عالمی افسانہ میلہ 2015
افسانہ نمبر 96
خواب
انجم قدوائی، علی گڑھ، انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“بھیّا ہو۔۔۔۔۔ دیکھو ای بکری گابھن ہے جانو۔ ”
“ہوں۔۔۔۔۔۔” داد نے حقّہ کی منال منھ سے لگا کر اک لمبا کش لیا۔
“ای کا چرائے کھاتر لے جائی کہ ناہی۔۔۔۔”
” لے جاؤ لے جاؤ۔۔۔۔ اچھّا ہے کچھ گھانس پتّے کھائے گی، ندی کا بہتا پانی پیئے گی تو جان آئے گی نا۔۔۔۔ ابھی تو کچھ دن لگیں گے؟ جب دن قریب ہوں تو چھوڑ جانا باڑے میں۔۔۔۔”
انہو ں نے پیر تخت سے نیچے لٹکائے تو غفور نے جلدی سے ان کے جوتے پیر کے پاس کر دیئے اور بکریوں کو ہنکاتا ہوا باہر نکل گیا۔
اس نے دالان کے کونے میں کھڑے کھڑے ساری بات سنی تھی۔ وہ ابھی ابھی اسکول سے واپس آیا تھا، کپڑے بھی نہیں بدلے تھے، بھاگ کر دادا سے لپٹ گیا۔
“دادا۔۔۔۔۔ میں کھیلوں گا ان بچوّں سے۔۔۔۔۔ کب آئیں گے بکری کے بچّے؟”
” آ جائیں گے، آ جائیں گے۔۔۔۔۔ چلیئے پہلے کپڑے بدلیئے، منہ ہاتھ دوھیئے۔۔۔۔ کھانا وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔۔ چلیئے اندر آپ کی امّی انتظار کر تی ہوں گی۔”
وہ دوڑتا ہوا اندر چلا گیا۔ جب سے جاوید کے ابّا محاذ پر گئے تھے وہ دادا سے زیادہ قریب ہو گیا تھا۔ رات کو ان سے بغیر کہانیاں سنے اسے نیند بھی نہیں آتی تھی۔۔۔۔۔ وقت گزرتا چلا جا رہا تھا۔ ایک رات کھانے کے بعد وہ دادا کے پاس کہانی سن رہا تھا۔
“ہمارا تمہارا خدا بادشاہ ۔۔خدا کا بنایا رسول بادشاہ۔۔۔۔۔” وہ ہمیشہ کہانی اسی طرح شروع کرتے تھے۔
“کسی شہر میں ایک بادشاہ رہا کرتا تھا، اس کی سات بیٹیاں تھیں وہ ان سب سے بوہت محبّت کرتا تھا۔ ایک بار۔۔۔۔۔۔۔۔”
“بھیّا ہو۔۔۔۔۔ بکری بیانی ہے (بکری نے بچّے دیے ہیں ) “۔۔۔۔۔۔ باہر ڈیوڑھی سے غفور کی گھبرائی ہوئی سی آواز آئی۔ دادا نے مڑ کر اس کی بند ہوتی ہوئی آنکھوں کی طرف دیکھا اور آواز آہستہ کرکے بولے۔
“ہاں ہاں تو ٹھیک ہے نا، پانی گرم کر کے نہلا دو انہیں۔”
“بھیّا جرا دَروزے پہ تو آیئے۔۔۔۔ دیکھیئے تو۔۔۔۔” غفورکی آواز کپکپا رہی تھی۔ دادا کچھ حیران ہو کر باہر نکل گئے تب اس نے بھی رضائی اپنے پیروں سے ہٹائی اور پلنگ سے اترا اور دبے قدموں سے جا کر دالان میں جھانکنے لگا۔
غفور آہستہ آہستہ کچھ بات کر رہا تھا اور دادا خاموش تھے، پھر وہ اندر آنے کے لئے مڑے تو وہ جلدی سے سامنے آ گیا۔
“دادا ہم بھی دیکھیں گے بکری کے بچّے۔”
