عالمی افسانہ میلہ
افسانہ نمبر 81
خواب ٹوٹنے نہ پائیں
سبیغ ضو، کراچی پاکستان
گرم ہوا ٹین کی چھت سے سرسراتی اس کے روشن دان سے ہوتی ہوئی عین اس کے چہرے پر تپش بھرا تمانچہ رسید کرتی….اور پھر پورے کمرے میں چکراتی رہتی….
لیکن وہ جاء نماز پر بیٹھی اپنے اندر جلتی آگ کی تپش میں بھانبڑ بنے وجود کے ساتھ اردگرد کے ماحول سے بے نیاز تھی…
اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو ہر درد لب پر آہ بن کر ٹوٹ گیا….
سسکیاں چیخ کی صورت کمرے کی درو دیوار کو ہلادینا چاہتی تھیں…..اس نے سختی سے ہونٹ بھینچے….,رب کے علاوہ کوئی اس کی آہ و زاری سنے اسے منظور نہ تھا……
جانے کب زیست کا پرپیج رستہ اس کے لیے ہموار ہوسکے گا..
بے بسی بھرا ایک شکوہ اس کے لبوں پر مچلنے لگا….
کیا ہے میرے پاس….؟؟ایک تلخ سوچ اس کے ذہن پر کسی بھوت کی طرح چمٹ گئی…
جاءنماز ہاتھ میں لیے تپتی دیوار سے ٹیک لگائی….جہاں پیٹھ جلی وہیں ایک جلتا احساس بھی سر اٹھانے لگا۔
یہ دیوار بھی تو میری نہیں….ہاتھ پھیرا تھا اس نے دیوار پر….تپتا ہوا کرائے کا مکان مگر پھر بھی انسیت ہوگئی تھی۔
“غیر کی چیز سے دستبرداری پر اتنا دکھ کیوں…؟کونسا یہ درو دیوار میرے تھے…”اس نے خود کو بہلایا…مالک مکان کے کہنے پر گھر خالی کرنا تھا…اپنا آشیانہ کسی اور پرائے شجر پر بسانا تھا….ہائے یہ پرائے شجر بھی…..عزیز کیوں ہوجاتے ہیں۔
بھوک کا جوگ ایک عورت کو اتنا اندروں اندر ختم نہیں کرتا جتنا کہ اپنے گھر کی چاہت…چاہے وہ مٹی کا ہو….گھاس پھونس کا جھونپڑ ہو…مگر اس کا ہو..
آہ….کتنی مفلس ہو تم…اس کے گرد رقص کرتی محرومی اس کا منہ چڑاتے ہوئے اس کی اوڑھنی سے لپٹنے لگی….اس نے لاشعوری طور پر اوڑھنی کو جسم سے اتار کر زور سے جھٹکا….شائد کم مائیگی کے احساس کو جھٹکنا چاہتی تھی کہ ابھی اسے ہمت کی ضرورت تھی…بہت سے حوصلے کی….
اور یہ احساس محرومی جب جب اس کے دل کو جکڑتا اس کی ہمت ڈھیر ہونے لگتی…اسے لگتا اس کے کندن جسم سے حوصلوں کا چٹان کسی آتش فشاں کی ذد میں آکر پھٹ پڑے گا اور پھر وہ امید ہار جائے گی…اچھے وقت کی امید….اپنے تشنہ خوابوں کے تعبیر کی امید….جو جگنو کی طرح اس کی آنکھوں میں جگمگاتے تھے….حالات بدلنے کے خواب….کہ کبھی خود کو سنوار کر اس کا ہاتھ بھی دینے والا ہوگا…جب اس کے دل میں غریبوں کے لیے بہت سا درد ہوگا اور ہاتھ میں بہت سے پیسے….
اس نے دوبارہ سے اپنی اوڑھنی کو اپنے بوجھل ہوتے وجود پر لپیٹا اور منہ ڈھانپے دونوں بچوں کو لیے باہر نکل آئی۔کرائے کا گھر کہیں دیکھنا تھا۔میاں تو مزدور تھا اپنے کام سے ہلکان وہ ان بھکیڑوں کو کیسے نپٹاتا..آمدنی محدود…دو بچے …دونوں کو پیٹ کاٹ کر پڑھارہی تھی۔گھر بھی اپنا نہیں تھا…کرائے کے گھر میں غربت کو چھپائے سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہوئے یہ جوڑا زندگی کو برتنے کی کوشش میں ہی ہلکان ہوا جاتا….
تشنہ خوابوں کے جوت دونوں کی آنکھوں میں جلتے مگر مایوسی کے اندھیرے میں تعبیر کی امید دھندلاجاتی….ایک کے بعد ایک آزمائش مسکراتی ہوئی ان کی دہلیز پر بن بلائے چلی آتی تھی…….
