عالمی افسانہ میلہ 2019
افسانہ نمبر 53
خطا کس کی ہے……..؟
ڈاکٹر شہناز فاطمی
پٹنہ ، انڈیا ۔
”دیکھو بیگم کتنی پیاری بیٹی دی ہے ہمیں خدا نے“۔ یہ آواز سن کر ریحانہ نے آنکھیں کھولیں۔
”کہاں؟“
اسی وقت دائی بوانے اس کی بیٹی کو اس کی بازو میں لٹا دیا۔ ریحانہ نے پہلی بار بیٹی کو دیکھا، گول مٹول سی، گوری اور بڑی بڑی آنکھوں والی لڑکی اسے دیکھ رہی تھی۔ ریحانہ کو اس پر بے اختیار پیارآگیا اورتب اس نے اسے کسی انمول خزانے کی طرح اپنے سینے سے لگالیا۔
ابھی بہت دن نہیں گزرے تھے۔پچھلے سال نوکری لگتے ہی اجمل نے جو سب سے پہلا کام کیا۔وہ یہ تھا کہ اپنے بچپن کی لگی شادی کو عملی جامہ پہنایا اور اس کام میں اس نے کوئی دیر نہیں کی اورجلد ہی ریحانہ اس کے گھر میں دلہن بن کر آگئی۔
پھولوں سی نازک ریحانہ نے ماسٹر صاحب کی زندگی میں ہی نہیں اس کے گھر کو بھی خوشیوں سے بھر دیا۔ اورشادی کے بارہ مہینے کے بعد ہی اس کی چاند سی پیاری بیٹی نے آکر گھر میں خوشبو بکھیر دی۔مگر اس کی ساس بیٹی کو دیکھ کر تھوڑا سہم سی گئیں۔
”بیٹی وہ بھی پہلی اولاد کی شکل میں کہیں گھر میں بیٹیوں کی لائنیں نہ لگ جائیں۔“
”کیسی باتیں کرتی ہیں اماں آپ بھی، نہ دیکھا نہ سنا،اس بات پر اس طرح یقین کرنا کہاں کی عقل مندی ہے۔تم تو بس لڈو کھاؤاور میری بیٹی کو دعائیں دو“۔ اجمل نے اماں کے منہ میں لڈو ڈال دئے۔ اوروہ بھی خوش ہوگئیں۔ اس کے سوا ان کے پاس چارا ہی کیا تھا۔ ماں تھیں بیٹے کی خوشی میں ساتھ کیسے نہیں دیتیں۔
دن ہنسی خوشی آگے سرکنے لگے۔ ریحانہ کو توخبر ہی نہیں ہو پاتی کہ کب دن نکلا اورکب رات نے دستک دے دی۔ اورکس طرح دوسال نکل گئے۔ ہاں ان دو سالوں میں اتنا ضرور ہواکہ انہوں نے ماسٹر صاحب کی امی کی گود میں ماسٹر اجمل کی تصویر ڈال دی۔ بیٹے کی شکل میں۔ تب ساس کا بھرم بھی ٹوٹ گیا کہ بیٹی کے بعد بیٹی ہی آتی ہے۔بھائی کے آجانے سے بیٹی کی حیثیت گھٹی نہیں بلکہ اوربھی بڑھ گئی۔ وہ دن بھر گھر میں ناچتی چہکتی نظرآتی اورخالی وقت میں بھائی کا لاڈ کرتی وہ نہ صرف گھر میں بلکہ محلہ بھر کی پیاری تھی۔ دن بڑی ہی خوشی خوشی بیت رہے تھے کہ اچانک اس گھر کو ایک حادثے کا شکارہونا پڑا۔ وہ اس طرح کہ اس کی ساس اورماسٹر صاحب کی امی کو دل کا دورہ پڑا اوردیکھتے ہی دیکھتے وہ دنیا ہی چھوڑ کرچلی گئیں۔ اس صدمہ نے ماسٹر صاحب کو جیسے ہلاکر رکھ دیا۔ مگر کب تک، زندگی پھر آہستہ آہستہ معمول پرآنے لگی اوروہ دن توسچ مچ ہی معمول پر آگیا، جب ریحانہ کی گود میں ایک اوربیٹا آیا۔
