Skip to content

جمال پرست

عالمی افسانہ میلہ”2021″
دوسری نشست”
افسانہ نمبر.”44″
“جمال پرست”
افسانہ نگار .فریدہ نثار احمد انصاری(دوحہ،قطر)

” نہیں! ایسا نہیں ہو سکتا! کیسے ممکن ہے؟ اب تو ہماری ازدواجی زندگی کو صرف دو سال ہی گزرے ہیں!”
اس کی فکر کی سوئیاں اینٹی کلاک دوڑنے لگیں “میں اتنی جلد یہ تو نہیں چاہتا تھا ۔میں وہ جسے کالج کے زمانے میں “جمال پرست” کے لقب سے نوازا جاتا تھا۔جمال پرست!!! نہ کہ حسن پرست!!! وہی چیز میری زیست کا حصہ بنی جو وقت کی مقبول ترین شئے تھی۔بنگلہ، گاڑی ،گھڑی ،ملبوسات سبھی لوگوں کی ضرورت تھی لیکن میرے لئے میری فکر کا معیار! جب جب یہ معیار بدلتا میں انھیں بدل دیتا۔”
” بیٹا! کہاں کھوئے ہوئے ہو؟ “
اور امی کی گداز آواز کے ساتھ حقیقت کی وادی میں داخل ہو گیا۔
کچھ دیر کتابوں کی ورق گردانی کی لیکن کتابِ زندگی کے اوراق ذہن کے دریچوں میں ہی پلٹ سکتے ہیں، حقیقت سے ان کا ناطہ نہیں ہوتا ۔ کالج کی سجیلے دنوں میں بھی کوئی دوشیزہ اس کی منظور نظر نہ بن سکی ۔ اس کا یہ حسن زن تھا کہ ماتمی پیکر مجسمہ سر تا پا اس کے دل کے روزن میں اُتر گیا اور وہ اب تک اس کی زندگی کا حصہ بنی ہوئی تھی۔ وہ اس کی جان جہاں، شریک تنہائی اس کی مونس ، ہم قدم صبوحی ہی تھی۔
یہی اس کا حسن نظر تھا کہ اس کے بعد کوئی اسے کبھی پسند نہ آئی ۔اگر وہ ہوس پرست یا حسن پرست ہوتا تب صبوحی کے بعد اسے کوئی اور ضرور متوجہ کرتا لیکن کبھی اس طرح کی خواہش پیدا ہی نہیں ہوئی ۔
اور اب جب صبوحی بار بار متلی ،چکر سے پریشان ہوگئ و نڈھال رہنے لگی تب اس کی پریشانی بجا تھی . وہ تو یہ چاہتا تھا کہ قدم بھی زمین پر نہ پڑ کر اس کے ہتھیلیوں پر پڑے۔جب کہ امی بڑی خوش تھیں اور آخر انھوں نے اسے خوشی کی نوید سنا دی۔خوش خبری تھی یا کچھ اور وہ نہیں سمجھ پایا۔
” امی! اب اتنی جلدی بھی کیا ہے ، ہم خود آپ کے بچے ہیں، ایک اتنی بھاری ذمہ داری ہم کس طرح اٹھا سکتے ہیں؟ امی پلیز اتنی جلدی نہیں نا! “
” بیٹا! جب اللہ کی رضا شامل ہو تو اس طرح سوچنا کفران نعمت ہے۔میرے بچے! اللہ رب کائنات ناقدری کو پسند نہیں فرماتا۔وہ جب ذمہ داری کا احساس دلاتا ہے تب خود بخود اس کے نبھانے کا حوصلہ بھی عطا فرماتا ہے۔چلو جلد خوش ہو جاؤ اور سبھی کے منھ کو میٹھا کروا دو۔”
ماں کا حکم تھا ،فرماں بردار بیٹا کیسے نہ مانتا!! اور یوں لگا کہ گھر ہو یا باورچی خانہ مٹھائیوں کے ڈبوں سے سج گیا۔شب و روز اپنے محور پر سرگرداں، لمحہ بہ لمحہ کوچ کر رہے تھے۔خوشیوں کی سر مستیوں میں صبوحی کی طبعیت خود میں ہونے والی تبدیلیوں کو برداشت کرنے کی بہت کوشش کرتی تاکہ دل سے قریب ہمدم اور ماں سی ساس کی مسرتوں کا ساتھ دیا جائے ۔
