عالمی افسانہ میلہ 2019
افسانہ نمبر 81
جل پری
گلزار ملک فیصل آباد ۔پاکستان
(1)
وہ جلدی سے درخت کی اوڑھ سے نکلا اور تیزی سے بھاگنے لگا۔ رائفل بھاگنے میں ا گرچہ رکاوٹ کا باعث تھی لیکن اس لمحے اس سے بڑھ کر کو ئی سہارا بھی نہیں تھا۔ راستہ گھنی جھاڑیوں اور دلدلی زمین سے اٹا پڑا تھا۔ وہ احتیاط مگر تیزی سے قلعہ کافر کوٹ کی بوسیدہ دیواروں کی جانب بڑھ رہا تھا‘ جو اس مشکل وقت میں اسے پناہ دے سکتی تھیں۔
پیچھے عجیب و غریب آوازیں کستے ہوئے لوگوں کے بھاگنے کی آہٹیں اٹھ رہی تھیں‘ جو شائد اسے ہی ڈھونڈ تے ہوئے ادھر آ نکلے تھے خوفناک‘ کالے‘ دیو ہیکل بدنوں والے جنگلی لوگ‘ جو کسی اجنبی کی یہاں موجودگی پر برہم ہو چکے تھے اور بپھرے ہوئے سانڈوں کی مانند جھاڑیاں روندتے اس کی جانب بڑھ رہے تھے۔جنگل ختم ہوتے ہی پہاڑ کی چڑھائی شروع ہوتی تھی جو شائد اسے کسی محفوظ پناہ گاہ تک لے جاتی۔وہ بھاگتے ہوئے اب چڑھائی چڑ ھ رہا تھا۔دوپہر کا وقت تھا۔ پہاڑ کی بلندی پر آسمان خاکستری اور زمین دھند میں لپٹی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔سامنے قلعہ کافر کوٹ کی دیواریں تیز ہواؤں کے گزر نے کی وجہ سے آہیں بھر رہی تھیں۔ مسلسل اور تیز بھاگنے سے اس کے لیے سانس لینا دوبھر ہو رہا تھا۔ بیس سال پرانی خواہش کے سحر میں مبتلا اس کا وجود اب شدید مشکل میں گھر چکا تھا۔
صبح جب جوان چوری چھپے گھر سے جھیل پار جانے کے لیے نکلا تو مطلع ابر آلود تھا۔ دھند ا ور ا بر آلود فضا کے باعث جھیل کے دوسرے افق تک نگاہ نہیں پہنچ پا رہی تھی۔ بد شگونی کی ان علامات کے باوجود وہ جانتا تھا کہ جنگل میں داخل ہونے کا اس سے بہتر موقع اسے میسرنہیں ا ٓ سکتا تھا۔ جھیل کنارے رہنے والے مچھیرے اپنی اپنی جھونپڑیوں میں دبک چکے تھے جب اس نے ان کی کشتی چرائی اور جھیل میں ا ترا۔ سارے سفر میں بات بوندا باندی تک محدود رہی لیکن جیسے ہی وہ کنارے لگا طوفان کی گھن گرج نے زمین کو ہلا کر رکھ دیا۔ سرکش ہوائیں بدروحوں کی مانند فضا میں تیر رہی تھیں۔آسمان کا بادل اور بارش کے رو پ میں دھرتی کے اتنے قریب آنے کا یہ منظر اس نے زندگی میں پہلی بار دیکھا تھا۔ طوفان کے تھم جانے کے بعد وہ نشیبی علاقے کی جانب بڑھا تھا جو اس پل دلدل کا روپ دھارے ہوئے تھا۔ مدت بعد وہ ان پرانی جگہوں کو بڑی تفصیل سے دیکھ رہا تھا جنہیں بچپن میں کبھی اس نے رام دلارے کے ساتھ چوری چھپے دیکھا تھا۔ وہاں اب پرانے زمانے کی جھو نپڑیوں کا نام و نشان نہ تھا۔ ماضی کے لوگ یوں غائب تھے جیسے وہ ایک ساتھ کہیں جا چکے ہوں۔ وہ سب کہاں چلے گئے۔ وہ لوگ جو کبھی یہاٍں بسیرا کئے ہوئے تھے۔اس نے حیرت سے سوچا۔ اجڑی بستی کی ساحر عورتیں اور پرسرار جادوگر وقت کی کوکھ میں جا چھپے تھے۔ بادامی‘ سرخ بدن والی برہنہ لڑکیاں اپنے اجداد سے حاصل کئے ہوئے پرسرار علم کے زور پر بیس برس میں جیسے سرسبز و شاداب درختوں اور پھل دار پیڑ پودوں کا روپ دھار چکی ہوں۔ مٹیالی گلہریاں اور پیڑ کے مینڈک اس کے سامنے اداسی سے پھدکتے ہوئے‘ اپنی تنہا ئی پر نوحہ کناں تھے۔
ابھی وہ صحیح طرح سے اپنے گردو پیش کا مشاہدہ بھی نہ کر پایا تھا کہ اس پر یہ آفت آ پڑی اور اسے سر پر پاؤں ر کھ کر بھاگنا پڑا تھا۔اور اب اسے فقط بھاگنا تھا اور وہ بھاگ رہا تھا۔بھاگتے بھاگتے اچانک اس کا پاؤں پھسلا اس نے خود کو سنبھالنے کی کوشش کی لیکن وہ خود کو سنبھال نہ سکا اور تیزی سے ڈھلوانی راستے پر پھسلتا چلا گیا۔گرتے ہوئے رائفل اس کے ہاتھ سے نکل گئی پھر اسے لگا جیسے اس کا وجود بے انتہا طویل درد کی لہر میں سما چکا ہو۔ اس لمحے اگر چہ اسے اپنے بدن پر کوئی اختیار نہ رہا تھالیکن شعور کی بکھری تانین اب بھی اسے ماضی سے جوڑ ے ہوئے تھیں۔
٭٭٭٭٭٭٭
(2)
”نہ بھئی نہ۔۔۔ اس جانب تو منہ بھی نہ کیجیؤ۔۔۔۔“ کوئی چلا اٹھا
”کیا مطلب“
”بس کہہ دیا جو کہنا تھا اس جانب جانا تو درکنار دیکھنا اور سوچنا بھی مناسب نہیں۔ صدیوں سے وہ علاقہ مردوں اور بچوں کے لیے ممنوع چلا آ رہا ہے۔ چاند نی راتوں میں وہاں کی ساحر عورتیں نسوانی بھوک سے بے حال کسی عفریت کی مانند سروں کے بال کھولے اٹھے پستانوں کے ساتھ بین کرتی شکار کی تلاش میں رہتی ہیں“
”شکار“
”ہاں شکار۔۔ اجنبی نوخیز لڑکوں اورجوان مردوں کا شکار۔۔ مدتوں سے شائد ہمارے آبا ؤ اجداد سے بھی پہلے سے۔“ یہ سن کر نوخیز اور کچی عمر کے لڑکے ہنسنے لگے تھے ا ور ان کے ہاتھ غیر ارادی طور پر اپنے چڈوں کی جانب ایسے کھسک گئے تھے جسے کہہ رہے ہوں کہ وہ ڈالنے کے معاملہ میں سا نپ کے منہ سے بھی نہیں گھبراتے۔ ویسے بھی انہوں نے بلوغت کو پہنچتے پہنچتے روئی کے تکیوں‘ نرم گدوں اور لحافوں کے ساتھ ساتھ منجھ کی چارپائیوں کے کھردرے سوراخوں تک کو نہ بخشا تھا تو پھر وہ کسی عورت کی نسوانی بھوک سے کیسے ڈر سکتے تھے بھلے وہ کوئی جادوگرنی ہی کیوں نہ ہو۔ رام دلارے کی ہنسی تو بڑی عجیب اور معنی خیز تھی۔
”تم سب ہنس رہے ہو“ کوئی غصے سے چلااٹھا۔
