹوکا۔
’’ہوں۔۔۔‘‘ مولوی بدرالدین پیشانی کھجانے لگے۔
کچھ دیر سوچ کر بولے ’’ٹھیک ہے دعوت کردے۔ کیا کھلاوے گی؟‘‘
’’بریانی‘‘ بڑھیا ایک دم سے بول اٹھی۔ جس کے ملنے کی کوئی امید نہ ہو وہ ایک دم سے سامنے آکر کھڑا ہوتا نظر آجائے تو مارے خوشی کے انسان کا جوش کئی گنا بڑھ جاتا ہے اور جوش میں ہوش رہتا ہی کہاں ہے؟ بڑھیا کو اس وقت احساس ہی نہیں ہوا کہ وہ جوش میں کیا بول گئی۔
’’سوچ لے بڑھیا۔ میرے ساتھ میرے شاگرد بھی رہیں گے۔‘‘
’’مولوی صاحب، آپ کے شاگرد تو بہت ہیں! کیسے انتظام ہو گا؟‘‘
’’تو کیا ہم اکیلے بریانی اڑائیں گے اور اپنے شاگردوں کو گلگلے کھانے بھیج دیں گے؟‘‘
اب بڑھیا تھوڑے شش و پنج میں پڑی، پھر کچھ سوچ کر بولی’’اپنے ساتھ دو شاگرد لے آیئے۔‘‘
’’نہیں۔ پانچ سے کم ہرگز نہیں۔‘‘
آخرکار بات مولوی صاحب کے ساتھ چار شاگردوں پر بنی۔
مولوی بدرالدین نے کچھ پڑھ کر پھونکا اور تعویذ لکھ کر بڑھیا کے ہاتھوں میں دباتے ہوئے بولے۔
’’با وضو ہے نا؟ تو لے اس تعویذ کو گھر میں اوکھلی کے نیچے اپنے بکرے کو یاد کرتے ہوئے دبا دے۔‘‘
’’مولوی صاحب، اوکھلی نہیں ہے۔‘‘
’’تو چکی کے نیچے داب دے۔‘‘
’’حضور چکی بھی نہیں ہے۔ اس دکھیارن کے پاس اتنا اناج کہاں کہ پیسنے کی ضرورت پڑے۔‘‘
مولوی برافروختہ ہو کر۔۔ ‘‘ مٹی ہے کہ وہ بھی نہیں ہے؟ جاگھر جہاں اپنا بکرا باندھتی تھی وہاں مٹی میں گاڑ دے اور ہاں بکرا مل جائے تو بتانا مت بھولیو۔‘‘
تعویذ لے کر بڑھیا چلی۔ دل میں اندیشے کے بادل منڈلا رہے تھے۔ پتہ نہیں مولوی صاحب کا تعویز اثر کرے گا بھی یا نہیں؟
گھر پہنچ کر اس نے بڑی احتیاط سے تعویذ کو کھونٹے کے پاس زمین میں گاڑ دیا۔ پھر تھوڑی کھدی نکالی۔ پانی میں ابال کر پکایاا ور نمک کے ساتھ آنتوں کی تہوں میں پہنچا کر بھوتھرا بچھا کرسوگئی۔ دوسرے دن وہ کیلے بیچ رہی تھی مگر دل بکرے پر ہی اٹکا تھا۔ دل کہتا مولوی صاحب کی دعا اثر کرگئی۔ اس کا ہیرا واپس آگیا۔ امیدمیں بڑی طاقت ہوتی ہے۔ بکرے کے لوٹنے کی امید میں اس نے جھونپڑی کی سانکل بھی نہیں چڑھائی تھی۔ حالانکہ اس لانبے تڑنگے جانور کو ٹیٹا پھلانگتے دیر ہی کیا لگتی۔ وہی ایک دل یہ بھی کہتا کہ یہ سب تو بہلانے کی باتیں ہیں۔ جانور ایک دفعہ جو نکل گیا تو واپس کہاں آتا ہے؟ اب تو صبر کرنے میں ہی گزاراہے۔ اس ادھیڑبن میں شام ہوگئی۔ وہ واپس اپنے جھونپڑے کی طرف چلی۔ اب اس نے بالکل ہی امید چھوڑ دی تھی۔بوجھل تھکے تھکے قدموں سے وہ جیوں ہی جھونپڑی کے قریب پہنچی اس کے کانوں میں گھنگھرو کی رن جھن شہد کی طرح گھل گئی۔ اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں ہوا۔ ضرور یہ میرا وہم ہے۔ کانپتے ہاتھوں سے اس نے دروازہ کھولا۔ ماں ماں کی آواز اس کے کانوں میں گونج اٹھی۔ اب کوئی وہم نہ تھا۔ اسے مولوی بدرالدین کے تعویذ کا کرشمہ سمجھئے یا ہونی کا کھیل یا اور کچھ، واہ رے اللہ کی قدرت سامنے ہیرا کھڑا تھا۔ بڑھیا دوڑ کر اس کے گلے سے لپٹ گئی آنکھوں سے آنسو بھل بھل گرنے لگے۔ اب تو مارے خوشی کے بڑھیا کے پیر زمین پر نہ پڑتے تھے۔ اس رات بڑھیا نے پیٹ بھر کھایا اور نیند بھر سوئی۔ صبح جب وہ ہیرا کے لیے چھاگل بھر رہی تھی تو اسے مولوی بدرالدین کا خیال آیا۔ اب مولوی اور اس کے شاگردوں کو تو بریانی بھی کھلانی پڑے گی۔ انہیں معلوم پڑے گا تو چھوڑیں گے نہیں۔ اب جس کی قسمت میں کھانے کے لالے اور بیشتر فاقے ہوں وہ بریانی کہاں سے کھلائے؟ بڑھیا کو تو یاد بھی نہیں آتا تھا کہ اس نے آخری بار کب بریانی کھائی تھی۔ بقرعید بھی پاس نہیں کہ کسی سے مانگ کر تھوڑا گوشت لے آتی۔ بھلا مولوی بدرالدین مہینوں صبر کرے؟ کم از کم دو کلو گوشت اور دوسیر چاول سے کم میں بات بنے گی نہیں اوپر سے تیل مسالہ الگ۔ بڑھیا نے حساب لگایا۔ سنا ہے مولانا بڑا پیٹو ہے۔ عمرانہ کا جن اتارنے کے بعد جو اس نے پلاؤ گوشت کھانا شروع کیا تو ایک گھنٹے تک کھاتا ہی چلا گیا۔ پوری پتیلی ختم۔ کھا کر وہیں ڈھیر ہوگیا۔ اب بڑھیا خود کو لعنت ملامت کر رہی تھی۔ ہائے اس نے یہ کیا کہہ دیا؟ یہ کیسا وعدہ کرلیا؟ ایک دل آیا کہ وہ جاکر مولوی بدرالدین سے معافی مانگ لے مگر کیا وہ معا ف کرے گا؟ اول تو کرے گا نہیں۔ اتنی آسانی سے مولانا دعوت چھوڑنے والا نہیں ہے۔ اور اگر معاف کر بھی دے تو معلوم نہیں مولوی کے طفیل سے کتنے جن جنات سیر ہوتے ہوں گے۔ کہتے ہیں مولوی بدرالدین کے سر پر ہمیشہ جناتوں کا سایہ رہتا ہے۔ وہ جو بھی کھاتا ہے، جو بھی پیتا ہے، اس کا ایک حصہ جناتوں تک ضرور پہنچتا ہے، تبھی تو وہ جو چاہتا ہے وہ کام جناتوں سے کروالیتا ہے۔ نہیں، نہیں وہ کسی سے کچھ نہیں کہے گی۔ ہیرا مل گیا یہ بات کسی سے نہیں بتاوے گی۔ وہ اسے کوٹھری کے اندر چھپا کر رکھے گی۔ کوئی جانے گا تب نا۔ ویسے بھی اس کے یہاں کس کا آنا جانا ہے؟ بڑھیا نے اپنا دل کڑا کیا اور ہیرا کو کوٹھری کے اندر اپنا بھوترا ہٹا کر باندھ دیا۔ سانکل چڑھا دی۔ ادھر ادھر دیکھا اور جب مطمئن ہوگئی کہ کسی نے دیکھا نہیں پھر کیلے لے کر چلی بیچنے۔ خودکو اس نے سمجھا لیا تھا مگر دل تھا کہ دھڑکتا ہی جاتا تھا۔ مولوی کو اپنے کالے علم سے پتہ لگاتے دیر نہیں لگے گی کہ ہیرا مل گیا۔ کہیں ایسا ہو جائے تو؟ پھر خود کو سمجھاتی۔ مولوی کو اتنی فرصت کہاں؟ دنیا بھر کے کام ہیں۔ خیر اللہ اللہ کرکے ایک ہفتہ گزر گیا۔ لیکن جس طرح کنواری لڑکی کی باڑھ نہیں چھپتی، اندھیری رات میں ٹمٹماتا دیا دور سے ہی نظر آجاتا ہے، کسی نہ کسی طرح یہ خبر مولوی بدرالدین تک جا پہنچی کہ بڑھیا کابکرا مل گیا ہے پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔صبح صبح ہی مولوی کا ایک چیلا آدھمکا۔
’’کیوں ری بڑھیا؟ تو کیا سمجھے ہے؟ نابتاوے گی تو مولوی صاحب کو خبرنہ ہوگی؟ جب بکرا تیرا خون تھوکے گا تب معلوم چلے گا۔ جو بکرا لا سکے ہے واپس بھی بھیج سکے ہے۔ جا مولوی صاحب سے مل لے، بڑے غصے میں ہیں۔‘‘
اب تو بڑھیا تھر تھرکانپنے لگی ۔ گرتی پڑتی مدرسے بھاگی۔ مولوی بدرالدین ہاتھ میں بدھنا پکڑے رفعہ حاجت کے لیے جا رہے تھے کہ بڑھیا کو دیکھ کر رک گئے۔
’’کیوں ری کم عقل بڑھیا؟ کیا سمجھتی ہے؟ ہمیں نہ بتاوے گی تو ہمیں معلوم نہ چلے گا؟ ‘‘
’’مولوی صاحب، ہم تو خود ہی آتے بتانے۔۔۔‘‘
’’چھوڑ یہ سب بتا دعوت کب کرتی ہے؟‘‘
’’تھوڑی مہلت دے دیں۔‘‘
’’اس کے لیے بھی مہلت؟ ٹھیک ہے ابھی جا۔ سوچ کر بتا دینا۔‘‘
چلو آج تو جان چھوٹی۔
’’شکریہ مولوی صاحب۔‘‘
بڑھیا بھاری قدموں سے گھر لوٹی، دل پہ مولوی بدرالدین کی دعوت کا بوجھ لیے۔ اسے آج پہلی دفعہ لگا کہ کاش ہیرا نہ ملتا تو ہی اچھا تھا۔ کم سے کم یہ مصیبت تو گلے نہیں پڑتی۔ وہ کیا کرے؟ کس سے مدد مانگے؟ اس نے ایک دو جگہ سوال بھی کیا مگر بے سود۔ اسے دعوت کرنے کے لیے پیسے بھلا کوئی کیوں دیتا؟
بڑھیا اپنی روز کی زندگی میں لوٹ تو چکی تھی مگر اس کی زندگی ہر پل مولوی بدرالدین کے خوف کے سائے میں گذر رہی تھی۔ اسے راہ چلنے لگتا مولوی بدرالدین کے چیلے اسے گھور رہے ہیں۔ کیا پتہ کس دن مولوی کا قہر اس پر نازل ہو جائے؟ پتہ نہیں کب مولوی کسی جن کو ہیرا کے سر پر سوار کر دے اور اس کا ہیر اخون تھوکے، نہیں خدا رحم کر۔۔۔
