Skip to content

خود کلامی کی کتھا

عالمی افسانہ میلہ2019
افسانہ نمبر 130

خود کلامی کی کتھا
رمشا تبسّم ۔لاہور ۔پاکستان
“روتے قہقہے”

کسی کے آ کر چلے جانے سے کتنی اذیت ہوتی ہے۔خدا نہ کرے کبھی تم اس اذیت سے گزرو۔۔۔ہر شخص اس کرب, اس تکلیف کو برداشت نہیں کر سکتا۔۔۔جو روح کو دہکتے کوئلوں میں جھلسا دے۔۔
تم نے کہا تھا نا۔۔اذیت ہر بار ہی اذیت نہیں ہوتی۔درد ہر بار ہی درد محسوس نہیں ہوتا۔آنسو ہر بار ہی کرب کی نشانی نہیں ہوتے۔۔۔ خاص کر جب یہ سب کسی اپنی دھڑکن کے دھڑکنے کی وجہ بننے والے شخص سے جُڑے ہوں تو یہ سب اپنی شدت پر ہونے کے باوجود اپنا اثر نہیں دکھا پاتے اور نہ ہی ہمیں بدگماں کر سکتے ہیں۔نہ ہی ہم اس اذیت سے نفرت کر سکتے ہیں۔
سچ ہی کہا تھا تم نے۔۔۔ تمہارے چلے جانے کے بعد اذیت بھی تمہارا دیا ہوا کوئی تحفہ ہی محسوس ہوتی ہے۔۔۔

درد بھی تمہارے آنگن سے میرے آنگن میں آیا کوئی پرندہ محسوس ہوتا ہے۔ اسکی موجودگی میں اپنا وجود ایک جگہ منجمند کر کے مجھے کئی صدیاں بھی پتھر بن کر رُکنا پڑے تو میں رُک جاؤں۔سانس کی گرمائش تک ظاہر نہ ہونے کے لئے سانس اگر روکنی پڑے تو روک لوں۔جب تک یہ درد کا پرندہ میرے آنگن میں ٹہلتا پھرے میں بُت بن کر بھی سالہا سال زندگی کی کئی بہاروں سے منہ موڑ سکتی ہوں۔کہیں کوئی آہٹ ,کوئی سر گوشی, کوئی ہوا کا جھونکا اس پرندے کو میرے آنگن سے اُڑا نہ دے۔۔۔میں اس ڈر میں اپنی رُکی ہوئی سانسوں کے ساتھ بھی اس درد کے پرندے کی موجودگی کو جینا چاہتی ہوں۔۔

آنسو ۔۔ تو واقعی ہی اب میرے دل پر گِراں نہیں گزرتے۔آنسو کا ایک قطرہ میری آنکھ سے سفرکرتا , میرے گال سے ہوتا ہوا جب اکثر ہونٹوں پر دم توڑتا ہے تو اس لمحے ایسا ہی احساس ہوتا ہے کہ تم نے محبت کا کوئی پیغام بھیجا ہے،جو دھیرے سے میرے ہونٹوں نے پڑھا اور اسکو چوم لیا اور چومتے ہی وہ پیغام کہیں کھو جاتا ہے۔۔اسے دوبارہ پڑھنے کی ہر کوشش بے کار ہو جاتی ہے ۔میری دھڑکنیں اسکو ڈھونڈتی ہیں, پلکیں ٹٹولتی ہیں, اسی کشمکش اور بے چینی میں اکثر کئی پیغامات آنکھ سے شروع ہو کر لبوں پر دم توڑتے رہتے ہیں۔ہر پیغام کو دوبارہ پڑھنے کی بے قراری مجھے لمحہ لمحہ تڑپاتی بھی ہے۔۔۔