”بے وقوف لڑکو۔۔ سنو۔۔ یہی نہیں وہاں آوارہ گرد کنواریاں کے علاوہ‘ برہنہ پھرنے والے سادھو‘ سانپوں کے پجاری اور پانی پوتر کرنے والے بوڑھے بھی موجود ہیں جو معصوم بچوں کی بلی چڑھاتے ہیں تا کہ ان کی عمریں طویل ہو سکیں۔ تم یقین نہیں کرو گے لیکن میں نے پرکھوں سے سنا ہے وہاں مٹیالی گلہریوں‘ پیڑ کے سبز مینڈکوں‘ بے مہار جنگلی جانوروں‘ اور سوکھے ناکارہ درختوں سے گفتگو کرنے والی برہنہ دوشیزاؤں کا بسیرا ہے جو اپنے علم کے زور پر زندگی کے محور بیضوی گوشے کو من پسند جرثومہ سے آلودہ کروانے کے لیے پردیسی مردوں کی منتظر ہیں۔ جو وہاں گیا کبھی اپنے پیاروں کے پاس واپس نہ آیا“
”بکواس“ رام دلارے کی بڑبڑا ہٹ نے اس کے کانوں کو چھوا لیکن بوڑھے کی آواز پہلے سے بھی بلند ہو چکی تھی اور وہ کہہ رہا تھا۔
” سنا تم نے نا سمجھ لڑکو۔۔ بادامی سرخ بدن والی لڑکیاں۔۔ جنگلی ناشپاتی اور خوبانی کے بدن سے بھی زیادہ سنہری بدن لیے ہوئے آسیب زدہ بھوکی روحیں‘ شکار کے لیے مردوں کے مردہ ڈھانچوں سے لپٹ لپٹ کر ساحر پھونکتیں ہیں‘ جن کی برہنہ چھاتیوں سے لپٹی موت جھیل کنارے مردوں کے خواب دیکھتی ہے اجنبی او ر جوا ن مردوں کے خواب۔ازلی ابد ی انسانی خواہش۔۔ بدنی سرنگ سے روح میں سما جانے کا آفاقی عمل۔ میں تو کہوں کہ انہیں کسی نے دیکھا نہیں اور وہ اپنی دنیاسے لا تعلق ہو ا نہیں۔
درد کی ایک لہر نے اسے جھنجھوڑ دیاایک سسکی سی اس کے لبوں سے پھوٹی اور وہ خاموش ہو گیا۔ بیتے وقت کی فلم اس کے شعور کے پردوں پر دوبارہ سے متحرک ہوگئی۔
٭٭٭٭٭٭٭
(3)
بتیس سالہ رام دلارے عجیب شخصیت کا مالک تھا کسی ایک شے سے چمٹ کر زیادہ دیر بیٹھ ہی نہیں سکتا تھا۔ ہر پل تبدیلی چاہتا‘ بدلتے موسموں کی مانند ایک ایسا جوان جو فطر ت کے ہاتھوں مجبور تھا۔ شائدخدا نے اسے ایسے ہی گھڑا تھا۔ چوری چھپے لڑکیوں سے روابط تھے جن کا اظہار کبھی کسی سے نہ کرتا لیکن پھر بھی ہر روز کسی نئے شکار کی تلاش میں رہتا۔کبھی کبھی جب موڈ میں ہوتا تو کہتا میں جھیل پار کی بدروح ہوں جس نے غلطی سے ادھر جنم لے لیا ہے۔ اسے یقین تھا کہ رام دلارے جھیل پار ضرور پھیرا لگا چکا ہوگا۔ایک روز اس نے رام دلارے پر یہ سوال داغ ہی دیا۔ ایک لمحے کے لیے تو رام دلارے بونتر ہی گیا۔ اور پھر اگلے لمحے اس کے حلق سے ایک بلند قہقہہ پھوٹا۔
