Skip to content

جھوٹا سچ

عالمی افسانہ میلہ 2015
افسانہ نمبر 68
جھوٹا سچ
مہر افروز، کرناٹک، انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آفس آتے آتے مجھے بڑی دیر ہوگئی میری چھوٹی بیٹی کی طبیعت بہت خراب ہو گئی تھی اسے یرقان ہو گیا تھا آٹھ دس دن ہسپتال میں رکھنے کے بعد کل گھر لے کر آئی۔ صبح اس کا پرہیزی کھانا اور گھر میں دیگر لوگوں کا کھانا بنا کر آفس نکلتے دیر ہوگئی۔ میں نے ستر کی اسپیڈ پراپنی اسکوٹر بھگائی تب کہیں جا کر صحیح وقت پر پہنچ بایئو میٹرک پر دستخط کر سکی۔
یہ سسٹم بھی عجیب ہے پڑھے لکھے لوگوں سے انگوٹھا لگواتا ہے کہ اپنی شناخت دو۔ آفس کا ماحول بڑا خوش کن تھا۔ مجھے ماحول کی تبدیلی بہت خوشگوار لگی۔ دس دن دوا خانے۔ میں رہ کر مین خود کو بڑی بیمار محسوس کر رہی تھی۔ جیسے ہی میں سٹاف روم میں داخل ہوئی عاشر کے چیخ نما نعرے نے میرا استقبال کیا۔
ویلکم اپی آج سعید سر کی پارٹی ہے۔
کیا!! پارٹی اور وہ بھی سعید سر کی! ” میں اپنی حیرت چھپا نہیں سکی۔ سعید سر کی پارٹی لینے کا مطلب واقعی معاملہ بہت بڑی خوشی کا تھا ورنہ وہ بیکار بات بات پر پارٹی دینے والوں میں سے نہیں تھے۔
کس خوشی میں پارٹی دی جا رہی ہے ؟” میں نے استفسار کیا۔
سعید سر کی بیٹی کا انڈین آئر فورس میں کو ۔ پائلٹ سیلیکشن ہوا ہے۔” عاشر کی خوشی دیکھنے لائق تھی کیونکہ ایک لحاظ سے عاشر ، سعید سر کا داماد تھا ان کے بڑے بھائی کی بیٹی عاشر کی بیوی تھی۔
سر کہاں ہیں؟ چلو مبارکباد دے اتے ہیں۔” سرکی کو تلاشتے ہم پرنسپل کےچیمبر میں داخل ہوئے۔ سر ، پرنسپل ستیش نندن کو ساری رام کہانی سنا رہے تھے۔
کانگریچیولیشن سر! بہت بہت مبارکباد۔ ” ہمارا نعرہ بلند ہوا۔
شکریہ بھئی تم سب کا۔ ” سر کی خوشی کی انتہا نہیں تھی۔ سعید سر کی دو بیٹیاں تھیں، ان کو بیٹا نہ ہونے کا کبھی افسوس نہیں تھا، انہوں نے اپنی بیٹیوں کو ہمیشہ بیٹا ہی سمجھا اور بالکل اسی انداز مین بڑا کیا حتیٰ کہ کبھی لباس بھی لڑکیوں والے نہین پہنائے۔ ان کی بڑی لڑکی نے جو میری ہم عمر تھی، ایم ایس سی ایگرو (زراعتی) سائنس کرنے کے بعد کے اے یس (کرناٹک ایڈمنسٹریٹیو سروس)، پاس کیا اور کرناٹک مِلک فیڈریشن کے ڈپٹی ڈائریکڑ کے عہدے پر فائز تھی، وہیں کے ‘جے ڈی’ سے اس نے شادی کر لی جو اتفاق سے مسلمان بھی تھا۔ سر بہت نازاں تھے۔ اب یہ دوسری خوشی ان کے دامن مین آئی تھی ان کی دوسری بیٹی بنگلور کے ہندوستان ایروناٹک ادارے سے ایروناٹک انجینیرنگ کر رہی تھی اور آخری سال میں کیمپس سلیکشن میں وہ انڈین آیر فورس مین منتخب کرلی گئی تھی۔ چھوٹے شہر سے اپنی قوم کی لڑکی کا انتخاب عام بات تو نہ تھی۔ سعید سرکا دیرینہ خواب، فلسفہ اور ایمان مکمل ہوگیا تھا۔ ان کا فلسفہ اور ماننا تھا کہ لڑکے لڑکی مین کوئی فرق نہیں ہوتا، یہ ہمارا اپنا سماج، ماینڈ سیٹ اور سماجی نفسیات ہے، جس کو بدلنا بہت ضروری ہے جس کی وجہ سے ہم لڑکے اور لڑکی مین فرق کرتے ہیں مگر اپنی انتھک محنتوں سے انھوں نے اپنے فلسفے، یقین اور دیرینہ خواب کو سچ کر دکھایا تھا۔
میں ذرا فرسودہ اور آؤٹ ڈیٹیڈ خیالات کی ہوں۔ میں بھی پڑھی لکھی ہوں مگر میرا مائنڈ سیٹ بڑا فرسودہ ہے حالانکہ اسسٹنٹ پروفیسر لگی ہوئی ہوں۔ انگریزی ادب پڑھاتی ہوں مگر اب بھی برقعے میں ہی رہتی ہوں اور صرف چہرہ اور ہاتھ کھلے ہوتے ہیں اور جب کالج سے باہر اتی ہون تو نقاب لگا لیتی ہوں اور فرسودہ، روایتی برقعے والی بن جاتی ہوں۔
میری اور سعید سر کی ہمیشہ نظریاتی ٹکر رہی حالانکہ میں نے اسی کالج سےگرئجویشن کی ہے اور ان کی بہت عزیز شاگرد بھی رہی ہوں، تب بھی میں برقعے میں رہا کرتی اور ان کے طنز اور طعنوں کا شکار رہتی تھی۔ اب میں ان کی ماتحت اور اسسٹنٹ پروفیسر ہوں۔ آج بھی وہ میرے برقعے پر طنز کرتے نہیں چوکتے۔ میں لڑکیوں کی تعلیم اور خودکفیلی کے خلاف کبھی نہیں رہی مگر مغربی تہذیب کی اندھا دھند تقلید اور حد سے زیادہ فیشن زدگی کے خلاف ضرور رہی ہوں، جس کی وجہ ہمیشہ کالج میں مذاق کا نشانہ بنی رہتی ہوں، جس میں سعید سر ہمیشہ پیش پیش رہے۔ میں خود دو بیٹیوں کی ماں ہوں اور میری بڑی بیٹی میڈیکل پڑھتی ہے مگر میں نے ہمیشہ اپنی بچیوں پر حجاب لازم رکھا۔ میری بڑی سفید ایپرن میں سر پر سفید اسکارف لگائے مجھے ہمیشہ با وقار اینجل دکھائی دیتی ہے۔ میری دونوں بیٹیوں کے درمیان تیرہ سال کا فرق ہے۔ میری دوسری بیٹی پیدائشی بصارت سے محروم پیدا ہوئی تھی۔ جس کی آنکھوں کی بینائی کے لئے مجھے دو سرجریز کروانی پڑیں جس کے لئے مجھے اپنا رہائشی مکان بھی بیچنا پڑا۔ وہ اسکول نہیں جا پائی مگر میں نے گھر پر ہی اس کی تعلیم کا انتظام کر رکھا ہے اور اب وہ کچھ انگریزی پڑھ اور لکھ پاتی ہے مگر اس کی سمعی یادداشت اور سماعت بڑی تیز ہے اور وہ چھ زبانین بولتی اور سمجھتی ہے کیونکہ میں خود چھ زبانیں جانتی ہوں۔ سر کی کامیابیاں اور خوشیاں دیکھ کر پہلی بار میرا ایمان ڈگمگایا تھا اور مجھے لگا مین نے اپنے فرسودہ خیالات اپنی بچیوں پر لاد کر شاید ان پر ظلم کیا تھا۔ میری طرح وہ بھی حبّس زدہ زندگی گزارتی ہیں۔ زندگی کی تمام رعنائیوں، ہا و ہو، اور رنگ و بو سے محروم۔ اگر میں بھی بیٹیوں کو آزاد رکھتی تو وہ بھی اپنی زندگی بھر پور انداز میں جیتیں مگر میں کیا کروں میں ایسا نہیں کرسکتی کیونکہ مین طلاق یافتہ ہوں۔ میری طلاق کی وجہ بھی میرا فرسودہ پن، برقعہ، پرانے خیالات اور بیٹیوں کی پیدایش ہی رہی ہے۔ میرا سابقہ شوہر فوجی تھا۔ شراب کا دلدادہ، فیشن زدہ زندگی کا عادی شخص مگر بیٹیوں کے معاملات میں خود بھی بڑا فرسودہ تھا۔ پہلی بیٹی کی پیدایش پر ہی وہ ناراض تھا، جب تیرہ سال کے وقفے کے بعد میری دوسری بھی لڑکی پیدا ہوئی اور وہ بھی بصارت سے محروم تو اس نے مجھے طلاق دینے میں دیری نہیں کی اور دوسری شادی کرلی۔ میں نفسیاتی طور پر بہت خوفزدہ عورت ہوں۔ ایک تو مرد کے سائبان سے محروم، نوکر پیشہ، گاڑی چلانے والی اور دو بیٹیوں کی ماں، اگر تھوڑا بھی فری ہو جاوٗں تو مجھ پر اور میری بیٹیوں پر آوارگی کا الزام لگانے میں ہمارا سماج دیری نہیں کرے گا اور میں بدکردار عورت کہلاوں گی، جو مجھے قطعی منظور نہیں ہے۔ میں اپنے سماج کی خصوصی مہربانیوں سے پناہ چاہتی تھی، اسی لئے فرسودہ بنے رہنا میری مجبوری بھی تھی اور عافیت بھی مگر اندر سے ایک اطمنان بھی مجھے تھا کہ میں جو کچھ کر رہی ہوں صحیح کر رہی ہوں مگر اس لمحہ میرا ایمان ضرور ڈگمگایا تھا، سعید سر کو دیکھ کر بڑا رشک آیا کہ ایک طرف ایک باپ کی روشن خیالی نے تین عورتوں کو مطمئن زندگی دی اور ایک ناہنجار باپ نے بیٹیوں کی پیدایش کی وجہ ہم تین عورتوں کی زندگی کو جہنم بنا دیا تھا۔ مجھے وہ سارے لمحے یاد آئے اور مین اندر ہی اندر دکھ کے گھونٹ پی کر رہ گئی کیونکہ مین اپنی کمزوری کسی پر بھی ظاہر کرنا نہین چاہتی تھی نہ کسی قسم کی سبکی اٹھانا مگر یہ سچ تھا اس دن سعید سر کی پارٹی کی خوشیوں والی شیرینی مجھے بڑی تلخ لگی تھی لیکن اک مصنوعی مسکراہٹ کا نقاب چڑھائےمیں سارے پروگراموں میں بے دلی سے شریک رہی۔
دو سال کے بعد سر کا ریٹائرمنٹ تھا۔ ایک دن اچانک سر نے کہا کہ کل ان کی بیٹی کی شادی کا ریسپشن ہے حالانکہ پچھلے دوسال سے ان کی بیٹی دلی مین رہائش پذیر تھی۔ میں نے ان کے چیمبر میں جا کر پوچھ ہی لیا۔
سر اپ نے شادی کی دعوت تو دی نہیں اب سیدھے ریسپشن وہ بھی لڑکی کے گھر والوں کی طرف سے کچھ کنفیوژن تو ہے…! ”
ارے ثمینہ تمہیں نہیں معلوم میں نے ہمیشہ روایتوں کے خلاف بغاوت کی ہے اور ماڈرن آدمی ہوں سو ہم نے دلی میں ہی سیدھی سادی کورٹ میرج کروا دی بنا کسی دان دہیج کے، وہ اس کا ساتھی پایلیٹ ہی ہے انڈین ایر فورس میں۔ شادی میں صرف ہم ہی شریک تھے اب سوچا، سنگی، ساتھیوں کے لئے یہاں ریسپشن میں رکھ لوں
