Skip to content

خدا کے گھرکی تلاش

عالمی افسانہ میلہ 2018 ۔
افسانہ نمبر 11 ۔
خدا کے گھرکی تلاش
ڈاکٹر ریاض توحیدی..کشمیر

غروب آفتا ب کے ساتھ ہی اُسے چوراہے کے بیچوں بیچ ایک ہیولا سا دکھائی دیا۔چہار جانب نظریں گھما کر کوئی انسان نظر نہ آنے پروہ ہمت جٹا کردھیرے دھیرے آگے بڑھ گیا۔قریب پہنچ کر وہ ہیولے کے بدلے انسان کو دیکھ کر حیران ہوا‘کیونکہ یہ انسانی صورت میں کوئی فرشتہ دکھ رہا تھا۔ اس کی جھیل سی نیلی آنکھیں اور چاند سا چمکتا چہرہ دیکھ کر کوئی بھی انسان دھوکہ کھا سکتا تھا کہ یہ انسان ہے کہ فرشتہ.؟اس کی آنکھیں تھوڑی دیر تک اجنبی کے خوبصور ت چہرے کو تکتی رہیں. اس دوران اسے محسوس ہوا کہ یہ شخص یا تو کوئی مجذوب ہے یا کوئی اجنبی ہے کیونکہ یہ پریشانی کے عالم میں چوراہے کے چکر کاٹ رہا ہے‘یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ راستہ بھٹک گیا ہو۔اس کی تشویش بھانپ کر وہ کچھ سوچتے ہوئے اجنبی کی طرف متوجہ ہوا اورپوچھ بیٹھا کہ آپ اجنبی لگ رہے ہیں کیا میں کچھ مدد کرسکتا ہوں؟آوازسنتے ہی اجنبی پہلے کسی اور زبان میں بولنے لگا لیکن جلد ہی پوچھنے والی کی زبان میں بول پڑا:
’’
جی ہاں‘آپ نے صحیح اندازہ لگایا ‘میں اجنبی ہوں جو وقت سے پہلے ہی زمین پر اتر آیا.‘‘
’’
زمین پر اتر آیا؟‘‘وہ اجنبی کی انوکھی بات سن کر پوچھ بیٹھا’’میں کچھ سمجھا نہیں‘‘
’’
میں دراصل فرشتہ ہوں‘آج شبِ برات ہے اس لئے ہمیں نصف شب کے بعد زمین پر اترنے کا حکم ہوا تھا لیکن
میں جلد بازی میں پہلے ہی اتر آیا۔اس لئے پریشان ہوں کہ اب کیا کروں۔‘‘
فرشتے کی بات سن کر اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں اور زبان گنگ ہوگئی۔ وہ جب حیرانی کا بت بن کر خاموش رہا تو فرشتہ گلابی لہجے میں پوچھ بیٹھا کہ آپ میری ایک مدد کروگے؟
’’
مدد اور میں‘‘اب وہ حیران ہوکرپھر بول پڑا
’’
ہاں‘مجھے خدا کا گھر دکھاؤ‘جہاں میں رات گزار سکوں‘ اس وقت مجھے پہچاننے میں دقت ہورہی ہے کیونکہ میں
وقت سے پہلے ۔۔۔!‘‘
اچھا ٹھیک ہے ابھی مغرب کی نماز کے بعد میں آپ کو خدا کا گھر دکھاؤں گا۔ویسے بھی آج شب بیداری ہی کرنی ہے اور آپ کے ساتھ رہ کر میری عبادت بھی قبول ہوجائے گی۔
مغرب کی نماز کے ساتھ ہی مسجدوں میں شب برات کی چہل پہل شروع ہوگئی۔یہ دونوں جب نزدیکی مسجد کے پاس پہنچ گئے تو فرشتے نے کہا کہ کسی کو بھی میری پہچان کا پتہ نہ چلے۔جب وہ مسجد میں داخل ہوئے تو لوگ سکون سے سامنے والی کی قرأت سے محظوظ ہورہے تھے۔ ان دونوں کو بھی تلاوت سے سکون ملا۔تلاوت ختم ہونے کے بعد جب وعظ ونصیحت کرنے کے لئے ایک بندہ سامنے کھڑا ہوا تو اجنبی شخص کو دیکھ کر وہ پوچھ بیٹھا کہ یہ کون ہے ‘کیا کسی کا مہمان ہے؟یہ سن کر وہ شخص بول پڑا کہ حضرت یہ ایک اجنبی ہے جوخدا کے گھر میں رات گزارنے کے لئے آیا ہے۔واعظ یہ سن کر بول پڑا کہ اچھا ٹھیک ہے لیکن کیا یہ ہمارے مسلک سے تعلق رکھتا ہے کہ نہیں کیونکہ تمہیں تو پتہ ہے کی اس مسجد میں ہرکوئی نہیں آسکتا۔فرشتہ واعظ کی بات سن کر تھوڑا سا حیران ہوااور پوچھ بیٹھا کہ یہ تو خدا کا گھر ہے یہاں تو ہرکوئی پاک بندہ آسکتا ہے ‘یہ مسلک کا معاملہ کیا ہے؟اس کی بات سن کر ساری مسجد میں کانا پھوسی ہونے لگی۔واعظ خشمگیں نگاہوں سے اسے دیکھ کر چلا اٹھا کہ اسے مسجد سے باہر نکالو پتہ نہیں کون غیر مقلدہے۔واعظ کے تیور دیکھ کر وہ آدمی فرشتے کو مسجد سے باہر نکال لایا اوردونوں دوسری مسجد کی جانب چل پڑے۔دوران گفتگو وہ فرشتے سے کہنے لگا کہ آپ صرف دیکھتے اور سنتے جاؤ‘بحث مت کرو کیونکہ بحث کرناہمارا کام ہے‘باقی سننے کی صفت کو ہم نے پہلے ہی ٹھکرا دیا ہے ۔