” تم بڑے چالاک ہو باؤ شاد۔۔ تم بچے تو نہیں ہو سکتے۔۔واہ بھئی واہ۔۔ شہری پرونے۔۔ چند ہفتوں کے اس ساتھ میں تم وہ سب کچھ جان گئے جو میں نے کبھی آج تک کسی کو نہیں بتایا۔۔ واہ بھئی واہ۔“ کوئی اسے جھنجھوڑ ر ہا تھالیکن اس کا بدن اس کے قابو میں کہاں تھا۔۔
٭٭٭٭٭٭٭
(4)
”مدت بعد گاؤں میں لوٹے ہو بیٹا۔۔“ دالان میں بیٹھی رام دلارے کی ماں بولی تھی۔
”بیس سال بعد۔۔ اماں۔۔ بیس سال بعد آیا ہوں شہر سے ملک سے باہر گیا ہوا تھا پڑھنے کے لئے“
”خدا تمہاری عمر دراز کرے“
”رام دلارے ماں۔۔۔ بھائی رام دلارے“ خاموشی‘ طویل سناٹا‘ بوڑھی اماں کی اداس اور نم ناک آنکھوں کا شور۔۔
” مجھے اس سے ملنے کا اشتیاق ہے اماں۔۔ بے انتہا اشتیاق۔۔ وہ کہاں ہے“
”وہ چلا گیا“
”چلا گیا۔۔کہاں“
”مجھے بتائے بغیر۔۔ بس چلا گیا اپنی مرضی سے۔۔“ ایسی آوازیں جیسے کوئی سسکیا ں روکنے کی کو شش کر رہا ہو۔
”کب“
” بہت پہلے۔۔۔شائد بیس برس پہلے۔۔“
” میرے خدا اسے گئے بیس برس ہو گئے۔۔ اس نے جانے سے پہلے کچھ بتایا کہ وہ کہا ں جا رہا ہے“
” نہیں۔۔ لیکن اس کی حالت سے سارا گاؤں آگاہ تھا۔۔ اس پر جھیل پار کی کسی و حشیہ نے سحر پھونک دیا تھا۔۔۔ وہ باؤلاہو گیا تھا“
”رام دلارے میرے بچے۔۔ تو کہاں چلا گیا رے۔۔۔“ بوڑھی ماں کی چاروں اور تیرتی بین کی آواز۔جوان نے نہ آنے والے آنسوؤں کی نمی اپنی آنکھوں میں محسوس کی۔
”بس جس رات مچھیروں نے اسے جھیل پار اترتے دیکھا۔ کسی ہتھیار کے بغیر خالی ہاتھوں تیزی سے کسی نسوانی بدن کی جانب لپکتے ہوئے جو یقیناکوئی ساحرہ ہی ہوسکتی تھی تو تبھی کسی کو شک نہ رہا۔ اس پر سحر ہو گیا تھا۔ بعد میں‘میں نے ایک برا سپنا دیکھا۔ وہ وہاں کسی خوفناک مشکل میں گھر گیا تھا۔ میں اس کے لیے کچھ بھی نہ کر سکی میری اس کے لیے دراز عمری کی ساری دعائیں رائگاں چلی گئیں۔وہ زندہ واپس کبھی نہ لوٹ سکا“ بوڑھی اماں کی باتیں سن کر اسے لگا جیسے رام دلارے اس کے سامنے گھوم رہا ہو۔۔ جھیل کنارے گاؤں کی خاک اڑاتی گلیوں میں چکراتا ہو ا وہ شخص جس کی زندگی میں اچانک کوئی خوفناک تبدیلی رونما ہو گئی تھی۔ ایسی تبدیلی جو نا قابل تنسیخ اور اٹل تھی۔ بیس سال پرانہ رام دلارے اس لمحے مسکراتا ہوا اس کے سامنے کھڑا گنگنا رہا تھا۔
زما پہ خپل لالی باوردے
کہ د نیزو پہ خو کہ لاردی رابہ شینہ
(مجھے اپنے محبوب پر بروسا ہے اگر نیزوں کی نوک پر بھی گزرنا پڑے تو ضرور میرے پاس آئے گا)
بین کرتی بوڑھی اماں کی آواز آ ہستہ آہستہ سسکیوں کا روپ دھار چکی تھی۔وہ اس کے نحیف بدن سے امڈ پڑنے والے آنسو ؤں میں بہے جا رہا تھا۔ اس کے مغلوب کانپتے ہاتھ اور برستی آنکھیں اس کے قلبی جذبات کا بھرپور اظہار کر رہی تھیں۔