حسب معمول ان کا لہجہ جاندار اور قہقہ بہت بلند تھا۔” ہاں سر اپ بڑے خوش قسمت ہیں اور بنا دان دہیج خرچ کئے آپ کو بہترین داماد ملے اور آپ کے بیٹوں کی کمی پوری کردی۔ بہت مبارکباد سر۔
میں پھر مردہ دلی اور بوجھل قدموں سے اپنے کمرے مین لوٹ آئی۔ میری بیٹی ان دنوں میڈیکل کے فائنل ایر میں تھی اور مجھے اس کے لئے خود بہت اچھے رشتے کی تلاش تھی مگر پانچ رشتے جو ڈاکٹرز کے تھے، بہت مہنگے تھے کسی کی ڈیمانڈ دس لاکھ کی کار کی تھی، تو کسی کی چالیس لاکھ کے پیمینٹ ایم ڈی سیٹ کی تھی اگر میں اتنی با حیثیت ہوتی تو مین خود کار میں گھومتی اور اپنی بیٹی کا ایم ڈی سیٹ خرید لیتی اس لئے میں نے سارے پرپوزلز کو منع کردیا اور کچھ تو ہمارا کرایہ کا مکان اور سادہ رہن سہن دیکھ کر ہی لوٹ گئے اور مجھے داماد بھی دیکھا بھالا مخلص شخص چائیے تھا جو ہم تین تنہا عورتوں کا صحیح معنوں مین محرم ثابت ہوتا۔ انہی دنوں میرے بڑے بھانجے کا عندیہ آیا کہ وہ میری بچی کے لئے رشتہ دینا چاہتا ہے۔ میری بیٹی کی خواہش تھی کہ اسکا شریک حیات ڈاکٹر ہی ہو جبکہ میرا بھانجا انجینیر تھا اور خلیج ممالک میں رہایش پزیر تھا مگر میری مجبوریوں اور گھر کے حالات دیکھ اس بیچاری نے ہاں کردی۔
سعید سر کی بیٹی کے ریسیپشن کے دن کسی نہ کسی طرح یہ بھید کھل ہی گیا کہ لڑکا برہمن ہے اور دلی میں شادی بھی برہمنی طریقے سے ہوئی تھی پھر سیول میرج ہوئی۔ اب سر اپنی کٹی ناک بچانے، لڑکی کو شرارہ سوٹ اور داماد کو شیروانی پہنا کر وداع کر رہے تھے جبکہ پورا سسرال برہمنی لباس میں نظر آ رہا تھا اور ریسپشن کا پورا کھانا ویجیٹیرین تھا۔ سر بڑے خوش تھے کہ ان کے بہت روشن خیال اور سچے سیکولر ہونے کی بڑی تعریفین ہو رہی تھیں اور مجھ جیسے فرسودہ اور پرانے خیالات رکھنے والوں کو یہ بات ہضم نہیں ہو رہی تھی۔ آج سر نے دوغلے سیکولر سماج والوں کو پکا ثبوت دیدیا تھا کہ وہ کتنے روشن خیال اور سچے ہندوستانی ہیں۔ میوزک، شور، ڈانس، شراب اور ہاوٗ ہنگامے کے بیچ دلہن وداع ہوئی۔ میں نے بھی اپنی لڑکی کی شادی بہت سادگی کے ساتھ اپنے بھانجے سے کر دی۔ ایک مہینہ کی دوڑ دھوپ کے بعد میری بیٹی کا حیدرآباد کے ایک مسلم میڈیکل ادارے میں ایم ڈی کا داخلہ کروا کر میرا داماد پر دیس سدھار گیا۔ اب گھر میں ، میں اور میری کمزور بصارت والی بچی ہی رہتے۔ ان دنوں زندگی بڑی مضمحل، سوگوار، اداس اور بیزار کن رہتی۔ سر کی ریٹائرمنٹ کے بعد مجھ پر ایچ او ڈی کی ذمہ داری بھی آ گئی۔ آفس کا کام بڑھ گیا تھا اور بچی بھی بلوغت پر پہنچ چکی تھی اسے گھر مین اکیلی چھوڑنا بھی میرے لئے مسئلہ بن گیا تھا۔ میں نے گاوٗں سے اپنی اماں کو بلوایا کہ بچی کے ساتھ گھر پر رہ سکیں مگر اماں ہر ماہ دوچار دن آبائی وطن ضرور جاتیں تاکہ ہمارے گھر کی صاف صفائی کروا سکیں اور وہ تین چار دن مجھ پر بہت بھاری ہوتے۔ گھر پر اکیلی بچی اور میرا سارا دھیان بچی کی طرف لگا رہتا اور میں کالج میں چڑچڑی ہوجاتی۔ طلباء میرے قریب آنے سے کتراتے کہ میڈم آج غصے میں ہیں۔ اماں واپس اجاتیں تو میں پھر سے پرسکون ہوجاتی۔ اپنا گھر فروخت کرنے اور طلاق کے بعد میری ساری توجہ لڑکیوں پر رہی کہ کسی طرح ان کی اچھی پرورش ہو اور تعلیم وتربیت ہو، جس کی وجہ سے ہم کرایہ کے مکان میں ہی رہتےرہے۔ بڑی جب ایم ڈی کے دوسرے سال میں تھی تب داماد نے اصرار کیا کہ میں اپنا گھر خرید لوں جس کے دو پورشن ہون ایک میں وہ اور میری بیٹی رہ سکیں اور دوسرے پورشن میں ہم تینوں رہ سکیں۔ وہ ہر چار ماہ میں ایک مرتبہ انڈیا کا چکر ضرور لگاتا۔ ان دنوں کافی دوڑ دھوپ اور تلاش کے بعد میں نے مطلوبہ مکان ڈھونڈ ہی لیا۔ میری ساری جمع پونجی کے باوجود مجھے بنک سے قرض لینا پڑا۔ میری دوڑ دھوپ کا رخ دوسری سمت مڑ گیا۔ سارے کاغذات اور دستاویزات کی تیاری کے بعد اللہ اللہ کرکے بنک نے سبز جھنڈی دکھائی اور کہا کہ ایڈرس ویری فکیشن اور دی گئی معلومات کی جانچ کے لئے ہمارے گھر آئیں گے۔ یہ ان دنوں کا وقفہ تھا جب امان آبائی گاوٗں گئی ہوئی تھیں۔ ناچار مجھے چھٹی لینا پڑی اور میں گھر میں رہ گئی۔ ان دنوں بھاگ دوڑ نے میرا بی پی بھی بڑھا دیا تھا۔ چھٹی کے دو دن گھر کی صاف صفائی مین گذر گے یہ ہم نوکری پیشہ عورتوں کی مجبوری ہےکہ چھٹیوں میں ہی گھر کو صاف ستھرا اور رہنے قابل بنا لیتی ہیں۔ بنک سے کوئی نہیں آیا۔
تیسرا دن جمعہ تھا۔ میں نے سوچا جمعہ ہے نہا دھو کر ذرا سورہء کہف ہی پڑھ لوں ورنہ سارے جمعے تو آفس میں گزرتے ہیں اور بس نام کی نمازیں آفس کے چیمبر میں ادا ہوتی ہیں۔ میری تلاوت کو فون کی رنگ نے بہت شدت سے ڈسٹرب کیا اور مجھے بہت زیادہ چڑ آئی۔ فون پر عاشر کی بڑی گھبرائی ہوئی سی آواز تھی۔
کیوں کیا ہوا اتنے گھبرا ئے ہوئے کیوں ہو ؟” میں نے سوال کیا۔
اپی سعید سر کی وائف کا انتقال ہوا ہے آپ جلدی آ جایئں
کیا؟ ارے اب بتا رہے ہو ؟ کب ہوا؟ کیونکر؟ کیسے؟” میں نے سوالات کی بوچھاڑ کردی۔
آپی سنیں مجھے معلوم ہے آپ کی طبیعت خراب ہے، میں آپ کو نہیں بتانا چاہتا تھا مگر یہاں معاملہ نازک ہے، بس اپ جلدی آ جایئں۔ جس طرح بھی ہو جلدی آ جایئں بس۔