“کوئی کرائے کا گھر خالی ہے؟سنیے کوئی چھوٹا سا گھر کرائے پر مل جائے گا…؟”
گھر گھر کی ٹھوکر کھاتی چل رہی تھی…کہاں کہاں نہیں پوچھا تھا….کبھی کی شاہانہ طبعیت جوکہ اب دل کے تاج محل سمیت ہی کہیں دفن ہوچکی تھی, ٹوٹی پھوٹی رہنے کے لیے بدتر جگہ دیکھ کر زندگی کا تاثر دیتی اندر سے سر اٹھانے لگی….اعتراض….”یہ کوئی رہنے کی جگہ ہے۔؟” اس نے دل کو سختی سے ڈپٹ کر چپ کرایا…ہمت مجتمع کی…کرایہ پوچھا…مالک مکان نے بے نیازی سے جتنا کرایہ بتایا اس کے اوسان خطا ہوگئے…ایسے گھر کا اتنا کرایہ….کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ ایک کمرے کے لیے اور اپنے مزاج کے برخلاف گھر کے لیے بھی وہ دردر کی ٹھوکر کھائے گی اور اپنی آمدنی دیکھ کر کرایہ کم کرانے کے لیے کیسے کیسے لوگوں کے مزاج کی گرمی کو ضبط کرے گی….
ازل سے مقدر جو نہ تھی غربت….ہاں اب جو چمٹی تھی تو گھن کی طرح کھائے جاتی تھی….
“خالہ سنا ہے آپکا مکان کرائے کے لیے خالی ہے..؟وہ ابھی اپنی ایک جاننے والی عزیزہ کے گھر بیٹھی تھی, بڑی امید سے گھر پر طائرانہ نگاہ ڈالتے ہوئے پوچھا…گھر کیا تھا….چار دیواری کے اندر چار کمرے تھے…اکیلی رہنے والی خالہ کا زرا بڑا اور ہوادار کمرہ….باقی تینوں کمرے دڑبے نما تھے…ساتھ چھوٹے چھوٹے کچن….اور خالہ کے کمرے میں اٹیچ باتھ روم کے علاوہ باہر ایک باتھ روم گویا کہ عوامی باتھ روم بنایا گیا تھا….
دونوں کرائے دار وہ باتھ روم استعمال کرتے تھے۔تیسرے کرائے دار کے لیے بھی وہ ہی باتھ روم تھا….
اس کے لیے یہ سب کچھ ناقابل برداشت سا تھا….لیکن جب قسمت نے ہی گدڑی کا ایسا پھیکا اور بدرنگ لعل بناکر ٹانکا تھا کہ جوہری کے مانند خوش بختی اس پر نظر ڈالنا بھی گوارہ نہ کرتی تھی…
خالہ نے بے نیازی سے کہا…”نہیں بابو تم کدھر دے سکوگی….”
اس ایک کمرے کا بھلا کتنا کرایہ تھا وہ پوچھ بیٹھی…
چار ہزار کرایہ …بجلی اور گیس کا بل الگ سے…جو بل بھی آئے گا وہ سب کرائے دار مل کر دیں گے..”
خالہ بجلی کا بل کتنا آتا ہوگا….اس نے منمنا کر پوچھا۔
“پچھلے ماہ پندرہ ہزار آگیا تھا نگوڑ ماروں کا کچھ پتہ تھوڑی ہوتا ہے بس اٹھاکر لکھ دیتے ہیں ہزاروں میں”
وہ ٹھٹھک گئی اس کے پاس تو واشنگ مشین تک نہیں تھی پھر ایک کمرے کے بلب اور پنکھے کا بھلا وہ اتنے ذیادہ بل میں کیسے حصہ بٹاتی…چپ چاپ اٹھ آئی۔———————————————————————————–
کمرے میں پھیلی ملگجی روشنی میں بیمار ذدہ پنکھا اپنی بساط کے مطابق ہوا دے رہا تھا, وہ آنکھ پر ہاتھ رکھے جانے کون کون سے درد کو بچوں سے چھپاتے ہوئے ضبط کرنے لگی۔ورنہ دل کسی معصوم بچے کی طرح بلک بلک کر رونا چاہتا تھا…..ایسا رونا کہ بوجھل وجود سے ہر درد روٹھ جائے…آنکھوں میں دیپ بنے خواب مٹ جائیں…
“ہم غریبوں کی زندگی تو پانی کے بلبلے سے بھی ذیادہ بے وقعت ہوتی ہے” دل میں تلخی ابھری…
“غریب شجر کے سوکھے پتے کی طرح زیست کے قدموں میں کچلاجاتا ہے….آہ…”
بائیں بازو میں عجیب سا درد اٹھ رہا تھا…وہ بے چینی سے اٹھ کر بیٹھ گئی….
