Skip to content

جس تن لاگے

عالمی افسانہ میلہ 2021
پہلی نشست
افسانہ نمبر 11
جس تن لاگے
ثمینہ سید
لاہور ۔ پاکستان

سرد ہوا بالوں کی لٹیں نکالتی اور شرارتیں کرتی جارہی تھی.میں کانوں کے پیچھے اڑستی تو لٹ پورے زور سے بپھر جاتی. کپڑے کہیں کے کہیں اڑ رہے تھے.وجود میں سامنے پھیلے تاحدِ نگاہ دریا کی لہروں جیسا شور تھا.ایک لمحے کو تو دل چاہا خود کو اس کے سپرد کردوں .یہ بھی تو دیکھے میری”خود سپردگی” یہ بھی تو ہار سے شناسائی پائے.لہروں کو ادھر سے ادھر کرنے کو ہی کام سمجھا ہوا ہے اس نے.یہ جو قد بت کے اندر قید وجود ہے اس کو بنا سنوار کے ,بت کے اندر سمیٹ کے رکھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے.یہ کارِدشوار میں نے کیا ہے تمام عمر.اس دریا کو تو لوگوں نے بند باندھے ہیں. ان لوگوں نے….. جنہوں نے میرے سرے بند توڑ دئیے.شرافت کے, انا کے, غرور کے, مان کے…… حتیٰ کہ……
ایک لمحے میں میری نفرت دریائے کنہار کے پھیلاؤ سے کہیں زیادہ ہوگئی.
میں وجود کے کھیل سے سرتاپا سلگ چکی تھی اس کو قابو میں کرنے کی کوشش میں ٹوٹ پھوٹ رہی تھی. اسی لیے گھر ,اور اپنے شہر سےدور شائستہ کے پاس ایبٹ آباد چلی آئی. وہ تو مجھے دیکھ دیکھ کے اڑی پھرتی .پھولے نہ سماتی .ہاتھ سے پکڑ کے پاس بٹھا لیتی اور باتیں کرتی جاتی.یوں بولتی جیسے اس کو پہلی بار سننے والا میسر ہوا ہو.اور میں پیر ہلاتی سامع بنی رہتی.اسے میری توجہ کم لگی تو ذرا زور سے بولی.
“کیا کرو گی اتنا کام کر کے.اتنے لوگوں کے دل میں جگہ بنا کے.اپنے وجود کو ریزہ ریزہ کر کے.کرسٹو فر والکن کہتا ہے.
اگر تم جان لو کہ لوگ مرنے والے کو کتنا جلد بھول جاتے ہیں۔۔۔ تو تم لوگوں کو متاثر کرنے کے لئے زندگی گزارنا چھوڑ دو گے.”
“تیری بکواس کا کوئی جواب نہیں لیکن ارسطو نے کہا کہ ہرایک نئی چیز اچھی معلوم ہوتی ہے لیکن دوستی جتنی پرانی ہوگی اتنی مضبوط اور عمدہ ہوگی”
“بس اسی لیے تیرے پاس چلی آئی .یہ ذائقہ.تیری دوستی کا توانا ذائقہ, وجود کی لذت میں دبتا جارہا تھا سوچا اسے سردیوں کی مہکتی دھوپ لگوا آؤں.شاید سیلن زائل ہوجائے”
“پھر کیا کہتی ہو پچھلے پانچ بےفیض دنوں اور میرے گھر کی سلگتی ,راکھ ہوتی راتوں میں تیرے دل کی سیلن کم ہوئی یااور پانیوں پانی ہوگئی؟”
ہم دونوں چپ ہوگئیں .شاید لاجواب.ہم بچپن کی سہیلیاں تھیں کالج تک ساتھ ہی پڑھی لکھیں .میرا خالص مذہبی گھرانہ اور شائستہ کے پولیس افسر ابا خوب راشی عیاشی پہ یقین رکھنے والے.میرے پیارے اباجی کو ایک آنکھ نہ بھاتے .کڑی نظروں سے مجھے دیکھتے رہتے.پتہ پانی ہوجاتا.