ارے ہوا کیا ہے بتاوٗ تو سہی، کیوں الجھا رہے ہو۔” میں نے جھلا کر کہا۔
بس آپی میں بتا نہیں سکتا اپ فوراً آ جایں وقت کم ہے۔” اتنا کہہ کر اس نے فون کاٹ دیا۔ میں عجیب مخمصے میں تھی جاؤں تو بچی اکیلی اور اگر بنک والے آ گئے تو!!!! اور میت کا، معاملہ نہ جاؤں تو بھی تف تھی مجھ پر! میں اکثر غسال کی خدمت بھی ادا کرتی ہوں۔ میں نے سوچا وقت نماز قریب ہے شاید کو ئی غسالہ نہ ملی ہو اس لئے مجھے یاد کیا ہو۔ یہ سوچ کر مین نے درمیانی ہال کی کھڑکی سے اپنی مالکن مکان کو پکارا۔
روشن اپا ہمارے پہچان والوں میں موت ہوگئی ہے مجھے بلایا جارہا ہے، آج شاید بنک والے آ جایئں اگر کوئی آئے تو اپ ذرا بچی کے پاس آ کر بیٹھ جائیں ورنہ یہ اکیلی گھبرا جائے گی۔ ” روشن آپا بڑی مشفق خاتون تھیں اور ہماری مصیبتوں کے وقتوں کا سہارا بھی۔ جس کا کوئی نہیں ہوتا اس کا بیشک اللہ ہوتا ہے، جو انسانوں کی شکل مین مدد کے فرشتے بھیج دیتا ہے۔ روشن آپا ہمارے حق میں فرشتہ ہی تھیں۔ میں نے اپنی سکوٹی نکالی اور جتنی تیزی سے بھگا سکتی تھی بھگا لے گئی مگر وہاں کا منظر عجیب تھا، جنازہ تو تیار تھا مگر سارے سفیدکپڑوں اور ٹوپیوں میں ملبوس لوگ گھر سے سو میٹر کی دوری پر کھڑے تھے، سر کا کہیں پتہ نہیں تھا۔ عاشر اور سعید سر کا بڑا داماد بس گیٹ کے باہر کھڑے تھے۔ گیٹ کے اندر عورتوں کا ہجوم تھا، جیسے ہی میں نے گاڑی روکی عاشر تیر کی طرح میرے پاس آیا۔
آپی اچھا کیا آپ آ گیئں، سر کا سیکولرزم اور بیٹیوں کو بیٹا بنانے کا فلسفہ کھا گیا۔
وہ بہت تنفر اور غصے مین بول رہا تھا..”
کیا کہہ رہے ہو؟” میری کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔
اندر ان کی دونوں بیٹیاں بضد ہیں کہ وہ جنازے کو کندھا دے کر قبرستان لے جائیں گی کیونکہ وہ ان کی بیٹیاں نہیں بلکہ بیٹے ہیں۔ دونوں اب بھی پینٹ شرٹ میں ہیں اور برہنہ سر بھی ہیں۔ جنازہ لے جانے والے ملحقہ مسجد کی جماعت کے افراد باہر چلے گئے ہیں کہ عورتیں اس لباس مین جنازہ اٹھائیں گی تو وہ جنازہ نہیں اٹھائیں گے نہ نماز جنازہ پڑھنے مسجد تک لے جایئں گے۔ جنازے کو نماز جمعہ سے پہلے مسجد لے جانا ہے اپ پلیز کچھ کریں انہیں سمجھایئںوہ بڑی تیزی سے بول رہا تھا اور میں ہکا بکا کھڑی سن رہی تھی۔
میں کیا کروں؟ سر کہاں ہیں وہ کیوں نہیں سمجھاتے اپنی بیٹیوں کو؟” مین چڑگئی تھی۔