”کیا کوئی اسے ڈھونڈنے جھیل پار گیا“
” ہاں پورا کا پورا گاؤں۔۔خوف سے مغلوب۔۔ ہتھیاروں سے لیس۔۔ دو ہی دور سے جھونپڑیوں پرگولیا ں برساتا رہا۔۔ لیکن بعد میں تلاش کرنے پر رام دلارے انہیں وہاں نہ ملا۔۔ شائد انہوں نے اس کی بلی چڑ ھا دی“
٭٭٭٭٭٭٭
(5)
جھیل پار کا علاقہ۔۔ خوفناک بدروحوں کا مسکن۔۔ یہاں دوشیزائیں بے مہار مویشیوں کی مانند‘ تندراج ہنسوں کا سا بدن اور موروں کی سی چال میں اپنی جنس کے تازہ بادام سنبھالے گھومتی تھیں۔ کھلی فضا میں پلی مٹیاریں‘ جن کے چھاتی دار جسموں سے لیموں‘ خمیر اور گندھے ہوئے اناج کی سی مہک اٹھتی تھی۔۔
”مہک۔۔۔“ کوئی دور سے چلایا تھا
” چپکے سے باؤ شاد۔۔ ہلنا نہیں ادھر ہی دم سادھے چھپے رہنا۔۔ بس وہ پہنچنے ہی والی ہے“ فضا میں عجیب سی مہک رچی ہوئی تھی۔
زما پہ خپل لالی باوردے
کہ د نیزو پہ خو کہ لاردی رابہ شینہ
قریب ہی سے کسی نسوانی آواز کی تان اٹھی اور فضا میں جیسے کسی نے سحر پھونک دیا۔ جو شے جنگل میں یہاں تھی وہیں ساکت ہو گئی۔ جھیل سے نکلی جل پری جس کے برہنہ بدن پر پانی ستاروں کی مانند چمک رہا تھا۔گردن کے نیچے قیامت خیر ابھار جن کے مرکز میں سیاہی مائل کوہانیں اس پل دودھیا روشنی میں کسی آبی پرندے کی چونچ کی مانند تنی کھڑی تھیں۔
زما پہ خپل لالی باوردے
اس کے پاؤں کے لمس سے پگھلتی دھرتی۔۔ اور ایک بے چارہ دس گیارہ سالہ بچہ۔۔
”اوں ۔۔ہوں باؤ شاد دم سادھے رکھو۔۔دیکھ لیے گئے تو قیامت آجائے گی۔۔ باؤشاد۔۔ پھلوری ٹھکرائین۔۔ اس جھیل کی جل پری۔۔ میں نے اسے دیکھ کر اپنے طور یہ نام دے دیا تھا۔رام دلارے نے چپکے سے اس کے کان میں کہا تھا۔۔ وہ آدم زاد تو ہو ہی نہیں سکتی تھی۔۔ اس نے بچپن کے حجاب کو نظر انداز کر کے اس لمحے سوچا تھا۔ یقینا دیہاتی درست کہتے تھے۔ وہ کسی دوسرے جہان سے آئی ہوئی کوئی بھولی بھالی ساحرہ ہی ہو سکتی تھی جو اپنی خوبصورتی سے آگاہ نہ تھی ورنہ ضرور آدم زاد کی میلی نگاہ سے بچنے کے لئے ا پنے جسم کو سو پردوں میں چھپا کر رکھتی۔۔۔” جل پڑی“ اس کے لبوں سے پھوٹا۔۔ کسی نے اسے جھنجھوڑااور اس نے آنکھیں کھول دیں۔
٭٭٭٭٭٭٭
(6)