بچے بھی کافی خاموش سے تھے۔چھوٹا بیٹا اپنا من پسند کھیل کھیل رہا تھا….ماچس کی تیلیوں سے گھر بنانا اس کا محبوب مشغلہ تھا….وہ جو بچوں کو کبھی یاسیت کا شکار نہیں ہونے دیتی تھی….ان کے اندر اعتماد کی کونپل کھلاتی….
اور وہ ہی آج بچے کا یہ کھیل دیکھ کر شدید یاسیت کے شکنجے میں آگئی..”کیا میرے بچے بھی محرومی کے سائے تلے یوں ہی پلیں گے…کیوں نہ میں ان کی آنکھوں میں دیے کی مانند جلتے خوابوں کو نوچ ڈالوں کہ تشنہ تعبیر کے خوف سے آذاد ہوجائیں”وحشت سی وحشت تھی۔
سائیں وے! میں ڈھیر غماں دا ڈھواں
دل کردا اے میں بوہے اگے
کُوکاں مار کے روواں
ضبط کے بعد اب آنسوؤں کو رستہ مل گیا تھا….ڈھلکے۔ہوئے گالوں پر قطار در قطار یوں پھسلتے جاتے جیسے کسی بھٹکے کو رستہ مل جائے۔
“امی جی گھر تیار…”بیٹے کی چہکتی آواز کانوں میں پڑی تھی چھوٹا سا تیلیوں سے بناگھر اس کے سامنے تھا….
سات سالہ بیٹی ماں کے احساسات کو بس ٹکر ٹکر دیکھے جاتی تھی…..وہ کسی پاگل وحشی کی طرح ماچس کی خالی ڈبیہ پر لپکی اور ایک ماچس دہکا کر آن کی آن میں بچے کی محنت کو سلگادیا۔ماچس سے بنا گھر اپنی ہی آگ میں جلنے لگا….بچہ وحشت ذدہ ہوکر ماں کے بے ربط تیز جملے سن رہا تھا….
“کوئی گھر نہیں…. ایک تنکے جیسے گھر کی اوقات نہیں ہماری…” ہذیانی انداز میں وہ چیخ رہی تھی….”اتنی بڑی دنیا میں ہمارے لیے کچھ نہیں رکھا ہوا….
سنا تم دونوں نے….”آواز بلند ہوگئی ….دونوں کو قریب کرکے تھوڑی سے جکڑ لیا…جلتا گھر دکھا کر کہتی…..”امید مت لگاؤ خواب مت دیکھو…آنکھیں بنجر ہوجائیں گی…ہاتھ کچھ نہ آئے گا میرے بچوں….”نڈھال سی بیٹھ گئی…آج کتنی وحشت تھی اس کے لہجے میں….
ہم کبھی مقام حاصل نہیں کرسکیں گے…تلخی سے کہتی وہی عورت ابھی کتنی عام سی لگ رہی تھی جو اپنے بچوں کو خواب سلامت رکھنے کا درس دیتی …
بیٹا خوفزدہ ہوکر ماں کا نیا روپ دیکھ رہا تھا۔بیٹی خرفزدہ نہیں تھی مگر ماں کی حالت پر دکھی سی تھی…
“اماں” پاگل وحشی جذبے پر پھوار کی مانند بیٹی کی نرم آواز پڑی…کندھے پر اپنے ہاتھ کا دباؤ ڈالے وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی….
“کیا ہم بھی احساس کمتری کی گود میں پروان چڑھیں گے…۔؟؟نہیں اماں…کل استانی جی نے ایک بات بتائی ہے” وہ بے زاری سے بیٹی کو دیکھے گئی۔
“اماں …قیامت کے دن غریب آدمی سے ﷲ پاک اس طرخ معزرت کریں گے جس طرح دنیا میں لوگ آپس میں کرتے ہیں…اور ﷲ پاک فرمائیں گے کہ تمہیں میں نے اس لیے غریب نہیں بنایا تھا کہ تم میری نظر میں حقیر تھے(آواز ڈبڈباگئی) بلکہ میں تمہیں انعام دینا چاہتا تھا….بہت جذب اور یقین کے ساتھ بتاتے ہوئے بیٹی کی چمکتی آنکھوں میں دو قطرے ستارہ بن کر جھلملانے لگے۔آواز رندھ گئی تھی مگر لہجے میں حوصلہ تھا یقین تھا….”اماں ہمیں ان آزمائشوں کا انعام ضرور ملے گا…”
وہ بیٹی کے گلے لگ کر معصوم بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی….
“اماں خواب ٹوٹنے تو نہیں چاہییں نہ؟”بیٹی کی امید بھری سرگوشی ابھری…
اس نے بچوں کو بے ساختہ اپنے قریب کر کے زور سے بھینچا…انہیں چومتے ہوئے بڑبڑانے لگی…”ہاں خواب سلامت رکھو خواب ٹوٹنے نہ پائیں کہ مفلس کے جینے کا سہارہ ہی خواب ہیں۔
Be First to Comment