Skip to content

خبط مسلسل

عالمی افسانہ میلہ 2021″
دوسری نشست”
افسانہ نمبر”42″
“خبط مسلسل”
افسانہ نگار.محبوب حسین عامر (گلگت، پاکستان)

اسلم بے حد پریشانی کےعالم میں تقریبا بھاگتا ہوا ڈاکٹرشریف کے روم میں داخل ہوا انتہائی عاجزی اورلجاجت کے ساتھ ہاتھ جوڑتے ہوئے ڈاکٹرشریف سے پوچھا- خدارا مجھے بتادو کیا میرے والدین صحت یاب ہوجائیں گے میں ان کی خاطرکچھ بھی کرنے کے لئے تیار ہوں۔ ان کو کسی دوسرے شہرکے ہسپتال میں بھی لے کے جانے کے لئے آپ کی اجازت درکار ہوگی ۔ڈاکٹرشریف نے حوصلہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ مرض ایک خاص وقت تک مریض کو تکیف دیتا ہے اور پھرخود بخود مریض ٹھیک ہوجاتا ہے کیونکہ یہ کوئی مرض نہیں ہے بلکہ ایک کیفیت ہے۔ جو ایک مریض کو دوسرے مریض سے منتقل ہوجاتی ہے۔
اسلم نے ڈاکٹرشریف کو تمام واقعات بتانے شروع کئے تو ڈاکٹر نے مسکراتے ہوئے کہا۔ آپ کو پریشان نہیں ہونا چاہئے یہ بہت جلد اس کیفیت سے نکل جائیں گےاورسب کچھ معمول کے مطابق کرنے لگیں گےاسلم کو بالکل بھی یقین نہیں آرہا تھا اور مسلسل اپنے آپ کو کوس رہا تھا کہ کاش میں اپنے والدین کے ساتھ بیٹھا رہتا۔ دوسرے شہرمیں پوسٹنگ نہ کراتا۔
ڈاکٹرشریف نے مکمل معائنے کے بعد اسلم سے پوچھا کہ اس نوعیت کے مریض آپ کے گھر یا رشتہ داروں میں اور بھی ہوںگے۔ ورنہ ان کو یہ مرض لاحق نہیں ہونا چاہیئے۔ اسلم کو ایک جھٹکا لگا اور فورا بتانا شروع کیا کہ میں اوراحمد کمال آپس میں دوست اور ہائی سکول تک ہم جماعت رہے ہیں اور مدرسے میں بھی دونوں نے ناظرہ ایک ساتھ پڑھا ہے۔ ہمارےگھربھی ایک دوسرے سے اس طرح ملے ہوئےہیں کہ احمد کمال کے گھرسے اٹھنےوالا شورمیں آسانی سے سن لیتاہوں ۔ احمد کمال کا باپ ایک سرکاری ٹرانسپورٹ کمپنی میں کام کرتا تھا اوربے حد سنجیدہ مزاج انسان تھا- وہ اپنے بچوں پرکچھ زیادہ ہی توجہ دیتا تھا اورہروقت ایک ہی موضوع پربات کرتاتھا اوراس قدراونچی آوازمیں بولتا کہ اس کی آوازہمارےگھرکی دیواریں چیرکرہم تک پہنچتی اورمیرےابو فورا کہتے جاؤبیٹا تمہارے دوست کی خیر نہیں ہے اپنے دوست کو بچا لو۔
میں فورا بھاگم بھاگ احمد کمال کے گھر پہنچتا اور دو زانو ہو کربیٹھ جاتا تاکہ میں بھی کسی نتیجے پر پہنچ سکوں- احمد کمال کا باپ مجھ سے کہتا – تم بھی غور سےسنو بیٹا میں کیا کہہ رہا ہوں۔ تمہارے ابو کوبینک کی رجسٹروں سے فرصت ملے گی تو تمہیں کچھ بتائے گا۔ ۔ وہ ایک مادہ پرست انسان ہے اس نےتمہاری تربیت بھی اسی انداز میں کی ہے۔ اس کو کیا معلوم موت ایک راز ہے اورزندگی ایک معنی سی شے ہے یہ دنیا جلدختم ہونے والی ہے موت ہمیں دیکھ کر ہنستی ہے اور افسوس بھی کرتی ہے کہ ہم کتنی غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ہم موت کے بعد ایک نئی زندگی شروع کریں گے۔ سب بیکار ہے سب بیکار ہے سب بیکار ہے
میں کافی حد تک انکل کی باتوں سے متاثر ہوتا تھا لیکن میرے ابومیرےدماغ سے یہ سب باتیں فورا محو کردیتا اورنصیحت کرتا بیٹا خبردارانکل کمال خان کی باتوں کوسنجیدہ مت لینا وہ ایک خبطی انسان ہے اس کی منطق بچوں کو بگاڑ دے گی اوروہ ایک ایسی تصوراتی دنیا آباد کرنا چاہتا ہےجہاں صرف بھوک افلاس اور بیمارذہنیت کے لوگ ہی رہ سکتے ہیں