اس کی بدلتی حالت اور کمزوری کے پیش نظر امی اسے گائنکولوجسٹ کے پاس لے گئیں۔ معائنے کے بعد کچھ احتیاطی اقدام اور خون کی جانچ کروا لی گئ تاکہ دھان پان سی صبوحی اینمک ہو تو اس کی تشخیص ہو سکے۔ پہلی بار خود پر ہونے والی تبدیلیاں، ہر خاتون کے لئے کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔کچھ بہ آسانی ان مراحل کو سہہ جاتی ہیں اور کچھ کے لئے بارگراں ثابت ہوتا ہے۔کچھ ٹانک فی الوقت کے لئے تجویز کر دی گئیں ۔سبھی خوشی خوشی واپس لوٹ آئے۔نئ صبح نے سانسیں بجا کیں اور بلڈ لیب کی خاتون گھر پہنچ گئیں ۔دو ایک رپورٹ کے علاوہ باقی رپورٹز شام تک ہی موصول ہو گئیں ۔
صبوحی کوشش کرتی کہ برگ گل سی تروتازہ نظر آئے جیسے پہلے رہا کرتی تھی لیکن رہ نہ پاتی۔جو دوائیں متلی روکنے اور طبیعت کی بحالی کے لئے دی گئی تھیں اس کا اثر الٹا نظر آرہا تھا۔متلیاں مزید بڑھ گئی تھیں۔ندیم اس کی دل پسند آئسکریم لے آتا پر وہ تکیے سے سر نہیں اٹھا پاتی۔ہڈیوں میں درد مستقل رہنے لگا۔منھ میں کڑوے پانی کا آنا، سینے میں جلن، ڈکاروں کا بار بار آنا، نیند نہ آنا، بھوک کا ختم ہوجانا، تھکاوٹ نے ہنستی کھیلتی زندگی کو اجیرن کر دیا تھا۔ماں نے ڈاکٹر کو فون کیا اور صورتحال سے آگاہ کیا۔
ڈاکٹر نے تسلی دی “پہلا موقعہ ہے، نازک اندام ہے۔اس لئے عین ممکن ہے اس طرح ہو۔ مکمل رپورٹ آ جانے دیجئے ۔” لیکن ڈاکٹر کو بھی دھڑکا لگ گیا کہ اس طرح ۔۔۔۔۔ پیٹ اور سینے کی ہڈی کے درمیان درد ۔۔پھر بھی کل دیکھ لیں گے۔رات ڈاکٹر کی بھی بے چینی میں کٹی کہ مریض کی حالت تشویشناک تھی۔ لیب میں ڈاکٹر نے خود ہی فون کیا اور رپورٹ وصول کر لی ۔انہونی دستک نے خوف کا گجر بجا دیا تھا۔فوراً ندیم کو فون کیا کہ صبوحی کو نہ لا کر وہ دونوں آ جائیں۔بہانہ بنا کر دونوں پہنچ گئے ۔راستے میں ہی ندیم نے امی سے رازدارانہ طور پر اپنے خیال کا اظہار کیا : امی! اگر کچھ گڑبڑی ہوئی تو مجھے صبوحی جان سے زیادہ عزیز ہے۔بچہ تو آپ دونوں کی ضد ہے۔”
” بیٹا! اللہ کو یاد کرو اس طرح نہیں سوچتے۔”
کلینک میں پہنچ کر دونوں نے دیکھا کہ ڈاکٹر بھی اپنے دونوں ہاتھ ملا کر کچھ کہنا چاہتی ہیں لیکن کہہ نہیں پا رہی پیں ۔آخر ندیم نے ہی خاموشی توڑی اور جاننا چاہا کہ انھیں کیوں بلایا گیا۔جواب نہ دیتے ہوئے انھوں نے سوال کیا ” یہ بتائیے کیا ان کے پیٹ میں اکثر درد رہتا تھا؟ آپ لوگوں نے کبھی کسی ڈاکٹر سے رجوع نہیں کیا تھا! “
ندیم نے سر ہلاتے ہوئے حامی بھری اور امی گویا ہوئیں ” ہاں! میں نے اس سے قبل صبوحی کو کئی بار کہا تھا لیکن اسے دواؤں سے، ڈاکٹرز سے گویا الرجی ہے۔اس لئے پہلے کہیں گئی نہیں۔ہلکا ہلکا درد تقریباً چھ ماہ سے تھا ۔ ان دنوں کچھ زائد ہو گیا ہے۔”
