Skip to content

جل پری

عالمی افسانہ میلہ 2020

افسانہ نمبر 11

جل پری

کنول بہزاد ۔ لاہور ، پاکستان

گہری ھوتی شا م سمندرکے فسوں کوبڑھا رھی تھی۔ ساحل سمندرپہ پکنک منا نے والے منچلےدھیرےدھیرےواپسی کے لیے پر تول رھے تھے۔ دور افق پر سورج سمندر میں غوطہ زن ھونے کو تھا۔ ملاحوں کی کشتیاں بھی بےتابی سےساحل کی طرف گامزن تھیں۔۔۔ مگر اسے کہیں جا نے کی جلدی نہ تھی لہٰزا آتی جاتی لہروں پر نظریں جمائےوہ دیر تک یونہی بیٹھا رہا۔ آہستہ اہستہ جیسے ساری آوازیں پس منظر میں چلی گئیں بس ایک لہروں کا شوراس کی سماعتوں میں جلترنگ بجاتا رہا۔۔۔ شوریدہ لہروں کا ساحل تک آنا۔۔۔ اس کے قدموں سے لپٹنااور پھر واپس چلے جانا۔۔۔”جانے کب سے یہ لہریں یونہی سر پٹخ رہی ہیں اور مجھ سے کیا چاہتی ہیں۔۔۔” اسے یوں محسوس ہوا جیسے ان لہروں سے اس کا جنم جنم کا رشتہ ہے۔۔۔ “مگر رشتہ تو میرا اور بھی کئی۔۔۔” پھراس نےسر جھٹک دیا۔ تلخی اس کے دل میں لبالب بھر گئی۔ وہ یونہی اٹھ کرایک سمت کو چل دیا۔ ذرا دور سامنے پتھر پہ ایک مورت ایستادہ تھی۔ وہ کچھ فاصلے پرٹھٹھک کر رک گیا۔”جل پری!۔۔۔”اسے دیکھ کرپہلا خیال یہی آیا۔ سمندر کا ھم رنگ لباس پہنےوہ حسن و دلکشی کی مثال تھی۔ لانبے سنہری بال ہوا سے اڑ کر اس کے رخساروں کو چھو رہے تھے۔ کتنے ڈھیرسارے لمحےاس کےقدموں تلے پھسلتی ریت کی مانند سرک گئے۔ اسے محسوس ھوا کہ اگر اس نے ذرا بھی کھٹکا یا آواز پیدا کی تو جل پری سمندر کی گہری اور پراسرار دنیا میں واپس چلی جائے گی۔ جانے کس احساس کے تحت اس حسیں مورت نے ایک لمحے کے لیے اس کی طرف دیکھا اور پھر ساکت و صامت ھو کر سمندر کو تکنے لگی۔ ” تو کیا اسے میری موجودگی کی ذرا بھی پروا نہیں۔۔۔اکثر ایسا کیوں ہو تا ہےکہ میرے ہو نے نہ ھونے سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔” اس نے خود کلامی کی۔ وہ واپسی کے لیے مڑا پھر جانے کس کشش کے تحت وہ اس مورت کے با لمقا بل جا کھڑا ھوا۔ “آپ میرے اور سمندر کے درمیاں حائل ھو رہے ھیں۔۔۔” جل پری کے ھونٹ ہلے اور ایک بے حد خوبصورت آواز نے اس کی سماعتوں میں رس گھولا۔ اسے محسوس ہوا یہ آواز سننے کے لیے وہ صدیوں سے بے قرار تھا۔اس کے دل پر جیسے ایک پھوار سی برسنے لگی۔

“رات گہری ھو رہی ہے۔۔۔آپ کا یوں اکیلے یہاں بیٹھے رہنا مناسب نہیں” اس نے خود کو کہتے ہوئے سنا۔

