Skip to content

خاکستری بالے اور زرد املتاس

عالمی افسانہ میلہ 2020

افسانہ نمبر 39

خاکستری بالے اور زرد املتاس

قیصر نذیر خاورؔ ، لاہور پاکستان

لگتا ہے جیسے گھر واپسی کا سفر کبھی ختم نہیں ہو گا ۔ میں کیرانہ کے پہاڑی علاقے میں ، باہر کو نکلی ایک چٹان کے سائے تلے بیٹھا ، سستا رہا ہوں ۔ مجھے سورج نظر نہیں آ رہا ؛ شاید وہ میری پشت پر ، کوہان جیسی چٹان ، کے پیچھے ہے لیکن میرے سامنے وادی میں سورج کی اولین کرنیں نہ صرف کھیتوں کے سبزے کو نکھار رہی ہیں بلکہ ان کے درمیان بہتی ندی کے پانی کو منور کرتے ہوئے اس پر رقصاں بھی ہیں ۔ میں رات بھر اِدھر اُدھر بھٹکتا رہا ہوں ۔ میرا لیمپ ساتھ نہ ہوتا تو میں اس وقت یہاں نہ بیٹھا ہوتا ۔ میں ، اُس وقت ، اُس گاﺅں سے نکلنے میں کامیاب ہوا تھا جب اندھیرا چھا چکا تھا ۔ وہ گائوں جہاں سسی کے والد نے مجھے بے عزت کرکے گھر سے نکالا اور مجھ پر اپنا کتا چھوڑا تھا ۔

یہ کتا خاصا خوفناک تھا ؛ شاید بگھیاڑی ۔ سسی اور اس کی ماں کی مزاحمت کے باوجود سسی کے باپ نے اُسے اشارہ کیا اور وہ مجھ پر جھپٹا تھا ؛ میں ایسا بدحواس ہوا کہ اپنا پٹھو بھی لینا بھول گیا اور وہاں سے سرپٹ بھاگ نکلا تھا ۔ میرا لیمپ اگر میرے کندھے پر نہ لٹکا ہوتا تو وہ بھی شاید وہیں رہ گیا ہوتا ۔

میں ایک ڈاکٹر ہوں ۔ میں نے دو سال پہلے کِنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج ، لاہور سے ڈاکٹری پاس کی تھی ۔ میری ہائوس جاب اچھی رہی تھی اور مجھے کالج سے ملحقہ میو ہسپتال میں ہی نوکری مل رہی تھی ۔ میرے والد ، البتہ ، جنہوں نے 1903 ء اور 1904 ء میں سرگودھا کو طاعون کے ہاتھوں بری طرح متاثر ہوتے دیکھا تھا ، چاہتے تھے کہ میں گھر واپس آﺅں اور وہیں اپنی پریکٹس کروں ؛ مجھے بھی اس وباء کی تباہی کچھ کچھ یاد تھی ۔ مجھے ان کی خواہش یا یوں کہہ لیں کہ حکم پر اپنے آبائی شہر آنا پڑا ۔ ابھی پہلی عالمی جنگ نہیں چھڑی تھی لیکن اس کے بادل سر پر منڈلا رہے تھے ؛ ہمارے اور نزدیکی پوٹھوہاری علاقے میں لام بندی جاری تھی ۔ انگریز سرکار فوج میں بہت سے جوانوں کی بھرتی کے لئے ، اس علاقے کے سرکردہ خاندانوں کے اثر و رسوخ کو استعمال کر رہی تھی اور ان کے ڈیروں میں ان کے کیمپ لگے تھے ؛ میرے والد کے ذمے بھی پچاس جوانوں کی بھرتی تھی ؛ وہ ابھی تیس ہی مہیا کر پائے تھے ۔

میرے والد نے میری گھر واپسی سے پہلے ہی حویلی کے باہر والے حصے میں تین کمرے بنوا رکھے تھے ؛ ان کا خیال تھا کہ ایک کمرے میں ، میں نے مریض دیکھنے تھے ، دوسرے میں دوائی خانہ جبکہ تیسرے میں چھوٹی موٹی جراحی یا سرجری کے لئے آپریشن گاہ کی ضرورت پیش آنی تھی ۔

یوں میرے گھر لوٹنے کے کچھ عرصے کے بعد ہی میرا کلینک آباد ہو گیا ۔ میں وہاں آئے مریضوں کو دیکھنے کے علاوہ بطور ’ فیملی ڈاکٹر ‘ کئی گھروں اور خاندانوں میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا ۔ دو روز قبل کی بات ہے کہ ایک بندہ میرے پاس کلینک میں آیا ۔ وہ ایک خچر پر سوار اور گرد سے اَٹا ہوا تھا ؛ لگتا تھا جیسے وہ ایک لمبا سفر کرکے آیا ہو ۔ اس نے میرے کلینک کے باہر اپنا خچر صحن کے ایک کونے میں باندھا اور پاس لگے ہینڈ پمپ سے اچھی طرح منہ ہاتھ دھویا ، بالوں کو گیلا کیا اور اس زور سے ناک سُنکی کہ میں تو چونکا ہی ، میرے کلینک میں بیٹھے سب مریض بھی کھڑکی سے باہر صحن میں دیکھنے لگے ۔ جب اس نے اپنے صافے سے چہرہ اور بازو خشک کر لیے تو وہ اپنا کھسہ اتار کر مودبانہ انداز سے میرے کلینک میں داخل ہوا اور دوسرے مریضوں کے ساتھ بیٹھ گیا ۔ میں نے اسے ایک نظر دیکھا اور پھر سے اپنے پاس آہنی سٹول پر بیٹھے مریض کا معائنہ کرنے لگا ۔ گو وہ اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا لیکن اس کی حرکات سے لگتا تھا جیسے وہ جلدی میں ہو ؛ وہ کبھی کھانستا ، کبھی گہرے سانس لیتا اور کبھی بے چینی سے پاﺅں اور ٹانگیں ہلاتا ۔ میں جب باقی مریض دیکھ کر فارغ ہوا اور اس کی طرف متوجہ ہوا اور ہاتھ سے اشارہ کیا کہ وہ سٹول پر آ کر بیٹھے تو وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور آ کرسٹول پر بیٹھنے کی بجائے میری میز کے قریب کھڑا ہو گیا ۔ اس نے دونوں ہاتھ جوڑ رکھے تھے ؛

” صاحب ! ہماری چھوٹی بی بی بہت سخت بیمار ہیں ۔ آپ ہمارے گاﺅں چلیں اور انہیں دیکھ کر دوا دارو کریں ۔ مالک اور مالکن سخت پریشان ہیں ۔ “

” تم کہاں سے آئے ہو ؟ “

” صاحب میں کیرانہ پہاڑ کے پار بھوکل وال سے آیا ہوں ۔“

” اور تمہارا مالک کون ہے ؟ “

” نون صاحب ۔ ۔ ۔ رحیم خان نون جناب “

” تمہاری چھوٹی مالکن کو کیا ہوا ہے ؟ “

” یہ تو مجھے پتہ نہیں صاحب ، مالک نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپ سے کہوں کہ آپ چھوٹی مالکن کو دیکھنے کے لئے تشریف لائیں ۔“

” ارے بھئی ، تمہیں کچھ تو اندازہ ہو گا کہ چھوٹی بی بی کو ہوا کیا ہے ؟ اس کی عمر کتنی ہے ؟ “

” صحیح تو معلوم نہیں صاحب ، کچھ عرصہ پہلے تک تو وہ حویلی بھر میں کود پھلانگ کیا کرتی تھیں ، پھر ان کو پردہ کرا دیا گیا ۔ “

” انہیں بخار ۔ ۔ ۔ مطلب تاپ تو نہیں چڑھا ہوا ؟ کھانسی وغیرہ تو نہیں ؟ “

” صحیح تو معلوم نہیں صاحب ۔ ۔ ۔ میری بیوی نے ، البتہ مجھے بتایا تھا کہ وہ پچھلے کئی روز سے بستر سے نہیں اٹھیں ۔ نہ کچھ کھایا نہ کچھ پیا ، بس ٹُکر ٹُکر چھت کو گھورے جاتی ہیں ۔ کسی سے بولتی چالتی بھی نہیں ۔“

” اچھا ، ٹھیک ہے ، تم مجھے اپنے گاﺅں پہنچنے کا راستہ بتاﺅ ۔ میں تمہاری چھوٹی مالکن کو دیکھنے آتا ہوں ۔“

اس نے مجھے اپنے گاﺅں کا راستہ سمجھانا اور میں نے اِسے اپنی جیبی ڈائری میں نوٹ کرنا شروع کیا ۔

” جب آپ اُس پہاڑی کے پاس پہنچ جائیں جو دیکھنے میں نیلی لگتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ جس پر دھوپ پڑے تو سنہری چمک بھی دیتی ہے ۔ وہاں سے پگڈنڈی کے دو حصے ہو جائیں گے ، ایک سیدھی آگے چلی جائے گی جبکہ دوسری دائیں مڑے گی ۔ آپ نے دائیں والی پر چلنا ہے ۔ یہ سیدھے ہمارے گاﺅں کو آتی ہے ۔ مالک کی حویلی آپ کو دور سے ہی نظر آ جائے گی ۔“