” اوہ! آپ کو بتانا چاہئے تھا۔چھ ماہ بہت ہوتے ہیں۔”
” آپ یہ بتائیے ہوا کیا ہے؟ اگر ڈیلیوری میں کچھ پرابلم ہے تو مجھے صبوحی عزیز ہے۔”
” کاش! اس طرح ہوتا تب میں بھی ایک پل گزارے بغیر اپنا فیصلہ سنا دیتی لیکن بات سنگین ہے۔صبوحی کو آنتوں کا کینسر ہے اور حالات ہمارے ہاتھ میں بھی نہیں ۔”
ندیم گویا کرسی پر ڈھے گیا کہ امی نے جہاندیدہ ہونے کا ثبوت دیا ” ڈاکٹر! کوئی علاج ہوگا تو ۔۔ہم تیار ہیں۔چاہے کسی قدر رقم درکار ہو۔اگر یہاں علاج ممکن نہیں تو ہم فارن لےجائیں گے۔”
” آپ چاہے جہاں لے جائیں۔آنکلوجسٹ سے رابطہ کریں کہ مستقبل میں یہی صبوحی کے لئے بہتر ہوگا۔لیکن علاج یہی ہے ۔سب سے پہلے کیمو تھراپی۔۔میموگرافی، کلونوسکوپی اور گر آنتیں ساتھ دیں تب ہو سکتا ہے مختلف جگہوں سے آنتوں کی سرجری کرنا ہوگی۔آپ فارن لے جائیں کوئی مسئلہ نہیں ۔”.
” کیا کیمو تھراپی ضروری ہے؟ اور کتنی؟ “
” جی اسی طرح سے ان جراثیم کو پہلے مارا جاتا ہے۔کم از کم دس گیارہ بار اس اذیت سے گزرنا ہوگا۔اس کے لئے مریض کو مثبت سوچ دینا آپ کا کام ہوگا ساتھ آپ دونوں بھی حوصلے سے کام لیں۔”
” حوصلہ کہاں سے لاؤں امی؟ ” بہت سوچ کر گویا ہوا” امی! کیمو تھیراپی میں بال جھڑ جاتے ہیں اور میں صبوحی کو بغیر بالوں کے نہیں دیکھ سکتا۔اتنے لمبے سنہرے بال دھیرے دھیرے رخصت ہو جائیں گے۔اس کی خوبصورتی ان مراحل سے داغدار ہو جائے گی۔نہیں امی! یہ میں برداشت نہیں کر سکتا! “
” ڈاکٹر! کیا بالوں کے گرنے کے علاوہ کچھ علاج ہے۔چاہے یہاں چاہے فارن میں؟ “
” بیٹا! وِگ بھی تو ملتی ہے۔کچھ دنوں کی ہی تو بات ہوگی۔”
” امی! نہیں ۔۔وِگ اصل کا بدل نہیں بن سکتی ۔میں یہ رسک نہیں لے سکتا۔میں اسے اس طرح بغیر بالوں کے صبوحی کو دیکھ ہی نہیں سکتا۔امی! وِگ لگانے سے پہلے اسے بغیر بالوں کا دیکھنا ہی ہوگا نا! میری آنکھوں میں اتنی سکت نہیں امی! “وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
ڈاکٹر نے سمجھایا، امی نے سینے سے لگایا ۔ڈاکٹر تاکید کی :”کھانے میں صرف لکویڈ دیجئے اور کچھ نہیں اور ہو سکے تو صبوحی کو اس کے لئے تیار کیجئے ۔مریض کا ذہنی طور پر جاننا ضروری ہے۔”
گھر دونوں لوٹ آئے پر اپنے دل کے آس کے پنچھی کو کہیں کسی خزاں کے پیڑ پر بٹھا آئے۔
دل کی ہر دھڑکن کسی مثبت گمان کی چاہ کرتی ۔اس نے سب سے پہلے اپنے دوستوں کو جو فارن میں رہتے تھے، رپورٹ میل کی۔ صبوحی کے لئے لکویڈ ڈائیٹ ایک بہت بڑا مسئلہ تھی۔وہ سوپ اور جوسز سے بھاگتی تھی اور آج یہی سب گلے سے اتارنا تھا۔