”کاش! آج اماں زندہ ہوتیں تو انہیں کتنی خوشی ہوتی“ماسٹر صاحب آج بہت ہی اداس لگ رہے تھے۔
”ہاں ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ“ ریحانہ نے کہا۔ ”تب میری بیٹی کی عزت اوربھی بڑھ جاتی۔“
”سہی کہا“۔ ماسٹر صاحب امی کو یاد کرتے ہوئے رو پڑے تب ریحانہ نے کہا:
”ایسا نہیں کرتے اللہ کو برا لگے گا۔“
حالات پھر نارمل ہوئے اور دن اسی طرح ہنسی خوشی تیزی سے نکلنے لگے۔ اب ان کی بیٹی نجو جوانی کی سرحد پر قدم رکھ چکی تھی۔ وہ بڑی ہی پیاری اورسمجھدار تھی۔تبھی اسے اپنے جسم میں ہونے والی کچھ تبدیلی کا احساس ہوا۔ پہلے تو اس نے اس پر کوئی خیال نہیں کیا مگر کچھ اوردن بیت جانے پر اسے گھبراہٹ سی ہونے لگی۔اس نے بہت سوچنے کے بعد یہ فیصلہ کیاکہ اس بارے میں امی سے بات کی جائے اورایک دن موقع دیکھ کر امی سے بات کی۔ امی یہ سن کر چونک پڑیں اوربیٹی کے جسم پر رونما ہونے والی تبدیلی کو محسوس کرکے ان پر جیسے فالج کا اثر ہوگیا۔ وہ ایکدم سے گھبراگئیں اوراس بات کا ذکر ماسٹر صاحب سے کیا۔ یہ سن کر ماسٹر صاحب بھی سہم اٹھے۔ زندگی کوئی پھولوں کی سیج نہیں ہوتی مگر زندگی اتنی سخت ہوگی اس کا بھی انہوں نے احساس نہیں کیا تھا۔ انہیں جیسے کاٹھ مار گیا اورتب ریحانہ ان کے سینے سے لگ کر چیخ چیخ کر رونے لگی۔ ان کے رونے کی آواز پرتینوں ہی بچے وہاں جمع ہوگئے۔
”کیا ہوا اماں؟ آپ رو کیوں رہی ہیں؟ بڑے بیٹے نے پوچھا۔
”کچھ نہیں“ وہ سسکتے ہوئے بولیں۔ نجو ان لوگوں سے تھوڑی دوری پر کھڑی تھی۔ اسے یہ توسمجھ میں آرہا تھا کہ جو کچھ بھی ہے بات اسی کو لے کرہے مگر وہ بہت زیادہ اس پر اپنا دماغ نہیں لگاسکتی تھی مگر ایک احساس شرمندگی تھا جس نے اسے گھیر رکھا تھا۔ اس لئے وہ ماں کے پاس بھی نہیں آرہی تھی۔ دیر تک بچے اورماسٹر صاحب ریحانہ کو سمجھاتے رہے۔ پھر جب وہ کچھ نارمل ہوئی ماسٹر صاحب باہر رکھی اپنی کرسی پرآکر بیٹھ گئے۔
”یا مولا“میرا گناہ کیاتھا؟”وہ اپنے آنسو نہیں روک پائے اوردیر تک ان کے گال بھیگتے رہے۔ اندرکمرے سے ان کے دونوں بچوں کی آوازیں آرہی تھیں جو ماں کو خوش کرنے میں لگے تھے۔ اورجب انہیں اس بات کا یقین ہوگیا کہ اب سب کچھ ٹھیک ہے وہ باہر کھیلنے کو نکل گئے۔ مگر اس کے گھر کے لئے اب سب کچھ اتنا جلد اوراتنی آسانی سے ٹھیک ہونے والا نہیں تھا۔