جب اسے ہوش آیا تو وہ پہچان نہ پایا کہ اس لمحے وہ کہا ں تھا۔ابھی تک اس کا سر چکرا رہا تھا۔اس پر خوف چھانے لگا تھا تمام احسا سات اور تمنائیں جنھیں لے کر وہ چلا تھا اسے خیر باد کہتی نظر آرہی تھیں۔اس کے ہاتھ پیر بندھے ہوئے تھے معاملے کی نوعیت اس کی سمجھ میں آچکی تھی۔اس وقت وہ دشمن کے رحم و کرم پر تھااور قوی اعصاب اور ثابت قدمی ہی اب اسے اس مصیبت سے اسے چھٹکارہ دلا سکتی تھی۔ اس کے اردگرد تاریکی کا راج تھا اسے اندازہ نہ تھا کہ رات کتنی گزر چکی ہے اور پھر پتہ ہو بھی تو کیا فرق پڑتا ہے شائد آج کی رات اس کی زندگی کی خوفناک ترین رات تھی یا شاید آخری بھی۔۔ اس نے سوچا کافی دیر کی جدوجہد کے بعد وہ دیوار کے ساتھ ٹیک لگانے میں کامیاب ہو سکا۔ایک طرف موجود سوراخ سے آتی چاندنی جھونپڑی کی تاریکی سے برسر پیکار تھی۔ اس نے خود کو روشنی کی جانب متحرک کیا۔اس کا پورا بدن بری طرح زخمی تھا لیکن ہڈی وغیر ہ کے ٹوٹنے سے وہ بچ گیا تھا۔ پتہ نہیں کتنی دیر وہ دم سادھے وہاں پڑا رہا۔ تبھی کھٹکا ہوا۔جھونپڑی کا دروازہ کھلا۔ اس کے سا منے تاریکی میں کوئی کھڑا تھا۔ پھر وہاں پڑی لکڑیوں کو آنے والے شخص نے آگ دکھائی۔ مدھم روشنی میں اجنبی بوڑھے کی بے ترتیب داڑھی اور بڑی بڑی مونچھوں نے اس کے چہرے کو خوفناک بنا رکھا تھا۔
کچھ دیر یونہی گزر گئی پھر جنگلی بوڑھا اس کے قریب آیا اور بغور اس کے چہرے کو گھورنے لگا۔
”تم یہاں کیوں آئے ہو“ اس نے جواب میں تامل برتا۔
” بدقسمت جوان! تم اپنی موت کو چھو رہے ہو“ بوڑھے کی بات سن کر اس کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا وہ جملے میں مو جود ہمدردانہ پن کو محسوس کر سکتا تھا۔
”وہ تمھیں کسی روز جھیل کنارے درخت سے لٹکا دیں گے“
” کک۔۔کیوں۔۔ میں نے ایسا کون سا جرم کیا ہے“ اس کے منہ سے بس یہی نکلا۔
”انہوں نے مجھے مارنا ہی ہوتا تو وہیں قلع کافر کوٹ میں ہی کسی پہاڑ سے نیچے دھکیل چکے ہوتے“
”وہ زخمی کو نہیں مارتے۔۔ جب تک تمہارے زخم بھر نہیں جاتے موت تم سے دور رہے گی“
”لیکن میں نے ایسا کیا کیا ہے۔۔“
”تم نے کیا کیا ہے۔۔۔ بوڑھا بڑ بڑایا۔۔۔ تم نے کچھ نہیں کیا با لکل تم نے کچھ نہیں کیا ۔۔۔ ایسا کرو تم فورا یہاں سے بھاگ جاؤ۔“ اس نے حیرانی سے بوڑھے کی جانب دیکھا۔ یہ فیصلے کا وقت تھا اس نے اپنے اعصاب کو قابو میں رکھا اس کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔ اس انجان جگہ پر ایک ہمدرد کی موجودگی اسے اپنی منزل سے قریب ترکر سکتی تھی اور یقینا بوڑھا رام دلارے کو تلاش کرنے میں مدد فراہم کر سکتا تھا۔
”تم یہاں کسی لڑکی کی چاہت میں آئے ہو“
”نہیں“
”پھر“
”پھلوری ٹھکرائین۔۔۔ رام دلارے۔۔“
بوڑھا خاموشی سے اسے گھورنے لگا جیسے کچھ سمجھا نہ ہو۔