وہ دیکھیں وہاں جو بیٹھے ہیں سر گارڈن میں، وہ خود سمجھا سمجھا کر تھک گئے ہیں۔” میں نے پہلی مرتبہ سر کو پینٹ شرٹ میں سر جھکائے ٹوپی پہنے شکست خوردہ انداز میں دیکھا۔ سچ ہے موت ہر انسان کا غرور توڑ دیتی ہے۔ مجھے یقین نہیں آیا کہ وہ وہی سعید سر ہیں جو ہمیشہ سوٹ اور ٹائی میں کلین شیوڈ اور شادماں شادماں بات بات پر قہقہہ لگاتے ہنستے ہنساتے رہنے والے آدمی تھے۔ میں ساری صورت حال سمجھ گئی اور اللہ کا نام لے کر اندر داخل ہوئی۔ پہلے ان کی بڑی بیٹی شگفتہ کو الگ لے گئی اور اس سے پوچھا۔
کیا تم اپنی ماں کو سچ مین دفنانا چاہتی ہو کہ یہیں رکھوانا چاہتی ہو؟”؟ وہ میرے اس غیر متوقع سوال سے پریشان ہوگئی۔
دفنانا تو ہے۔” وہ ہچکچاہٹ سے بولی۔ اسے ٹوٹتا دیکھ کر میں نے بات اگے بڑھائی۔ ” تو چلو پھر لباس بدلو اور کوئی شلوار سوٹ پہن لو اور سر پر دوپٹہ ڈال لو۔
وہ میری بات سن کر کچھ دیر کو ٹھٹکی، میں نے عاشر کی بیوی کو اشارہ کیا کہ وہ اسے اندر لے جا کر اپنا شلوار سوٹ پہنا دے۔ پھر میں دوسری کی جانب بڑھی جس کا نام تو شیریں تھا مگر اپنے نام کے بالکل برعکس تھی، اسے قائل کرنے تک میرے پسینے نکل گئے۔ وہ کسی بھی طرح لباس بدلنے پر تیار نہ ہوئی۔ میں نے اندر سے عاشر کی بیوی کا ایک اور دوپٹہ منگوایا اور زبردستی اس کے سر پر لپیٹا اور سینہ ڈھانک دیا جس کے لئے وہ بہ مشکل راضی ہوئی۔ پھر مین نے عاشر اور عباس یعنی سر کے بڑے داماد سے درخواست کی کہ وہ جنازے کو سامنے طرف کے بازووٗں سے پکڑیں اور یہ پیچھے کی طرف سے یہ دونوں پکڑ کر گیٹ تک لے جائیں گی۔ وہاں سے جماعت کے لوگ آ کر جنازہ لے لیں گے اور یہ گیٹ سےباہر نہیں آئیں گی۔ سعید سر کی دونوں بیٹے نما بیٹیوں نے پیچھے سے جنازہ اٹھایا اور سامنے سے دونوں دامادوں نے۔ کلمہء شہادت کی آواز سے فضا گونج اٹھی اور سر کی بیوی کا جنازہ مسجد کی جانب روانہ ہوگیا۔ اب یہ دونوں دھام سے زمین پر گرپڑیں اور لگیں لوٹنے، رونے ,پیٹنے، .جتنی گالیاں انہیں آتی ہون گی سب کی سب مسجد, جماعت, سماج, فرسودہ روایات اور مجھے دے سکتی تھیں دیتی رہیں کہ ہم نے ان کا بیٹا ہونے کا حق ان سے, چھین لیا۔ مین نے اگے بڑھ کر انکو آٹھایا سینے سے لگایا اور پچکارتے ہوئے کسی طرح اندر لے گئی کہ ہم جتنا بھی بیٹآ بن جائیں لیکن دفنانے اور جنازہ لے جانے کے وقت بیٹیاں ہی رہیں گی, بیٹا نہیں۔ ہم سب عورتوں نے مل کر ظہر کی نماز ادا کی اور جب میں نے دعا مانگنی شروع کی تو سب کی سسکیاں نکل گیئں اور رقت کا ماحول طاری ہوگیا۔ میں واپسی کے لئے جب باہر نکلی تو سر کی بڑی بٹیی شگفتہ آ کر میرے گلے لگ کر رو پڑی۔
کاش ڈیڈی نے ہم کو دین سکھایا ہوتا یا پھر بیٹی ہی بنا کر بڑا کیا ہوتا” میں نے کس کر اسے گلے لگایا اور ہلکے سے اس کی پیٹھ تھپ تھپا کر نکل گئی۔
