[stextbox id=’custom’ caption=’زارا مظہر’ bgcolor=’f79c9c’ bgcolorto=’ffda54′]افسانے کے سحر نے بری طرح جکڑ لیا ۔۔۔ ذرا اسے اچھی طرح محسوس کر لوں ۔۔ایک دفعہ اور پڑھ لوں ۔۔ جابجا خوبصورت جملے اپنی گرفت میں لیتے رہے ۔۔۔ جیسے شہر آ کر ہماری روحیں سارنگی سے طبلہ بن گئیں ۔۔۔ ساحر افسانہ ۔۔۔[/stextbox]
[stextbox id=’custom’ caption=’ناصر صدیقی’ bgcolor=’7eb9fc’]
افسانہ پڑھنے سے پہلے جب میرے بہت ہی محترم دوست جی۔حسین نے یہ کہا کہ:آج تک پیش کئے گئے افسانوں میں سب سے اعلی افسانہ۔ فصاحت و بلاغت اور بلند ترین خیالی کے عروج پر پہنچا ھوا افسانہ۔تو میں سمجھ گیا کہ کیسا افسانہ ہوگا ۔میں پہلی بار محترمہ نگہت سلیم کا کوئی افسانہ پڑھنے لگا تھا۔اور جب پورا پڑھ لیا تو فخر محسوس ہوا کہ ایک افسانہ پڑھ لیا اور میرے محترم دوست نے سچ سے بھی زیادہ سچ کہا ہے
[/stextbox]
نگہت نے آزاد تلازمہ خیال کی تیکنیک کو آپ بیتی ،روداد نویسی اور خود کلامی کی تیکنیکوں میں پیوست کر کے افسانہ تراشا ہے۔تشبیہات،تلمیحات سے لبریز نثر شاعرانہ حسن سے مملو ہو گئ ہے اور زمان و مکان سے ماورا افسانوی فضا قاری کو ایک ایسی مانوس وادی میں لے جاتی ہے جو اس کے لاشعور میں بسی ہونے کی وجہ سے اجنبی ہونے کے باوجود اس کے ذہن و دل میں سانس لیتی محسوس ہوتی ہے۔
نگہت نے قدرت کے قاہرانہ انداز کوجس انداز سے مجسم کیا ہے وہ دلدوز بھی ہے اور دل آویز بھی۔زلزلے کے آنے سے پیدا ہونے والی تباہی اور ہست کے نیست ہونے کے مناظر کوعمدگی سے عکس بند کیا گیا ہے۔
جشن مرگ کا مرکزی موضوع محبت ہے۔نگہت نے محبت کی مختلف جہات کو فنی مشاقی سے الفاظ کی صورت میں ڈھالا ہے۔دادا کی پوتے سے محبت ہو یا اجنبی کی نوجوان لڑکی سے محبت۔نگہت نے ہجر کی تمازت کوسہتے کرداروں کا المیہ تخلیقی رچائو میں بسی نثر میں عمدگی سے بیان کیا ہے
بلاشبہ افسانہ نگار کی زبان و بیان پر قدرت افسانے کے حرف حرف اور سطر سطر سے عیاں ہے۔
عموماً اس نوعیت کا بیانیہ میں نے ناولوں میں دیکھا ہے۔ بلکہ اگر حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو اب بھی افسانے میں ناول بننے کی پوری پوری صلاحیت موجود ہے۔ جہاں پر اختتام ہوا ہے وہیں سے دوبارہ آغاز کر کے کہانی، کرداروں اور واقعات کی آمیزش سے ایک عمدہ ناول تخلیق کیا جا سکتا ہے۔
ناول کا میں نے اس لیے کہا کہ عموماً افسانہ ایک خیالِ مسلسل کو لے کر ا گے بڑھتا ہے اور عموما اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ خیال دو لخت نہ ہو پائے۔ یہاں بات دادا کے روزنامچے سے شروع ہوئی کہ جس کی خواہش تھی کہ اُس کا پوتا اُس کے آبائی گاوں جا کر اُسے جانے اور سمجھے۔ مگر جب وہ وہاں پہنچتا ہے تو وہ گاوں زلزلے کا شکار ہو جاتا ہے البتہ دادا کے روزنامچے میں موجود ایک کردار اُسے ضرور مل جاتا ہے جس کے بقول یہ ساری تباہی اُس کی بدعا کا نتیجہ ہے۔
اب افسانے کی ساری کہانی جس کا آغاز دادا کے روزنامچے کے مندرجات کی تکمیل اور گاوں کی زلزلے میں تباہی کی صُورت میں آگے بڑھی تھی، اس مقام پر آ کر قاری کو تذبذب کا شکار کر دیتی ہے اور افسانے کا پلاٹ بھی قدرے دو لخت ہوتا محسوس ہوا اور اختتام (گو کہ یہ افسانہ ازخود غیر معمولی طوالت کا حامل ہے) کے باوجود ادھورا ادھورا سا محسوس ہوتا ہے۔