اسلم بتا رہا تھا جب میں ایم بی اے (فنانس) کر کے اپنے ابو کے بینک میں جاب کر رہا تھا اس وقت احمد کمال اسلامیات میں ڈاکٹریٹ کر رہا تھا۔ انکل کمال خان اب ریٹائرڈ ہو کرگھربیٹھے تھے اور رات دن آنٹی رضیہ (ڈاکٹراحمد کمال کی ماں)اور عمارہ (احمد کمال کی بہن) کے سامنے نعرہ زن ہوتا (موت ایک راز ہے اورزندگی ایک معنی سی شے ہے یہ دنیا جلدختم ہونے والی ہے موت ہمیں دیکھ کر ہنستی ہے اورافسوس بھی کرتی ہے کہ ہم کتنی غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ہم موت کے بعد ایک نئی زندگی شروع کریں گے۔ سب بیکار ہے سب بیکار ہے سب بیکار ہے) وہ بیچاری صرف سننے اور ہاں میں ہاں ملانے کےعلاوہ کربھی کیا سکتی تھیں۔ مجال تھی کہ کسی ایک بات کی تردید کرتی اورانکل کمال خان کےعتاب کو دعوت دینے کی جرات کرتیں۔
ڈاکٹر صاحب آپ اگر برا نی مانیں تو مزید بھی تفصیلات بتانا چاہتا ہوں- ڈاکٹر شریف نے اسلم کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا کرسی پر بیٹھ جاؤ آرام سے اور بتاؤ میں سن رہا ہوں- اسلم نے بتانا شروع کیا۔ میرےابومیری امی سے ہمیشہ کہتے نسرین جانی۔ دیکھو بچوں کو کبھی بھی احساس کمتری کا شکارہونے مت دینا ورنہ ان کی زندگی مشکل ہوجائے گی۔ کبھی بھی اپنی رائے مسلط مت کرنا ورنہ بچے اپنے فیصلے کرنے میں ہمیشہ ہچکچاہٹ کا شکار ہوجائیں گے
ڈاکٹر شریف بڑے انہماک سے اسلم کی باتیں سن رہا تھا۔ اسلم نے کھانس کراپنا گلہ صاف کیا اور مزید بتانا شروع کیا- احمد کمال ڈاکٹریٹ کرکے آیا توپہلی ملاقات میں مجھے ایسا لگا جیسے کسی نیم پاگل انسان سے ملا ہوں۔ نہ وہ گرمجوشی نہ وہ محبت اورنہ وہ اپنائیت، وہ سب کہٰیں گہرے کنوئیں میں دفن کرکے آیا تھا ۔ وہ چیخ کرکہتا۔ موت ایک راز ہے اورزندگی ایک بے معنی سی شے ہے یہ دنیا جلدختم ہونے والی ہے موت ہمیں دیکھ کر ہنستی ہے اور افسوس بھی کرتی ہے کہ ہم کتنی غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ہم موت کے بعد ایک نئی زندگی شروع کریں گے۔ سب بیکار ہے سب بیکار ہے سب بیکار ہےوہ منہ سے بے خیالی میں جھاگ نکالتا اورسرکو جھٹکتا جیسے کسی کاہن پر پریوں کا نزول ہوا ہو اوراس کو اپنے ٹرانس میں لیا ہوا ہو۔ مجھ سے تو اس کی یہ کیفیت دیکھی نہیں جاتی تھی اورمیں فورا کسی کام کے بہانے سے کھسک جاتا، لیکن وہ اپنی دھن میں بولتا جاتا اور پھر خود ہی سرجھکا کرزمین پرلکیریں کھینچتا جیسے زمین کالکولیٹر ہو اوراس پر مشکل ترین حساب کے الجبرا کا سوال بڑے انہماک کے ساتھ حل کررہا ہو۔ سورج سے زمین کا فاصلہ، چاند سے زمین کا فاصلہ، زمین کی کل عمر، ہمارے کہکشاں کی کل عمر، اس کائینات کی کل عمر، اور پھر قیامت کا ایک دن ہمارے پچاس ھزار سالوں کے برابر ہے تو آج ہم قیامت سے کتنے دور ہیں وغیرہ۔ یہ وہ سوالات تھے جو احمد کمال اپنے درودیواراورجہاں بھی موقع ملتا لکھتا اور بولتا جاتا تھا۔ کوئی سامنے ہونہ ہو اس سے کوئی غرض نہیں تھی بس بولنا اور لکھتا جاتا نتیجے کا اعلان بھی کرتاخواہ کوئی سننے والا ہو یا نہ ہو۔ میں سوچتا کاش اس کو بھی میں اپنے ساتھ ایم بی اے میں ایڈمشن دلاتا اور ہم ساتھ ساتھ بینک میں آفیسر ہوتے تو کتنا اچھا ہوتا۔
