عالمی افسانہ میلہ 2018
افسانہ نمبر 124
“خود غرض محبت “
افشاں شاھد ۔ کراچی
“امی آپ بھی کان کھول کر سن لیں اور ابو کو بھی بتا دیجیے گا میں کسی صورت میں وہ کالے موٹے بھینسے ارشد سے شادی نہیں کرونگی ”
کانچ کا برتن امی کے ہاتھ سے گر کر زمین پر چکنا چور ہوگیا اور یہی حالت دل کی ہوئی بس فرق اتنا تھا کہ برتن کی آواز آئی اور اسے ٹوٹتے ہوئے سب نے دیکھا اور دل کے ٹوٹنے کی صدا کسی کو نہ سنائی دی اور وہ اندر ہی اندر ریزہ ریزہ ہو گیا
“اپنی زبان کو لگام دو دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں تم ایک ہی اولاد نہیں ہو ہماری پیچھے دو بہنیں شادی کے لیے تیار ہیں جو کسی نے سن لیا تو یہی کہہ گا بڑی کے ایسے لچھن ہے تو جانے چھوٹی کیا گل کھلائینگی ”
آنسوؤں سے بھیگی ہوئی آواز جو سامنے والی پر ذرہ برابر بھی اثر نہ کر سکی
“جس کو جو کہنا ہے وہ کہتا رہ میری بلا سے میں جیتی جاگتی ایک لڑکی ہوں جس کے دل میں کچھ ارمان ہے خواہشات ہیں اور میں کسی کی راہ ہموار کرنے کے لیے اپنی راہ کھوٹی نہیں کرسکتی ”
“تو پھر تم انسان نہیں وحشی جانور ہو جو صرف اپنے بارے میں سوچتا ہے جسے بھوک لگتی ہے تو یہ بھی نہیں دیکھتا کہ سامنے اس کہ اپنی اولاد ہے کہ کون ہے اسے غرض ہوتی ہے تو اپنا پیٹ بھرنے کی اپنی بھوک مٹانے کی ”
جذباتی باتیں جب سنائی دیتیں جب سماعتیں محبوب کی میٹھی باتیں سننے کے علاوہ کچھ اور سننے کو تیار ہوتیں ماں کے آنسو جب دکھائی دیتے جب آنکھوں پر پڑے محبت کے دبیز پردے سرکتے
مہہ جبین کے ارد گرد محبت نے اپنا حصار اس مضبوطی سے باندھا تھا جیسے مائیں چار قُل پڑھ کر اپنے بچوں کے گرد حصار باندھتی ہیں تاکہ کوئی بری نظر بچے کا کچھ بگاڑ نہ سکے
جھلستی دھوپ میں وہ بغیر پنکھے کے اتنی پرسکون ہو کر موبائل پر بات کر رہی تھی کہ جیسے اس کے ارد گرد پھول کھلے ہو اور جس کی مہکی مہکی خوشبو روح کو معطر کر رہی ہو
شاید سامنے فون پر موجود شخص کی آواز میں ایسا نشہ تھا کہ وہ مدہوش وہ رہی تھی
“مہیش تم کب بھیج رہے ہو اپنے گھروالوں کو میرے گھر”
“دیکھو مہہ جبین میں اپنی پوری کوشش کرونگا انہیں رضامند کرنے کی لیکن میں تم سے وعدہ نہیں کرتا کیونکہ وہ بہت چھوٹی سوچ کے مالک ہے ”
“مہیش انہیں کسی طرح بھی مناؤ ہمارے پاس وقت بہت کم ہے اس سے پہلے کہ وقت ہمارے ساتھ کوئی کھیل، کھیل لے ہمیں اپنی چال چلنی ہوگی اور اس میدان سے ہمیں فتحیاب ہو کر ہی نکلنا ہوگا ”
“مہہ جبین کل تمہارا نکاح ہے ارشد کے ساتھ اور میں کوئی اعتراض نہ سنوں ”
“امی میں آپکی زرخرید غلام نہیں کہ آپ کے ہر حکم کی تعمیل کروں میں مر جاؤنگی لیکن کسی صورت میں وہ ڈریکولا سے شادی نہیں کرونگی میں شادی کرونگی تو صرف مہیش سے ”
“مہیش!!!!!!