ریحانہ جو رات میں سوئی تو سوئی ہی رہ گئی۔ نہ جانے رات کے کس پہر میں موت نے اسے اس کی ساری پریشانیوں سے دور کردیا تھا۔ صبح اسے دیکھتے ہی گھر میں چیخ پکار مچ گئی۔سبھی لوگ ماسٹر صاحب کو سنبھالنے میں ہی لگے تھے۔ مگر وہ کسی کے بس میں نہیں آرہے تھے جو ان کے لئے سب سے بڑا سہارا تھی وہ تو جاچکی تھی وہ بھی انہیں اس طرح اکیلے چھوڑکر، ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کریں توکیا کریں۔
”میرے اللہ! میرا قصور کیا تھا۔ میں نے کون سی دنیا کی جنت مانگی تھی۔ بس گھر میں تھوڑی خوشی ہی تو مانگی تھی وہ بھی نہیں ملی۔“
”کیا کرنا ہے بیٹے، خود کو سنبھالو، ورنہ بچے ڈر جائیں گے۔“
تب ماسٹر صاحب نے دونوں بیٹوں کو سینے سے لگالیا۔ وہ دونوں نہ تو بہت چھوٹے تھے نہ اتنے بڑے کہ حالات کو سمجھ سکیں، ان کی نظریں بس باجی کو تلاش رہی تھیں۔ گھر میں ایک وہی ایسی تھیں جو ابوکو سنبھالنے کاکام انجام دے سکتی تھیں۔ مگر وہ تو سبھی کی نظروں سے گویا بچ رہی تھیں۔ یہ بھی ان لوگوں کے لئے ایک پہیلی ہی تھی۔ وہ سمجھ نہیں پارہے تھے کہ باجی ایساآخرکیوں کررہی ہیں۔ انہیں تو اس وقت ان لوگوں کے ساتھ ہی رہنا چاہئے تھا۔
خیر کسی طرح چہلم وغیرہ سے فراغت پانے کے بعد ماسٹر صاحب نے اپنی بیٹی کو اپنے پاس بلایا۔
”جی ابو“ نجّو کا سر جھکا ہوا تھا۔
”تم اپنے دو چار کپڑے رکھ لو، ہمیں ایک جگہ چلنا ہے“۔ ماسٹر صاحب نے نجّو کی طرف بنا دیکھے ہی کہا۔
”جی“ نجّو نے بھی اسی طرح چھوٹا سا جواب دیا اپنے دوچار کپڑے نکالے اورابّا کے ساتھ ان کی سائیکل پربیٹھ گئی۔ ماسٹرصاحب قریب بیس منٹ کا راستہ طے کرکے ایک کھلی جگہ پر آئے۔ انہوں نے نجّو کو اترنے کا اشارہ کیا اورکچھ دور پراشارہ کرتے ہوئے بولے۔
”نجّو اب تمہیں یہیں انہیں لوگوں کے ساتھ رہنا ہے“۔ اتنا کہتے ہی انہوں نے سائیکل کو پیڈل مارا اوربنا کچھ دیکھے بڑی تیزی سے آگے بڑھ گئے۔ وہ یہ جاننے کو بھی نہیں رکے کہ جس بیٹی کو وہ یہاں چھوڑے جارہے ہیں وہ ان سے کچھ پوچھنا یا کہنا بھی چاہتی ہے یا نہیں۔ اورنجو نے اپنے سے تھوڑی دوری پر ناچتے چیختے اچھلتے لوگوں کو دیکھا پھر آسمان کی طرف سر اٹھایا جیسے پوچھ رہی ہو ؎
”میں جو ایسی ہوئی اس میں خطاکس کی ہے!“
Be First to Comment