” یہاں سے کتنا فاصلہ ہے ؟ “

” صحیح تو معلوم نہیں صاحب ، مجھے خچر پر یہاں آنے میں چار گھنٹے لگے ہیں ۔ آپ گھوڑے پر آئیں گے تو تین ہی لگیں گے ۔ ۔ ۔ ۔ “

” تمہارے مالک کا کوئی گھر سرگودھا میں نہیں ہے کیا ؟ ۔ ۔ ۔ کہ وہ بیٹی کو یہاں لے آتے ؟ “

” نہیں صاحب ، یہاں سرگودھا میں تو نہیں البتہ لاہور میں ضرور ہے ۔ “

” اچھا ، اچھا ، ٹھیک ہے ۔ میں کل صبح وہاں پہنچنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ تم واپس جاﺅ ۔ “

” بہت مہربانی ، صاحب ۔ “ ، اس نے اپنے جُڑے ہاتھوں کو سر کی طرف اٹھا کر مجھے سلام کیا ، کمرے سے نکل کر اس نے اپنا کُھسہ پہنا اور خچر کے پاس جا کر اسے تھپکی دینے لگا ۔ اسی لمحے میرا ملازم کمرے میں لالٹین لئے داخل ہوا تو مجھے احساس ہوا کہ شام گہری ہو چکی تھی ۔’ چار گھنٹے کا سفر اور وہ بھی اندھیرے میں ۔ ۔ ۔ ‘ ، میں نے سوچا اور اپنے ملازم سے کہا کہ وہ اسے واپس میرے پاس لے کر آئے ۔ ملازم لالٹین رکھ کر صحن میں گیا اور اسے ہمراہ لئے واپس آیا ۔

” تمہارا نام کیا ہے؟ “ ، میں نے اس سے پوچھا ۔

” چراغ دین صاحب ! “

”چراغ دین ، تم رات یہیں کیوں نہیں رُک جاتے ۔ صبح سویرے ہم اکٹھے ہی نکل پڑیں گے ۔“

” نہیں صاحب ، مالک کی اجازت نہیں ہے ۔ انہوں نے فوراً لوٹنے کا حکم دیا تھا ۔“

مجھے اپنے گھر کے طور طریقے معلوم تھے ، ہم جو اس علاقے میں درمیانے درجے کی جاگیر رکھتے تھے ؛ ہمارا بھی کوئی نوکر حکم عدولی نہیں کر سکتا تھا ، وہ تو پھر بڑے جاگیردار’ نونوں ‘ کے گھر سے آیا تھا ، اس لئے میں نے اصرار نہ کیا اور اسے جانے دیا ۔

رات کے کھانے پر میں نے ساری بات والد صاحب کے گوش گزار کی اور یہ بھی بتایا کہ مجھے صبح ان کی بیٹی کو دیکھنے جانا ہے ۔ والد صاحب رحیم خان نون کو جانتے تھے ۔ وہ چاہتے تھے کہ میں نون صاحب کی بیٹی کا علاج کرنے ضرور جائوں ۔ باتوں باتوں میں انہوں نے مجھے بتایا کہ رحیم خان نون کے والد انگریز دربار میں اگلی کرسیوں پر بیٹھا کرتے تھے اور انگریزوں کے خاص وفاداروں میں شمار ہوتے تھے اسی لیے انہیں آبادکاری کے لیے اتنا زیادہ رقبہ عطا ہوا تھا ۔

” اور میرے دادا بھی تو ۔ ۔ ۔ ! ” میں نے جملہ مکمل نہیں کیا تھا کہ میرے والد نے بات کاٹ دی ۔ ” تھے تو وہ بھی وفادار لیکن اتنے قریب نہ تھے ، اسی لیے انہیں کم رقبہ دیا گیا تھا ۔ “

ان کی باتوں سے مجھے پتہ چلا کہ رحیم خان نون اور ان کے والد سخت گیر جاگیردار تھے اور ان کے حکم کے بغیر ، ان کی جاگیر میں ، پتا بھی نہ کھڑکتا تھا ؛ ویسے میرے والد بھی کچھ کم سخت نہ تھے ؛ اگر کچھ کم ہوتے تو میں لاہور میں ہی نوکری کر رہا ہوتا اور مجھے جُولی سے خطوں کے سہارے میل جول برقرار رکھنے کی ضرورت پیش نہ آتی ۔

جُولی اینگلو انڈین تھی ؛ اس کا رنگ قدرے سانولا اورنین نقش تیکھے تھے البتہ آنکھیں گوروں جیسی نیلی تھیں ؛ قد سرو جیسا اور جسم سڈول تھا ۔ وہ میری ہم جماعت تو نہیں تھی لیکن وہ کبھی کبھار ، اپنے بھائی فرنینڈس سے مِلنے ایف سی کالج کے ہوسٹل جو ہمارے کالج و ہوسٹل کے سامنے ہی تھا ، آیا کرتی تھی ؛ میں بھی ہوسٹلر تھا اس لیے فرنینڈس سے میری اچھی علیک سلیک تھی ۔ وہ خود کنیرڈ کالج میں پڑھتی تھی اور وہیں ہوسٹل میں رہتی تھی ۔ اس کے والدین ، ویسٹ رِج ، راولپنڈی میں رہتے تھے ، والد برٹش انڈین آرمی میں تھے جبکہ ماں سینٹ کیتھرین ہسپتال میں ہیڈ نرس تھیں ۔ میری اس سے ملاقات انارکلی بازار میں ایک شام ٹہل کے دوران ہوئی تھی ، جہاں وہ اپنے بھائی کے ساتھ ایک دکان پر کھڑی بڑے بڑے گدیلے گُڈے گُڈیاں دیکھ رہی تھی ؛ ہم ہوسٹلروں میں ایک بات مشترک تھی کہ ہم اپنے بستروں میں ایسے گدیلے گڈے یا گڈیاں ضرور رکھا کرتے تھے ۔

ہم جلد ہی دوست بن گئے ؛ اور پھر یہ رشتہ دوستی سے آگے بڑھ گیا تھا ۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ میں سرگودھا واپس جاﺅں لیکن میرے لئے اپنے باپ کی حکم عدولی ممکن نہ تھی ؛ وہ اس شام ، جس کی اگلی صبح میں نے سرگودھا جانا تھا ، مجھ سے لپٹ کر ایسے بِلک بِلک کر روئی تھی کہ میری قمیض تر ہو گئی تھی اور میرے لئے اسے سنبھالنا مشکل ہو گیا تھا ۔ اب ہمارا رابطہ زیادہ تر خطوں تک ہی محدود ہو کر رہ گیا تھا ؛ پریکٹس چل جانے کی وجہ سے میرا لاہور جانا بہت کم ہو گیا تھا لیکن وہ مہینے میں ایک آدھ بار اتوار کو ریل گاڑی پکڑتی اور سرگودھا آ جاتی ۔ ہم کچھ گھنٹے ریلوے سٹیشن کے کیبنوں والے ریستوراں میں ساتھ گزارتے پھر وہ میانوالی سے آتی شام کی گاڑی سے واپس لوٹ جاتی ۔

ہم دونوں ہی جانتے تھے کہ ہمارا ساتھ ممکن نہیں تھا ۔ مجھے اندازہ تھا کہ یہ ملنا اور خطوں کے ذریعے یہ رابطہ وقت کے ساتھ کم ہوتا جانا تھا اور پھر ہم دونوں اپنی اپنی ڈگر پر ہی چل نکلتے ۔ اس کی محبت شاید مجھ سے گہری تھی لیکن مجھے اپنے مقدر کا پتہ تھا اور میں قسمت ہارے بیٹھا تھا ؛ کسی ہم پلہ یا بڑے خاندان کی سید فیملی کی لڑکی کا پلو میرے ہاتھ میں دیا جانا تھا ۔ مجھے جولی پر ترس بھی آتا تھا اور خود پر غصہ بھی کہ میں باپ کے سامنے اتنا دَبو کیوں ہوں ؛ میں کیوں انہیں انکار نہیں کر سکا کہ میں لاہور میں ہی رہنا چاہتا تھا جہاں جولی تھی ، جہاں میں میو ہسپتال میں نوکری کرتے ہوئے سینئر ڈاکٹروں سے اور بھی بہت کچھ سیکھ سکتا تھا ۔