رات سہمی محبتیں اپنے اپنے گرداب میں گم تھیں۔کوئی چارہ بھی تو نہ تھا۔کروٹیں بدلتے بدلتے بھیگی راتیں آنسوؤں کی نمی سے سج گئیں ۔ فجر کے بعد ہی اس کے ایک دوست کا فون آیا اور اس میں بھی اسی بات کو دُہرایا گیا اور صبوحی نے دروازے کی اوٹ سے سب کچھ سن لیا۔
خوشی کی فاختائیں یک لخت اڑ گئیں کہ موت کا اژدھا پھن پھیلائے منتظر تھا اور آخر جب ہر جانب سے کم و بیش ایک سی خبریں آئیں تب دل پر جبر کر اس نے صبوحی کو اپنا مژدہ سنایا : ” صبوحی! تم جانتی ہو کہ میں تمہیں بالکل کسی دکھ میں نہیں دیکھ سکتا۔دکھ کی پرچھائیاں تم پر پڑنے سے پہلے مجھ پر پڑیں گی لیکن ایک بات یہ بھی صد فی صد درست ہے کہ کیمو تھیراپی کے بعد تمہاری ان لٹوں کو جھڑتا ہوا نہیں دیکھ سکتا۔میری جان! مجھے سمجھو! میں ان صعوبتوں سے تمہیں نہیں گزار سکتا ۔فارن کے ڈاکٹرز نے بھی سکسٹی ففٹی کا ریشو بتایا ہے۔نیز یہ بھی کہ آپریشن کے بعد ایک چھوٹا سا جرثومہ رہ گیا تب بار بار یہی عمل دہرایا جائے گا۔تم ہی بتاؤ میں کیا کروں؟ کیسے بار بار اس طرح تمہیں تختہء مشق بناؤں ؟”
” جان جہاں! آپ کا ہر فیصلہ میرے لئے حکم ہے ۔سر تسلیم خم ہے۔مجھے کبھی کوئی شکایت نہ ہوگی۔میں ہنستے کھیلتے اس مرض کی صلیب پر چڑھ جاؤں گی۔”
” میں۔کیسے کہوں کہ میرا بزنس، بینک بیلنس اللہ کےدئیے اس مرض کے آگے ہیچ ہیں۔مگر معذرت میں کچھ بھی نہیں کر سکتا نہ ہی میں تمہاری اس خوبصورتی کو گہن لگا دیکھ سکتا ہوں۔”
” میرے خون میں آپ کی محبتیں گردش کر رہی ہیں۔میں اس کو کس طرح الگ کر سکتی ہوں ؟صد فی صد سچ ہے کہ گہنایا ہوا چاند کسی جھیل میں اُتر بھی جائے تب بھی اس کی خوبصورتی گہنا ہی جاتی ہے۔ایک کام کیجئے آپ دوسرا عقد کر لیجئے۔میں اپنے ہاتھوں سے دلہن سجاؤں گی۔میری طرح ہی تو ہوگی” اور آنسو ٹپ ٹپ اس کی گود بھرائی کرنے لگے۔ جہاں سات پھلوں کو گود میں بھرنا تھا وہاں نہ جانے کتنے آنسو اپنا فسانہ بیان کر رہے تھے۔
” کیا کہا؟ دوسرا عقد! کبھی نہیں! میں جمال پرست کے ساتھ وفا پرست بھی ہوں۔کیا تم اب تک یہ نہ سمجھ پائیں۔میری زندگی تمہارے ساتھ گزارے ان حسین لمحات کی یادوں میں بیت جائے گی لیکن میں تمہیں اس اذیت سے نہیں گزار سکتا۔طرح اور ہے میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا۔”
امی نے بہت سمجھایا :” دیکھو بیٹا! نا امیدی کفر ہے۔ہمیں کم از کم علاج کی جانب قدم تو بڑھانا چاہیے ۔بے شک! زندگی اور موت اللہ کے حوالے! لیکن اس طرح ہاتھ پر ہاتھ دھرے رہنا ٹھیک نہیں ۔ یہ کیسی وفا پرستی ہے ؟”امی بھی بچوں سی مچل گئیں۔