”بڑے میاں مجھے۔۔۔۔“ بوڑھے نے اس کی بات درمیان ہی میں کاٹی اور غصے سے کہا۔
”دفعہ ہو جاؤ،، یہاں سے فورا۔۔۔ سنا تم نے۔۔“ بوڑھے کی آنکھوں سے چنگاریاں پھوٹ رہی تھیں لیکن و ہ چپ سادھے اپنی جگہ پر ٹس سے مس نہ ہوا۔
آخر کافی و قت گزر گیا۔ بوڑھا اب بے چارگی محسوس کرنے لگا تھا۔ تبھی وہ گویا ہوا۔
” وہ لڑکی مرگئی۔۔اب تو اس بات کو بھی ایک مدت ہو گئی۔ ڈوب گئی جھیل میں۔۔ُُ
”کیا کہتے ہو بڑھے میاں۔۔ وہ کیسے ڈوب گئی وہ تو جل پری تھی“
”سب یہی کہتے تھے۔ کسی کو یقین نہیں آیا تھا۔ خدا قسم آبرو باختہ ہوکر اس روز جب وہ جھیل میں اتری تو پہلے پہل اس کی ہم جولی مچھلیاں بھی نہ سمجھ پائیں کہ وہ ڈوب جائے گی۔ صبح تک وہ سب اسی یقین کے ساتھ اس کی لاش کے گرد چکراتی رہیں کہ وہ مری نہیں زندہ ہے لیکن جب کوئی اتنی گہری جھیل میں یوں اترے کہ اس کے ہاتھ پاؤں ساکت رہیں تو کیسے کوئی ذی روح ڈوبنے سے بچ سکتی ہے۔ بس ڈوب گئی۔۔ خاموشی کے ساتھ۔۔ ہمیشہ کے لیے کسی کے پیار میں۔۔“
بوڑھا دکھی لہجے میں لفظوں کے نقش ہائے موج چھوڑتے ہوئے بڑ بڑا رہا تھا۔ جبکہ خود اس کی حالت بھی کچھ زیادہ بہتر نہ تھی۔ اس کے شعور کے پر دے پر اس لمحے ٹھکرائین کی ایک واضح تصویر ابھر آئی تھی۔وہ اس کے خوبصورت بدن‘ چہرے اور اس کی آنکھوں کو ا سی طرح دیکھ پا رہا تھا جیسے وہ بیس سال پہلے کی ایک دوپہر میں اس کے سامنے برہنہ کھڑی ہو۔
”اس نے ایسا کیوں کیا“
”رام دلارے کی وجہ سے“
”رام دلارے کی وجہ سے“۔۔ وہ اچھل پڑا
”ہاں رام دلارے کی وجہ سے جو اس کے سارے قبیلے کی بربادی کا باعث بنا۔۔ اس کا محبوب جس کے بغیر جینا اس کے لیے ممکن نہ تھا۔اس لیے موت ہی آسان ترین راستہ تھا۔ وہ قیامت کی صبح تھی‘ جب انجانی آفت نے اس بستی کو اپنی لپیٹ میں لیا۔بوڑھا بڑ بڑایا۔ اس کی نگاہیں دور کہیں تاریکی میں معلق تھیں۔ دشمنوں کا پورا جتھا تھا ہتھیا روں سے لیس۔۔ انہوں نے پہلے پہل دور ہی دور سے بستی پر گولیاں برسائیں۔ بعد میں انہوں نے جھونپڑیوں کی تلاشی لی پھر ناکامی کے بعد بچ جانے والی عورتوں اور مردوں کو قتل کیا۔ ساری بستی قتل گا ہ کا روپ دھار گئی۔ وہ بلند ا ٓ واز سے کسبی عورتوں‘ جادوگروں‘ اور برہنہ دوشیزاؤں کا ذکر کرتے اور گالیاں دیتے رہے شام ڈھلے جب وہ واپس لوٹے تو پیچھے چھوڑ گئے بیسیوں لاشیں‘ بوڑھے مرد اور چند آبرو باختہ دوشیزائیں۔۔ یہ سب بیان کرتے ہوئے بوڑھے کی آنکھیں آنسو ؤں سے بھیگنے لگیں۔
”بس وہ لڑکی بھی انھیں کی بھینت چڑھی“