اگلی صبح ، حویلی کے صحن میں مرغ کی پہلی بانگ نے مجھے جگا دیا ۔ رات کھانے کے بعد ہی میری صبح روانگی کی تیاری مکمل کرا دی گئی تھی ؛ حویلی کا سب سے بہترین گھوڑا میرا منتظر تھا ۔ میں نے نہا دھو کر کلف لگی خاکی پتلون اور اسی رنگ کی سفاری شرٹ پہنی ، ناشتہ کیا ، کلینک سے اپنا میڈیکل بکس اٹھایا ، اسے پٹھو میں رکھ کندھے پر لادے ، گھوڑے پر سوار ہو کر حویلی سے باہر نکل گیا ۔ سرگودھا سے باہر جا کر کسی کو ، گھر میں جا کر دیکھنے کا ، میرا یہ پہلا موقع تھا ۔ پو چونکہ ابھی پھٹی نہ تھی اس لئے گھوڑے کے گلے میں لٹکی گھنٹی کے ساتھ ڈیوی لیمپ بھی جل رہا تھا ۔ میں نے یہ لیمپ خاص طور پر منگوائے تھے ۔ یہ عام لالٹینوں کے مقابلے میں خاصے محفوظ تھے اور ان کے مقابلے میں روشنی بھی زیادہ دیتے تھے ۔ ان میں سے چار تو میری آپریشن گاہ میں تھے جبکہ ایک شام کے بعد اس وقت میرے ساتھ ہوتا جب میں اپنے کلینک سے باہر جا کر مریضوں کو ان کے گھروں میں دیکھتا ۔

سرگودھا شہر سے نکلتے نکلتے پو پھٹی اور میں نے رُک کر لیمپ بجھایا ؛ پرندے چہچہا رہے تھے اور سورج کی روپہلی کرنوں نے رات کے اندھیرے کو پہلے دُھندلکے میں بدلا اور پھر اپنی تابناکی سے کھیتوں اور اس راستے کو روشن کر دیا جو کیرانہ کی پہاڑیوں کی طرف جاتا تھا ؛ یہ کچا راستہ شہر میں تو خاصا چوڑا تھا لیکن اس سے باہر نکلتے ہی دھیرے دھیرے تنگ ہوتا گیا اور کیرانہ پہاڑیوں کے دامن میں پہنچنے تک ایک پگڈنڈی میں بدل گیا تھا ۔ ڈائری میں نوٹ کئے نشانات کے مطابق ، میں اب اس طرف گامزن تھا جدھر نیلی پہاڑی تھی لیکن یہ ابھی مجھے نظر نہیں آ رہی تھی ۔ گھوڑا کچھ دور تک تو دُلکی چال چلتا رہا ، لیکن جیسے ہی میں نے اس کی لگام پیار سے ہلائی اور اپنی رانوں سے اس کی پسلیوں کو دبایا تو وہ سرپٹ دوڑنے لگا لیکن اس کی یہ دوڑ زیادہ دیر جاری نہ رہ سکی کیونکہ اب راستہ کیرانہ کی پہاڑیوں میں اوپر کی جانب جا رہا تھا ؛ گھوڑے کی رفتار خود ہی آہستہ ہو گئی ؛ شاید وہ بھی پہلی بار چڑھائی چڑھ رہا تھا ؛ میری طرح ہی جو پہلی بار ، شہر سے باہر ، کسی مریض کو دیکھنے نکلا تھا ۔

دونوں طرف خود رو جنگلی جھاڑیاں موجود تھیں جن میں سے کئی پر پھول بھی تھے ، ایسے پھول جن کے کوئی نام نہیں ہوتے ؛ جو چند روز کے لئے کِھلتے ہیں اور پھر مرجھا جاتے ہیں ، یہ بات البتہ الگ ہے کہ ان کی رنگینی اور خوبصورتی دیدنی ہوتی ہے ۔ کبھی کبھار کوئی پہاڑی چوہا یا جنگلی خرگوش گھوڑے کے ٹاپوں کی آواز سن کر ایک طرف سے دوسری طرف تیزی سے بھاگتا دکھائی دیتا ۔ کچھ دور آگے چل کر میرے بائیں طرف ایک چھوٹا سا میدان بھی آیا ؛ اسے پہاڑی کاٹ کر نیم ہموار کرکے بنایا تھا جیسے لوگوں نے پہاڑیوں میں چھوٹے چھوٹے کھیت بنائے ہوتے ہیں لیکن یہ قبرستان تھا ؛ اس میں قبریں تو چند ہی تھیں لیکن ان پر کالے کیکروں کی چھاﺅں گہری تھی ۔ وہاں خار پشتوں کا ایک جوڑا خرمستی کر رہا تھا ؛ نر آگے آگے جبکہ مادہ پیچھے پیچھے تھی ۔ گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز ان کی خرمستی میں خلل انداز ہوئی اور وہ بھاگ کرایک کھوہ میں جا گھسے ؛ مجھے جولی کا خیال آیا ، وہ بھی تو میرے پیچھے پیچھے لپکی آتی تھی ؛ اُس کے خطوں میں بھی ہر لفظ ، ہر سطر میں محبت ایسے اچھلتی تھی جیسے سمندر کی لہریں چڑھتے چاند کی راتوں میں اس کی طرف لپکنے کی کوشش کرتی ہیں ۔ گھوڑا کچھ بھانپ کر ہنہنایا تو میں بھی چونکا ؛ ایک مٹیالے رنگ کا چھوٹا سانپ پہاڑی کی طرف سے پگڈنڈی پر رینگتا نیچے ڈھلوان پر اتر رہا تھا اور اس کی دُم جھنکار پیدا کر رہی تھی ۔ مجھے اب دور نیلی پہاڑی نظر آنا شروع ہو گئی تھی ۔ میں نے اپنی فلاسک سے دو گھونٹ پانی پی کر گلا تر کیا اور گھوڑے کو اس کے حال پر چھوڑ دیا ؛ اس نے اب اپنی رفتار بنا لی تھی اور وہ دھیرے دھیرے چڑھائی پر ایسے چڑھ رہا تھا جیسے اُسے اس طرح کی چڑھائی پر چلنے کا ڈھنگ آ گیا ہو ۔ نیلی پہاڑی دور سے ایک عجیب سماں پیش کر رہی تھی ؛ سورج اب آسمان پر چڑھ کر اپنی دھوپ سے اُسے ایسے دہکا رہا تھا جیسے آتش دان میں جلتی آگ کے نیلے شعلے ، جن کے کنارے سنہری ہوں ۔ پہاڑی کی یہ دہک نظر کو ویسے ہی بھلی لگ رہی تھی جیسے سردیوں میں آتش دان میں نیلے شعلے بھلے لگتے ہیں اور سامنے بیٹھا بندہ اپنی ٹانگیں پسار دیتا ہے ۔

میں ، کچھ ہی دیر میں ، اس کے پاس تھا اور میرے سامنے پگڈنڈی کا دو شاخہ ؛ ایک سیدھا آگے بڑھ رہا تھا جبکہ دوسرا نیلی پہاڑی کے ختم ہونے پر دائیں جانب مُڑ رہا تھا ۔ میں نے گھوڑے کو تھپکی دے کر اسے روکا ، نیچے اترا ، چاروں طرف دیکھا ، اپنی سفاری شرٹ کی سینے والی بائیں جیب سے چاندی کی پتلی زنجیر سے بندھی گھڑی نکالی اور اُس میں وقت دیکھا ، آٹھ : پندرہ کا وقت تھا ۔ مجھے یاد آیا کہ چراغ دین نے کہا تھا کہ اس جگہ سے اس کے مالک کی حویلی آدھ پون گھنٹے کے فاصلے پر تھی ۔

نیلی پہاڑی سے ایک ننھا سا چشمہ نکل کر پگڈنڈی کو گیلا کر رہا تھا ۔ اس نے پہاڑی کے دامن میں ایک چھوٹا سا جوہڑ بھی بنا رکھا تھا جس میں پہاڑی کا نیلا عکس اس کے وجود کو بڑا کرتے ہوئے ، اس کے پھیلاﺅ کو وسعت دئیے نزدیکی جھاڑیوں کو تر کئے ہوئے تھا ۔ مجھے یہ جھاڑیاں باقی کے مقابلے میں زیادہ ہری ہونے کی بجائے زرد اور مری مری سی لگیں ۔ ’ ایسا کیوں ہے ؟ یہ پانی انہیں شاداب کرنے کی بجائے مرجھا کیوں رہا ہے ؟ ‘ ، میں نے سوچا لیکن میرے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا ۔ اس دوران گھوڑے نے جوہڑ میں منہ ڈال دیا اور پانی پینے لگا ۔ میں اسے پانی پیتا دیکھتا رہا اور جب وہ سیر ہو گیا تو میں نے اس کی باگ پکڑی اور کچھ دور تک اسے ساتھ لئے پیدل چلتا اس موڑ پر پہنچا ، جہاں سے پگڈنڈی دائیں طرف مُڑتی تھی ۔ میں پھر سے گھوڑے پر سوار ہوا اور حویلی کی جانب بڑھنے لگا ۔ میرے دائیں طرف پہاڑیاں تھیں جبکہ بائیں کھائیاں اور دور نیچے ایک پتلا سا نالہ ۔ کچھ ہی دیر بعد پکی حویلی کے خدوخال نمایاں ہوئے تو اس کے اِرد گِرد گارے اور تُوڑی سے لُپے کچے گھر بھی نظر آنے لگے ۔ یہ ایک چھوٹی سی وادی تھی ۔ جیسے ہی میں پہلے کھیت کے قریب پہنچا تو مجھے اس میں تین آدمی کام کرتے نظر آئے ؛ وہ شاید ، کھیت کی جڑی بوٹیاں صاف کرنے کےلئے گوڈی کر رہے تھے ۔ انہوں نے ٹاپوں کی آواز سنی ، مجھے اور میرے سفید گھوڑے کو دیکھا اور اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ ان میں سے ایک میرے پاس آیا ۔