” امی! میں نے یہ بھی سن رکھا ہے کہ اس موذی مرض کو نہ چھیڑیں تب کئ سال اللہ چاہے تو نکل بھی جاتے ہیں۔ہم صبوحی کو آنکالوجسٹ کو بتائیں گے۔اس کی ڈائٹ پر توجہ دیں گے اور بس۔۔۔ کیمو تھیراپی بالکل نہیں ۔یہی میرا فیصلہ ہے۔ آپ بخوبی جانتی ہیں میں بچپن سے جمال پرست بھی ہوں۔میں اپنی جان جہاں کو بغیر بالوں کے نہیں دیکھ سکتا۔بس سمجھ لیجئے یہ اس بچے کی ضد ہے جس نے بچپن میں چاند کو چھونے کی تمنا کی تھی اور ابو نے اسی وقت مجھے سمندر کی سیر بوٹ میں کروا کر چاند کے عکس کے روبرو کیا تھا۔”
ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ اسے اپنے قریبی دوست کی کال موصول ہوئی اور وہی باتیں ۔یہاں سے ندیم کا وہی جواب۔سارے دوست سمجھا سمجھا کر تھک چکے لیکن اس کے کان پر جوں نہ رینگی۔
صبوحی کے والد فارن ٹور پر تھے۔انھیں بھی اس کی امی نے اس نادان کی ضد سے آگاہ کیا تھا۔اپنی بچی کی اس جان لیوا بیماری نے انھیں بھی توڑ دیا ۔سمدھن کو یہی بتایا کہ وہ جلد آ رہے ہیں اور وہ سیدھے ائیر پورٹ سے صبوحی کے پاس پہنچے۔صبوحی کی گرتی صحت، اس کا کمہلایا چہرہ دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔
” بیٹا! آن واحد میں کیا سے کیا ہو گیا۔اب کیا ہوگا؟ ندیم بیٹا اپنی ضد ترک کر دو ۔ہم وقت برباد کئے بغیر اسے امریکہ لے چلتے ہیں۔کہیں نہ کہیں کچھ سبیل ممکن ہو جائے گی۔ایک موقعہ تو دو۔”
” ابو! کیا میں نہیں چاہتا کہ صبوحی صحت مند ہو جائے؟ مگر بات وہی کہ جس طرح کا وقتی علاج بتایا جارہا ہے اس پر دل کو کیسے مطمئن کروں؟ آنتوں کا معاملہ ہے۔میری عزیز از جان ہستی اتنی صعوبتیں سہہ کر بھی کیا مکمل شفایاب ہو پائے گی ؟؟؟ اور آپ کے دل میں بال نہ آئے یہ سوچ کر کہ مجھے کسی اور کی چاہ ہے۔صبوحی نہیں تو اور کوئی بھی نہیں ۔جو زندگی ہوگی اس کی یادوں کے سہارے بیت ہی جائے گی۔”
ضد اتنی شدید تھی کہ ابو کے کہنے کے لئے بھی کوئی یارا نہ تھا۔روتے ہوئے وہ بھی بعد میں آنے کا کہہ کر رخصت ہوئے ۔صبوحی تڑپ کر رہ گئی ۔گھر کا ہر فرد اپنے خول میں گم ہو کر رہ گیا تھا۔
” ابو ! میں نے ان کے فیصلے کو دل و جان سے تسلیم کیا کہ آخرجلد یا بدیر اللہ رب العالمین کے پاس تو لوٹنا ہی ہے پھر شوہر کی مرضی کے ساتھ جاؤں یہی بہتر نہ ہوگا؟ ” آنسوؤں نے گھر کے ہر فرد کی آنکھوں کو اپنا مسکن بنا رکھا تھا۔
” بیٹا! مجھے اجازت دو کہ کم از کم کچھ گھریلو ٹونٹکے ہی کر لوں کہ میرا دل تو کسی قدر مطمئن ہو۔”
” امی! آپ نے میرا مدعا جان لیا اب جو آپ اور آپ کی بہو جانیں۔”
امی نے دل برداشتہ ہو کر گاؤں کی ایک جہاندیدہ دائی کو فون پر ساری بات سے آگاہ کیا۔” بہن! تم میری خاص سہیلی ہو پر میرا تجربہ یہی کہتا ہے کہ مرض آگے بڑھ چکا ہے۔تمہاری ضد کے آگے یہی کر سکتی ہوں کہ کچھ دوائیں، جڑی بوٹیاں ہیں، اگر زندگی دراز ہوئی تب کچھ نہ کچھ اثر ہو ہی جائے گا۔”