اسلم ڈاکٹرشریف کو بتانا چاہتا تھا کہ احمد کمال کی بہن کا نام عمارہ ہے وہ ایک حسین لڑکی ہے اوراس میں عورت پن کی تمام خوبیاں موجود ہیں میں جب بھی اس لڑکی کودیکھتا ہوں توایک عجیب کیفیت طاری ہوتی ہے میں ہر ساز کو اپنے اندر بجتا ہوا محسوس کرتا ہوں اور جی چاہتا ہے کہ ایسا ناچوں کی کائینات بھی میرے ساتھ ناچنا شروع کرے۔اور وہ بھی جب مجھے دیکھتی ہے تواس میں یکدم کوئی تبدیلی رونما ہوجاتی ہے اور خود کو سنبھالنے میں بھی اس کو دقت ہوتی ہے۔ میں جب بھی اس کے سینے کے ابھار، اس کے رخساروں پر پھیلی ہوئی سرخی ، اس کا بھرا بھرا جسم دیکھتا ہوں تو ایسا لگتا ہے جیسےعمارہ ہی میرے سپنوں کی شہزادی اورمیرےلئے طمانیت اور سکون کا باعث ہو- لیکن اسلم ڈاکٹرشریف کو نہیں بتا سکا اورکہانی کا رخ کسی اور طرف پھیر دیا۔ ڈاکٹر صاحب ایک صبح انکل کمال خان کو شدید بخارکی وجہ سے ہسپتال میں داخل کروایا گیا اور شام تک طبیعت مزید بگڑی اوروہ داعیء اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لیکن وہ بے ہوشی میں بھی وہی بڑبڑاتے رہے جو کچھ وہ ہوش و حواس میں کہتے تھے۔ اسلم کامن چاہ رہا تھا کہ ڈاکٹر شریف کو عمارہ اور آنٹی رضیہ کے بارے میں بھی بتادے جو بالکل اکیلی رہ گئی ہیں اورڈاکٹراحمد کمال اپنے ہوش و حواس میں نہیں ہے جوان بہن کو سہارا دینے کی بجائےان کے لئےمزید پیچیدگیاں اورمشکلات پیدا کررہا ہے ۔ اب تو حالت یہ ہوگئی ہے کہ آتے جاتے راہگیروں کو لعن طعن کرنا معمول بن گیا ہے۔ لوگ احمد کمال کو دیکھ کر راستہ بدلنے پرمجبورہیں اسلم ڈاکٹرشریف کو بتانا چاہتا تھا کہ اب عمارہ کی بے بسی مجھ سے دیکھی نہیں جاتی ہے اسلم سوچ رہا تھا کہ ڈاکٹرشریف کویہ بھی بتا دے کہ کسی دن عمارہ سے ملاقات کر کے کھل کراظہار محبت کرنا چاہتا ہوں اوراس کو شادی کی پیشکش بھی کرتا چاہتا ہوں ۔ لیکن میرا دل اتنا مضبوط نہیں ہے اورمجھ میں اتنی جرات بھی نہیں کہ عمارہ کے گھر میں داخل ہوسکوں-کیا کوئی ایسی دوا ہے جو مجھ میں ایسا حوصلہ اور جرات پیدا کرے۔لیکن اسلم نےایک بار پھر اپنے حواس بحال کئے اور ایک گلاس پانی پی کرڈاکٹرشریف کو بتانا شروع کیا کہ میرے ابو میری غیرموجودگی میں چھپ چھپ کرڈاکٹر احمد کمال سے ملتے رہے ہیں اور اس کی فلاسفی سے انتہائی متاثر ہوئے ہیں میرے ابو کے رویے نے میری امی کو بھی متاثر کیا ہے اسلم نے ایک بار پھر ڈاکٹر شریف کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا آپ کی مہر بانی ہوگی اس سلسلے میں میری رہنمائی کریں ۔ ڈاکٹر شریف نے اسلم کو دلاسہ دیا اور کہا کہ ان شاء اللہ اگر ان کو صرف دو ہفتے بالکل علحیدگی میں رکھا جائے اور مسلسل نیند طاری کرانے کی دوا دی جائے تو اس کیفیت سے باہرآجائیں گے لیکن شرط یہ ہے کہ اس بیماری میں مبتلا کوئی شخص ان سے ملنے نہ پائے۔
اسلم ہسپتال سے گھرآگیا اوردل مچلنے لگا کہ ایک نظرعمارہ کودیکھنا چاہئے اوروہ دل کے ہاتھوں مجبورہوکرعمارہ کے گھرمیں داخل ہوا۔ آہستہ آہستہ آگے بڑھا اوراس پراسرارموت کی سی خاموشی میں اچانک عمارہ کی آوازگونجی۔ تمہیں پتہ ۔ موت ایک راز ہے اورزندگی ایک بے معنی سی شے ہے یہ دنیا جلدختم ہونے والی ہے موت ہمیں دیکھ کر ہنستی ہے اور افسوس بھی کرتی ہے کہ ہم کتنی غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ہم موت کے بعد ایک نئی زندگی شروع کریں گے۔ سب بیکار ہے سب بیکار ہے سب بیکار ہے ۔۔۔۔۔۔ عمارہ مسلسل بول رہی تھی اور اسلم چکرا کرزمین پرگرپڑا تھا

Published inعالمی افسانہ فورممحبوب حسین عامر

Comments are closed.