” آپ ڈاکٹر صاحب ہیں ؟ “ ، اس نے پوچھا ۔

” ہاں ، میں نون صاحب کی بیٹی کو دیکھنے آیا ہوں ۔“

یہ سن کر وہ حویلی کی جانب سرپٹ بھاگا ۔ وہ اونچی اونچی آواز میں چِلاتا بھی جا رہا تھا ؛

” شہر سے ڈاکٹر صاحب آ گئے ہیں ۔“

دوسرے دو بھی میرے پاس آئے اور گھوڑے کے آگے آگے چلنے لگے ۔ ابھی ہم حویلی سے دور ہی تھے کہ وہی کُتا جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ، بھونکتا ہوا ہماری طرف بڑھا ۔ مجھے اس کے پیچھے چند آدمیوں کے ہیولے بھی نظر آئے ۔ کتا جب گھوڑے کے پاس پہنچا تو ان دو آدمیوں ، جو آگے چل رہے تھے ، میں سے ایک نے اسے چمکارا ، کتے نے اپنا رخ پلٹا اورمردوں کے ساتھ ساتھ چلنا شروع کر دیا ۔ حویلی کے راستے میں ، ہم برگد کے ایک بڑے درخت کے پاس سے گزرے جہاں کئی گندے مندے بچے اور بچیاں کھیل کود میں مصروف تھے ؛ ان میں سب سے چھوٹے بچے صرف قمیض میں تھے اور ان کی ٹانگیں جانگیے یا شلوار نامی کسی بھی شے سے محروم تھیں ؛ کچھ تو ننگ دھڑنگ بھی تھے ۔ ان کے ناک بہہ رہے تھے اور وہ بڑے بچوں کو کھیلتا دیکھ کر یا تو ہنس رہے تھے یا منہ بسور رہے تھے ۔ یہ جگہ اُن کے فضلے اور پیشاب کی بو سے خاصی تعفن زدہ بھی تھی لیکن ہم جوں جوں حویلی کی طرف آگے بڑھے ، راستہ صاف اور کشادہ ہوتا چلا گیا ۔

حویلی سے ذرا پہلے ہمارا آمنا سامنا ان لوگوں سے ہوا جو حویلی سے نکل کر ہماری طرف بڑھے تھے ۔ ان میں چراغ دین بھی تھا ، جس نے اسی طرح ہاتھ جوڑ رکھے تھے جیسے وہ کلینک میں میرے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑا رہا تھا ؛ اس کے ساتھ آنے والوں کے ہاتھ بھی اسی انداز میں اٹھے ہوئے تھے ۔ دیکھنے میں وہ سب بھی نون صاحب کے نوکر چاکر لگتے تھے ؛ ان میں سے ایک البتہ زیادہ اُجلے کپڑوں میں تھا اور اس نے صافے کی بجائے سر پر پگڑی باندھ رکھی تھی ؛ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ وہ رحیم خان نون کا منشی تھا ۔

ہم حویلی میں پہنچے تو سامنے کے بڑے اور کشادہ صحن میں ایک بڑے ساگوانی صوفے پر کلف لگی سفید شلوار قمیض میں ملبوس ، بڑی بڑی مونچھوں اور تگڑے ڈیل ڈول والا ایک ادھیڑ عمر شخص ٹانگیں چوڑی کئے ہتھی پر بازو ٹکائے بیٹھا ، بڑی سی نال والا حقہ پی رہا تھا ؛ اس کے ساتھ خالی جگہ پر اس کی چھڑی پڑی ہوئی تھی ۔ پاس دو سنگل صوفے اور بہت سی عام لکڑی کی بید سے بُنی کرسیاں بچھی تھیں ، جہاں کرسیاں ختم ہوتی تھیں وہاں تک تو ایک قالین بچھا تھا لیکن اس سے آگے ایک بڑی دری بھی بچھی تھی ؛ یہ ایک طرح کا دیسی دربار تھا ۔ میں گھوڑے سے اترا ، اپنے لباس کو جھٹک کر برابر کیا ، سر سے اپنا سولو ہیٹ اور کمر سے اپنا پٹھو اتارا ۔ پاس کھڑے ایک بندے نے میرے گھوڑے کی باگ تھامی ؛ مجھے لگا جیسے میرے گھوڑے کے منہ سے جھاگ نکل رہی ہو ۔

اسی لمحے ، ایک دوسرا بولا ؛

” لائیں اپنا پٹھو مجھے دے دیں ۔ “ ، یہ سن کر میرا دھیان گھوڑے سے ہٹ گیا اور میں نے اپنا پٹھو اُسے پکڑا دیا ۔ میں منشی کے پیچھے پیچھے اس طرف بڑھنے لگا جہاں نون صاحب بیٹھے تھے ۔ ان کے نوکروں چاکروں نے مجھے یوں حصار میں لے رکھا تھا کہ میں سوچے بِنا نہ رہ سکا کہ کیا میں ڈاکٹر تھا ؟ یا کہ کوئی ایسا شخص ؟ جو نون صاحب کا کوئی مال ڈنگر کھول کر لے گیا ہو اور اس کے وفادار اُسے پکڑ کر اپنے مالک کے حضور میں پیش کر رہے ہوں ۔

نون صاحب کے پاس پہنچ کر منشی نے کہا ؛

” مالک ، ڈاکٹر صاحب آ گئے ہیں ۔“

” ہوں “ ، کی آواز سن کر میں اپنے خیالوں سے باہر آیا اور میں نے سلام کرتے ہوئے اپنا ہاتھ مصافحے کے لئے بڑھایا ۔ نون صاحب نے میرے بڑھے ہاتھ کی طرف کوئی توجہ نہ کی اور آنکھ کے اشارے سے ہی مجھے پاس پڑے ایک صوفے پر بیٹھنے کو کہا ۔

میں صوفے پر بیٹھا تو انہوں نے ہاتھ سے کچھ ایسا اشارہ کیا کہ منشی کے علاوہ باقی سب وہاں سے ہٹ گئے ۔ بعد میں ان کے ایک اور اشارے پر منشی بھی وہاں سے چلا گیا ۔

” لڑکے ، تمہارا نام کیا ہے؟ “

میں نے انہیں اپنا نام بتایا ۔

” کہیں تم سید ۔ ۔ ۔ کے بیٹے تو نہیں ہو ؟ “

” جی ، انہی کا بیٹا ہوں ۔ “

” پکے ڈاکٹر ہو یا ۔ ۔ ۔“ ، اب ان کا لہجہ مذاق والا اور قدرے نرم تھا ۔

” جی ۔ ۔ ۔ ! “

” میرا مطلب ہے کہ ڈگری پکی ہے ۔ ۔ ۔ یا بس لاہور میں کسی ڈاکٹر کے ساتھ کام کرتے رہے ہو اوراب سرگودھا میں آ کر اپنی دکان کھول لی ہے ؟ “

” نہیں جی ، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کا امتحان پاس کیا ہے دو سال پہلے ۔ “ ، مجھے ان کی یہ بات بُری لگی ۔

” اچھا ، اچھا ، ویسے تمہاری شہرت خوب سنی ہے ، اسی لئے تو بلایا ہے ۔“

اتنے میں منشی پیتل کی ایک چمکتی تھالی میں تانبے کے دو دودھ بھرے گلاس رکھے آیا اور نون صاحب کے صوفے کے سامنے پڑی میز پر پہلے ایک ان کے سامنے اور بعد میں دوسرا میرے سامنے رکھ کر چلا گیا ۔

” لو پیو ، گھر کی بکریوں کا دودھ ہے ۔ میں نے جب سے سُنا ہے کہ اس میں شکتی زیادہ ہوتی ہے تو میں نے گائے بھینس کا دودھ چھوڑ دیا ہے ۔ گاندھی جی بھی تو اسی لئے بکری کا دودھ ہی پیتے ہیں ۔ بہت سی عورتیں سیوا کے لئے رکھی ہوئی ہیں ۔ ۔ ۔ سیوا سمجھتے ہو کہ نہیں ؟ “ ، وہ بولے اور اپنا گلاس منہ سے لگا لیا ۔ میں نے بھی ’ جی ‘ کہتے ہوئے ایک گھونٹ بھرا اور پوچھا ؛

” آپ کی بیٹی ۔ ۔ ۔ ! “

” پہلے دودھ پی لو ، پھر بتاتا ہوں ۔“

مجھے لگا جیسے انہیں اپنی بیٹی کی بیماری کی کچھ زیادہ پرواہ نہ ہو ۔ بکری کے دودھ میں اس کی مخصوص باس کے باوجود میں نے جلدی جلدی دودھ پیا ؛ مجھے مریض کے بارے میں جاننے کی جلدی تھی اور مجھے واپسی کا بھی فکر تھا ؛ میں اندھیرا ہونے سے پہلے گھر پہنچنا چاہتا تھا ۔ نون صاحب دھیرے دھیرے دودھ پیتے رہے اور جب اپنا گلاس ختم کر چکے تو بولے ؛