“سنو ماہ نور مجھے پسند نہیں ہے..شائستہ کے والد اور ان کے گھر کے طور طریقے.”ابا چلاتے
میں سرجھکائے کھڑی رہتی وہ اتراتے کہ انکی بہترین تربیت ہے.جومیری زبان گنگ ہے.سرتسلیم خم ہے.
مجھے اماں چپ رہنے کے واسطے دیتی تھیں تو میں بے زبان بنی رہتی. میں اسی عقیدت کے ہاتھوں ماری گئی انہوں نے اپنے سے دوچار گنا بڑے مذہبی سکالر کے ساتھ میری شادی کردی.مہینوں اباجی کی واہ واہ ہوتی رہی.میں انہی دنوں خود سے مل رہی تھی.فرصت ہی بہت تھی.آفاق کی والدہ مجھے سجا سنورا کر رشتہ داروں سے ملواتیں اور اپنے انتخاب کی داد لیتی رہتیں.آفاق ہر وقت کتاب میں گم رہتے.کئی کئی دن کے لیے کہیں چلے جاتے.وہ میرے ہونے کی نفی کرتے رہتے.میں انہیں بے وقوف اور لاابالی لگتی. اماں مجھے گر سکھاتیں کہ کیسے شوہر کو قابو میں کرنا ہے مجھے ان کے ہرگر کے شکست خوردہ ہونے کا پتہ تھا اور کارگر نہ ہونے کا یقین.لیکن ایک بات نے ان کے کہنےسے من میں جگہ بنالی.کہ میرے شوہر پر میرا حق ہے.میں بن سنور کے ہتھیاروں سے لیس آفاق کے پہلو میں جا لیٹتی.تو وہ مجھے کھینچ کے بانہوں میں بھر لیتے. میں ان کے گریز کو مصروفیت سمجھتی اور یوں کھینچ لینے کو محبت. لیکن مرد جتنا مذہبی ہوگا. جسم کی طاقت میں اتنا ہی محنتی اور سرکش… یہ بات مجھے بہت دیر سے سمجھ آئی.
“یہ لو چائے …پاؤں اوپر کر کے بیٹھو یار اب تو پاؤں لٹکائے رہنے سے اسی وقت سوج جاتے ہیں.عمر بھی کتنی آہستگی سے اور خاموشی سے اپنا اثر چھوڑتی جاتی ہے ناں.”
شائستہ نے میرے پاؤں پکڑ کر اوپر کردئیے .چائے پکڑائی.میری آنکھیں تشکر ضبط نہ کرپائیں.
“کیا سوچ رہی تھی.ارےےےے رو کیوں رہی ہو؟”
“تیرے جیسی خالص اور بلاوجہ کی محبت کبھی نصیب نہیں ہوئی مجھے تو … ہر رشتے نے خراج وصول کیا”
“دوستی ہے یہ,درد کی سانجھ,رونے کی جگہ اور شاید ہنسنے کی وجہ بھی تم ہی ہو میرے پاس تو”
“اور کوئی نہیں ہے؟”
میرے بےتکے سوال پہ شائی(شائستہ) بوکھلا گئی.اس کے بوکھلانے نے مجھے حیرت دی.بظاہر تو کوئی نہیں تھا.اسکے بیمار,لاچار شوہر کے علاوہ
میں نے سامنے والے کمرے میں وہیل چئیر پہ گردن لٹکائے ادھ موئے ضمیر کو دیکھا.