دو دنوں بعد وہ آگئیں اور بلا تاخیر اپنے کام کا آغاز کیا۔گڑ اور چیڑ کے درخت کے گودے کو آگ میں دہکا کر اس کے پیٹ پر باندھ دیا۔درد اپنی جگہ دائم و قائم ۔اب اصل درد کے ساتھ سود والا درد اضافی ہوگیا اور وہی ہوا جس کا ڈر تھا کہ اس جگہ انفیکشن نے گھر کر لیا۔نرم ملائم جلد داغدار ہو گئی۔ندیم نے اب سختی سے روک دیا کہ صبوحی کے لئے درد ناگزیر تھا وہ درد سے تڑپ تڑپ جاتی۔
روز جب صبوحی کی آنکھ کھلتی تو پپوٹے بھیگے لگتے اور ندیم اس کا ہر لمحہ صبوحی کے ساتھ گزرتا کیوں کہ وہ ان لمحوں کو جینا چاہتا تھا۔پہلے باوردی ملازمین آگے پیچھے رہتے تھے اب ڈاکٹرز اور نرسز کی ڈیوٹی گھر پر لگی ہوئی تھی کہ درد کی ٹیسوں کو کم کرنے کے لئے انجکشنز، کمزوری کسی حد تک دور کرنے کے لئے سلائن لگائے جا سکیں۔منٹ منٹ پر مریضہ کا بخار، پلس ریٹ، بلڈ پریشر چیک کیا جا رہا تھا۔
صبوحی اتنی کمزور ہو چکی تھی کہ قدم آگے بڑھانا دوبھر ہو چکا تھا۔وھیل چیئر سے ندیم اسے گھر کے خوبصورت پھولوں سے سجے لان میں لے آتا ۔روزانہ اسی طرح دونوں شام کے اوقات گزارتے ۔ابو بھی اب دن میں دو تین بار اسے دیکھنے آتے تھے۔
بسا اوقات مریض کی صحت آئینہ بن جاتی ہے کہ اندر کس قدر ٹوٹ پھوٹ ہو رہی ہے۔سورج مکھی کے پھول اپنے سورج کو غروب ہونے کے قریب دیکھ کر بغیر پلکیں جھپاکے دیکھے جا رہے تھے۔گلاب ،موتیا کی خوشبوؤں نے بھنوروں کو متوجہ کیا ہوا تھا۔آج کے منظر کے حسن میں جہاں ہلکی سی شوخی تھی وہیں سرمئی بادلوں نے آسمان پر غم کی طنابیں کس دی تھیں۔صبوحی کے سنہرے بال اس کے زانو پر لہرا رہے تھے ۔وہ اس کے سراپے کو نہار رہا تھا۔آج بہت دنوں بعد اس کی کھلکھلا کر ہنسی نے گواہی دی اور آخری مہر محبت فضاؤں میں ثبت ہو گئی ۔وہ کومل نازک ہاتھ جو چوڑیوں سے سجے رہتے تھے آج انجکشنز سے ہرے اور سیاہ ہو کر غم کی کہانی دہرا رہے تھے۔مخروطی انگلیوں نے انگوٹھیوں کو خیر باد کر دیا تھا۔وہی ماتمی حسن جس نے کبھی ندیم کے دل میں آبشاروں سی ٹھنڈک محسوس کی تھی اسی طرح کا حسن آج اس کے روبرو تھا کہ درد کی ایسی شدید ٹیسیں اٹھیں جس نے زندگی اور موت کو یکجا کر دیا۔ ندیم ٹک ٹک دیکھتا ہی رہ گیا گویا صبوحی کی طرح آنسو بھی اپ اپنا راستہ بھول چکے تھے۔
امی فوراً دوڑتی ہوئی آئیں ۔انا للہ وإنا إلیہ راجعون نے ندیم کو حقیقت سے آشنائی بخشی۔بے تابانہ دل نے سرگوشی کی :
” تمہیں مل گیا ٹھکانہ، ہمیں موت بھی نہ آئی! “
اس اندوہناک صدمے کو ذہن کے کسی خانے کی تلاش تھی ۔حسن و عشق کی اسی داستان کی غلام گردشوں میں وہ گھوم رہا تھا کہ تڑپ کر اس کے دل نے بھی مزید دھڑکنے سے انکار کر دیا اور جمال پرست نے اپنے جمال کی ہم قدمی کو قبول کر لیا۔.

Published inعالمی افسانہ فورمفریدہ نثار احمد انصاری

Comments are closed.