تم تو بہت کم ہی مجھے کوئی پیغام دیا کرتے تھے۔بہت مختصر ہی مجھ سے ہمکلام ہوا کرتے تھے۔پھر یہ آنسو کیوں اتنے پیغام لئے میرے چہرے کو بھگو دیتے ہیں؟۔۔۔ آنکھوں کے لال مگر پتھر بنے ڈورے اب بہت اذیت میں رہتے ہیں۔جیسے کندن ہونے کی خاطر ہر روز یاد کی بھٹی میں آنکھیں جھلس رہی ہوں۔۔۔ تمہارے ان پیغامات نے میرا ہر منظر دھندلا کر دیا۔ اب کچھ صاف دکھائی ہی نہیں دیتا۔
دکھائی سے یاد آیا۔۔۔تمہیں یاد ہے تم نے مجھے پھول کی ایک پتی توڑ کر دکھائی تھی۔۔۔ میں نے کہا تھا نہ توڑو یہ ظلم مت کرو۔۔۔
تم نے انگلیوں کے پوروں سے اس پتی کو مسل کر مجھے دکھایا اور ہنس کر کہا کہ “دیکھو یہ اسکا لال رنگ ضائع ہو جاتا۔مگر یہ تمہارے گال پر اب سجے گا”۔۔۔ اور تم نے وہ رنگ میرے گال پر لگا کر کہا تھا کہ ” اکثر کسی نازک جان کا مسلا جانا کسی دوسرے کی خوبصورتی بڑھا دیتا ہے”۔

میری جان! اب میری جان مسلی جا چکی ہے۔۔۔اب میرا رنگ کیا تمہیں تازگی اور خوبصورتی بخش رہا ہے؟ میری مسلی ہوئی محبت تمہیں کیا اب لال رنگ بخش رہی ہے؟کیا میری مسلی ہوئی آرزوئیں تمہارے جذبات کو مزید خوبصورت بنا رہی ہیں؟۔۔
تم نہیں بولو گے۔۔۔میں جانتی ہوں۔کیونکہ تم نے کہا تھا جب کبھی سوال تمہارے دل کو چیر دیں تو تمہارے الفاظوں کے ذخیرہ کو آگ لگ جاتی ہے۔۔تمہارے ہونٹوں کے دریچے ہمیشہ کے لئے بند ہو جاتے ہیں۔۔۔۔
یاد ہے تم نے کتنی محبت سے میرے چہرے کو دیکھا تھا وہ نگاہوں کا اثر آج بھی مجھے شرمانے پر مجبور کر دیتا ہے۔آج بھی تمہاری انگلیوں کا وجود کہیں میرے گال پر لال رنگ لئے بیٹھا ہے۔۔۔
اور وہ لال رنگ کسی عشقِ لاحا صل سا درد نہیں , بلکہ کسی عشقِ جاودانی کا اثر کرتے ہوئے مجھے اپنی گرفت میں لئے ہوئے ہے۔۔

میرے ہاتھ اکثر ہواؤں میں تمہارے لمس کی موجودگی کو ڈھونڈتے ہیں۔۔۔مگر ! تم نے کہا تھا جب کوئی چلا جائے تو ہوائیں اس کو اپنے اندر کبھی نہیں سموتیں ۔۔۔نہ ہی دریا کا بہتا پانی انکا عکس رکھتا ہے۔۔۔نہ ہی چاند ان کی شبہیہ دکھاتا ہے۔۔۔ نجانے ایسا کیوں کہا تھا تم نے؟۔۔۔
مگر ایسا ہی ہے۔ کبھی میرے ہاتھ ہوائیں تمہارا کوئی سندیس کوئی لمس نہیں رکھتیں کہ میں اس کو چھو کر سرور حاصل کر سکوں۔میں اس کو محسوس کر کے اپنے بے جان وجود میں جان ڈال سکوں۔۔۔کبھی دریا کا پانی تمہارا عکس نہیں دکھاتا۔۔۔اور چاندچاند کیا ہوتا ہے؟کہاں ہوتا ہے؟میرا چاند تو تم تھے۔ اب تم ہی تمہاری شبیہہ ہو تو تم ہو نہیں تو شبیہہ کہاں سے دیکھ پاؤں گی؟۔۔۔

تمہیں کچھ بھی یاد ہی نہیں رہا کبھی نہ میرا تم سے محبت کرنا نہ تمہارا مجھ سے اقرار کرنا اور نہ ہی ہمارے درمیاں موجود وہ الفت جو کسی بھی طرح سے ختم ہونے کا تصور ہی ہماری دل کی دنیا میں ناگہانی آفت برپا کردیتا تھا۔۔مگر اب تو وہ تصور حقیقت کا روپ دھار چکا ہے اور حیرت ہے کہ دل پر قیامت گزر گئی , روح روز دماغ کی دلیلوں کے برپا کیے حشر کے میدان میں پیش ہوتی ہے اور ہر بار ہی بے چینی کی شدت کسی سزا کے طور پر “میں” سمیٹ لاتی ہوں۔۔۔
حشر کا میدان تو تمہیں بھی بہت پسند تھا۔مگر دماغ کے برپا کئے گئے حشر کے میدان میں اکیلا میرا وجود ہی کیوں پیش ہوتا ہے؟۔۔ سزا ملتی ہے اور وہ سزا میں اکیلی ہی کاٹ رہی ہوں اور یہ روز روز کی سزا اب میرا وجود کاٹ کھائے جا رہی ہے۔۔۔