“یہ تو خاصا شاندار آدمی تھا شائی… اسے کیا ہوا ؟”میرے سوال پہ وہ سر جھکائے روتی رہی
“تمہیں یاد ہے ابا نے امیر ترین گھرانہ ڈھونڈ کے میری شادی کی تھی ؟”
“ہاں اس وقت میری شادی کو سات سال ہوگئے تھے.”میں نے آہ بھری
“ضمیر اور میں ملکوں ملکوں گھومے,ہر نظر ہمیں رشک سے دیکھتی تھی.لوگوں کو لگتاتھامیں بہت خوش قسمت ہوں لیکن…. ضمیر کو عورتوں میں دلچسپی نہیں تھی……..مجھ پہ یہ حقیقت کیا کھلی میرا تو سارا بدن نیلا پڑ گیا.میں بوجھل اعصاب کے ساتھ سوال کرتی,چیختی ,چلاتی تو وہ مہینوں غائب ہوجاتا.اس کے والدین کے پرزور اصرار پہ ہم ڈاکٹر کے پاس گئے .کئی طرح کے علاج صرف میرے ہی ہوتے رہے جبکہ مسئلہ مجھ میں نہیں تھا.میں نے اپنے گھر والوں کو سمجھانے کی کوشش کی. میری کسی نے سنی ہی نہیں.ابا سب کچھ جوئے میں ہار چکے تھے. ” شائستہ ایک پل کے لیے رکی تو میں پوری طرح بیدار ہو بیٹھی.مرد کے کتنے ہی گھاگ روپ میری نظروں میں دوڑنے بھاگنے لگے .سب مجھے استہزاء سے دیکھ رہے تھے ان میں ابا جی بھی شامل تھے. عورت کبھی لحاظ میں پستی ہے کبھی ادب و احترام اور خاندانی وقار کو بچانے کے لیے,کبھی لوگ کیا کہیں گے کا ڈر جینے نہیں دیتا…..ازل سے مرد نے اپنی بڑائی کسی نہ کسی صورت جتائی.اپنے عیب اور کمیاں بھی عورتوں کے نرم وجود میں انڈیل دیں کیونکہ عورت ہر حال میں ڈھل جاتی ہے.ہر رنگ کو اپنے اوپر سجا کر اپنا بھرم رکھتی ہے.شائی نے نجانے کتنے برسوں سے اس غلاظتوں سے لتھڑے ہوئے شکستہ مرد کو سنبھالا ہوا تھا وہ بھاگتے بھاگتے تھک گیا تو یہیں آن گرا.میں نے دیکھا شائستہ چپکے سے اس کے سارے کام نپٹاتی ,اس کے آگے روٹی رکھتی اور پلٹ آتی .وہ لولے لنگڑے ہاتھوں سے جانوروں کی طرح کھاتا رہتا.وقت کیسے کیسوں کے کس بل نکال دیتا ہے.
جب پہلی بار میں اس جھیل پہ آئی تھی تو بہت رونقیں تھیں.زندگی کااحساس رگوں سے غم و آلام کھینچ لیتا تھا.تازگی ہی تازگی.لیکن اب….سناٹا سا محسوس ہوا.شاید یہ اندر کا سناٹا ہے جو ماحول پہ چھا جاتا ہے.ہم دونوں ننگے پاؤں ٹھنڈی میٹھی مٹی پہ چلتی رہیں.پھر ایک کونے میں آبیٹھیں.
“ضمیر صاحب کو اکیلے چھوڑ کے نکل آتی ہو.اگر گر پڑیں ,چوٹ لگ جائے پھر؟”
میں نے خدشے کا اظہار کیا تووہ دکھ بھری نظروں سے مجھے دیکھنے لگی.
“اس نے کب سوچا تھا….کہ میں اکیلی ہوں ,گر پڑوں تو
.تنہا مرجاؤں تو؟”
لرزتی چپ ہمارے درمیان رہی.
“بہت لمبی تنہائی کاٹی ہے.زخم زخم وجود ہے.”شائستہ میرے ساتھ چپک کر بیٹھی سسک رہی تھی.
“چھوڑ دیتی.طلاق لے لیتی ,کوئی اچھا انسان مل جاتا… شاید یا پھر… نوکری کرلیتی.”میں نے شائی کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے تو وہ چھلک پڑی.