“جن کے جیون میں ازل سے رات ٹھہری ھوان کے لیے اندھیروں کے پھیلتے سائے کوئی معنی نہیں رکھتے۔۔۔آج تو ویسے بھی پونم کی رات ہے” جل پری کی جادو بھری آواز پھر ابھری۔

“پونم کی راتوں میں سمندر کی لہریں بڑی سر کش ہو جاتی ھیں میری ما نیں۔۔۔”

“آپ کون ھیں جس کی بات میرے لیے ماننا ضروری ہے۔۔۔” جل پری نے اس کی بات مکمل نہ ہونے دی۔”

“جس طرح آپ کا سمندر سے گہرا سمبندھ ہے ویسے ہی میں بھی بظاہر سمندر سے جدا مگر حقیقتاً اس سے جڑا ہوں۔۔۔۔” وہ جواباً گویا ہوا۔

“آپ میرے اور سمندر کے گہرے سمبندھ کے بارے میں کیسے جا نتے ہیں۔۔۔۔ یہ بات تو میں خود کو بھی بتا نے سے گریزاں رہتی ھوں” جل پری واضح طور پہ مضطرب دکھائی دی۔

“دراصل آپ کو دیکھ کر جو پہلا خیال میرے دل میں آیا وہ یہ تھا کہ کوئ جل پری سمندر

کی گہری پراِسراردنیا سے اکتا کر کچھ دیر کے لیے ساحل پہ آ گئ ہے سو ایک جل پری کا تو سمندر سے گہرا رشتہ بنتا ہے” جل پری بے اختیار کھلکھلا کر ہنس دی۔

“کہیں آپ شاعر تو نہیں۔۔۔ویسے آج بہت دنوں بعد مجھے اپنی ھنسی کی آواز سنائی دی۔۔۔”

“کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں؟”جل پری کے قریب پڑے پتھر کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے اس نے سوال کیا۔

“ھاں بیٹھ جایئے۔۔۔مگر اب آپ کوئی بات نہیں کریں گے۔۔۔”

“بات نہیں کروں گا تو آپ کی آواز کیسے سن پاوں گا۔۔۔” وہ بے اختیار بولا۔ “شش۔۔۔” جل پری نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر چپ رہنے کا اشارہ کیا۔

چاند دھیرے دھیرے آسمان پر اپنا تسلط جما رہا تھا۔ سمندر کی لہریں شور مچاتی کسی برہن کی طرح سر پٹخ رہی تھیں۔ سمندر کا طلسم اپنے پورے جوبن پر تھا۔ چاند کسی ہرجائی کی طرح یہ نظارہ مسکراتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ اس جادو نگری میں پتھر پہ بیٹھی جل پری ایک بار پھر کسی مجسمے کی طرح دکھائی دیتی تھی۔ وہ دم بخود بیٹھا اپنے دل کی دھڑکنیں بخوبی سن سکتا تھا۔ جو محبت کا الوہی گیت الاپنے پر مصر تھیں۔ وہ کچھ فاصلے پر بیٹھے وجود سے ایک اَن دیکھی ڈور میں بندھ چکا تھا۔ دونوں کی خاموشی جیسے ایک دوسرے سے مخاطب تھی۔ اچانک ایک سر کش لہر انہیں آدھا آدھا بھگو گئی۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا اور ساکت و صامت بیٹھی جل پری کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا۔ “آئیے چلیں۔” “یہ کب طے ہوا تھا کہ ہم یہاں سے ساتھ جائیں گے۔” جل پری کے لہجے میں اچانک اجنبیت عود کر آئی۔

اس کا بڑھا ہوا ہاتھ خود بخود واپس پلٹ گیا۔ اور اس نے جانے کے لیے قدم بڑھا دیے۔ مگر ایک عجیب احساس اسے بار بار مڑ کر جل پری کو دیکھنے پر مجبور کرتا رہا حتیٰ کہ اس کی شبہیہ نکتے میں ڈھل کر آہستہ اہستہ معدوم ہو گئی۔