” سکینہ ۔ ۔ ۔ سسی ۔ ۔ ۔ میری بیٹی ۔ ۔ ۔ کچھ روز سے نہ تو کچھ کھا پی رہی ہے اور نہ ہی اپنے کمرے سے باہر نکلتی ہے ۔ وہ یا توبستر پر لیٹی چھت کے بالوں کو گھورتی رہتی ہے یا پھر کھڑکی میں کھڑی باہر املتاس کے درخت کو گھورتی رہتی ہے ۔ یہ آج کل جوبن پر ہے اور پیلے پھولوں سے لدا ہے ۔“

” بخار ؟ کھانسی ؟ یا کوئی اور علامت ۔ ۔ ۔“

” مجھے تو نہیں لگتا ۔ ۔ ۔ اس کی بڑی ماں کا بھی یہی خیال ہے ۔“

” بڑی ماں ؟ مطلب دادی ؟ “

” نہیں ، بڑی ماں ، جسے تم شہری لوگ ، بڑی امی کہتے ہو ۔ ۔ ۔ میری دو بیویاں ہیں ۔ ایک نون خاندان سے ہے ، جسے میرے بڑے میرے لئے بیاہ کر لائے تھے ۔ اچھی ہے ، سسی اُسی کی کوکھ سے ہے اور بس پھر اس کی کوکھ بانجھ ہو گئی ، سو علاج کرائے پر وہ چوہا تو کیا ایک اور چوہیا بھی نہ پیدا کر سکی ۔ مجھے دوسری کرنی پڑی ۔ وہ گوری ہے ، یارک شائر ، برطانیہ کی ہے ، مجھے ، وائسرائے بہادر کی ایک پارٹی میں ملی تھی ، ہمارا معاشقہ چلا اور ہم نے کورٹ میرج کر لی ؛ وہ لاہور میں رہتی ہے اور اس نے مجھے اوپر تلے دو بیٹے دئیے ہیں ۔ وہ چیفس کالج میں پڑھتے ہیں ؛ چھوٹا مڈل جبکہ بڑا والا سینئر سیکشن میں ہے ؛ دونوں سینئیر کیمرج کر لیں تو میں انہیں مزید پڑھنے کے لیے ولائیت بھیجوں گا ۔ میں اب یہاں کم اور لاہور میں زیادہ رہتا ہوں ۔ سسی کی بیماری کا پتہ چلا تو آیا ہوں ۔ “

” اچھا ، میں سمجھ گیا جناب ۔ “

” سسی پہلے تک تو ٹھیک تھی ، ہنستی تھی ، باتیں کرتی تھی ، ہر وقت کسی نہ کسی کے کندھے پر چڑھی رہتی تھی ۔ ۔ ۔ لیکن جب سے اسے پردہ کرایا اس کی ہنسی کم ہوتی گئی اور وہ گم سم رہنے لگی اور کچھ روز سے تو ۔ ۔ ۔ ۔“

” اس کی عمر کیا ہے ؟“

” آنے والے رمضان میں انیس کی ہو جائے گی ۔ ۔ ۔ اکیس رمضان کو ۔“

” اس نے کہاں تک پڑھا ہے ؟ “

” لڑکیوں نے پڑھ کر کیا کرنا ہے ۔ آخر کو تو گھر ہی سنبھالنا ہے ۔ قرآن کے ساتھ ساتھ پرائمری تک کی کتابیں گائوں کے مولوی نے گھر میں ہی پڑھا دی تھیں ۔ اس کی اَنا نے اسے سلائی کڑھائی میں طاق کر دیا ہے ۔ ماں نے بہشتی زیور رَٹا دی ہے ۔ بس کافی ہے ۔ “ ، انہوں نے یہ جملہ یوں کہا کہ مجھے لگا کہ نون صاحب قرآن ، پرائمری کی کتابوں اور بہشتی زیور کو ایک ہی درجہ دے رہے ہوں ویسے ہی جیسے وہ مولوی ، اَنا اور بیٹی کی ماں کو ایک ہی صف میں کھڑا کر رہے تھے ۔

” کیا میں اسے دیکھ سکتا ہوں ؟ “

” ہا ں ، ہاں کیوں نہیں ۔ ۔ ۔ تمہیں بلایا کس لئے ہے ؟ ۔ ۔ ۔ چلو اندر چلتے ہیں ۔“

نون صاحب نے صوفے پر پڑی اپنی چھڑی اٹھائی اور اٹھ کھڑے ہوئے ۔ میں نے اپنے پٹھو سے میڈیکل بکس نکالا اور ان کے پیچھے ہو لیا ۔ ہم برآمدے سے گزر کر حویلی کے پچھلے حصے میں گئے ۔

” خدیجہ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹر لایا ہوں ، باہر آﺅ ۔“ ، انہوں نے آواز لگائی ۔ چند لمحوں بعد ادھیڑ عمر کی ایک عورت ، عمدہ کپڑوں میں ملبوس ، زیورات سے لدی پھندی ، جس کے ساتھ ایک ملازمہ بھی تھی ، ہمارے سامنے تھی ۔ اس عورت کا کھنڈر جسم بتا رہا تھا کہ وہ جوانی میں خاصی خوبصورت رہی ہو گی ۔

” ڈاکٹر کو سسی کے پاس لے جاﺅ ۔ میں تمہارے کمرے میں جا رہا ہوں ۔“

” جی ۔“ ، ادھیڑ عمر کی عورت نے کہا ۔ ملازمہ نے آگے بڑھ کر میرے ہاتھ سے میڈیکل بکس لیا اور ہم ایک کمرے کی طرف بڑھنے لگے ۔ نون صاحب اس طرف مُڑ گئے جدھر سے ان کی بیوی آئی تھی ۔

” سسی ۔ ۔ ۔ سسی ، ڈاکٹر صاحب آئے ہیں ، تمہیں دیکھنے کے لئے ۔ قرینہ کر لو ۔“ ، نون صاحب کی بیوی نے دروازے پر پڑی بانسی سِرکی کے پاس کھڑے ہو کر اونچی آواز میں کہا ۔ وہ کچھ دیر وہیں کھڑی رہیں اور جب اندر سے کوئی جواب نہ آیا تو میری طرف مڑ کر بولیں ؛

” چند روز سے یہی وطیرہ ہے ۔ بات کا جواب تک نہیں دیتی ۔“ ، پھر انہوں نے سِرکی اٹھائی اور اندر داخل ہو گئیں ؛ میں اور ملازمہ ان کے بلاوے کے منتظر ، باہر ہی کھڑے رہے ۔

” اٹھ کر بیٹھو ۔ ۔ ۔ دوپٹہ ڈھنگ سے اوڑھو ۔ ۔ ۔ “ ، اندر سے ان کی آواز آئی ۔

” نہیں ، میں نہیں اٹھوں گی ۔ میں ایسے ہی ٹھیک ہوں ۔“ ، یہ سسی کی آواز تھی ۔ اس کی آواز اداسی بھری لیکن مترنم تھی ، کچھ ایسی جیسے شہنائی بجی ہو ۔ پھر مجھے چوڑیوں کی کھنک اور پازیبوں کی جھنکار سنائی دی ؛ شاید اس کی ماں اسے زبردستی بٹھانے کی کوشش کر رہی تھی ۔ چوڑیوں کی کھنک اور پازیبوں کی جھنکار جاری رہی ۔

چند منٹوں کے بعد چودھرائن کی آواز پھر آئی ؛

” یہ تو اٹھ کر بیٹھنے کے لئے تیار ہی نہیں ہو رہی ۔ آپ اندر آ جائیں اور اس کا یونہی معائنہ کر لیں ۔ ۔ ۔ اب اس سے کون ۔ ۔ ۔“