اب یہ دونوں خداکے ایک اور گھر میں پہنچ گئے۔یہاں پر ایک شعلہ بیاں مقرر کی آواز سے ساری مسجد گونج اٹھی تھی۔وہ اپنے خطاب کے دوران باربا ر دیگر جماعتوں پر طنز کے تیر چلا رہا تھا ۔اس نے جب اپنا خطاب ختم کردیا تولوگوں سے مسائل پوچھنے کے لئے کہا۔چند لوگوں کے استفسار کے بعد جب اچانک اجنبی نے پوچھا کہ آپ کس بنیاد پر اپنی جماعت کو دوسری جماعتوں پر فوقیت دے رہے ہیں تو مقرر کوئی مناسب جواب نہ دیکر پہلے اسے گھورنے لگااور پھر اس کو تقلید پرست کہہ کر ڈانٹ پلائی۔ اس سے پہلے کہ معاملہ کچھ اوربگڑ جاتا وہ دونوں مسجد سے نکل کر دوسری مساجد کی طرف نکل پڑے۔کئی مساجد کی یہی صورتحال دیکھ کر وہ ایک اور مسجد کے صحن میں پہنچے۔صحن میں حشر کا سماں تھا۔ کئی لوگ زخمی حالت میں زمین پر کراہ رہے تھے اور باقی ایک دوسرے پر لاٹھیاں برسا رہے تھے۔معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ یہاں پر دو جماعتوں کے درمیان مسلکی مناظرہ ہورہا تھا کہ بحث کے دوران تکرار شروع ہوئی‘ پھر لڑائی اور آخر پر خون خرابہ.اس اندوہناک صورتحال سے فرشتہ مایوس تو ہوا لیکن وہ اس سے زیادہ اس بات پر افسوس کرنے لگاجب کچھ غیر مسلم بیچ بچاؤ کرنے کے دوران جھگڑنے والوں کوسمجھا رہے تھے کہ تم سب مسلمان ہوکر ایک دوسرے کو کیوں ختم کرنے پر تلے ہوئے ہو۔
یہاں کا حشرسماں ماحول دیکھ کر دونوں قبرستان میں پہنچ گئے ۔وہاں پر شب برات منانے کا کچھ اور ہی عالم تھا۔سارا قبرستان روشنی سے جگمگا رہا تھا۔کئی جگہوں پر شامیانے لگائے گئے تھے اورلوگ شامیانوں سے نکل کر قبروں کو سجدہ کررہے تھے۔گمراہی کی یہ انتہا دیکھ کر فرشتے نے اس آدمی کو انگلی سے اشارہ کرکے قبرستان کے اردگرد استادہ پیڑوں کی طرف دیکھنے کو کہا۔اس نے جب پیڑوں پر نظر دوڑائی تووہ پیڑوں پر بیٹھے ہوئے گدھوں کی ہیئت سے خوفزدہ ہوا‘کیونکہ گدھوں کے سر انسانی چہرے بن چکے تھے اور وہ زور زور سے ہنس رہے تھے۔یہ ہیبت ناک منظر دیکھ کر دونوں چوراہے پر وآپس آگئے ۔ چوراہے پر پہنچ کر وہ آدمی فرشتے سے پوچھ بیٹھا کہ ہم دنیا کے کونے کونے میں کیوں پریشانی کے بھنور میں پھنس چکے ہیں ‘ہم میں سکون قلب کا فقدان کیوں پایا جاتاہے…؟
رات ختم ہورہی تھی۔فرشتہ تھوڑی دیر تک خاموش رہا اور پھر آسمان کی طرف نظر اٹھا کر کہنے لگا کہ اب میرا زمینی سفر اختتام کو پہنچا۔ میں تو یہاں خدا کے گھر کی تلاش میں آیا تھا لیکن یہاں پر تو لوگوں نے خدا کے گھر کو اپنی سوچ کا ٹھکانہ بنایا ہواہے۔یہاں پر تو ذکر الہی کے بجائے فکرجہالت کا شور بپا ہے۔شبِ برات میں اعمال کا فیصلہ کیا جاتا ہے لیکن آپ لوگ خود اپنے اعمال کی برات نکالنے میں پھنس چکے ہو ۔ طلوع آفتاب کے ساتھ ہی فرشتہ اپنی اصلی ہئیت میں تبدیل ہوا اور اپنے پر پھڑپھڑاکر آسمان کی جانب یہ کہتے ہوئے پرواز کرگیا کہ:
’’
ہر قوم کا حشر اس کی سوچ کے مطابق ہوگا۔‘‘

Published inافسانچہڈاکٹڑ ریاض توحیدیعالمی افسانہ فورم

Be First to Comment

Leave a Reply