Skip to content

جسٹس فار

عالمی افسانہ میلہ 2018
افسانہ نمبر : 28

تحریر : جسٹس فار ۔۔۔
سخاوت حسین
جب اسے سڑک پر گھسیٹا جا رہا تھا تو بہت سے ان کہے الفاظ بھی اس کے ساتھ ہی سڑک پر مر رہے تھے۔ جب اس کی آنکھوں کا گہرا پانی خون کے سرخ قطروں میں ضم ہوا تو انصاف نے خاموشی سے فرار کی راہ اختیار کر لی۔ یہ فیصلہ عبث تھا کہ فیصلہ کیوں عبث تھا مگر ایک انسان کی زندگی فیصلے نے عبث کردی تھی۔ عدالت کی چوکھٹ پر روز ماتھا رگڑتے ، انصاف کی دہائیاں دیتے دیتے وہ آج اپنے خون میں نہا چکا تھا۔
عدالت، انصاف، یہ الفاظ اسے گالی لگ رہے تھے۔ گالی جو سب سے برے شخص کو دی جاتی ہے۔ گالی جو گولی سے زیادہ رفتار رکھتی ہے۔ وہ گالی ہی دے سکتا تھا۔ اس کی بیٹی کو چند بااثر افراد نے اغوا کیا تھا اور عصمت دری کرنے کے بعد برے طریقے سے قتل کردیا تھا۔ جب بیٹی کی لاش گھر پہنچی تو وہ بھی زندہ لاش بن گیا۔ زندوں کے ہجوم میں زندہ چلتی پھرتی لاش۔۔۔۔بے طرح سے بیٹی کا گلا پکڑا اور بس اتنا بولا۔
“کاش تو روتی نہ میری جان، کاش تو ان میں سے ایک کی آنکھیں نوچ لیتی۔ ایک کا سر پھاڑ دیتی۔ تجھے معلوم نہیں باپ مرتا ہے تو آدمی نکلتا ہے۔ پھر معاشرہ اسے آری سمجھنے لگتا ہے۔ اس کے لہجے کی کاٹ سب کو کاٹ کر رکھ دیتی ہے۔ لیکن تو ایسا کرتی بھی کیسے تجھے تو زندگی بھر میں نے بزدلی ہی سکھائی تھی۔”
اس کے جسمانی وجود سے روحانی وجود مٹتا جارہا تھا۔ دماغ یاداشت کے ڈربوں میں بند یادوں کو آخری دفعہ باہر نکال رہا تھا جب کہ کراہتے ہوئے وہ ماضی کےدھندلکے جالوں کو خون کے قطروں سے صاف کر رہا تھا۔ اسے یاد آرہا تھا کہ کیسے وہ انصاف کے در پر امید کا کشکول لے کر گیا تو کشکول میں ناامیدی کے چند سکے عطا ہوئے۔ ناکافی ثبوتوں کی بنا پر مجرموں کو کھلے عام رہا کیا گیا۔ جب وہ فخر سے مونچھوں کو تاؤ دے کر اس کے سامنے سے جارہے تھے تو وہ مرے ہوئے انصاف پر فاتحہ پڑھ رہا تھا۔ جلا ہوا کوٹ جس میں انصاف کی راکھ لپٹی ہوئی تھی وہ وہی کوٹ پہن کرہر کورٹ میں گیا مگر ہر کورٹ میں اسے انصاف جلا ہوا ہی ملا۔ بڑی عدالتوں میں جاکر انصاف بھی سکڑنے لگتا ہے۔ہر پیشی کے بعد مجرم معصوم بنتے گئے اور معصوم رہا ہوتے گئے۔ الزام بھی بے حسی کے آگے شرمندہ دکھائی دیتا تھا۔ بیٹی کی کھنکتی چوڑیاں، ہاتھوں سے کھلائے جانے والے نوالے، بابا بابا کی صدائیں، دروازے تک اسے چھوڑ کر آنے کی ادا اورواپسی پر چائے کا کپ جو محبت کے سپ لے کر وہ پیتا، سب ہمہ دم اسے تڑپاتے رہتے ۔ سب سے بڑا دکھ بھی یہی تھا کہ منصفی بھی یہاں رنگ چھوڑ رہی تھی اور چھوڑنے والے رنگ اتنے گہرے تھے کہ ان کا اثر موت کی دہلیز پار کرکے بھی نہیں مٹ سکتا تھا۔