”یہ ممکن نہیں وہ ایسا نہیں کر سکتے۔۔۔“ جوان کے منہ سے نکلا
”باؤ۔۔۔وہ دیہاتی لوگ ۔۔ صدیوں کے خوف میں مبتلا عجب لوگ تھے۔ شاید اجداد کی مبالغہ آرائی‘ حیران ہونے کی بے پناہ استعداد اور ناقابل فہم سادہ پن نے انھیں گمراہ کر رکھا تھا اور وہ نہیں جانتے تھے کہ ان کے خوابوں کا جزیرہ بھی انہیں ہی کی طرح کا تھا ذرہ بھی مختلف نہیں۔دھوپ چھا ؤں سے اٹا ہوا۔ بوڑھا یہ کہہ کر خامو ش ہو گیا۔ آخر ہمت کرکے اس نے وہ سوال داغ ہی دیا جس کے لیے اس نے جان جوکھوں میں ڈالی تھی۔
”وہ۔۔۔۔ مادر زاد۔۔۔ عاشق“
”اسی کی وجہ سے تو یہ قیامت برپا ہوئی تھی۔ خدا س پر اپنی رہمت کا سایہ کرے“
”تو کیا وہ بھی۔۔۔“ یوں جیسے کسی نے اس کا کلیجہ اپنی مٹھی میں جھکڑ لیا ہو۔ لیکن بوڑھے نے مزید کچھ نہ کہا۔روشنی کی مدھم کرنیں فرش پر رقصاں تھیں۔ وہ سانس روکے سرد ہوتے جذ بوں کو محسوس ک ر سکتا تھا۔ سب ختم ہو چکا تھا۔ اب یہاں ٹھہرنا فضول تھا۔ اچانک بوڑھا اپنی جگہ پراچھلا اور پھر جلدی سے اس کے ہاتھ پاؤں کھولنے لگا۔
” تم یہاں سے بھاگ جاؤ۔۔ فورا“
جب وہ وہاں سے نکلے تو پیچھے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں شدت اختیار کر چکی تھیں۔ جب سورج نے اپنی اکلوتی آنکھ سے پلکیں اٹھائیں تو وہ دونوں جھیل کنارے کھڑے ایک د دوسرے کو الوداعی نگاہو ں سے دیکھ رہے تھے لیکن ایک آخری سوال ابھی باقی تھا آ خر ہمت کرکے اس نے وہ سوا ل بھی بوڑھے سے کر دیا۔
” کیسے جانتا ہوں میں ا نہیں باؤ شاد۔۔ پھلوری ٹھکرائین اور رام دلارے کو۔۔ یہ تم کہہ رہے ہو۔۔ عجیب بات ہے بڑی عجیب بات۔۔“ اس کا جواب سن کر جوان اجنبی کا بدن سن ہو کر رہ گیا۔ پھر اس نے نم ناک نگاہوں سے بوڑھے کی جانب بغور دیکھا اورفورا آ گے بڑھ کر اس سے لپٹ گیا۔ جب وہ دونوں اپنے آپ کو سنبھال چکے توجوان کے منہ سے نکلا۔
”ماں کا کیا ہوگا“ بوڑھے کے بدن کو جھٹکا سالگا اور وہ سسکتے ہو ئے بولا
”رام دلارے بہت برا آدمی تھا با ؤ شاد۔۔ بہت برا۔۔ اس کے کارن کتنے گھر برباد ہوئے۔“
”رام دلارے واپس نہیں آ سکتا۔۔“ واپسی کے لیے مڑتے ہوئے اس نے ایک بار دوبارہ التجا کی۔
” بس باؤ شاد۔۔۔“ وہ آپے سے باہر ہوگیا۔۔
” بلوے کے بعد۔۔ اس رات جھیل میں ڈوب کر ایک نہیں بیک وقت دو موتیں ہوئیں۔۔ ماں کو جا کر بتا دینا“ جوان نے مایوسی سے بوڑھے کی پشت کی جانب دیکھا جو انتہائی دکھی لہجے میں گنگناتا ہوا جنگل میں غائب ہو رہا تھا۔
زما پہ خپل لالی باوردے