“اندر چلو!! ” دادا ڈپٹ کر ذرا زور سے بولے تو وہ حیران ہوا کہ ایسا کیوں؟ ساتھ ہی اس نے سامنے پڑے ہوئے ننھے وجود بھی دیکھ ہی لئے تھے۔ وہ سہم کر بھا گتا ہوا کمرے میں آیا اور رضائی اوڑھ کر بھی تھر تھر کانپتا رہا۔
دادا کب آئے اور کب ان کے خرا ٹے گو نجنے لگے اسے کوئی خیال نہ تھا، وہ اپنی آنکھیں بند کئیے خاموش لیٹا رہا۔ دو ننھے وجود اس کی نگاہوں میں گھومتے رہے۔ نجانے کب تک وہ ڈرتا رہا اور پھر کب نیند کی وادیوں میں اتر گیا اسے خبر ہی نہ ہوئی۔
صبح ہلکے اجالے میں دادی اور امّی کی باتوں کی آواز آ رہی تھی۔
“غضب خدا کا۔۔۔۔ انسان بالکل وحشی ہو چکا ہے۔۔۔۔ ای تو سب قیامت کی نشانیاں ہیں۔۔۔۔ نفس پر قابو ہی نہیں رہا ان خبیثوں کا ۔۔۔۔ بے زبان جانوروں کو بھی نہیں چھوڑتے۔۔۔۔ توبہ توبہ۔۔۔۔ کیا قہر ہے کہ اُترا پڑے ہے اس موئی زمین پر! ”
وہ گھبرا کر اٹھ گیا اسے رات کی ساری باتیں خواب کی طرح یاد آنے لگیں۔ پھر اس نے سنا کہ وہ بکری کے بچّے رات ہی کو ختم کر دیئےگئے تھے۔ اس کی نگاہوں میں ایک بار پھر وہ نو مولود بکری کے سر اور انسان کے جسم والے عجیب الخلقت بچّے آ گئے۔ وہ کئی دن تک سہما سہما رہا۔۔۔۔ وہ سونے کے لئے لیٹتا تو وہ بکری کے منہ اور انسانی جسم والے بچّے آ کر اسے ڈرانے لگتے۔ یہ بچّے کبھی بالکل اس کی اپنی شکل کے ہو جاتے اور کبھی بھیڑیے بن جاتے۔ کبھی ان کے جسم انسانوں کی طرح ہو جاتے لیکن شکلیں بھیڑیوں جیسی ہی رہتیں۔ اس نے اسی خوف کے مارے دادا سے کہانیاں سننا چھوڑ دیا تھا اور ان کے پاس سونا بھی، اب وہ امّی کے پاس سونے لگا تھا۔
پھر بھی سوتے وقت اُس بات کو یاد کرکے کانپ جایا کرتا تھا۔ کئی دن گزر گئے۔ اُسے اُن دنوں اپنے ابّا بھی بہت یاد آنے لگے تھے، وہ ان سے لپٹ کر بھی سونا چاہتا تھا۔ اس کے معصوم ذہن و دل پر بہت گہرا اثر ہوا تھا۔ اس نے ابّا کو فون بھی کیا تھا کہ وہ چھٹی لے کر آ جائیں کہ وہ بہت اداس ہے ان کے بغیر۔
وہ صبح بھی روز جیسی تھی مگر وہ ابھی تک بستر میں تھا۔ امّی بہت دیر سے ناشتہ لئے بیٹھی تھیں، انہوں نے کئی بار جاوید کو آواز دی لیکن وہ سست سا پڑا رہا۔ پھر خود آ گئیں اور اس کا سر سہلا کر اسے اٹھانے لگیں۔
“اٹھ جا بیٹا۔۔۔۔۔ سکول نہیں جائے گا تو اپنے ابّا جیسا کیسے بنے گا۔۔۔۔ چل اٹھ جا میرے لعل۔۔۔۔”، وہ کچھ دیر ان کی گود میں سر رکھ کر یونہی لاڈ اٹھواتا رہا۔۔۔۔۔ پھر بے دلی سے اٹھ کر تیّار ہونے لگا۔