تبھی اسے شدید درد کا احساس ہوا۔ آنکھیں جیسے بند ہورہی تھیں۔ وہ درد سے کراہا۔ زیر لب بیٹی کو پکارا۔ درد سے بے حال ہوتے اسے تیز بارش میں دور جلتے بجھتے سٹریٹ لائٹ میں مکان کی دیواروں پر لگے سبز بیل کا سایہ اپنی طرف ہی بڑھتا ہوا محسوس ہونے لگا جب کہ اس کا ذہن ماضی کی کھڑکیوں پر مسلسل ضربیں لگا رہا تھا۔ ماضی جو کل تک اس کا حال تھا۔ کچھ سالوں پہلے جب اس کی بیٹی کے ہاتھوں پر مہندی سجنے والی تھی اوروہ بابل کے آنگن میں روز اپنی شرارتوں اور مسکراہٹوں سے خوشی کے چند پھول چن کراپنے بابا کو ہنسی کا تحفہ عطا کرتی تھی تو وہ اس کی مسکراہٹ کو رب کا سب سے بڑا انعام سمجھتا تھا۔ بیوی کے اچانک مرنے کے بعد اس کی بیٹی نے اس کا ماں سے بڑھ کر خیال رکھا تھا اور اسے بھی لگتا تھا جیسے وہ اس کی امیدوں کے چمن کا سب سے خوب صورت خیال ہو۔
جس دن وہ پیار سے اس کاپسندیدہ گاجر کا حلوہ لے کر آیا تھا تو اس نے بے ساختہ پوچھا تھا۔
بابا کیا حلوے میں غم اور دکھ حل نہیں ہو سکتے۔” یہ سن کر وہ بے ساختہ چونکا تھا۔”
“چھوٹی سی جان کو کیسا روگ لگا ہے۔ کیوں ایسا کہہ رہی ہو۔ ” اس نے دکھ سے سمٹتے ہوئے کہا تھا تو وہ بے ساختہ ہنس دی تھی۔
“کچھ نہیں بابا، باپ ساتھ ہو تو دکھوں کے کتنے باب بھی بند ہوجاتے ہیں۔” ہے نا بابا، آپ جیسے میری امید کا شجر ہیں جس کی چھاوں میں، میں زندگی کی دھوپ سے خود کو بچاتی ہوں۔ کتنا بھروسہ تھا اس کی بیٹی کو اپنے باپ پر۔ اس کے مان اور بھروسے پر جیسے اس کا سینہ فخر سے چوڑا ہوگیا تھا۔ جب کہ وہ لفظوں میں چھپے اس کے روگ کو نہ جان پایا تھا۔
تبھی وہ کراہا۔ بیٹی کا نام لے کر چلانے لگا۔ مجھے بچاو ۔ خدا کے لیے مجھے بچاو مگر وہاں انسان ہی کہاں تھے۔ انسان تو بستی میں کب کے مر چکے تھے۔ پتھروں کے گھروں میں گوشت پوست کے جانور رہتے تھے جو ہر احساس سے عاری ہوچکے تھے۔ وجود سے تیزی سے نکلتا ہوا خون بیٹی کی شادی کے سرخ جوڑے سے خاصا میچ کھا رہا تھا۔ جب کہ موت میزبان کی طرح اس کا انتظار کر رہ رہی تھی۔ ذہن میں خیالات کا طوفان مچا ہوا تھا۔ یادیں خراب کیسیٹ کی ریل کی طرح زندگی کے مناظر کو بے ترتیبی سے پیش کررہی تھیں۔ دکھ کے ان لمحوں میں زندگی کی فلم موت کا تعاقب کرتی تیزی سے ذہن کے پردوں پر چل رہی تھی۔ اسے یاد آرہا تھا کہ کیسے اس نے اپنی بیٹی کو وداع کیا تھا۔اس دن جب شادی کے جوڑے میں سرخ آنکھوں سے بیٹی نے باپ کے دروازے پر یادوں کی گہری یادوں کی زنجیر چھوڑی تھی تو کتنی دیر دہلیز پرکھڑے ہوکروہ بیٹی کو زندگی کی دعائیں دیتا رہا۔ جب وہ نظروں سے رخصت ہوئی تو وہ اسے گھر کی دہلیز پرڈھونڈتا رہا جب کہ وہ اس سے اسے ہی سمیٹ کر لے گئی۔ مائیں بیٹیاں پیدا کرتی ہیں باپ انہی سے بندھ جاتے ہیں۔ انہی سے جڑ جاتے ہیں۔ مگریہ بھی سچ ہے کہ وہ ایک بزدل باپ تھا اور اس نے زندگی کے ہر موڑ پر اپنی بیٹی کو صرف بیٹی ہونے کا ہی احساس دلایا تھا۔
“بیٹی یاد رکھنا، تم لڑکی ہو۔ لہذا کبھی لڑکا بننے کی کوشش نہ کرنا۔ مرد تم سے برتر ہے۔ وہ تمھارا حاکم ہے۔ یہ بھی سلیقے سے اپنے دماغ میں بٹھا لینا اور زندگی کو اسی طریقے سے گزارنا۔ زندگی کو مصلحت کی چادر اوڑھتے ہوئے گزارنا، بھلے رونا پڑے مگر آنسووں کوکبھی تشہیر کے دروازہ مت دکھانا۔”
اس کی نصیحتوں کا بیٹی پر اتنا اثر ہوا تھا کہ وہ نصیحتوں کے سائے میں بیٹھ گئی تھی۔وہ جلد ہی زندگی کو قریب سے جان گئی تھی۔روزانہ شوہر کے تشدد سے سرخ ہوئے جسم کو وہ مسکراہٹ کے پردے میں چھپا لیتی تھی۔ اس کے سامنے بکھرے وجود کو نکھرے انداز میں اس ترتیب سے لے آتی کہ وہ بیٹی کو خوشیوں کے محل کی رانی سمجھنے لگتا تھا۔
“بیٹیاں، شہزادیاں ہوتی ہیں۔ وہ والدین کے دل کی رانیاں ہوتی ہیں۔ بابا کے دل کے صحن میں صبح کو پڑنے والی سب سے صحت مند دھوپ کی کرن ہوتی ہیں۔”
کہ اس کے خوب صورت جملے سن کر ایک دن اس کی بیٹی پھٹ پڑی تھی۔
“بابا!!!، بیٹی کو شہزادی اس لیے کہتے ہیں نا کہ جب وہ تھوڑی شہہ حاصل کرے تو اس کی ذات کو بے ذات کر دیا جائے۔ اسے مات کے جنگل میں دھکیل دیا جائے۔ بائیس سال کی عمر میں کسی بھی لولے لنگڑے سے اسےباندھ دیا جائے اور جب رشتہ ٹوٹنے لگے تو سب اس کے وجود کوتوڑ دیں اور الزام بھی اسی کے سر لگا دیا جائے ۔ جب وہ ٹوٹ کر باپ کے گھر پہنچے تو پھر کہیں نہ پہنچ سکے جب کہ مرد سارے جرم کرکے پھر بھی صالح ہی ٹھہرے۔ جب کہ عورت صلیب زندگی پر روز چڑھے۔ کیوں بابا، بتائے ایسا کیوں ہوتا ہے؟”
جانے کتنے سوال تھے مگر وہ ہر سوال میں اسے عورت ہونے کا ہی احساس دلاتا ، ایسی عورت جو صرف خاموش رہتی ہے۔ جو کبھی نہیں بول سکتی۔ جس کا سب سے بڑا حق یہ ہے کہ خود کو بے زبان سمجھے۔
کتنے سوال تھے شاید اتنے جتنے اس کے جسم سے نکلنے والی خون کی بوندیں اور ان کے اتنے جواب جتنے احساس سے بھرے ہوئے لوگ۔ ناپید، نایاب۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ چلایا۔ لیکن اس کی آواز وجود میں ہی تحلیل ہوگئی۔