ملازمہ نے آگے بڑھ کر سِرکی ہٹائی اور مجھے اندر جانے دیا ، پھر وہ خود بھی اندر آ گئی ۔ کمرے میں ایک بڑا پلنگ بچھا تھا جس کے سرہانے اور پیروں کی جانب لگے گولوں پر رنگ برنگے نقش و نگار بنے تھے ؛ میں نے ایسا رنگڑا پلنگ اور اس جیسے ہی رنگ برنگے پیڑھے اپنے ایک دوست کے گھر قصور میں دیکھے تھے ۔ اس پر ایک تیکھے نین نقش والی نازنین عنابی رنگ کا قیمتی ریشمی جوڑا زیب تن کئے ، سیدھی لیٹی چھت کو تَکے جا رہی تھی ؛ اس کے کانوں میں بندے ، گلے میں ہار ، ہاتھوں میں پکے سونے کی چوڑیاں اور پیروں میں چاندی کی پازیبیں تھیں ؛ ایسے جیسے کہ وہ کسی سے ملنے کے لئے تیار ہوئی ہو ؛ مجھے سونے کے زیور اور چاندی کی پازیبوں میں تال میل نظر نہ آیا ۔ ’ جب باقی سب سونے کا ہے تو ۔ ۔ ۔ ‘ ، میں نے سوچا لیکن پھر یہ خیال جھٹکا اور اسے ایک ڈاکٹر کی نظر سے دیکھنے لگا ۔ اس کے سینے کے زیر وبم سے لگ رہا تھا جیسے وہ ماں کی زبردستی کو روکتے روکتے ہانپ چکی ہو ۔ اس کا چہرہ زرد تھا اوراس پر نقاہت صاف نمایاں تھی ۔ میں نے کمرے میں نظر دوڑائی ۔ وہاں پڑے پیڑھوں میں سے ایک گھسیٹا اور اس کے بستر کے پاس کرکے اس پر بیٹھ گیا ۔ میں نے ملازمہ سے اپنا میڈیکل بکس لیا اور ہاتھ بڑھا کر سسی کی کلائی تھامی ؛ مجھے بخار کے کوئی آثار نظر نہ آئے؛ اس کا بازو بالکل ٹھنڈا تھا ، مجھے اس کی گوری کلائی پر نیلی رگیں صاف نظر آ رہی تھیں ۔ میں نے جیب سے گھڑی نکالی اور اس کی نبض کی رفتار دیکھنے لگا ؛ یہ طبی لحاظ سے اپنی مناسب حد میں ہی تھی ۔

” سسی بی بی ، ذرا اٹھ کر بیٹھو تاکہ میں سٹیتھوسکوپ مطلب ٹوٹی لگا کر آپ کے پھیپھڑووں اور سانس کا معائنہ کر سکوں ۔“ ، میں نے کہا ۔ میری توقع کے خلاف وہ آرام سے اٹھ کر بیٹھ گئی ؛ میں مزاحمت کی توقع کر رہا تھا ۔ اس کی ماں بھی اس کے اس رویے پر حیران ہوئی ۔ میں نے اس کے گلے کے نیچے سینے پر سٹیتھ رکھی اور اسے زور زور سے سانس لینے کی ہدایت کی ، اس نے اس پر عمل کیا ۔ پھر میں نے اس کی پشت پر ٹوٹی رکھ کر پھر سے یہی عمل دوہرایا ۔ سانس بھی رواں تھا ؛ کسی قسم کی خرخراہٹ نہ تھی ۔ میں نے تھرمامیٹر نکال کر اسے تھمایا اور اسے منہ میں رکھنے کے لئے کہا ۔ اس نے پھر تابعداری دکھائی اور اسے منہ میں رکھ لیا ۔ میں نے گھڑی دیکھنا شروع کی تو اس کی نظریں مجھ پر جمی ہوئی تھیں ۔ میں نے تھرما میٹر نکال کر پارہ دیکھا تو وہ 98 پر تھا ۔ جب میں پارہ دیکھ رہا تھا تو میرا چہرہ اس کے کافی پاس تھا ؛ اس کے لب ہلے ؛

” ان کے سامنے کوئی بات مت کریں ، ورنہ وہ جان لیں گے ۔“

میں نے یہ سنا تو گھوم کر اس کی ماں اور ملازمہ کو دیکھا جو مجھ سے کچھ ہی فاصلے پر کھڑی تھیں ۔ انہوں نے سسی کے لب ہلتے تو دیکھے لیکن انہیں آواز سنائی نہ دی تھی ۔

” بیٹی ! تم نے کیا کہا ؟ میں سن نہیں پائی ۔ ۔ ۔ پھر سے کہو ۔“ ، وہ بولیں ۔ سسی آگے سے چُپ رہی ۔

” ڈاکٹر صاحب ، اس نے کیا کہا ہے ؟ “ ، وہ مجھ سے مخاطب ہوئیں ۔

” منہ ہی منہ میں کچھ کہا ہے ۔ ۔ ۔ میں بھی سن نہیں پایا ۔ “ ، میں نے انہیں جواب دیا ۔ سسی نے میری بات سنی اور اس نے ایک گہری سانس لی ؛ شاید اسے لگا کہ میں اس کا رازدان بن گیا تھا ۔ میں نے سسی کی ماں کو باہر چلنے کا اشارہ کیا ۔ میں اٹھا تو وہ بھی میرے پیچھے پیچھے باہر آ گئیں ۔ میں نے ان سے کچھ اور علامات کے بارے میں جانا جیسے قبض ، پیشاب ، حیض کا آنا وغیرہ ۔ انہوں نے سب اچھا کی ہی رپورٹ دی ۔ میں نے ان سے کہا کہ وہ واپس کمرے میں جائیں اور اس کے کپڑے اتروا کر دیکھیں کہ اس کے جسم پر کسی قسم کے دھبے ، چٹاخ یا زخم تو نہیں تھے ؛ مجھے خدشہ تھا کہ کہیں اسے طاعون نہ ہو گئی ہو کیونکہ میں نے برآمدے میں دو تین موٹے چوہے آگے پیچھے دوڑتے ہوئے دیکھے تھے اور مجھے اس علاقے میں طاعون کی بیماری کی تاریخ کا بھی پتہ تھا ۔

” میری کہنے پر تو وہ ایسا نہیں کرے گی ۔ ۔ ۔ آپ کے سامنے تو اس نے تابعداری دکھائی لیکن ہماری تو وہ کوئی بات ہی نہیں سنتی ہے ۔“ ، انہوں نے کہا ۔

میں ان کے ساتھ کمرے میں واپس گیا ۔ وہ دوبارہ لیٹ کر چھت کو گھور رہی تھی ۔ میں نے بھی چھت پر نظر ڈالی تو مجھے اس کے بالے اور شہتیر خاکستری لگے ۔ غور کرنے پر مجھے اندازہ ہوا کہ انہیں دیمک لگی ہوئی تھی اور دیمک نے ان کے لال روغن پر مٹی کی دھاریوں کا ایسا جال بُنا تھا کہ لال رنگ خاکستری نظر آتا تھا ۔ میں نے اسے نرمی سے سمجھایا کہ میں کیا چاہتا تھا ۔ میری بات سن کر اس نے ہاں میں سر ہلایا تو میں کمرے سے باہر نکل آیا ۔ اس کی ماں نے کمرے کا دروازہ بند کر لیا ۔ کچھ دیر بعد دروازہ کھلا اور انہوں نے مجھے بتایا کہ اس کا جسم پوری طرح صاف تھا اور اس پر کسی قسم کا کوئی نشان ، داغ یا زخم نہ تھا ۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ وہ اور ملازمہ کچھ دیر کے لئے وہاں سے چلی جائیں تاکہ میں ، تنہائی میں سکینہ سے کچھ باتیں پوچھ سکوں ۔ انہوں نے ملازمہ کو آواز دی ۔ اس کے باہر آنے پر انہوں نے اسے برآمدے میں ہی رُکنے کو کہا اور خود اپنے کمرے کی طرف بڑھتے ہوئے مجھ سے بولیں ؛

” جب آپ اس سے سوالات کر لیں تو ملازمہ کے ہاتھ پیغام بھیج کرمجھے بلوا لیں ۔“ ، میں نے سر ہلایا اور کمرے میں چلا گیا ۔ سسی نے چھت کو گھورنا بند کیا اور اٹھ کر بیٹھ گئی ؛ اب وہ مجھے گھور رہی تھی ۔ میں کھڑکی کے پاس گیا ؛ سامنے املتاس کا درخت تھا ، املتاس جو اس وقت اپنے جوبن پر تھا اور دھوپ میں ایسے دہک رہا تھا جیسے خود سورج ہو ۔ اس کے بہت سے پیلے پھول جھڑ کر نیچے زمین پر بھی ایک تھال بنائے عجب سماں باندھ رہے تھے ؛ یہ منظر ولولہ انگیز تھا لیکن کچھ دیر بعد میں نے محسوس کیا کہ یہ مجھ پر اداسی طاری کر رہا تھا ؛ مجھے جولی یاد آئی ۔ وہ بھی املتاس کے درختوں کو دیکھ کر پہلے تو خوش ہوتی تھی اور پھر اداس ہو کر میرے کندھے پر سر ٹکا کر آنسو بہاتی اور کہتی ؛

” میں تمہیں کیوں نہ پا سکوں گی ؟ “

ایسا تب ہوتا تھا جب ہم لارنس گارڈن میں کرکٹ کلب کے پاس کے باغیچے میں بیٹھے ہوتے ؛ لارنس گارڈن کے اس حصے میں املتاس کے کئی درخت تھے ۔ میں کھڑکی سے پلٹا اور پیڑھے پر آ کر بیٹھ گیا ۔

” تم کھائے پیئے بغیر کتنی دیر زندہ رہ پاﺅ گی ؟ “

” جب تک میں مر نہ جاﺅں ۔“

” تم مرنا کیوں چاہتی ہو ؟ “

” یہ ایسا راز ہے ، جسے میں کسی کو نہیں بتا سکتی ۔ “

” لیکن مجھے تو یہ بتانا ہی پڑے گا ، میں ڈاکٹر ہوں اور مریض کو ڈاکٹر سے کچھ بھی نہیں چھپانا چاہیے ۔“