میں بڑی عجلت میں گھر پہنچی تھی۔ روشن آپا میری بچی کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں۔ مجھے یقین ہوگیا کوئی آیا ضرور تھا میں نے گھبراہٹ مین پوچھا۔
کیا ہوا؟
ارے منہ میٹھا کرواؤ! تمہاری یہ ان پڑھ تو سو پڑھے لکھوں سے تیز نکلی۔ بنک والے آئے تھے۔ شاید انہوں نے پچاس سے زیادہ کنڑی اور انگریزی میں سوال کئے ہوں گے, تیری بیٹی نے برابر سے پورے جواب دئیے۔ انہوں نے سارے فارم بھر لئے، مجھ سے تصدیق لی اور جب دستخط کا معاملہ آیا تو میں انگوٹھا لگانا چاہتی تھی مگر تیری اس بیٹی نے تیرے پروفیسر ہونے اور تیری بیٹی ہونے کا حق ادا کردیا ، اس نے انگریزی مین دستخط بھی کردئیے، وہ بھی ایک جگہ نہیں دس جگہوں پر۔ ” روشن آپا تفصیل بتا رہی تھی اور ان کی ستارہ انکھیں تابندہ تھیں۔ میں نے بے یقینی سے بیٹی کی طرف دیکھا۔ “تو نے دستخط کئے؟ کیا لکھا تو نے ؟” وہ خاموشی سے اندر گئی اور کاغذ قلم لے کر لوٹی اور بڑی خستہ تحریر میں لکھا۔
۔۔۔ Saima Khan ۔۔۔۔۔ ایسے” اس نے کاغذ میری طرف بڑھایا میرے لئے وہ کاغذ بنک کے بیس لاکھ کے چیک سے زیادہ قیمتی تھا۔ میں بچی کو گلے لگا کر بے ساختہ رو پڑی۔ میری دونوں بیٹیوں پر آج مجھے بہت, بہت فخر محسوس ہوا اور افسوس نہ رہا کہ مین نے ان کو فرسودہ انداز میں بڑا کیا تھا۔ میں مسلسل رو رہی تھی اور روشن آپا مجھے گلے لگا کر میری پیٹھ تھپک رہی تھیں۔ کئی دنوں سے گلے ملنے کی نعمت سے محروم میں اور بلکتی رہی۔ دوسرے دن صبح مین نے دروازہ کھولا تاکہ اخبار لے سکوں۔
پہلے صفحہ پر لگی خبر نے مجھے چکرا دیا۔
مسلمان ترقی کی راہ پر۔۔۔۔۔۔ مسلمانوں مین مثبت تبدیلی۔” ، آزاد نگر کے پوش علاقے میں خُصوصی اکثیریت پڑھے لکھے مسلمانوں کی ہے۔ یہاں آج ایک خوش آئیند تبدیلی دیکھنے کو ملی, شہر کے مشہور وظیفہ یاب پروفیسر کی بیوی کے انتقال پر ان کی دونوں بیٹیوں نے ماں کے جنازے کو بیٹا بن کر کندھا دیا۔ یہ ایک مثبت تبدیلی ہے خُصوصی طور پر اس لئے بھی کہ مسلمان اپنی فرسودہ روایتوں سے باہر نکل رہے ہیں, جس کی یہ عمدہ مثال ہے۔ نیچے جنازے کی تصویر میں واضح طور پر ان کی بیٹیوں کے ساتھ برقعے میں میری تصویر بھی تھی جو میں اُن دونوں کو پیچھے کھینچنے کے لئے ان کے ساتھ گیٹ تک آ گئی تھی۔

اخبار لے کر میں پلٹی تو قد آدم آئینے میں مجھے خود اپنا آپ دھندلا نظر ایا۔ میرا عکس دھندلاتے دھندلاتے معدوم ہوتا نظر ایا۔ سب کہتے ہیں آیئنہ سچ بولتا ہے مگر میرا آیئنہ تو جھوٹ بول رہا تھا اور یہ سچ تھا۔

Published inعالمی افسانہ فورممہر افروز

Be First to Comment

Leave a Reply