زندگی ، زندگی کو زندہ رکھتی ہے۔زندگی ہونے کے احساس کو برقرار رکھتی ہے۔ جب کہ موت ہونے کے احساس کو مٹا دیتی ہے۔ موت یادوں کی رخصتی کا نام ہے۔ ذہن سے یادیں محو ہوجاتی ہیں تو انسان مر جاتا ہے۔ وہ بھی مر رہا تھا۔ موت کی دہلیز پر زندگی کا آخری جام پی کر یادوں کو زندگی کے آخری سرے پر کھوج رہا تھا۔ وہ آج موت کی دہلیز پر بھی مسکرا کر کھڑا تھا کبھی اس نے زندگی میں بیٹی کو صرف ڈرنا سکھایا تھا۔ اسے بتایا تھا کہ وہ صرف شوہر کی اطاعت کرے۔
اس کی بیٹی نے روتے ہوئے پوچھا تھا۔
“بابا مرد ، جب نامرد ہوجائے تب بھی اس کی اطاعت کی جاتی ہے۔”
کتنے بے زار سوال تھے۔ کتنی بے حس تشریح تھی۔ اس کی نصیحت تھی کہ وہ لڑکی تھی لہذا چوں بھی نہ کرے۔ بس زندگی کے تنور میں حیات کو سلگتے دیکھے۔ اس کی بیٹی نے بھی اس کی نصیحتیں زندگی کے پلو سے باندھی لی تھیں ۔ نصیحتوں کے ساتھ صبر اور بے حسی بھی اس نے حق مہر میں پایا تھا۔
اس کی رانی اپنے لفظوں کی حرمت اور عزت کے تاج کو اپنے مرد کے لفظوں کی جوتیوں میں روز ٹوٹتا دیکھتی مگر پھر بھی زندہ رہتی ۔روز اس کا مرد نامردوں کی طرح اسے بے توقیر کرتا۔ تھپڑوں، لاتوں اور گھونسوں کی گونچ میں اس کی بیٹی بھی زندگی کی گونج بھول جاتی۔ تبھی یادوں نے دوسرا در کھولا تو اسے بارش کے قطرے بیٹی کی آنکھوں سے بہتے آنسو جیسے لگنے لگے۔ روز اس کی بیٹی روتی اور وہ بہتے آنسوووں سے سب ٹھیک ہونے کی دعائیں کرتا رہتا۔ غیر محسوس طریقے سے وہ سب محسوس کر رہا تھا۔ پھر ایک دن درندے نے حیوانیت دکھادی۔ پہلی دفعہ اس نے بیٹی کو سرخ خون میں بہتے دیکھا۔ سرخ خون جو ابھی اس کے وجود سے نکل رہا تھا۔ ہسپتال میں بروقت پہنچنے کی وجہ سے اس کی بیٹی کی جان تو بچ گئی تھی مگر روح بے جان ہوگئی تھی۔ کتنے دن وہ روتی رہی اور وہ اس کا رومال بن کر آنسو صاف کرتا رہا۔ پہلی دفعہ باپ، باپ بنا اور اس درندے سے طلاق لے کر بیٹی کو نجات دلائی۔ جب وہ مسکرانے لگی تو اس نے بیٹی کو مصروف کرنے کے لیے قریبی سکول میں “معلمی” کے لیے بھیج دیا۔
آہ سرد رات، تیز بارش اور موت، اے رب کریم، انصاف کا قتل ہو تو مظلوم کہاں جائے۔ بہتے آنسووں سے چند شکوے لڑکھڑاتی زباں سے ادا ہوئے۔تیزی سے بہتے خون میں یادیں بھی تیزی سے زندگی کےمناظر بدل رہی تھیں۔ ہر منظر اس کی نگاہوں میں وحشت بن کر گھومنے لگا تھا۔ خاص کر وہ منظر وہ دسمبر کی خوفناک رات وہ کیسے بھول سکتا تھا جب اس کی بیٹی گھر نہ لوٹی۔ کئی دن سے وہ چند اوباشوں کے روئیوں کی شکایت کر رہی تھی اور وہ اسے صرف وہم سمجھ کر اسے تسلی دے رہا تھا۔ اب بھی وہ بیٹی کو بزدل ہی بنا رہا تھا۔