ذاتی طور پر مجھے ایک افسانے سے کہیں زیادہ یہ ایک طویل اور نہایت ہی دلچسپ ناول کا پیش خیمہ زیادہ محسوس ہوا۔
میں سمجھتا ہوں کہ اس اِس کہانی کا مزید پھیلاو دے کر اُس میں واقعات اور کرداروں کا شامل کر لیا جائے تو ایک اچھا ناول جنم لے سکتا ہے۔
ویسے کسی بھی طور کی مشابہت نہ ہونے کے باوجود بھی مجھے یہ افسانہ پڑھتے ہوئے مرزا اطہر بیگ کے مشہور ناول “غلام باغ” کی فضا یاد آ گئی اور اِسی بات نے مجھے ناول والی بات کہنے پر مجبور کیا۔
میری جانب سے فاضل افسانہ نگار کو ڈھیروں داد و تحسین اور نیک خواہشات۔[/stextbox]
بہت داد[/stextbox]
[stextbox id=’custom’ caption=’فرحین جمال’ bgcolor=’e9ff57′ bgcolorto=’eafcc0′]” جشن مرگ “
افسانہ زبان و سلاست ،الفاظ کے رچاؤ ،جملوں کی بنت ،خیال کی رنگینی ،فکر کی وسعت ، کہانی کی ندرت ، پلاٹ کی مضبوطی ،جزیات نگاری اور منظر نگاری کی اوج کا مظہر ہے _ میں تو افسانہ پڑھ کر ایک ایسے سحر انگیز ماحول میں پہنچ گئی جس میں اس سر زمین پر صدیوں پہلے آریائی اور منگول قوم کے لوگ زندہ چلتے پھرتے نظر آتے ہیں _ آج کے زمانے کا نوجوان جب اس جادوئی زمین پر پہنچتا ہے تو وہ اپنی سدھ بدھ کھو بیٹھتا ہے اور دادا کے روزنامچے میں جینے لگتا ہے _ توتک کے سحر انگیز سر ،رات کی مسحور کن فضا ،منگول اور آریائی کی موجودگی افسانے کی فضا کو زمین سے پرے کسی اور دنیا میں ہی لے جاتے ہیں_
پورا افسانہ ایک آریائی کی محبت ،منگول لڑکی کی بے وفائی اور منگول تاجر کی عیاری کی داستان ہے جہاں حثیت اور پیسے نے محبت کو شکست دی _بہت ہی عام سی کہانی ہے اور صدیوں سے ایسا ہوتا چلا آیا – محبت ہار جاتی ہے لیکن عاشق کی روح تو اسی موڑ پر کھڑی ہے جہاں محبوب نے ہاتھ چھوڑا – اس کی ذات اس دکھ کو جھیل کر عرفان کی منزل کو پا گئی _ عشق سچا ہو تو بدل جاتی ہے دل کی دنیا _
لیکن ایک بات جو میں سمجھ نہیں پائی وہ عاشق کی بد د عا ہے جس کا اس نے بیس سال انتظار کیا _ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ ”جو د عا یا بد د عا ” ہم کسی اور کو دیتے ہیں وہ سب سے پہلے ہمارے حق میں قبول ہوتی ہے _” کیا تین سو سے زیادہ افراد کی قربانی اس کی تپسیا کا پھل تھی _
سچا عاشق کبھی بد عا نہیں دیتا – اس کا عشق روحانی منازل طے کرتا جاتا ہے وقت کے ساتھ ساتھ اور پھر وہ اس مقام تک جا پہنچتا ہے جہاں “میں او تو ” کی کوئی حثیت نہیں رہتی – معشوق کی روح عاشق کے قالب میں ڈھل جاتی ہے _ایک جسم دو جاں _ تو پھر کیا اس کا دکھ غضب الہی کو جوش میں لے آیا اور بستی والوں کو نیست و نابود کر دیا گیا ؟؟
اساتذہ سے گزارش ہے کہ اس افسانے کی گتھیاں سلجھائیں ..
یہاں آ کر افسانہ روحانی سطح سے دنیاوی سطح پر آ گیا _
“اس لئے آرام دہ زندگی کی خاطر ہم نے بڑے شہر کا رخ کیا جہاں ھماری روحیں سارنگی سے طبلہ بن گئیں”۔ بہت ہی عمدہ جملہ _ سار نگی دھیمے سروں میں بجتی ہے اور طبلہ تھاپ دیتا ہے _ تھاپ پر رقص کیا جا سکتا ہے _
اس کو میں یوں سمجھی کہ گاؤں میں زندگی سکون کے سروں میں بجتی سارنگی تھی اور شہر آتے ہی طبلہ کی طرح تھاپ دینے لگی یعنی ناچا ڈالا _
پورا افسانہ ہی تخلیقی جملوں،تماثیل اور استعاروں سے مزین ہے _[/stextbox]
[stextbox id=’custom’ caption=’انور ظہیر رہبر’ bgcolor=’b682ff’ bgcolorto=’e7cfff’]
[/stextbox]
Be First to Comment