اسی ادھیڑ بن میں کئی روز گذر گئے۔ بڑھیا ہمیشہ سوچتی کاش کوئی معجزہ ہو جائے مگر ایسا نہ ہونا تھا نہ ہوا۔ آج جب وہ کیلے بیچ کر لوٹ رہی تھی تو ہاٹ پر مولوی بدرالدین سے ملاقات ہوگئی۔ مولوی نے بڑھیا کو سرتا پاؤں دیکھا مگر بغیر کچھ کہے سنے آگے بڑھ گیا لیکن بڑھیا کو نہ جانے کیوں ایسا محسوس ہوا کہ مولوی کے سر پر سوار جناتوں کی ٹولیوں کی جلتی آنکھیں اسے ہی گھورے جا رہی ہیں۔ اس نے آواز دی ’’مولوی صاحب! مولوی صاحب۔‘‘
’’کیا بات ہے؟‘‘
’’سوچا ہے آپ کی دعوت کردیں پرسوں جمعہ کی نماز کے بعد۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ مولوی نے سادہ جواب دیا اور بڑھیا آگے بڑھ گئی۔
اگلی صبح اس نے کیلوں کی ٹوکری نہیں اٹھائی، ہیرا کی رسی کھولی اور اسے باہر نکال لائی۔ اس نے فیصلہ کرلیا تھا، ایک ایسا فیصلہ جو اس نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا۔ سر پہ منوں بوجھ اور آنکھوں میں اشکوں کے لبالب کٹورے لیے ہوئے وہ کلن قصاب کی دکان پر آپہنچی جہاں کلن تازہ ذبح کئے ہوئے بکرے کی چربی کی چوٹی گونتھنے میں مشغول تھا۔ اس نے ایک نظر کلن کو دیکھا اور دوسری نظر اس کے چھرے کو جو لکڑی کے ٹھیہے پر مضبوطی سے جما ہوا تھا۔ بڑھیا کچھ دیر وہاں رکی پھر کچھ سوچ کر آگے بڑھ گئی۔ بڑھیا آگے جا رہی تھی اور ہیرا پیچھے پیچھے گھنٹی بجاتا ہوا ماں ماں کرتا ہوا جا رہا تھا جس طرح بچے ماں کی انگلی پکڑ کر بازار جاتے ہیں۔
بڑھیا چلتی رہی، چلتی رہی۔ آخر اس کے لاکھ نہ چاہنے کے باوجود بھی بکری مارکیٹ آہی گیا۔ بقرعید میں ابھی مہینوں کی تاخیر تھی لہٰذا بکری مارکیٹ تقریباً ویران پڑا تھا۔ تیوہار کے وقت جہاں پورا بازار گاہکوں سے اٹا رہتا وہاں ابھی بہ مشکل ہی اکا دکا گاہک نظر آرہے تھے۔ بقرعید ابھی دور ہے، ہیرا کی زندگی میں کچھ سانسوں کا اضافہ تو بڑھیا ضرور کر سکتی تھی۔ وہ ہیرا کو لے کر ایک کونے میں خاموشی سے بیٹھ گئی۔ آنسو تھامے نہ تھمتے تھے۔ اسے نہیں معلوم کہ وہ کتنی دیر بیٹھی رہی۔
’’اری بڑھیا کیا لے گی اپنے بکرے کا؟‘‘
کوئی جواب نہیں۔
’’سنتی نہیں، بہری ہے کیا؟‘‘ ایک گاہک نے بڑھیا کو ہلایا، بڑھیا ایک جانب لڑھک گئی۔ ہیرا کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ ہیرا کی رسی پر بڑھیا کی گرفت اب بھی ڈھیلی نہیں پڑی تھی۔