اسے رستہ بدل لینے کو کہتا۔ان کے منہ نہ لگنے کی نصیحیتں کرتا۔ نظریں جھکا کر چلنے کی تلقین کرتا۔ ایک بار بھی اس نے بیٹی کو سر اٹھا کر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ظلم کے آگے ڈٹ جانے کی نصیحت نہیں کی۔ اس رات کتنی دیر وہ دروازے کی دہلیز کو دیکھتا رہا۔ ہمسائے اسے تسلی دے رہے تھے۔ پولیس تفتیش کررہی تھی اور وہ بیٹی کی بدنامی کے خوف سے بیٹی کے خوف کو سامنے نہیں لا رہا تھا۔ چند دنوں بعد ایک مصلحت کی شکار لڑکی جو اوباشوں کے ظلم کا شکار ہوگئی تھی لاش کی صورت اس کے سامنے آئی تو بکھرے شخص نے بیٹی کو جھنجھوڑ کر اٹھانے کی کوشش کی مگر لاش طعنے کی صورت اس کے وجود پر بزدلی کے ہتھوڑے برسارہی تھی۔ وہ ٹوٹ گیا تھا مگر بیٹی تو سدا کے لیے روٹھی تھی۔ اس دن کے بعد سے ایک باپ زندہ لاش بن گیا۔
اپنے خون میں لپٹا وہ مظلوم باپ آخری سانسیں لے رہا تھا۔ بارش کی بوندیں اس کے خون میں شامل ہو رہی تھیں اور بیٹی کی یادیں دھندلے منظر کی طرح ان بوندوں میں شامل تھیں۔ بیٹی کے انصاف کے لیے ہر دروازہ کھٹکھٹانے والا زندگی اور انصاف کے دروازے سے مایوس ہو کر موت کی دہلیز کی جانب بڑھ رہا تھا۔ سیشن کورٹ سے ہائی کورٹ ، ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ ، اخبارات سے سوشل میڈیا غرض سارے ذرائع اس نے استعمال کئے مگر اپنی بیٹی کو انصاف نہیں دلوا سکا۔ سب نے اس سے دلی ہمدردی کی مگر انصاف سب کا مشترکہ درد تھا۔ طاقتور نے انصاف کو منصف کی چوکھٹ پر ذلیل کیا۔ طاقتور وکیلوں نے پیسوں کےزور پر غریب کو دار پر چڑھا دیا۔ غریب بیٹی کے دکھ کو اٹھا کر دربدر بھٹکتا رہا۔ انصاف کی موت جانے شہر میں کب کی ہوچکی تھی۔ مجرموں کو اس کی صدائیں بھی پسند نہ آئیں۔ اس کا احتجاج بھی انہیں برا لگنے لگا، اس کی اٹھتی آوازوں میں انہی اپنے جرموں کی طاقت کم لگنے لگی توآج رات کو اسے گھر سے تیز بارش میں گھسیٹتے ہوئے زبردستی باہر نکالا اور کئی گولیاں اس کی ٹانگوں میں پیوست کردیں۔ شاید شدید بارش میں وہ اسے شدید قسم کی موت دینا چاہتے تھے وہ تو کب کا مرچکا تھا مگر اس رات اس کے ساتھ انصاف کی آخری امید بھی ہمیشہ کے لیے مر گئی۔
اردگرد کے بزدل افراد میں سے کسی نے خوف کی وجہ سے اس کی مدد نہ کی۔ اگر اسے بروقت ہسپتال پہنچایا جاتا تو شاید جان بچ جاتی۔ سڑک پر بارش کی بوندوں میں انصاف کے لیے لڑنے والا زندگی کی بازی ہار چکا تھا اور منصف کرسیوں پر بیٹھے انصاف کا خون کر رہے تھے جب کہ دو دن بعد فیس بک پر ایک پوسٹ لائیک کے انتظار میں تھی جہاں اس کی بیٹی کی تصویر کے ساتھ اس کی تصویر لگا کر ایک نیا جملہ لکھ دیا گیا تھا۔ “جسٹس فار ہر فادر”۔

Published inسخاوت حسینعالمی افسانہ فورم

Be First to Comment

Leave a Reply