“نوکری بہت کی ضمیر کے والدین کی,اپنی تنہائی کی , اپنے گھر والوں کی ضرورتوں کی. جو میں ضمیر کی کمائی سے پوری کرتی تھی اپنا آپ مار کے. ضمیر نے طلاق دینے سے صاف انکار کردیا تھا.وہ اپنا بھرم توڑنا نہیں چاہتا تھا …اور پھر بابا نے بھی کہا.حالات اچھے نہیں رہے تمہاری بہنوں کے فرض ادا کرنے ہیں واپسی کا سوچنا بھی مت.بڑی ہو اپنا فرض پہچانو.جان نہ چھڑواؤ. “
“یہ مرد ڈگڈگی بجا کر بندر کی طرح نچاتے ہیں ہمیں”شائستہ سر جھکا کے بولی.
“آفاق نے میرے ورغلانے پہ اور حقوق کا شور کرنے پہ میرے بکھرتے وجود کو بارہا استعمال کیا….سمیٹا نہیں. اپنایا بھی نہیں.. وہ روز چلاتا تھا….میں تم سے محبت نہیں کرتا,تمہارے ابا نے زبردستی کی تھی.وہ میرا رتبہ ,میری عزت بانٹنا چاہتے تھے. میری طرح عالم کہلانا چاہتے تھے.منت سماجت اور دوستوں کے کہنے پر میں نے تمہیں اپنا لیا لیکن تم میرے معیار, میری سوچ کے مطابق نہیں ہو. تم چمگادڑ سی لڑکی میرے جیسے شاندار اور عالمی شہرت یافتہ شخص کی بیوی کہلانے کے قابل ہی نہیں ہو. میرے دل میں ساری محبت مدحت کے لیے ہے.وہ میرے بچوں کی ماں ہے. سنا تم نے..”
مدحت پہلی بیوی تھی آفاق کی.. میں سنتی رہتی..اس کے علاوہ کیا کرتی.ابا جانتے تھے کہ آفاق شادی شدہ ہیں. جوان بچے بھی تھے ان کے….لیکن انہوں نے اپنا فرض قرض سمجھ کے اتارا.. اور آفاق لوگوں میں ہدایت بانٹتا.. محرم اور نامحرم کے فلسفے بگھارتا.گھر میں بھیڑیا بن جاتا”
“پھر؟”شائستہ نے مجھے بغور دیکھا وہ جاننا چاہتی تھی میرے جیسی باوفااور ڈرپوک سی لڑکی کیسے بھٹک گئی بدکردار عورت کیسے بن گئی.؟سوشل ورک کے نام پہ ملکوں ملکوں کیسے گھوم رہی ہے.؟
“میرے شوہر کی ہوس پوری نہیں ہوتی تھی.میں تھک جاتی یا انکار کرتی تو وہ مجھے مارتا اووور نوچتا,جلاتا ساتھ ساتھ مجھے بتاتا میرے جسم میں بہت بھوک ہے.میں نے اسے اپنے قریب آنے پہ اکسایا ہے. ہر بار بتاتا کہ میرے باپ نے مجھے اس کے سپرد کیا تھا اب میں احتجاج کا حق نہیں رکھتی.اس کایہی ملال نہ جاتا .کہ میں اس کے شایان شان نہیں ہوں. ٹھگنی سی. سانولی رنگت والی لڑکی سے وہ پیار نہیں کرسکتا نباہ رہا ہے..اس نے تو میرا سارا وقار ختم کردیا.رشتے دار,گلی بازار یہاں تک کہ گھر کے سویپر کا بہتان بھی دھر دیتا….یہ جتنی بھوک میرے وجود میں ہے ناں….اتنی قدرتی نہیں ہوتی…اس نے جگائی.مجھ پہ الزام لگا لگا کے. شک کر کر کے.وہ عقیدت مند عورتیں میرے بستر پر لے آتا… مجھے سامنے بٹھا کر…..میرا ضبط آزماتا. میری بھوک مارتا… لیکن میرے وجود میں بھوک ہی بس گئی.مٹنے کی بجائے بھڑک اٹھی.