کتنے ڈھیر سارے دن جل پری کا خیال اسے ستاتا رہا۔ کبھی کبھی اسے لگتا یہ سب ایک واہمہ تھا۔۔۔یا شاید اس کا تخیل۔۔۔حقیقت میں وہ کہیں نہ تھی۔ مگر جب وہ قلم ہاتھ میں پکڑتا تو جل پری اشعار میں ڈھل جاتی۔۔۔برش اٹھاتا تو کینوس پر اس کے جیتے جاگتے نقوش ابھرنے لگتے۔ “میں دوبارہ وہاں جا کر اس سے ضرور ملوں گا” آخر اس نے تحیہ کر لیا۔ مگر اگلی صبح اسے بخار نے آن لیا۔ نقاہت کے باعث بستر سے اٹھنا محال ہو گیا۔ اس چھو ٹے سے فلیٹ میں وہ تنہا موت سے نبرد آزما رہا۔ تین دن یونہی گزر گئے کہ اچانک اسکا ایک پرانا دوست آ نکلا۔ یوں اس کی جان تو بچ گئ مگر وہ ہنوز بستر پہ تھا۔ ایک دن اس کا دوست جل پری کی تصویر دیکھ کر چونک اٹھا جو اس نے بیماری سے پیشتر مکمل کر لی تھی۔

“کیا محض تخیل اتنا خوبصورت اور مکمل ہو سکتا ہے۔۔۔!”

اسکا دوست انگشت بد نداں تھا۔

“یار۔۔۔ اس تصویر کے تو تمہیں منہ مانگے دام مل سکتے ہیں۔۔۔۔یہ تو تمہارے کیریئر کا سنگِ میل ثابت ہو سکتی ہے۔۔۔”

دوست مزید گویا ہوا۔

“نہیں۔۔۔۔۔یہ بیچنے کے لیے نہیں ہے۔۔۔۔۔۔”وہ تڑپ کر بولا۔

کئ دن بعد اس کی طبیعت بہتر ہوئی تو وہ بستر سے اٹھ کھڑا ہوا۔ آئینہ دیکھا تو خود کو پہچان نہیں پایا۔ شیو کی نہا کر کپڑے بدلےاور دیر تک آئینے کے روبرو کھڑے ہو کر بال سنوارتا رہا پھر جل پری کی تصویر تھام کر باہر کی جانب قدم بڑھائے۔ یہ تصّور ہی کس قدر خوش کن تھا کہ جل پری اس کی منتظر ہو گی اور اپنی تصویر دیکھ کر حیران ہو جا ئے گی۔۔۔تب ضرور اسے میرے اور اپنے اٹوٹ بندھن کا ادراک ہو گا۔۔۔۔۔اس کے دوست کی اچانک آمد نے اس کے خیالات کا تسلسل توڑ دیا۔ وہ ہاتھوں میں اخبار تھامے ہوئے تھا اور پریشانی اس کے چہرے سے مترشح تھی۔

” یار ساحل۔۔۔یہ تصویر دیکھو۔۔۔اور۔۔۔یہ خبر پڑھو۔۔۔۔۔۔۔۔”

اس کے دوست نے صفحہ اوّل پر موجود شہ سرخی اور تصویر کی طرف اشارہ کیا۔ وہاں جلی حروف میں لکھا تھا۔۔۔

“شہر کے مشہور صنعت کار کی اکلوتی بیٹی کا سمندر میں کود کر اقدام خودکشی۔۔۔۔یاد رہے مرحومہ کی والدہ کی لاش بھی کئ سال پیشتر ساحلِ سمندر سے ملی تھی۔ ان کی موت کو حادثہ قرار دے کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”

“جل پری۔۔۔۔” ساحل کے ہونٹوں سے ایک سسکی برآمد ہوئی اور تصویر ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے جا گری۔

Published inعالمی افسانہ فورمکنول بہزاد

Comments are closed.