“تم کسی غیر مسلم سے شادی کروگی
اے اللہ یہ بات سننے سے پہلے تو نے مجھ سے میری قوت سماعت کیوں نہیں چھین لی
بیٹیاں تو ماں باپ کی ناموس پر مرمٹتی ہیں لیکن تم کسی قسم کی بیٹی ہو جو ہماری عزت کے جنازے پر اپنے خوابوں کا محل تعمیر کرنا چاہتی ہوں
شاید مجھ سے کوئی بہت بڑا گناہ سرزرد ہوگیا ہے جس کی سزا تمہاری شکل میں مجھے ملی ہے تمہیں محبت نے اندھا کردیا ہے تم دو ٹکے کی محبت کے لیے اپنے انمول دین کا سودا کر رہی ہو “””
“امی میرے اور مہیش کے درمیان کبھی مذہب آیا ہی نہیں اور ویسے بھی محبت دھرم، سرحد ان چیزوں سے مستثنی ہوتی ہے یہ دل دیکھتی ہے دھرم نہیں یہ فقیر سے ہو جائے تو بادشاہ کے محل ٹھکرا دیتی ہے یہ دل کا سودا ہوتا امی اس میں فائدہ نقصان نہیں دیکھا جاتا محبت کے دریا میں بس محبوب کا ہاتھ تھام کر اتر جایا جاتا ہے پار ہوگئے تو منزل مل جاتی ہے اور ڈوب گئے تو بھی غم نہیں کہ جیے تو بھی محبوب کے ساتھ اور مرے تو بھی محبوب کے سنگ ”
ایک زوردار تھپڑ نے مہہ جبین کے گال کو سرخ کر دیا
آج تو صرف تھپڑ مارا ہے آئندہ کبھی اپنی زبان سے محبت کا یا کسی غیر مسلم کا نام لیا تو میں تمہیں زمین میں گاڑ دونگی کیونکہ میں اپنی بیٹی کو سفید کفن میں قبر میں اترتے ہوئے تو دیکھ سکتی ہوں لیکن کسی غیر مسلم کی بیوی بنتے نہیں دیکھ سکتی “
“مہیش تو پگلا گیا ہے اس عمر میں تو ہمیں رسوا کرے گا بھگوان کو ناراض کرے گا ہماری زندگی کو پاپ بنائے گا ”
“بوا ! میں اس کے بنا نہیں رہ سکتا وہ میری زندگی ہے اس کے دم سے میری ہر خوشی ہے وہ ہے تو میری زندگی میں رنگ ہیں ورنہ میری زندگی بے رنگ ہے ”
“ستیاناس ہو اس چریل کا اس نے تجھ پر کوئی جادو کروایا ہے میرے بھولے بھولے بیٹے کو پھانسا ہے آنے دے تیرے بابو جی کو میں آج بات کرتی ہوں اور اس مسلے کا حل نکالتی ہوں”
“مہہ جبین تم چاہتی ہو کہ ہماری محبت کو منزل ملے تو آج رات میرے ساتھ چلنے کے تیار رہنا ورنہ ہمیشہ کے لیے مجھے بھول جانا کیونکہ ہمارے ماتا پتا کبھی ہمارے رشتے کو قبول نہیں کرینگے ہمارے محبت کو وہ کبھی مکمل نہیں ہونے دینگے”
“تمہارا لڑکا میری بیٹی کو ورگلا کر لے گیا ہے کم ظرف کہیں کا ”
“تمہاری بیٹی تھی ہی بدچلن اور آوارہ جبھی تو رات کے اندھیرے میں منہ کالا کر کے چلی گئی ”
“تیری اتنی جرات کہ میری بیٹی کو آوارہ بولتا ہے”
ایک پتھر نے پیشانی کو۔سرخ کردیا۔
پھر دونوں طرف سے پتھروں کی برسات ہونے لگی دھیرے دھیرے اس آگ نے کہیں گھروں کو لپیٹ میں لے لیا ایک محبت کی تکمیل نے کہیں گھروں میں نفرت کی آگ لگا دی جس میں جانے کتنی معصوم زندگیاں جھلس گئی.