نجانے وہ حشر کا میدان کب آئے گا۔۔۔جس کی چاہ تمہیں بھی تھی۔۔۔تم نے کتنی نزاکت سے میرا ہاتھ تھاما تھا کہ کہیں تمہارے ہاتھ کی گرمائش میرے ہاتھ کو سرخ نہ کر دے۔۔۔انتہائی سکون کے ساتھ تم نے کہا تھا۔۔ “حشر کے میدان میں اگر کوئی نیکی میری ایسی ہوئی کہ ﷲ پاک فرما دے کہ تم کچھ لوگ اپنے ساتھ جنت میں لے جاؤ تو جانتی ہو میں کس کو لے کر جاؤں گا؟”
تم سوال کر رہے تھے اور میرے ہاتھ نے تمہارے ہاتھ کو مضبوطی سے تھام لیاتھا۔۔۔تمہاری انگوٹھی کی چاندی میرے ہاتھ کی ہتھیلی میں نقش ہو رہی تھی۔۔۔ تمہاری انگوٹھی , ہمارے ہاتھوں کی گرمائش سے میرا ہاتھ جلا رہی تھی بالکل ایسے ہی جیسے اب بھی میں تمہارے ہر کہے گئے لفظ کو کسی مہر پر کندہ کر وا کر یادوں کی بھٹی میں گرم کر کے ہر روز اپنی روح کو داغتی ہوں۔۔۔

تم میری نگاہوں میں جواب کے منتظر تھے اور میں یک ٹک صرف تمہیں دیکھ رہی تھی۔۔۔اس لمحے شاید ہی میں نے کوئی سانس لی ہو۔مجھے سوال کے جواب میں سراپاء سوال پا کر تم نے فوراًکہا تھا “میں صرف تمہارا ہاتھ پکڑ کر جنت میں داخل ہو جاؤں گا پگلی “۔۔۔
اسی لمحے میری آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب جاری ہو گیاتھا۔۔۔ اور تم نے قہقہہ لگا کر کہا تھا ٹھیک ہے لو چھوڑ دیتا ہوں ہاتھ تمہارا اور قہقہے کے ساتھ میرا ہاتھ اپنے ہاتھ سے الگ کردیا۔۔۔آنسوؤں اور قہقہوں کے اسی امتزاج میں تم میرے ہاتھ پر بنی تمہارے ہاتھ کے لمس کی لکیریں, انگوٹھی کا نقش اور تمہارے خون کی گرمائش سے پڑی سرخی سے بے خبر تھے۔اس وقت صرف کھلے آسمان تلے روتے قہقہے کی گونج تھی۔۔۔تمہارا قہقہہ میرے آنسوؤں کو نگل رہا تھا۔۔ اور میرے آنسو تمہارے قہقہوں کی زد میں آکر دم توڑ رہے تھے۔۔
اب میں بھی “تُم” بن کر خود پر قہقہہ لگاتی ہوں اور پھر”میں” بن کر روتی ہوں۔۔۔یہ روتے قہقہے بھی تو تمہارا تحفہ ہی ہیں۔۔۔

دیکھو۔۔۔تم نے پھر سے کئی پیغامات بھیج دیئے۔۔۔ہر منظر دھندلا کر دیا۔۔۔میری ہمکلامی کا ہر لفظ بھیگ گیا۔۔۔تمہارے یہ پیغامات ہونٹوں پر دم توڑ رہے ہیں۔۔۔اور یہاں میرا دم ہر بھیگے ہر لفظ کے ساتھ نکل رہا ہے۔۔۔
سب کچھ پھر سے ختم ہو گیا۔۔۔ہمیشہ ہی ہو جاتا ہے ۔۔۔میری ہر یاد کو ڈائری پر لکھتےہوئے میں جتنا تڑپتی ہوں یہ آنسو ان کو مٹا کر مجھے مزید تڑپاتے ہیں۔اسی لئے خدا نہ کرے کبھی تمہیں جدائی سہنی پڑے۔۔۔

Published inرمشا تبسمعالمی افسانہ فورم

Be First to Comment

Leave a Reply