” میں مریض نہیں ہوں ، ویسے بھی اگر میں نے آپ کو بتا دیا ، تو آپ انہیں بتا دیں گے ۔ ۔ ۔ اور پھر ۔ ۔ ۔ “

” اور پھر کیا ؟ “

” پھر وہ کچھ ہو گا ، جو میں نہیں چاہتی ۔ ۔ ۔ “

” اچھا یہ بتائو ، تم نے سارا زیور تو سونے کا پہن رکھا ہے ، لیکن تمہاری پازیبیں چاندی کی ہیں اور وہ بھی کھوٹی چاندی کی ، یہ تو تمہارے کپڑوں اور زیور سے میل نہیں کھاتیں ۔ ۔ ۔ “

یہ سن کر وہ چونکی اور مجھے کچھ دیر کے لئے یوں گھورا جیسے میں نے اس کی چوری پکڑ لی ہو ۔ وہ کچھ دیر خاموش رہی اور پھر ہولے سے بولی ؛

” یہ اس گھر کی نہیں ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ۔ ۔ ۔ “ ، وہ اتنا کہہ کر چُپ ہو گئی ۔ میں نے بات پلٹ دی ۔

” اچھا ، تم نے جس تابعداری سے اپنا معائنہ کروایا ہے ۔ اس سے مجھے یہ حوصلہ ہوا ہے کہ تم اب دوپہر کو کھانا بھی کھاﺅ گی ۔ میں یہ اندازہ کرنا چاہتا ہوں کہ تمہارا معدہ اور آنتیں کام کر رہی ہیں یا نہیں ۔ ۔ ۔ ورنہ مجھے تمہارے والد سے یہ کہنا پڑے گا کہ وہ تمہیں سرگودھا لے جائیں تاکہ تمہیں ہسپتال میں مائع خوراک دی جا سکے ۔“

” مطلب ٹیکوں اور ڈرِپوں کے ذریعے ۔ ۔ ۔“

” ہاں ، ویسے تم بھی جانتی ہو اور اب میں بھی کہ تمہیں کیا ہوا ہے ۔ “

” کیا ہوا ہے ؟ “

میں نے اس کی پازیبوں کو گھورا اور اُسے دیکھا ، وہ چند لمحے تو میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالے مجھے دیکھتی رہی ، پھر اس نے نظریں نیچی کر لیں ۔

اسی لمحے ملازمہ دوڑتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی اور بولی ؛

” ڈاکٹر صاحب ، آپ کا گھوڑا ۔ ۔ ۔“

” کیا ہوا میرے گھوڑے کو ؟ “، میں نے پوچھا ۔

” وہ مر رہا ہے صاحب ۔ ۔ ۔ “

” کیا مطلب ؟ ۔ ۔ ۔ ابھی کچھ دیر پہلے تو وہ بھلا چنگا تھا ۔“

” آپ میرے ساتھ آئیں ۔ “

میں اس کے ساتھ حویلی کے باہر والے حصے میں پہنچا تو منشی سامنے کھڑا تھا ۔ وہ مجھے لئے صحن کے اس کونے میں گیا جہاں گھوڑا باندھا گیا تھا ۔ وہ زمین پر بے چینی سے ٹانگیں ہلا تے ہوئے لوٹ پوٹ ہو رہا تھا ۔ اس کی بوٹی بوٹی کانپ رہی تھی اور اس کے منہ سے نکلتی جھاگ اور لعاب نے وہاں کی زمین ایسے گیلی کر رکھی تھی جیسے اس نے قے کی ہو۔ نون صاحب بھی آہستہ آہستہ چلتے ہوئے پاس آ کرکھڑے ہو چکے تھے ۔

” کیا یہ پہلے سے بیمار تھا ؟ “ ، انہوں نے مجھ سے پوچھا ۔

” نہیں ، بالکل نہیں ، یہ تو ہمارے گھر کا سب سے اچھا گھوڑا ہے ۔ اسے یا تو میرے والد سواری کے لئے استعمال کرتے ہیں یا کبھی کبھی میں ۔“ ، میں نے گھوڑے کے منہ سے نکلتی جھاگ کو ہاتھ میں لے کر اس کی لیس کو سونگھتے اور اس کا معائنہ کرتے ہوئے کہا ۔

” لگتا ہے اس نے کوئی زہریلی بوٹی راستے میں چَر لی ہے ۔ ۔ ۔ “ ، منشی بولا ۔

” نہیں ، راستے میں ، تو میں رُکا ہی نہیں ۔ “ ، میں نے جواب دیا ، پھر مجھے یاد آیا کہ میں نیلی پہاڑی کے پاس رکا تھا اور یہ کہ حویلی پہنچنے پر میں نے اس کے منہ جھاگ نکلتی بھی دیکھی تھی ۔

” ہاں ، ہاں ، میں کچھ دیر کے لئے نیلی پہاڑی کے پاس چشمے پر رکا تھا جہاں اس نے پانی پیا تھا ۔ “

یہ سن کر منشی نے ماتھے پر ہاتھ مارا ۔ ” ڈاکٹر صاحب ، وہ پانی تو زہریلا ہے ، نیلے تھوتھے کی پہاڑی سے جو نکلتا ہے ۔ “ ، وہ بولا ، ” اﺅے چراغے ، تم نے ڈاکٹر صاحب کو بتایا نہیں تھا کہ نیلی پہاڑی والا چشمہ زہریلا ہے ۔“ ، اب اس کا مخاطب چراغ دین تھا ۔

” جی نہیں ۔ ۔ ۔ میرا خیال تھا کہ ڈاکٹر صاحب کو علم ہو گا ۔ ۔ ۔ اسی علاقے کے تو ہیں ۔ ۔ ۔ “ ، چراغ دین گھگھیا کر رہ گیا ۔

” پاجی نہ ہو تو ، ڈاکٹر یہاں کا بھلا کہاں ہے ، ساری عمر تو لاہور میں رہا وہ ۔ ۔ ۔ چچ ، چچ ، اتنا سوہنا جانور ضائع کروا دیا ۔ ۔ ۔ جا منشی ، میری بندوق لا ۔ ۔ ۔ اسے یوں تڑپتا چھوڑا نہیں جا سکتا ۔ ۔ ۔ ۔ “ ، نون صاحب بولے ۔

منشی یہ سن کر برآمدے کی طرف بھاگا ۔ میں بھی اس کے پیچھے پیچھے چل پڑا ، میں نے گو پڑھائی کے دوران کئی مُردوں کی چیڑ پھاڑ کی تھی اور ہاﺅس جاب کے دوران کئی شدید زخمیوں کو مرتے دیکھا تھا لیکن اپنے گھوڑے کو گولی لگتے اور مرتے دیکھنا میرے لئے مشکل تھا ۔ میں صحن کی طرف پیٹھ کیے گول ستون سے لگ کر کھڑا ہو گیا اور جب تک گولی کی آواز نہ آ گئی اور گھوڑے نے ہنہنانا بند نہ کیا ، میں وہیں ساکت کھڑا رہا ۔ کچھ دیر بعد نون صاحب میرے پاس آئے اور لاپروائی سے بولے؛

” گھوڑے کی فکر نہ کرو ، ہم تمہیں اپنا ، ایک اچھا والا گھوڑا دے دیں گے ۔“

سورج اب خم کھا چکا تھا اور صحن میں سجی بیٹھک دھوپ سے بھری ہوئی تھی ۔ نون صاحب نے حویلی کے ڈرائنگ روم کا دروازہ کھلوایا اور ہم اندر جا کر بیٹھ گئے ۔ ان کی بیوی بھی وہیں آ گئیں اور کچھ دیر بعد سسی بھی آ کر دروازے میں کھڑی ہو گئی۔ وہ مجھے دیکھے جا رہی تھی جیسے اسے خطرہ ہو کہ میں کوئی انہونی بات کرنے والا ہوں ۔ ہم سب خاموش تھے ۔ اس خاموشی کو ملازمہ کی آواز نے توڑا ؛

” کھانا لگ گیا ہے ، کھانے کے کمرے میں آ جائیں ۔ “

نون صاحب اٹھے اور میرا ہاتھ پکڑ کر بولے ؛ ” چلو ڈاکٹر ، کھانا کھاتے ہیں ، سسی کے بارے میں بعد میں بات کریں گے کہ اسے کیا ہوا ہے ۔“

میں نے چلتے ہوئے سسی کو آواز دی ؛

” چلو ، تم بھی کچھ کھا لو ۔ ۔ ۔ یاد ہے کہ میں نے تم سے کیا کہا تھا ۔“

کھانے کے کمرے میں ایک بڑی ڈائننگ ٹیبل لگی تھی جس کے گرد بارہ لوگ بیٹھ کر کھانا کھا سکتے تھے ۔ کمرے کی دیواروں کے ساتھ لگی الماریوں میں دنیا جہان کے برتن سجے ہوئے تھے اور الماریوں کے اوپر شکار کردہ چیتوں ، شیروں اور ہرنوں کے حنوط شدہ سر ویسے ہی سجے تھے جیسے میں ڈرائنگ روم میں دیکھ آیا تھا ؛ وہاں تو ایک شیر کی کھال کے علاوہ ریچھ کی ایک کھال بھی بطور نمدہ قالین پر پڑی تھی ۔