وہ جب سکول جانے کے لئے نکلا تو موسم کافی بہتر تھا۔ کُھلی کار میں خوشگوار ہوا سے اس کا دل ہلکا پھلکا سا ہو گیا تھا۔۔۔۔ راستے کے اطراف میں پھیلے پیڑوں کے پتے شور مچاتی ہوا میں سر سرا رہے تھے، پیڑوں کے پتّوں پر رُکی ہوئی شبنم رہ رہ کر قطرہ قطرہ برس رہی تھی۔ آتے جاڑے کی ہلکی دھند بھی اب چھَٹ رہی تھی۔ ہلکی خنک ہوا جو اس کی گالوں کو بھی چوم رہی تھی اسے اچھی لگ رہی تھی۔ صبح کا سہانا منظر اتنا خوبصورت تھا کہ اس کا من شانت ہونے لگا۔
کلاس میں جاتے ہوئے کئی بچوں نے اس کی، اور اس نے ان کی خیریت پوچھی۔ ‘۔۔۔۔ہم بلبلیں ہیں اس کی، یہ گلستان ہمارا۔۔۔۔۔’ وہ زیر لب گنگناتا ہوا کلاس روم میں اپنی جگہ آ کر بیٹھ گیا اور ایک ساتھی سے اس کی کاپی لے کر اس کے نوٹس اور اپنے بنائے ہووٗں کا موازانہ کرنے لگا۔
اچانک اک عجیب شور سا اٹھا، جسے اس نے بھی محسوس کیا، نظر اٹھائی تو سارے بچّے کلاس روم سے باہر دیکھنے لگے، تڑا تڑ گولیاں چلنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ اک بھگدڑ سی مچ گئی تھی۔ ہر طرف گولے پھٹ رہے تھے۔ وہ غائب دماغی سے بچّوں کی چیخیں سن رہا تھا۔۔۔۔ وہ دوڑ کر کمرے میں بنے ہوئے آتش دان میں چھپ گیا۔ اپنے آپ کو آتش دان میں چھپا کر اس نے اپنا بستہ سامنے کر لیا۔۔۔۔۔ پیروں کی آوازوں سے اسے لگا جیسے کلاس روم میں کئی لوگ آ چکے ہوں۔ بچّوں کی فلک شگاف چیخیں اسے دہلا رہی تھیں۔
دور کہیں اس کی دادی ‘سورۃ الواقعہ’ پڑھ رہی تھیں؛
” جب زمین بڑے زوروں سے ہلنے لگے گی اور پہاڑ ایک دوسرے سے ٹکرا کر چور چور ہو جائیں گے اور روئی کے گالوں کی طرح ہوا میں اڑنے لگیں گے۔۔۔۔۔” وہ مطلب بھی سمجھا رہی تھیں۔
اس نے سوچا؛ ‘شاید یہ وہی وقت ہے!۔۔۔۔۔’ رونے اور چلّانے کی آوازوں سے کان پھٹے جا رہے تھے۔ افرا تفری کا عالم تھا۔ گولیوں کی آواز۔۔۔۔۔ بارود کی ناگوار بو۔۔۔۔۔ اب اس کے نتھنوں میں گھس کر اس کا سانس بھی بند کئے دے رہی تھی۔ وہ دعائیں کر رہا تھا۔۔۔۔ کاش کوئی آ جائے، اسے اور اس کے دوستوں کو بچا لے۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔۔!!!
کسی نے اس کا بستہ بے دردی سے کھینچ کر پرے پھینک دیا تھا۔ اس نے اپنی بھینچی ہوئی آنکھیں کھولیں تو کچھ سائے اس کے سامنے تھے۔ وہ رائفلوں کی زد میں تھا۔ اس نے سر اٹھا کر دیکھا اور حیران رہ گیا، اس کے سامنے انسانوں کے چہروں والے کئی بھیڑیے کھڑے تھے، بالکل ویسے ہی جیسے وہ خواب میں دیکھا کرتا تھا۔ اسے لگا کہ اس کا اپنا منہ بھی بکری کے میمنے جیسا ہو گیا ہے۔
دادی کی آواز ابھی بھی کانوں میں آ رہی تھی۔۔۔۔۔ جب زمین بڑے زوروں سے ہلنے لگے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ”
اور۔۔۔۔ اور، پھر سب کچھ محو ہو گیا۔
Be First to Comment