میں ختم ہوگئی..اور..پھر …میں بھاگ گئی سب رشتے چھوڑ کر شہربدر ہوگئی. میرا نام ,حسب نسب,صبرو ضبط سب کھوگیا.سب مجھے ہی برا کہتے ہیں .اماں تک…..شائی میری جان..جس تن لاگے وہی جانتا ہے دوسراکوئی کیسے سمجھے کہ ہم پہ کیا بیتی.”
“تم میری طرح شوہر کے لیے سزا بن جاتی ..وہیں رہتی اسکو بیکار کر کے اس کا پیسہ اڑاتی …خود کو سزا کیوں دی.؟.اسے سزا دیتی. یونہی اپنا آپ گناہگار کرلیا. اور شاید..شوہر ایڑیاں رگڑتا..اچھےکی امیدتو رکھتی.اپنے گھرانےکی عزت و ناموس کا ہی خیال کرتی. یا پھر کوئی محبت کرنے والا مل جاتا تو یہ سب چھوڑتی.طلاق لے کر شادی کرلیتی.. خود کو آفاق سے بھی زیادہ کمینے اور زہریلے لوگوں کے حوالے کردیا. یہ ٹھیک نہیں کیا تم نے.”
“محبت بخت میں ہوتو ملتی ہے…ورنہ تو بس دعوے ہی ملتے ہیں.ایک سے ایک جھوٹا اور مکار بندہ ملا ہے.اسے لگتا یے مجھے لوٹ رہا ہے .مجھے لگتا ہے میں بدلے لے رہی ہوں…..میں لوٹ رہی ہوں…تھک گئی ہوں یار”میں نے خود کو رونے دیا.شائستہ بھی روتے ہوئے کہہ رہی تھی
“ہممممم تم اپنی جگہ سچی ہو …میرے پاس رہ جاؤ .گناہوں کی معافی مانگ لو”.
“تمہیں بھی لگتا ہے گناہگار میں ہوں.وہ جوپرہیزگاری کے,عقیدت کے پردے میں کررہا تھا وہ… میں شائستہ کو دیکھتی رہ گئی. چپ رہی کوئی وعدہ نہیں کیا.گھر واپس آئے تو تھکن سے بےحال میں تو گر کے سوگئی.
رات کا نجانے کونسا پہر تھا جب آنکھ کھل گئی شائستہ کی طرف دھیان جاتے ہی میں سرعت سے اٹھی منہ دھویا اور کمرے سے نکل آئی.
ضمیر کے رونے کی آواز آرہی تھی بے ڈھنگی سی آواز..میں نے کمرے میں جھانکنے کی کوشش کی.. کوئی اور بھی تھا شائستہ کے علاوہ . .میں دبے پاؤں چلتی کمرے کے دروازے کے قریب آگئی سجی سنوری شائستہ کے ساتھ کوئی تھا جو ضمیر کے سامنے ہی شائستہ کے ننگے وجود پر جھپٹ رہا تھا.اسے نوچ رہا تھا اور وہ ہنس رہی تھی مچل رہی تھی.ضمیر کو چڑا رہی تھی.
” شائی ی. میری سسکی نکلتے نکلتے رہ گئی …. کون کس کو سزا دے رہا ہے کیا پتہ…”
میں بڑبڑاتی رہی ,سامان سمیٹ کے بیگ میں ڈالتی رہی اور خاموشی سے بیرونی دروازہ کھول کے نکل آئی.کہیں سکون نہیں نہ ہی کوئی جگہ جائے امان ہے. کہاں جاؤں..؟؟

Published inثمینہ سیدعالمی افسانہ فورم

Comments are closed.