میز کے ایک کونے میں رکھی اکلوتی کرسی پر نون صاحب بیٹھ گئے اور دائیں طرف پاس پڑی دوسری کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھے بیٹھنے کو کہا ۔ ان کی بیگم اور سسی ان کے بائیں طرف کی کرسیوں پر بیٹھ گئیں ۔ اپنے گھوڑے کی اچانک اور بے وقت موت نے میرا دل بھاری کر رکھا تھا لہذٰا میں نے رسمی طور پر کچھ کھانا اپنی پلیٹ میں ڈالا اور زہر مار کرنے لگا ۔ میں البتہ وقفے وقفے سے سسی کو بھی دیکھ رہا تھا کہ وہ کتنا اور کیا کھانا کھا رہی تھی ۔ اسے کھانا کھاتے دیکھ کراس کے والدین خوش نظر آ رہے تھے ۔ کھانا کھا کر نون صاحب اٹھے اور بولے ؛

” میں ذرا آرام کر لوں ، پھر بیٹھ کر سسی کے بارے میں بات کرتے ہیں ۔ “ ، وہ اٹھے اور کمرے سے باہر نکل گئے ؛ مجھے یہ برا لگا ، انہیں میرے وقت کا کچھ احساس نہ تھا ، وہ شاید مجھے بھی اپنا ‘ کاما ‘ سمجھ رہے تھے جو انتظار کر سکتا ہے ۔ سسی اور اس کی ماں بھی اٹھ گئیں ۔ میں باہر صحن میں آ گیا اور اس جگہ گیا جہاں میرے گھوڑے نے دم دیا تھا ۔ وہ اب وہاں نہیں تھا ۔ نون صاحب کے بندے اسے اٹھا کر لے گئے تھے اورحویلی کے مہتر نے اس جگہ کو دھو کر صاف کر دیا تھا ۔

میں کچھ دیر وہیں صحن میں ٹہلتا رہا ۔ اس دوران نون صاحب کا ایک ملازم مجھے لیمپ دے گیا جو گھوڑے کے گلے کے ساتھ لٹک رہا تھا ۔ وہ میرا پٹھو بھی صحن سے اٹھا لایا تھا ۔ میں نے اسے اپنی سفاری شرٹ کے شولڈر ہُک میں لٹکایا ، پٹھو ہاتھ میں پکڑا اور واپس ڈرائنگ روم میں جا بیٹھا اور حنوط شدہ جانوروں کو تکتے ہوئے انتظار کرنے لگا کہ نون صاحب آئیں تو انہیں ان کی بیٹی کا احوال بتا کر گھر واپسی کا سفر اختیار کروں ۔ اس دوران ملازمہ آئی اور اس نے مجھے میرا میڈیکل بکس دیا جو سسی کے کمرے میں ہی رہ گیا تھا ۔ میں نے اسے پٹھو میں رکھ لیا ۔ صحن میں جب درختوں کے سائے اپنے قد سے دوگنے ہوئے تو نون صاحب اور ان کی بیگم ڈرائنگ روم میں آئے ۔ ان کے پیچھے پیچھے ان کا کتا بھی تھا جو دروازے کے اندر آ کر چوکھٹ پر رُکا اور وہیں بیٹھ گیا ۔ سسی بھی آئی اور دروازے کی چوکھٹ سے لگ کرکھڑی ہو گئی ۔

” ہاں تو ڈاکٹر ، اب بتاﺅ ، سسی کو کیا ہوا ہے ؟ “ ، نون صاحب نے سوال کیا ۔

” میں نے سسی کا تفصیل سے معائنہ کر لیا ہے ۔ اسے ایسی کوئی بیماری نہیں ہے ، جس کا میں یا کوئی بھی ڈاکٹرعلاج کر سکے ۔“

” کیا مطلب ؟ “ ، سسی کی ماں بولی ۔

” مطلب یہ کہ آپ کی بیٹی کو کوئی بیماری ہی نہیں ہے ۔ میں اسے کوئی دوائی نہیں دے سکتا ۔“

نون صاحب یہ سمجھے کہ میں شاید سسی کے سامنے کھل کر بات نہیں کر رہا ۔ انہوں نے اسے اشارہ کیا کہ وہ وہاں سے جائے ۔ سسی دروازے کی چوکھٹ سے ہٹ گئی لیکن مجھے اندازہ تھا کہ وہ وہیں کہیں دیوار کے ساتھ لگی کھڑی تھی ۔

” ڈاکٹر اب کھل کر بات کرو ۔“ ، وہ بولے ۔

” بات تو وہی ہے نون صاحب ، جو میں کہہ چکا ہوں کہ آپ کی بیٹی کو کوئی جسمانی بیماری نہیں ہے ۔ وہ جوان ہو چکی ہے اور کسی کی محبت میں گرفتار ہے ۔ “

” تم کیا کہہ رہے ہو ڈاکٹر ! ۔ ۔ ۔“ ، نون صاحب غصے میں آ ئے اورچھڑی کا سہارا لے کر کھڑے ہو گئے ۔ ان کی بیگم بھی کھڑی ہو گئیں ۔

” تمہاری جر أت کیسے ہوئی کہ تم میری بیٹی کے بارے میں ایسی بیہودہ اور اخلاق سے گری ہوئی بات کرو ۔ “ ، نون صاحب اب غصے سے کانپ رہے تھے ۔ میرے اندر بھی کچھ ابال اٹھا ۔

” میں ٹھیک کہہ رہا ہوں ۔ اور یہ بیہودہ اور اخلاق سے گری ہوئی بات نہیں ہے کہ آپ کی بیٹی کو کسی سے پیار ہو گیا ہے ۔ ۔ ۔ آپ کو بھی تو ایک گوری سے پیار ہوا تھا اور آپ نے اس سے کورٹ میرج کر لی تھی ۔ آپ پیار کر سکتے ہیں تو کیا آپ کی بیٹی ایسا نہیں کر سکتی ۔ پیار بیماری نہیں ہوتا نون صاحب ۔ ۔ ۔ مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ وہ کون ہے ، جس سے آپ کی بیٹی کو محبت ہوئی ہے لیکن بہتر یہی ہو گا کہ آپ اپنی بیٹی کی شادی اس جوان سے کر دیں ۔ سسی پھر نہ تو دیمک زدہ چھت کو گھورے گی اور نہ ہی املتاس کے زرد درخت کو دیکھے گی جو آپ کے آنگن میں اپنے جوبن میں تنہا کھڑا ہے ۔ ۔ ۔ وہ ٹھیک ہو جائے گی ۔ “ ، مجھے لگا جیسے میں اپنے والد کو قائل کر رہا ہوں کہ وہ جولی سے میری شادی کردیں ۔

” تمہیں مجھ سے یوں بات کرنے اور یہ مشورہ دینے کی ہمت کیسے ہوئی۔ “ ، وہ غرائے ۔ انہیں کھڑے اور غراتا دیکھ کر کتا بھی اٹھ کھڑا ہوا ۔

” میں ایک ڈاکٹر ہوں اور صحیح تشخیص کے بعد درست علاج کا مشورہ دینا ہی میرا فرض ہے ۔ اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو آپ اپنی بیٹی کی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے ۔ “ ، میں نے تیقن اور مستقل مزاجی سے کہا ؛ میری نظروں کے سامنے جولی کا ہیولا تھا اور نون صاحب کی جگہ میرے والد ۔

” تم ۔ ۔ ۔ تم ۔ ۔ ۔ نکلو یہاں سے ۔ ۔ ۔ بڑے ڈاکٹر بنے پھرتے ہو۔ ۔ ۔ بیماری جان نہیں پائے اور۔ ۔ ۔ اور مجھ پر۔ ۔ ۔ میری بیٹی پر تہمت لگاتے ہو ! ۔ ۔ ۔ بدمعاش کہیں کے ۔ ۔ ۔ ۔ “ ، ان کے منہ سے کچھ ویسی ہی جھاگ نکل رہی تھی جیسی کہ میرے گھوڑے کے منہ سے ۔

سسی جو پہلے کہیں پیچھے جا چھپی تھی ، اپنے والد کی غصہ بھری اونچی آواز سن کر پھر سے دروازے پر آ گئی ۔

نون صاحب کی بیگم نے ، غصے سے کانپتے ہوئے اپنے خاوند کو میری طرف بڑھنے سے روکا ، سسی بھی ان کی طرف لپکی کہ اس لاٹھی کو روک سکے جو وہ مارنے کے لئے میری طرف بڑھا رہے تھے لیکن وہ کتے کو مجھ پر جھپٹنے کا اشارہ کر چکے تھے ، جسے سسی نہ روک پائی تھی ۔

Published inعالمی افسانہ فورمقیصر نذیر خاورمرد افسانہ نگار

Comments are closed.